ماب لینچنگ کا خاتمہ کیسے کریں؟
سراج احمد قادری مصباحی
(الکلیم دار الافتا مرغیا چک سیتامڑھی بہار)
ملک ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر مذہب کے فالور موجود ہے خواہ وہ مسلمان ہویا عیسائی ہو یا ہندو ہو یا سکھ ہو۔ اور یہی چیز ملک ہندوستان کے لیے ایک خوبصورتی اور فخر کی حیثیت سے ہے، دنیا ہندوستان کو بھائی چارگی، امن وشانتی، الفت ومحبت کا منبع اور سر چشمہ کے طور پر جانتی اوریاد کرتی ہے، کیوں کہ یہ ضرور ہے کہ جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار ہوں گے وہاں اختلاف، فسادات، جھگڑے کے امکانات ہوں گے، پھربھی دینا حیرت میں ہے کہ ہندوستان میں مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ مختلف مذہب کے ماننے والے لوگ ہیں، لیکن سارے مذاہب والے آپس میں ایک دوسرے سے پیارومحبت بانٹتے ہیں، بھائی چارگی کے گیت گاتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جو کسی پر مخفی اور پوشیدہ نہیں۔ مگر چند سالوں سے نہ جانے اس ملک پر کس کی بری نظر لگ گئی ہے کہ جو پیار ومحبت مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی کے درمیان تھی وہ نفرت وعداوت میں بدل گئی ہے، بھائی چارگی کے گیت گانے کے بجائے ظلم وعداوت کے نعرے لگائے جارہے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے بجائے ظلم وزیادتی کے بازار گرم کئے جارہے ہیں، مذہب، طلاق، ٹوپی، داڑھی، مسلم ہندو، گائے، لو جہاد، جے شری رام، وندے ماترم کے نام پر مسلمانو ں اور دلتوں کے اوپر مظالم ومصائب کے پہاڑ توڑے جارہے، انہیں قتل کئے جارہے ہیں، زبردستی جے شری رام کہنے کے لیے کہا جارہا ہے، آخر ہمارے دیش کے ناگرک کو یہ کیا ہوگیا ہے ؟کیا آپ کا مذہب (جس کے بارے میں آپ کا خیال ہے کہ ہندو مذہب اچھا مذہب ہے یہ مذہب ہمیں ظلم کرنا نہیں سکھاتاہمارے بھگوان ہمیں پیارو محبت کی بات سکھاتے ہیں) اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ دوسرے مذہب والوں کے ساتھ ظلم کرو، انہیں مارو، گالی دو!میں سمجھتا ہوں آپ کا مذہب کیا، کوئی بھی مذہب ان باتوں کی اجازت نہیں دے سکتا۔ تو آخر آپ اپنے مذہب، اپنے گیتا کے خلاف کیوں جارہے ہیں، کیا آپ اپنے مذہب کے ویرودھ میں نہیں جارہے ہیں ؟کبھی آپ اکیلے بیٹھ کر ضرور سوچیں کہ آخر آپ کر کیا رہے ہیں ؟کیا کسی کے دباؤ میں آکریہ حرکتیں تو نہیں کررہے ہیں ؟۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کی وجہ سے ہمارا دیش کتنا بدنام ہورہا ہے؟جن لوگوں کے دلوں میں ہندوستان کے تعلق سے اچھے میسیج اور پیغامات گئے تھے انہیں یہ سب باتیں سن کر اچھا لگا ہوگا؟کیا کبھی مسلمان نے کسی بھی مذہب والوں کو زبردستی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے کے لیے کہا؟پھر بھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے آپ پوری دنیا کا جائزہ لے لیں، کسی بھی ملک میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی مسلمان کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی کو تلوار یا بندوق یا لاٹھی کے زور پر کلمہ پڑھایا ہوپھر بھی یہ اسلام مذہب کا کمال اور برکت ہے کہ اسلام ترقی ہی کررہا ہے اور دوسرے مذاہب کم ہورہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو خطرہ ہونے لگا ہے کہ ہم کم ہورہے ہیں اور مسلمان زیادہ ہورہے ہیں اس لیے آپ زبردستی مسلمان کو ہندو بنارہے ہیں ؟کیا آپ کا مذہب اتنا کمزور ہے کہ زبرستی جے شری رام کا نعرہ لگوا رہے ہیں۔ کیا آپ کے مذہب میں کوئی بھی خوبی نہیں کی زبردستی ہندو مذہب میں لوگوں کو ڈھکیلا جارہا ہے ؟اگر ایسا ہے تو تف ہے ایسے مذہب پر !
