واقعہ کربلا…بازدید

ڈاکٹر غلام قادر لون

١٠ محرام الحرام ۴۴۴۱ ھ اگست ٢٠٢٢ کو ”واقعہ کربلا “ کے عنوان سے ‘مضامین ڈاٹ کام’ نے ہمارا ایک مضمون شائع کیا تھا جس پر محترم ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

”ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب نے زیادہ تر باتیں بلاحوالہ قتل حسین سے نقل کی ہیں جس کا مصنف ابو محنف یحییٰ بن لوط ہے۔ تمام محدثین کے نزدیک یہ جھوٹا اور رافضی شخص ہے۔ سنی محدثین میں سے کوئی اس کی روایت کو درست نہیں مانتا ۔ یہ سانحہ کربلا کے سوسال بعد پیدا ہوا اور کوفہ اور آس پاس کے لوگوں کی سنی سنائی باتوں سے کتاب ‘مقتل حسین’ تیار کی۔ شہادت امام حسین ؓ سے متعلق جتنے جھوٹے افسانے عوام میں مشہور ہیں اور جو بنیاد ہیں تعزیوں، ماتموں اور محرام کی تمام رسموں کے اور خاص کر شیعہ برادران میں مشہور و معروف ہیں؛ ان سب کا تنہا ماخذ یہی کتاب ہے۔ یہاں تک بعض شیعہ محققین نے ان افسانوں پر نکیر کی ہے۔ بہر حال لون صاحب کا یہ مضمون بھی ہر طرح کی رطب و یا بس سے بھرا ہوا ہے. وہ سانحہ کربلا کیوں ہوا، شہادت علی ؓ کا سانحہ کیوں پیش آیا اس کے صحیح تاریخی پس منظر سے واقف نہیں ہیں. اس کا صحیح تاریخی پس منظر جس سے تمام واقعات و سانحات کی معقول توجیہہ ہوسکتی ہے؛ وہ شہادت حضرت عثمان ؓ ہے اور بیشتر صحابہ بھی اس کو اسی پس منظر میں دیکھتے تھے مگر ایک طویل پروپیگنڈے کے زریعہ سے شیعہ حضرات اس کو ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور اب بھی سنی اہل علم بس سنی سنائی رطب و یابس کو دہراتے رہتے ہیں۔ خود سے تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے“۔

                تبصرہ آپ نے دیکھا نہ جانے کتنے سادہ لوح اس بے جان اور غیر علمی تبصرے کو دیکھ کر اس کے دام ہمرنگ زمین میں گرفتار ہوئے ہوں گے

 نہیں معلوم کس کس کا یقین زائل ہوا ہوگا 

 حقائق دوست ”فاضل “ کے قلم کی ایک جنبش سے

 فاضل مبصر جناب ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی صاحب کی خدمت بصد ادب و احترام عرض ہے کہ مضمون نگار کو نہ تو ہمہ دانی کا زعم ہے اور نہ تاریخی بصیرت کا دعویٰ۔ اس قدر ضرور ہے کہ پہلی صدی ہجری سے لے کر اب تک واقعہ کربلا عربی میں جو کچھ لکھا جاچکا ہے وہ سیرت ، طبقات ، رجال اور تاریخ کی مستند اور معتبر کتابوں میں موجود ہے۔ پچلھے سو سال کے دوران عالم عرب کے بلند پایہ مورخین اور محققین نے واقعہ کربلا اور بنو امیہ پر جو تحقیقی کتابیں تیار کی ہیں؛ اس کا اکثر حصہ مضمون نگار کی نظروں سے گزرا ہے۔ طبقات ابن سعد ، الاستیعاب ، اسد الغابہ، الاصابہ، سیر اعلام النبلاء؛ ابن جریر طبری کی تاریخ ، البلا ذری کی انساب الاشراف ، ابن اثیر کی الکامل، ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ اور مسعودی اور ابوالقداءجیسے مستند مورخین کے حوالے ہماری کتابوں میں آئے ہیں۔ واقعہ کربلا پر اردو میں جو معتبر کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں اکثر مضمون نگار کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں۔

