واقعہ اصحاب کہف

 وقاص چودھری

اصحاب کہف جنہیں  غار کے مکین بھی کہا جاتا ہے اللہ تعالی کی خاص نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں، ان اصحاب کے بارے میں قرآن پاک میں اجمالی طور پر اور تاریخ میں تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے۔(کیا تم سمجھتے ہو کہ اصحاب کہف ہماری عجیب نشانی میں تھے)

ان اصحاب  کہف کو ان کے غار میں پناہ گزین ہونے کی وجہ سے اصحاب کہف کہاگیا ہے۔ اورحضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ۔۔۔کہف  اس وادی کا نام ہے جس میں اصحاب کہف موجود تھے۔

حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے کے بعد اہل انجیل کی حالت ابتر ہوگئی وہ بت پرستی میں مبتلا ہوگئے اور دوسروں کو بت پرستی پر مبتلا کرنے لگے ان میں دقیانوس بادشاہ بڑا ظالم تھا جو بھی کوئی شخص بت پرستی پر راضی نہ ہوتا وہ اسے قتل کر ڈالتا تھا۔

اصحاب کہف شہر افسوس کے شرفاء معززین میں سے ایماندار لوگ تھے۔ وہ بادشاہ  دقیانوس کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اسکی سلطنت سے فرار ہو گئے۔

ان اصحاب کی راستے میں کچھ آدمیوں سے ملاقات ہوئی جو کہ پاسبان بکری وغیرہ والے تھے ۔انہوں نے ان سے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو۔۔؟؟ تو انہوں نے جواب دیا ہم خالقِ  ارض وسماء کی طلب کو جاتے ہیں۔ جو کہ آسمان و زمین کا اور سب مخلوقات کا پروردگار ہے۔ وہ پاسبان بھی ان افراد کے ساتھ مل گئے۔ اور انکے ساتھ ایک کتا بھی تھا ان لوگوں نے اسے  واپس بھیجنے کی کوشش کی۔
مگر نہیں وہ ان کے ساتھ رہا۔۔ ان لوگوں نے کتے کو بہت مارا پیٹا اور زخمی کردیا۔ پھر اس کتے کو قوت گویائی ملی۔۔ اور اس نے کہا کہ،،  اے  خدا کے بندوں مجھے مت مارو۔۔ ۔ میں بھی اسی کا  فرماں بردار ہوں جسکے تم بندے ہو۔۔ اور تم جسکی یاد کو جاتے ہو۔ میں بھی اسی کو چاہتا ہوں ۔۔۔لہذا مجھ کو بھی اپنے ہمراہ لے چلو۔ تمام رات چلتے چلتے جب صبح نمودار ہوئی تو  اصحابِ کہف ایک پہاڑ کے اندر کھوہ میں جاگھسے۔۔ اور بولے یہاں ذرا  آرام لینا چاہیے کہ رات کی تیرگی دور ہوجائے۔ آخر وہاں ٹھر گئے اور آرام کرنے لگے ۔اور وہ اسی آرام کی حالت میں تھے۔ کہ،، نیند کا غلبہ ہوا اور سو گئے۔

سورۃ کہف  آیت نمبر ۱۰ اور ۱۱ میں ہے کہ،، جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راہ یابی کے سامان کر، ﴿۱۰﴾  تو ہم نے اس غار میں ان کے کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا۔۔۔

اصحاف کہف اللہ تعالی پر ایمان لے آئے تھے وہ بت پرستی کو چھوڑ کر اللہ تعالی کی واحدانیت کا اقرار کر بیٹھے تھے اور اس کو اپنا معبود و برحق مان لیا  اور اس غار میں بیٹھ گئے۔

اصحاب کہف کے ایمان کے بارے میں قرآن پاک میں سورۃ کہف میں آیت نمبر ۱۳ اور ۱۴ میں کہا گیا ہے کہ،،۔ ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں، وہ کچھ جوان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی، ﴿۱۳﴾  اور ہم نے ان کی ڈھارس بندھائی جب کھڑے ہوکر بولے کہ ہمارا رب وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو نہ پوجیں گے ایسا ہو تو ہم نے ضرور حد سے گزری ہوئی بات کہی۔

دقیانوس بادشاہ نے بہت کوشش کی ۔کہ،، اصحاب کہف کو ڈھونڈلے۔۔ مگر وہ ناکام رہا۔ اور سے صرف اتنا پتہ چل سکا ۔کہ،، وہ غار کے اندر موجود ہیں تو اس نے حکم دیا کہ اس غار کے آگے ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دی جائے۔ تاکہ وہ   تمام  اصحاب اسکے اندر ہی رہ جائیں۔ اور انکی موت ہوجائے تو یہی ان افراد کی سزا ہوگی۔

