سنٹرو کلچرل اسلامیکو ڈی میڈرڈ

مرشد کمال

(اسلامک کلچر ل سینٹر، میڈرڈ)

یہ ایک خوشگوار اور چمکیلی صبح تھی۔ اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ  میں میرے قیام کا یہ تیسرا دن تھا اور اس پُر رونق شہر میں میری مصروفیت کا آخری دن بھی۔ اسلامک کلچرل سینٹر کا فاصلہ میری قیام گاہ سے تقریباً دو کیلومیڑ کی دوری پر تھا۔ آج کی میری تمام تر مصروفیات اور سرگرمیوں کا مرکز بھی یہی سینٹر تھا۔ میرا تجربہ ہے کہ یورپ کے خوشگوار موسم ،  شہر کی رونقوں اور تاریخی مقامات کی سیر سے اگر لطف اندوز ہونا ہے تو جہاں تک ممکن ہو کیب اور بس کے سفر سے پرہیز کیا جائے ، سو میں نے بھی یہ فاصلہ پیدل طئے کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ یورپ میں پیدل چلنے کا خاصہ رواج ہے اس لیے پیدل سوارو ں کی سہولت کے لیے نہایت کشادہ فٹ پاتھ تقریباً تمام شاہراہوں کے متوازی تعمیر کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے پیدل چلنے میں نہ کسی حادثے کا خطرہ رہتا ہے اور نہ وہ الجھن ہوتی ہے جو عموماً  ایشیائی ممالک کے سڑکوں پر درپیش ہوتی ہے۔

میڈرڈ کی سڑکوں پرا ٓج معمول سے بہت زیادہ چہل پہل تھی۔ پور ا شہر فٹ بال شائقین کی آماجگا ہ بنا ہوا تھا۔ دراصل یورپ کے مختلف شہروں سے فٹ بال کے شیدائی آج یوروپین فٹ بال چیمپین شپ کے فائنل کے لیے میڈرڈ میں اکٹھا ہوگئے تھے۔ شائقین رنگ برنگی جرسیوں میں ملبوس اپنی پسندیدہ ٹیم کے پرچم  لہراتے اور نغمہ سرائی کرتے قافلوں کی شکل میں آجا رہے تھے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ٹولیوں نے جابجا رقص و سرود کی محفلیں سجا رکھی تھیں۔ اسپین کا  مخصوص ثقافی ڈانس فلیمنکو بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ لیور پول کی ٹیم کے مصری کھلاڑی محمدصلاح کے لیے تو یوروپی عوام میں اس قدر دیوانگی تھی کہ بعض نوجوانوں نے اُن کی مصنوعی شباہت تک اختیار کررکھی تھی اور بڑی تعداد میں اُن کے ناموں ا ور آویزاں تصاویر کے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ بعد ازاں مجھے اسلامک سینٹر کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ محمد صلاح کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ہی یوروپی نوجوانوں میں اُن کی زندگی کے مختلف گوشوں پر معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کو سمجھنے کا جو اشتیاق پید ا ہو ا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ محمد صلاح کے نام سے ایک انگریزی نغمہ بھی لانچ کیا گیا ہے جس نے پورے یورپ میں دھوم مچا رکھی ہے جس میں نہ صرف محمد صلاح کی مدح سرائی کی گئی ہے بلکہ اُن کے مذہب اور وطن کے تعلق سے بھی محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ محمد صلاح کی اس مقبولیت نے ٹائم میگزین کے ایک سروے کے مطابق اُنھیں دنیا کی  ۱۰۰ با ثر شخصیات کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے۔ یورپ میں اسلام مخالف جذبات اور نسلی امتیازات کے واقعات اور رجحانات پر نظر رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ عرب اور مسلم کھلاڑیوں کی غیر معمولی کارکردگی اور میدان کے اندرا ور باہر اُن کے ذریعہ اخلاق و کردار کے مثالی مظاہرے سے ایک مثبت پیغام گیا ہے اور یوروپین نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اسلاموفوبیا کو مستر دکرتے ہوئے اُنھیں اپنا آئیڈیل تصور کرنے لگی ہے، یہاں تک کہ اُن سے متاثر ہوکر بعض نوجوانوں کے اسلام قبول کرنے کے واقعات تک سامنے آئے ہیں۔