                ”واقعہ کربلا“ عربی اور اردو کی مستند کتابوں سے تیار کیا گیا ہے۔ مضمون اخبار کیلئے لکھا گیا تھا. اخباری مضامین میں عموماً حوالے نہیں لکھے جاتے مگر اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ مضمون  غیر مستند اور بازاری روایات پر مبنی ہوں۔ زیر بحث مضمون واقعہ کربلا عربی اور اردو کی مستند کتابوں سے ماخوذ ہے۔ تاہم مضمون نگار ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا“ کا دعویٰ نہیں۔ یہ دعویٰ انہیں کو زیب دیتا ہے جو احادیث و روایات کے وسیع ذخیرے کو کھنگالے بغیر اور واقعات کو درایت کے اصولوں پر جانچے بنا قلم اٹھا کر کاغذ کی ہوش رباگرانی اور طباعت کی لاگت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

                فاضل مبصر نے لکھا ہے کہ یہ مضمون  ‘قتل حسین’ سے لیا گیا ہے جو ایک رافضی شخص ابو مخف یحییٰ بن لوط نے سنی سنائی باتوں سے تیار کی ہے۔ فاضل مبصر کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ‘قتل حسین’ میرے پاس نہیں ہے اور نہ ہم ابو مخف کی روایات کو درخور اعتنا سمجھتے ہیں؛ تاوقتیکہ روایت مستند مورخین کی کتابوں میں دوسرے مستند ماخذ سے نہ آئی ہو۔ فاضل مبصر نے ابو مخف کے نام میں گڑ بڑ کی ہے. ابو مخف کا پورا نام ابو مخف لوب بن یحیٰ بن سعید ہے ( دیکھئے شیخ محمد بن طاہر بن علی القصی کی کتاب ” کتاب المغنی فی ضبط السماءفِرواة النباء“ تحقیق و تعلق شیح زین العابعین الاغطمی حاشہ ص ص ۸۴۲۔ ۹۴۲) عراق کے نامور محقق ڈاکٹر جواد علی نے تاریخ طبری ( تاریخ الام و الملوک) کے ماخذوں پر ایک تنقیدی اور تحقیقی جائزہ تیار کیا ہے جس کا ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی صاحب موحوم نے اردو میں کیا ہے، اس میں بھی ابو مخف کا نام ابو محنف لوب بن یحییٰ بن سعید دیا گیا ہے۔ پتہ نہیں فاضل مبصر نے نام کیوں غلط دیا ہے۔ فاضل مبصر کی نظروں سے طبری کی تاریخ گزری ہوگی۔ اس میں طبری نے ابو مخف لوط بن یحییٰ بن سعید سے روایات لی ہیں مگر ان روایات کی محققین نے تحقیق کرکے ان پر تنقید کی ہے۔ طبری ہی نہیں دوسرے تذکرہ نگاروں اور مورخوں نے بھی شیعہ مورخ ابومخف کی روایات لی ہیں مگر محققین نے ان روایات کی چھان پھٹک کی ہے کیوں کہ وہ علماءاہل سنت کے یہاں ناقابل اعتبار ہیں۔

                فاضل مبصر نے لکھا ہے کہ لون صاحب کا مضمون بھی رطب و یا بس سے بھرا ہوا ہے۔ موصوف کو چاہئے تھا کہ رطب وبابس کی نشاندہی کرتے، مگر ایسا نہ کرکے انہوں نے مضمون کے بارے میں قارئین کے دماغوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاضل مبصر ہرگز ایسا دعویٰ نہ کرتے اگر انہوں نے ابن سعد، البلاذری، ابن جریر طری، ابن عبدالبر، ابن اثیر، حافظ ذھبی، ابن کثیر، ابن حجر عسقلانی کو نہ سہی ، الدکتورعلی محمد الصلالی کی تاریخ ” الدولة الامویة“ ہی دیکھی ہوتی ۔مضمون واقعہ کربلا میں وہی چیزیں ہیں جو طبقات رجال اور تاریخ کی انہی کتابوں میں آئی ہیں۔ لبنان کے مشہور مورخ عمر ابو نصر نے ” الحسین“ کے عنوان سے جو کتاب لکھی ہے؛ واقعہ کربلا لکھتے وقت وہ بھی پیش نظر رہی ہے۔ فاضل مبصر نے حضرت مولانا محمد شفیع صاحب کی مختصر کتاب ” شہید کربلا“ ہی دیکھی ہوتی تو بھی واقعہ کربلا پر اس قدر سطحی تبصرہ نہ کرتے۔ عمر ابو الضر اور مفتی محمد شفیع صاحب کی کتابوں میں وہ سارا مواد موجود ہے جو مضمون ” واقعہ کربلا“ میں آیا ہے عمر ابوالنصر نے یوم شہادت ١٠ محرم ۱۶ ھ ٢٨ اکتوبر ٦٨١ ءدیا ہے۔ ہم نے تقویم دیکھی تو معلوم ہوا ٦١ ھ کا سال ۲ اکتوبر ٦٨١ ءکو شروع ہوا ہے اس لئے حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ ٢٨ اکتوبر کو نہیں بلکہ ۱۱ اکتوبر ٦٨١ ءکو ہوا ہے۔ تاہم اس سے عمر ابو النصر علی کی شان کم نہیں ہوتی۔