دیوار تعمیر  کرنے  کا حکم جس آدمی کو دیا گیا ۔وہ نیک انسان تھا۔ اس  نے اصحاب کہف کے  ناموں کو ایک تختی جو کہ رانگ کی تھی اس پر تمام  واقعہ کندھ دیا ۔۔۔ اُور اِس تختی کو  ایک تانبے کےصندوق میں رکھ کر اسے دیوار کی بنیاد کے اندر رکھ دیا۔ اور کہا جاتا ہے اس تختی کا ایک نسخہ شاہی خزانے میں بھی محفوظ کردیا تھا۔

اور ان اصحاب پر خدا کے طرف سے ایسی نیند ڈالی گئی کہ وہ تین سو برس تک سوتے رہے۔ قرآن پاک میں سورۃ کہف میں آیت نمبر ۲۰ اور ۲۵ میں اصحاب کہف کی نیند اور تعداد کے بارے میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے۔

ترجمہ (اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھرے نو  (برس) اوپر) آیت ۲۵

ترجمہ : اب کہیں گے کہ وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا اور کچھ کہیں گے پانچ ہیں، چھٹا ان کا کتا بے دیکھے الاؤتکا (تیر تکا) بات اور کچھ کہیں گے سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتا ہے انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو مگر اتنی ہی بحث جو ظاہر ہوچکی۔آیت نمبر ۲۲

اصحاب کہف کے ناموں کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انکے نام یہ تھے، کمسلمینا، وایلخا، وکمیر، مرکوش، نواس، سانیوش، سلطیطوس اور بعضوں نے کہا ہے کہ مکسکمینا، ملیخا، مرطوس، نیوس، دواس، تسفطیط اور بعضوں کے نزدیک یہ نام ہیں مکسکمینا، میخا، وکمیر ، مرطوش، بنیوس، سابوس، کفسططوس، ونواس اور بعضوں نے کہا ہے مکسکمینا، ایلخا، مرطوس، سارینوس، مطنوس، کفشوطط، ذواس اور آٹھواں انکا کُتا ہے کہ کتے کا نام قظمیر تھا تاموس میں یہی لکھا ہے۔ مگر ان کی تعداد سوائے خدا وند تعالی کے کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔کہ،، وہ کتنے آدمی تھے۔

پھر دقیانوس ہلاک ہوا۔ زمانے گزرے سلطنتیں بدلیں ۔پھر ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا۔ اسکا نام بیدروس تھا جس نے اڑسٹھ (۶۸) سال حکومت کی پھر ملک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ قیامت اور موت کے بعد زندگی مِلنے کے منکر ہوگے۔۔۔ بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہوگیا۔ اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہ الہی میں دعا کی،، یا رب کوئی ایسی نشانی عطا فرما جس سےخلق کو مُردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہوجائے۔

اسی زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کی آرام گاہ کے لئے جگہ حاصل کرنے کو اسی غار کو تجویز کیا۔ اور دیوار گرادی   اور دیوار گرانے کے بعد کچھ ایسی ہیبت ہوئی کہ دیوار گرانے والے بھاگ گئے۔

سورۃ کہف میں آیت نمبر ۱۸ میں کہا گیا ہے۔
ترجمہ : (اور تم انہیں جاگتا سمجھو اور وہ سوتے ہیں اور ہم ان کو داہنی بائیں کروٹیں بدلتے رہتے ہیں اور انکا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے وائے ہے غار کی چوکھٹ پر۔ اے سننے والے اگر تو انیں جھانک کر دیکھے تو ان سے پیٹھ بغیر کے بھاگے اور ان سے ہیبت میں بھر جائے)

پھر اصحاب کہف کے جاگنے کے بارے میں قرآن پاک میں سورۃ کہف میں آیت نمبر ۱۹ اور ۲۰ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔۔

ترجمہ: (اور یوں ہی ہم نے ان کو جگایا کہ آپس میں ایک دوسرے سے احوال پوچھیں ان میں سے ایک  کہنے والا بولا تم یہاں کتنی دیر رہے کچھ بولے ایک دن رہے یا ایک دن سے بھی کم۔ دوسرے بولے تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹہرے۔ تو اپنے میں سے کسی ایک کو یہ چاندی دے کر شہر بھیجو۔ پھر غور کر کے وہاں کونسا کھانا زیادہ ستحرا ہے کہ تمہارے لئے اس میں کھانے کو لائے اور چاہے کر  نرمی کرے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے۔

بے شک اگر وہ تمہیں جان لیں گے تو پتھراو کریں گے یا اپنے دین میں پھیر لیں گے اور ایسا ہوا تو تمہارا بھی بھلا نہ ہوگا)
چونکہ وہ لوگ تقریبا تین سو برس سوتے رہے تو تمام اصحاب کہف پر نیند کا غلبہ تھا۔ ان میں سے  میکملینیا کو شہر سے روٹی لانے کے لئے نانبائی کی دکان پر بھیجا گیا تو اس نے شہرہ پناہ کے درواز پر حضرت عیسی علیہ السلام کا نام دیکھا اور لوگوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کی قسم کھاتے سنا اور نئے لوگ دیکھے تب انہیں تعجب ہوا کہ کل تک تو لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے نام لیتے بھی ڈرتے تھے کہ انہیں اسی وقت قتل کردیا جاتا تھا اور اب لوگ اتنے بے خوف کیسے ہوگئے؟