ادھر اسلامک سینٹر میں آج کی گہما گہمی قابل دید تھی۔ ہفتہ اور اتوار کو تعطیل کا دن ہونے کی وجہ سے عام طور پر یہا ں صبح سے شام تک مختلف قسم کے سماجی اور ثقافتی پروگرام کا سلسلہ لگا رہتا ہے۔ میڈرڈ کی سب سے بڑی جامع مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ اس عمارت کو موجودہ اسپین کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی اور ثقافتی مرکز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ میڈرڈ کے عین قلب میں واقع انتہائی ہرے بھرے اور پُرسکون شاہراہ پرسفید سنگ مرمر کی چادر میں لپٹی یہ وسیع و عریض عمارت جدید مغربی طرز تعمیر اور قدیم اسلامی اُندلس کے نقش و نگار اور فن خطاطی کا حسین مجموعہ ہے۔ اس دیدہ زیب اور پُرکشش سینٹر کی تعمیرسعودی عرب کے رابطہ عالم اسلامی کے اس جامع منصوبے کا حصہ تھی جس کے تحت مغربی ممالک کے اہم شہروں میں اسلامک کلچرل سینٹر کے قیام کے ذریعہ جہاں ایک طرف مقامی مسلمانوں کو اپنی دینی اور ثقافتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ایک مرکزی پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا وہیں دوسری جانب راہ حق کی تلاش میں سرگرداں خلق خدا کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجا م دینا تھا۔ اور ادھر گزشتہ چند دہائیوں سے اسلاموفوبیا کے پھیلتے اثرات کو زائل کرنے کا چیلنج بھی درپیش تھا۔ اس منصوبے کے تحت نیویارک،  لندن، پیرس ، میڈرڈ ، برلن ، جنیوا، روم اور یہاں تک کے جبرالٹر میں بھی اسلامک سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسلامک کلچرل سینٹر کے اس کامیاب تجربے سے تحریک پاکر کئی اور مسلم تنظیموں  اور ممالک نے مقامی مسلمانوں کے تعاو ن سے مغربی ممالک میں اپنے مراکز کھولے جو تمام قسم کی مسلکی اور فرقہ وارنہ گروہ بندی سے قدرے آزاد ہوکر ہمارے یہاں کے مساجد ، مدارس  اور مراکز کے مقابلے میں انسانیت کی کہیں بہتر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مغرب کے تقریباً ان تمام مراکز اور مساجد میں ایک بات جو ہندستان کے دینی اور ثقافتی مراکز سے مختلف ہے وہ یہ کہ ان مراکزمیں دنیا کے مختلف رنگ ، نسل ، زبان اور تہذیبوں کی نمائندگی پائی جاتی ہے۔ نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کے مسلمانوں کا اتنا حسین سنگم حرمین کے کے بعد آپ کو مغرب کی مسلم عبادت گاہوں میں ہی دکھائی دے گا۔ دوسری چیز جو قابل تقلید بھی ہے وہ یہ کہ یہ مراکز مسلم بچوں کی تعلیم و تربیت ، نوجوانوں کے لیے اصلاحی پروگرام ، تحفیظ القران، شریعہ ٹریننگ  اور دیگر سماجی اور ثقافتی پروگراموں کو بڑے منظم طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اسپین کے کئی مراکز نے تو انتہائی اعلیٰ معیار کے پبلک اسکول قائم کررکھے ہیں جہا ں ہسپانوی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور اس میں نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور یہودی بچے بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ جو بات آج کے اسلاموفوبک ماحول میں سب سے اہم ہے وہ یہ کہ غیر مسلموں کے درمیا ن اسلام کی تعلیمات کو عام کراُن غلط فہمیوں کا ازالہ کرناہے جو کہ یورپ میں دہشت گردی کے مبیینہ واقعات کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے ، جس میں یہ مراکز بہت ہی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

میڈرڈ کے اسلامک سینٹر کا افتتاح سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا  شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور اس وقت کے کنگ آف اسپین  جُوان کارلوس نے مشترکہ طور پر ۱۹۹۴ ٰء  میں میں کیا تھا۔ مسجد کے اندرونی ستون اور محراب قرطبہ کی جامع مسجد کی طرز پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ بالائی منزل پر لائبریری، کانفرنس سینٹر ، نمائش ہال اور نچلی منزل پرکافی شاپ، ریستوراں اور تربیتی کلاسزکی کافی کشادہ جگہ ہے۔

