ماں باپ کی خواہش

فانیؔ ایاز گولوی(رام بن)

ایک امیر باپ کا اکلوتا بیٹاتھا۔خدا سے مانگ مانگ کر لیا تھا۔اور کوئی اولاد نہیں تھی۔جب جنم ہوا تو بہت خوشی ہوئی اور سارے لوگوں کو بلا کر ایک بہت بڑی اسٹیج بنائی اور بڑی بڑی ہستیوں کو دعوت دی گئی۔ چاروں طر ف خوشیوں کے پھول برس رہے تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ ابھی بہار کی طرف موسم کروٹ بدلا ہوا تھا۔ناچ ڈانس کے لئے بڑا ساز و سامان تیار کیا گیا۔مختلف قسم کے کھانے بنائے گئے۔ لوگ آئے اور محفل سجائی کھانا کھایا ناچ ڈانس کر کے چلے گئے۔اب پروگرام ختم ہوا۔ جب بیٹا پانچ سال کا ہوا اور ماں باپ کی امیدیں جاگ اٹھی کہ ہم اپنے بیٹے کا ڈاکٹر بنائیں گے اور انہوں نے بہت بڑے اسکول میں بچے کا داخلہ کروایا جہاں پر اچھی تعلیم دی جاتی تھی۔ اب بچا چھ سال کا ہو ا دوسری طر ف موبائل اور ٹی، وی کا زمانہ تھا ہر گھر میں یہ چیزیں میسر ہوتی ہیں ۔ اب بچہ کچھ دیر پڑھتا اور کچھ دیر ٹی، وی دیکھتا۔ ٹی، وی پر کبھی کارٹون اور کبھی فلمیں بھی دیکھتا تھا۔اس کا ذہین موبائل اور ٹی وی کی طر ف زیا دہ تھا لیکن گھر والوں نے اسے کنٹرول کرنے لئے بہت کچھ کیا مگر مانا نہیں ۔اب ماں باپ کی خوہش تھی کہ ہم نے اپنے فرزند کو ڈاکٹر بنانا ہے اور اس کو لوگوں کی خدمت کرنی ہے جب بچہ دس سال کا ہو ا اب اپنے پاپا سے موبائل کی ڈمانڈ کر دی پاپا مجھے موبائل چاہئے۔لیکن باپ نے انکار ہی کیا لیکن بیٹے نے نہیں مانا وہ زاروزار رونے لگا اور بھاگنے لگا۔اب کسی طرح سے اس کو واپس لایا اور مجبور ہو کر اسے موبائل خرید کر دینا پڑا۔ اب یہ مادر پدر کی شفقت ہے وہ اپنے فرزند کی ہر ایک خواہش کوپوری کرتے ہیں ۔ پھر ان کو چاہے آگ سے گزرنا پڑے۔ اب دونوں میاں بیوی پریشان ہوئے کہ ہمارا بیٹاخراب ہو جائے گا اب جو ں جوں بڑا ہونے لگا وہ اوارہ دوستوں کے ساتھ بھی وقت گزارنے لگا اسکول سے کبھی کبھی لیٹ آتا تھا۔اب پڑھائی میں کم وقت گزارتا تھا اور دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگا ماں باپ بہت ہی پریشان ہوئے۔ ایک دین والد ڈیوٹی سے واپس لوٹے اور کھانا کھایا اور بیڈ پر لیٹے سر میں درد ہوئی ہارٹ اٹیک ہوا اور ازل نے اپنے پاس بُلا لیا۔ اس وقت اس کے بیٹے کی عمر پندرہ سال تھی۔ اب اکیلی ماں ہی گھر میں رہی۔ وہ بہت ہی پر یشان ہوئی پیسوں کی کوئی کمی نہ تھی اس کی خواہشات بھر پوررہی کہ میں نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنا نا ہے۔ جب وہ اوارہ دوستوں کے ساتھ زیادہ مصروف رہنے لگا تو ماں نے سوچا اب یہ یہاں نہیں پڑھنے والا اسے کہیں دور پڑھائی کے لئے بھیجنا پڑے گا۔ماں کو خیال آئے کہ بچے کو امریکہ ہی بھیجنا پڑے گا یہاں یہ پڑھنے والا نہیں ہے۔بیٹے سے کہا وہ انکار ہو ا لیکن زور زبردستی کر کے اسے منوا لیا اور اس کو امریکہ بھیج دیا پڑھنے کے لئے۔اب ماں بزرگی کی جانب بڑھ رہی تھی بیٹا بھی ڈاکٹر بننے والا تھا۔اب ماں کے امیدیں تھی کہ بیٹے کا باپ تو چلے گیا دنیا چھوڑ کر اب میری آس امید میرا بیٹا ہی ہے۔ اب مجھے وقت پر کھانا بنانا بھی نہیں آتا۔ کبھی کبھی درد اتنی ہوتی تھی کہ میں بستر سے اٹھ بھی نہیں پاتی۔ اب بیٹے کی کی ہی امیدیں تھی وہ میری خدمت کرے گا۔ اب بیٹا بھی آخر ڈاکٹر بن گیا۔ اور گھر میں خوشیوں کی لہر ڈوری۔ ہر سو لوگ مبارک باد دینے کے لئے آئے۔ اور غریب لوگوں کی یہ امیدیں تھی کہ ہمیں اب یہ ڈاکٹر کام آئے گا۔ ہماری بھی خدمت کرے گا۔لوگ دور دور سے آئے اور مبارک باد پیش کرنے لگے۔اب بیٹا ڈاکٹر بن گیا۔ماں کی تمنا پوری ہو گی اب اس کو یہ امید تھی کہ یہ مجھے پالے گا اور پیسے دے گا۔ اب دونوں ماں بیٹے نے مل کر کلینک کھولنے کا ارادا کیا۔ آخر کلینک کا کام شروع ہو گیا۔بہت پیسہ کلینک پر لگایا۔اچھی طرح سجائی گئی آفس میں چالیس ہزار کی کرسی لگائی گئی لاکھوں کی مشینیں لگائی گئی بس اب آغاز کرنے ہی والے تھے اچانک بیٹا بیمار ہو گیا۔ بہت سارے ہسپتالوں میں علاج کے لئے گئے۔مگر ڈاکٹروں نے جواب ہی دے دیا کہ اب اس کو بچانے میں ہم ناکا م ہو رہے ہیں ۔جب یہ بات سنی تو ماں رونے لگی۔تو بیٹے نے کہا ماں کیوں رو رہی ہو ماں نے کہا بیٹے مجھے بڑی امید تھی تیری کہ تو مجھے اب پالے گا اور زندگی کی خواہش تھی کے تجھے ڈاکٹر بنائوں وہ خواہش پوری ہو گئی تھی لیکن تو اب مجھے چھوڑ کر جا رہا ہے۔ میں کیسے اب جیوں گی۔اب ماں خاموش ہوئی تو بیٹا رونے لگا۔ ماں نے کہا بیٹے کیوں رو رہے ہوبیٹے نے کہا ماں تم تو اس واستے رو رہی تھی کہ میرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا۔ اس خواہش میں میری ساری زندگی خراب کر دی۔ میں تو اس واستے رو رہا ہوں اب میں نے جہاں جانا ہے اس قبر کے لئے کچھ تیاری نہیں کی ہے وہاں میرا کیا حشر ہو گا۔ مجھے کن مراحل سے گزرنا پڑھے گا خدا کو کیا جواب دوں گامیں دنیا میں کیا کرکے آیا ہوں ۔ تم نے ڈاکٹر تو بنایا لیکن کبھی یہ نہیں کہا بیٹے تم قرآن پڑھو نمازپڑھو آخر مرنا ہے اس کے لئے کیا تیاری کروائی اب میں کیا کروں ۔ خدا کو کیا جواب دوں گایہ کہتے کہتے روح پرواز کر گئی اور ماں زار زار روتی رہی۔

تبصرے بند ہیں۔