اس کے بعد وہ نانبائی  کی دکان پر  تشریف لے گئے۔۔۔ کھانا خریدنے  کے بعد جب نانبائی کو  دقیانوسی زمانے کے  سکہ کا روپیہ دیا۔ جسکا چلن صدیوں سے موقوف ہوگیا تھا وہ بازار کے لوگ سمجھے کہ اسکے ہاتھ کوئی پرانا خزانہ  لگ گیا ہے ۔۔وہ لوگ انہیں حاکم وقت کے پاس لے کر گئے۔

حاکم وقت تو نیک آدمی تھا اس نے پوچھا کہ خزانہ کہا ں ہے۔۔۔؟؟ تو آپ نے جواب دیا کہ،، میرے پاس  خزانہ نہیں ہے۔۔ یہ ہمارا اپنا سکہ ہے۔ تو بادشاہ نے کہا کہ یہ تو سینکڑوں سال پرانا سکہ ہے۔ اور یہ بادشا ہ دقیانوس کے زمانے کا ہے۔  اور وہ بادشاہ تو صدیوں پہلے نیست و نابود ہو چکا ہے۔ تو یہ سن کر ان صاحب نے بادشاہ کو بتایا۔ کہ،، وہ اور انکے ساتھی اُسی بادشاہ سے تنک آکر اور حضرت عیسی علیہ السلام کی محبت میں اور ان سے نسبت کی وجہ سے ایک غار میں پناہ گزیر ہوگئے تھے۔ اور انکے ساتھ ایک کتا بھی تھا۔ اور اسکا واقعہ بھی سنا دیا۔

پھر اس وقت بادشاہ اور شہر کے عمائد اور خلق کثیر  ۔۔ غار پہنچے، اَصحاب کہف  کھانے اور اپنے ساتھی کے انتظار میں تھے۔ وہ اتنے لوگوں کے آنے کے شور سے سمجھے کہ بادشاہ دقیانوس اپنی فوج سمیت ان تک آپہنچا ہے۔ اتنے میں وہ صاحب  بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ غار میں داخل ہوگئے۔ اور سو گئے۔

اصحا ب کہف کی نیند کے بارے میں سورۃ کہف میں ارشاد ہوا ۔ آیت نمبر ۱۷
ترجمہ : (اور اے محبوب سورج کو دیکھو جب وہ نکلتا ہے تو ان کے غار سے داہنی طرف بچ جاتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتا ہے حالانکہ وہ اس غار کے کھلے میدان میں ہیں یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے جسے اللہ راہ دے وہی راہ پر ہے اور جسے گمراہ کرے تو ہرگز اسکا کوئی حمایتی اور راہ دکھانے والا نہ پاو گے)

اصحاب کہف پر سکون نیند سورہے ہیں اور قیامت تک سوتے رہیں گے۔ اور ان کےبارے میں روایت ہے کہ وہ ہر سال دس محرم کو فرشتے ان کی کروٹیں بدلاتے ہیں اور سورج کی گرمی اور موسم کی شدت انکی نیند اور سکون کو متاثر نہیں کرتی۔ اور انکے ساتھ انکا کتا بھی ہے ان لوگوں کو انکی حضرت عیسی علیہ السلام سے نسبت اور محبت کا صلہ دیا گیا کہ اللہ تعالی نے انہیں اتنا اچھا مقام دے دیا کہ قرآن پاک میں پوری سورۃ  ان کے نام سے موسوم کر دی گئ۔  اور انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے ۔۔۔
لیکن اصحاب کہف کی نسبت کی وجہ سے اس کتے کو بھی اہم بنا دیا گیا۔

پھر اس وقت کے حاکم بادشاہ نے وہ تانبے کا صندوق بھی نکالا جس پر اصحاب کہف کے نام درج تھے اور اسے اس بادشاہ نے ایک تختی پر کندہ کرا کے غار کے سرے پر لگادیا۔۔۔ اور اس طرح اصحاب کہف کے اتنے سال سونے کے بعد دوبارہ  اُٹھنے کے اس واقعہ نے ثابت کر دیا ۔کہ،، قیامت کے دن لوگ ایسے ہی نیند سے اٹھائے جائیں گے۔ اور اس بادشاہ کے دور میں جو  قیامت کے منکر لوگ تھے۔ انہیں یہ نشانی دے دی گئی۔ جیسا کہ سورۃ کہف میں اللہ کریم فرماتا ہے کہ۔۔

ترجمہ ۔: اور اسی طرح ہم نے ان کی اطلاع کردی کہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کچھ شبہ نہیں، جب وہ لوگ ان کے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بناؤ، ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے، وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے ۔۔ آیت نمبر ۲۱

تبصرے بند ہیں۔