گزشتہ چند سالوں سے ملک کے جو حالات ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں کہنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خاص طور سے ماب لینچنگ (ہجومی تشدد)کا سلسلہ اب تک جاری ہے بند ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، کبھی گائے کے نام پر اخلاق کو قتل کیا جاتا ہے توکبھی ٹرین میں جنید کو موت کے گھاٹ اتا ر دیا جاتا ہے تو کبھی افروز کو لوجہاد کے نام پر جلا دیا جاتا ہے تو کبھی تبریز جیسے بے قصور کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا جاتا ہے۔ اب تک اخلاق سے لے کر تبریز انصاری تک تقریبا ۶۵ مسلمانوں دلتوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک اس طرح خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟کیا حکومت ماب لینچنگ کے تعلق سے کوئی قانون پاس کرے گی؟کیا ان قاتلوں کو سزا دی جائے گی؟یا اسی طرح آپ خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ کیا اس کا خاتمہ ممکن ہے؟
مسلمانوں !یاد رکھیں اسی طرح اگر ہم خاموش رہیں تو باری باری ہر ایک مسلم کو قتل کردیا جائے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔ اب ضرورت ہے کچھ کر گزرنے کا، ضرورت ہے میدان میں اتر کر ان فرقہ وارانہ دہشت گرد وں کے خلاف آواز اٹھانے اوران کے آنکھ میں آنکھ ملا کر مقابلہ کرنے کی، کیوں کہ یہ تو طے ہے کہ ہمارا ساتھ نہ پولیس دے گی اور نا ہی حکومت، اگر یہ لوگ ساتھ دیتے تو اب تک اتنے مسلمان ہجومی تشدد کے شکار نہ ہوتے، اس لیے اب ہمیں ہی کچھ سوچنا ہوگا ہمیں ہی کوئی بڑا قدم اٹھا نا ہوگا، وہ بھی قانون کے دائرے میں رہ کر۔ فی الحال ابھی جو قابل توجہ بات ہے وہ یہ کہ ماب لینچنگ (ہجومی تشدد)کو کس طرح روکا جائے اس سے خود کو کس طرح بچایا جائے، ذیل میں کچھ تدابیر لکھے جارہے ہیں غور کریں اور عمل کرنے اور کرانے کی کوشش کریں، کچھ حد تک ان تدابیر کے ذریعہ روک تھام کیا جاسکتا ہے۔
(۱) ہر علاقے اور گاؤں کے ذمہ داران یا تنظیم یا ادارے، اعلیٰ عہدے داروں سے مطالبہ کریں کہ ماب لنچنگ کو جلد از جلد روکا جائے، اور ان قاتلوں کے لیے موثر اور باعمل قانون بنایا جائے۔
(۲)اپنے دفاع کے لیے حکومت سے مطالبہ کریں کہ ہمیں بھی تلوار، خنجر، چاقو وغیرہ رکھنے کی اجازت دی جائے۔ تاکہ اس کا استعمال اپنے دفاع میں اس وقت کر سکیں جب ہم پر یہ بھگوا رنگ کے دہشت گرد حملہ آور ہوں۔
(۳) اکیلے سفر سے پرہیز کریں ہمیشہ چند لوگوں کے ساتھ ہی سفر کریں۔
(۴)اجنبی گاؤں میں تنہا جانے سے گریز کریں۔
(۵)ٹیمپو، رکشہ وغیرہ میں بیٹھتے وقت گاڑی کا نمبر لکھ کر یا اس نمبر کی تصویر لے کر اپنے دوستوں کو بھیج دیں اور بتا دیں کہ ہم فلاں جگہ سے فلاں جگہ اس نمبر کی گاڑی سے جارہے ہیں۔
(۶)ٹرین میں سفر کے وقت کوشش کریں کہ جہاں چند مسلمان ہوں وہاں بیٹھیں۔ اگر غیر مسلم کے پاس بیٹھنا پڑجائے تو خاموشی کے ساتھ سفر کریں، گفتگو سے پرہیز کریں، اگر بات کرنی ہی پڑجائے تو ان مدعوں پر ہرگز بات نہ کریں جن سے حالات نازک ہورہے ہیں۔
(۷)ہاکی اسٹک یا تین فٹ کا ڈنڈا ساتھ لے کر چلنے کو اپنی عادت کا حصہ بنالیں۔ اکیلے چل رہے ہو تب بھی اور جماعت کے ساتھ ہو تب بھی ڈنڈا ساتھ لے کر چلیں۔