اسپین میں  ۱۰۸۹ ء  میں مسلمانوں کی اقتدار اور ملک سے بے دخلی کے بعد جہاں ہزاروں مساجد کلیسا میں تبدیل کر دی گئیں وہیں نئی مساجد کی تعمیر پر بھی پابندی نا فذ تھی۔ اس لیے جب ۱۹۸۱ ء  میں اسپین کی ریاست اندلوسیا کے شہر ماربیلا میں شاہ عبدالعزیز مسجد کا افتتاح ہوا تو یہ اسپین کی سرزمین پر قائم کی گئی پہلی باضابطہ مسجد تھی جو تقریباً ایک ہزار سال کے بعد وجود میں آئی تھی۔ ۱۹۷۸ ء  میں اسپین کے سیاسی نظام میں بڑی سیاسی تبدیلیا ں رونما ہوئیں جس کے نتیجے میں آئین کے بنیادی ڈھانچھے میں تبدیلی کر ریاست کو روائتی رومن کیتھولک چرچ کے اثر سے آزاد کر دیا گیا اور تمام مذاہب کو یکسا ں آزادی نصیب ہوگئی۔ امیگریشن اور شہریت قوانین میں تبدیلی کے نتیجے میں مراقشی مسلمانوں کی وہ آبادی جو اسپین میں برسوں سے رہائش پزیر تھی اُنھیں اسپین کی شہریت حاصل ہوگئی  اور اس کے علاوہ بھی شمالی افریقا کے دیگر ممالک سے مسلمان اسپین میں آکر آباد ہوتے رہے۔ اسپین کی موجودہ مسلم آبادی  ۲۰  لاکھ کے قریب ہے جو وہاں کی کُل آبادی کا  ساڑھے چار فیصد ہے۔ اس وقت اسپین میں چھوٹی بڑی  ۱۶۰۰ مساجد یا مسلم عبادت گاہیں موجود ہیں جس میں ۱۳ بڑی مساجد اور وہ مراکز ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں میں میڈرڈ، بارسلونہ، ویلینسیہ ، کیٹلونیہ اور اندلوسیہ میں قائم کی گئی ہیں۔ مسلم آبادی میں ۴۰ سے ۵۰ ہزار تعداد سفید ہسپانوی النسل اُن مسلمانوں کی ہے جنھوں نے گزشتہ تین چار دہائیوں میں اسلام قبول کیا ہے اور اُن میں ایک قابل ذکر تعدا د اُن نو مسلم ہسپانوی باشند وں کی ہے جن کے آباء سقوط اُندلس کے بعد کیتھولک چرچ  اور عیسائی حکمرانوں کے ذریعہ جبریہ عیسائیت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تھے یا  نسل کُشی اور جلاوطنی سے بچنے کے لیے اپنی مسلم شناخت سے بظاہر دست بردار ہوگئے تھے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ اسپین کے موجودہ باشندوں میں آج بھی ایک ایسی نسل پائی جاتی ہے جن کے مسلم اجداد نے ظاہر ی طور پر بپتسمہ لیا تھا،  یہ مجبوراً  شراب بھی پیتے تھے اور خنزیر کے گوشت کا بھی استعمال کرتے تھے لیکن اپنے عقیدے سے دستبردار نہیں ہوئے تھے اور پوشید ہ طور پر اپنے مذہبی فرائض کو انجام دیتے آئے تھے۔ ایک عرصے تک ان کی علیحدہ شناخت قائم تھی، جنھیں موریسکوس یعنی نوزائیدہ عیسائی کہا جاتا تھا۔ لیکن دھیر ے دھیر ے ان کے بعد کی نسل اکثریتی عیسائی آبادی میں جذب ہوتی چلی گئی  یا جلاوطن کردی گئی اور یوں ۱۸  ویں صدی کے اوائل تک ہسپانیہ کے سرزمین سے مسلم وجود کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ دنیا کی تاریخ میں جبریہ تبدیلیء مذہب کی اس سے بڑی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر ۱۵ ویں صدی کے اواخر میں جب اُندلس کی آخری اسلامی ریاست غرناطہ کا سقوط ہوا تو اُس وقت غرناطہ کی مسلم آبادی ۵ لاکھ کے قریب تھی۔ تاریخ کی کتابیں آج بھی وثوق کے ساتھ یہ  بتانے سے قاصر ہیں کہ اتنی بڑی آبادی آخر زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا۔