(۷)بیلٹ ضرور باندھیں، اپنے ہنر کا استعمال کرتے ہوئے بیلٹ کو بہترین حفاظت کا ہتھیار بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے خود کی حفاظت کے جو بھی تدابیر ہوں سب کو اختیار کریں۔
(۸)اگر کسی بھگوا دہشت گرد پر شک ہو یا اس سے خطرہ کا اندیشہ ہو تو فورا اسے جماعت کے تھرو اپنے قبضہ میں لیں، اور اس پر کڑی نظر رکھیں تاکہ وہ موبائیل کا استعمال نہ کرسکے۔
(۹)اپنے اپنے گاؤں، قصبوں میں تیز طرار، ہوشیار نوجوانوں کے واٹش ایپ گروپ بنالیں، اپنے قرب وجوار کے گاؤں کے گروپس میں جڑے رہیں، تاکہ اس طرح کی ضرورت پڑنے پر نزدیک کے گاؤں سے مدد حاصل کر سکیں۔
(۱۰)خاص رنگ کے گمچھا ڈھاریوں پر نظر رکھیں، اس کی جانب سے خطرناک اثار ملتے ہی کسی بھی طرح سے اس کی پڑیڈ کرادیں۔
(۱۱)اپنے دشمنوں کو اچھی طرح پہچاننے کے لیے تنظیموں، تحریکوں پر نظر رکھیں، نیز مخبروں کا نیٹ ورک کھڑا کیجیے۔
(۱۲)مارشل ارٹ سیکھنے کا انتظام کریں، یا یا ورزش کے لیے جیم وغیرہ جوائن کریں تاکہ اس کے ذریعہ خود کی حفاظت کر سکیں۔
(۱۳)بچوں کے دلوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ ہمارے ہیروز کون لوگ ہیں اور کیسے ہیں ؟اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف دل میں بٹھانے کی کوشش کریں۔
(۱۴)ہمارے مساجد میں اصلاح اور حالات کے تئیں تقاریر ہوں ہر محلے میں اسلام کے تعلق سے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لیے کم سے کم ہفتے میں ایک پروگرام ضرور ہو۔
(۱۵)اپنے گھر، اپنے سماج، اپنے گاؤں کے اندر امن وشانتی، اتحاد واتفاق کا ماحول بنائیں۔ علما، تنظیمیں، خانقائیں، ادارے، آپس میں اتفاق واتحاد پیدا کریں، ایک دوسرے پر طعن وتشنیع، غیبت وچغلی کرنے سے باز آئیں، یہ وقت آپس میں لڑنے جھگڑنے کا نہیں ہے بلکہ یہ وقت متحد ہوکر اپنی طاقت دکھانے اور اسے استعمال کرنے کا ہے۔
(۱۶)دوران سفر وقتا فوقتا اپنے گھر والوں اور دوست واحباب کے کونٹیکٹ میں رہیں اور انہیں سفر کے حالات کے بارے میں اگاہ کرتے رہیں۔
ہم دیش میں امن وشانتی، الفت ومحبت کے خواہاں ہیں، ہم ظلم وزیادتی، نفرت وعداوت پھیلانے والے نہیں، ہم نے کچھ بھی لکھا ہے وہ اپنی حفاظت کے لیے لکھا ہے کسی پر ظلم کرنے کے لیے نہیں۔ اس لیے اسے منفی پہلو سے نہ دیکھا جائے بلکہ مثبت پہلو سے دیکھا جائے، ضروری نہیں ہے کہ ان تدابیر پر سب کا اتفاق ہوجائے لیکن اتنا ضرور گزارش کروں گا کہ ان تدابیر کو عملی جامہ پہنانے سے اگر ہماری کچھ حفاظت ممکن ہے تو ضرور عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے تمام مسلمانوں کی حفاظت و صیانت فرمائے، اور ظالموں کے ارادوں کو ناکام کرتے ہوئے انہیں نست ونابود فرمائے، ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم ﷺ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
ملی تنظیموں کے سربراہان جس دن ایک ہوگئے اور سرکاری مراعات پہ لعنت بھیج دی ۔تدارک اسی وقت سے شروع ہو جائے گا۔آپکی کئ تجاویز عام مسلمانوں کے لئے باعث عمل ہیں اور ناممکن ہر گز نہیں ۔آج سے ہی شروع کی جائیں ۔ابھی بھی دیر نہیں ھوئ۔دفاع کا حق تو آئین نے بھی دیا ھے اور اللہ کے قانون نے بھی۔شکریہ۔جزاکاللہ خیر