اسلامک سینٹر کی میوزیم لائبریری میں میر ے لیے دلچسپی کا بہت سامان تھا۔ اسلامی اُندلس کے سقوط اور جزیرہ نما آئبیریا سے مسلمانوں کی بے دخلی  اور منصوبہ بند نسل کُشی پر تاریخ کی نادر کتابوں ، مخطوطوں اور ریسرچ پیپر کی ورق گردانی کرتے ہوئے گھنٹوں کیسے نکل گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ ۱۸  ویں اور ۱۹ ویں صدی کے ہسپانوی مور خین نے اُندلس کے مسلمانوں پر گزرے قیامت خیز واقعات پر بڑی بے باکی سے کلام کیا ہے اور اُن تاریخ دھندھلکوں کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے جس پر صدیوں سے گرد پڑی تھی۔

طلیطلہ کے آرک بشپ سسنیرس کا پوپ الیکژنڈر کے نام وہ مکتوب بھی اب منظر عام پر آچکا ہے جس میں اس نے پوپ کو یہ اطلاع دیتے ہوے فخر کا اظہار کیا تھا کہ اس نے ایک دن میں تین ہزار مسلمانوں کو عیسائیت قبول کروائی۔ اسی طرح ۱۵۰۱ ء کے ایک دوسرے مکتوب میں ۶۰ ہزار مسلمانوں کے بپتسمہ لینے کی بات کہی گئی ہے اور اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ ا ب سرزمین غرناطہ پر ایک بھی مسلمان ایسا نہیں بچا جس نے عیسائیت اختیا ر نہ کر لی ہو۔

شام کے چار بج چکے تھے اوراب کانفرنس ہال میں لوگوں کی آمد کا  سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ اسپین میں زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی شراکت داری اور سرگرمی مردوں کے مقابلے میں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ کانفرنس ہال میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن میں یونیورسٹی کی ہسپانوی نزاد مسلم اور غیر مسلم طالبات کی ایک بڑی اکثریت تھی۔ میر ا یہ یورپ میں کسی بین المذاہب کانفرنس میں شرکت کا پہلا موقع تھا۔ مجھے  ہندستان کے تناظر میں ہندو۔ مسلم تعلقات پر تاریخی پس منظر میں اپنی بات رکھنی تھی۔

ہندستان جہاں مسلم  تہذیب و تمدن کی جڑیں بہت گہری ہیں ، جہاں کی تاریخ ہمارے شاندار ماضی کی امین ہے ، جہاں ہمارے فن تعمیر شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں ، جہاں کی دھرتی میں ہمارے انمٹ نقوش موجود ہیں ، جہاں  کے دریاووں ، پہاڑوں ، جھرنوں اور آبشاروں سے وحدانیت کی صدائیں آتی ہیں اور جہاں سے میرِ عرب کو ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے کا احساس ہوتا تھا اس ملک میں برادرانِ وطن سے ہمارے خوشگوار تعلقات ملک و قوم کے خوشگوار مستقبل کا پتہ دیتے ہیں۔ ایسے عظیم ملک میں پرُ امن بقائے باہم کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اتحاد اور یکجہتی کی فضا قائم کرمتحدہ قومیت کی بنیاد ڈالنا ہمار ا قومی اور ملی فریضہ ہے۔

میں نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے سامعین کا شکر یہ ادا کیا اور واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ وقت بہت ہو چلا تھا۔ آج ہی کی رات مجھے قرطبہ شہر کے لیے روانہ ہونا تھا۔ قرطبہ جو میرے خوابوں کا شہر تھا۔ قرطبہ جو کبھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ قرطبہ جو اسلامی اُندلس کا دارالخلافہ تھا۔ قرطبہ جس کے ٹکر کا کوئی شہر دنیا میں نہ تھا، میرے سفرکا اگلا پڑاو تھا۔

تبصرے بند ہیں۔