                واقعہ کربلا پر اردو میں جو کتابیں موجود ہیں فاضل مبصر انہیں دیکھ لیتے تو بہتر رہتا مگر لگتا ہے کہ وہ قاضی ابو بکر ابن العربی ”العواصم من القواصم“ محمود عباسی کی تصانیف“ خلافت معاویہ و یزید“ اور تحقیق مزید بر خلافت معاویہ و یزید“ اور مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب مرحوم کی کتاب ” واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر“ سے متاثر ہیں۔ ہم نے امام ابن تیمیہ کی منہاج السنہ اور شاہ عبدالعزیز دہلوی کی کتاب "تحفہ اثنا عشریہ “ کا نام نہیں لیا کیوں کہ یہ دونوں کتابیں بازار میں کمیاب ہیں البتہ کتب خانوں میں ملتی ہیں۔

                فاضل مبصر نے لکھا ہے کہ واقعہ کربلا کے بارے میں جو جھوٹے افسانے عوام میں مشہور ہیں ان کا ماخذ تنہا یہی کتاب یعنی ‘قتل حسین’ ہے۔ فاضل مبصر کے اس دعوے کے بارے میں عرض ہے کہ واقعہ کربلا کے جن واقعات کو جھوٹے افسانے کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ان کا ایک اچھا خاصا حصہ صحیح احادیث کے ذخیرے سے ماخوذ ہے۔

                حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن دوپہر کے وقت میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ۔ آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں خون سے بھری ہوئی بوتل تھی میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں صبح سے جمع کرتا رہا ہوں۔ حضرت ابن عباس خواب سے بیدار ہوئے تو انا لللہ وانا الیہ راجعون پڑھی۔ لوگوں نے ماجرا پوچھا تو کہا کہ حسین ابن علی شہید کردئے گئے۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا تو کہا کہ ابھی رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں خون سے بھری بوتل تھی۔ آپ نے فرمایا۔ میرے بیٹے حسین کو قتل کردیا گیا۔ یہ ان کا اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ میں نے اس تاریخ اور وقت کو یاد رکھا۔ جب خبر آئی تو پتہ چلا کہ وہ اسی وقت شہید ہوگئے تھے۔ یہ صحیح الاسناد حدیث ہے۔ (الدولہ الامویہ : ۷۲۵ ، تہذیب التہذیب مشکوٰة المصبابیح باب مناقب اہل البیت)

                حضرت اُم سلمہ ؓ کی ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت جبرائیل نے رسول اللہ ﷺ کو خبردی تھی کہ آپ کی اُمّت حضرت حسین کو قتل کردے گی۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو کربلا کی مٹی بھی لاکردی تھی۔ آپ ﷺ نے حضرت اُم سلمہ ؓ کو وہ مٹی عنایت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے۔ (اس روایت کی سند حسن ہے المعجم الکبیر لطبرانی ۳:۸:۱)

                حضرت حسین کی شہادت پر صحابہ کا رد عمل بھی کوئی افسانہ نہیں ہے۔ حضرت اُم سلمہ ؓ نے جب حضرت حسین کی شہادت کی خبر سنی۔ تو انہوں نے اہل عراق کو بددعادی اور انہیں لعن طعن کیا. صحیح حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک سائل نے سوال کیا کہ اگر (حالت احرام میں کپڑے پر) مچھر کا خون لگا ہو تو کیا حکم ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اہل عراق میں سے ہوں ۔ اسی پر حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا ۔ اسے دیکھو مچھر کے خون کے بارے میں فتویٰ پوچھتا ہے جبکہ انہیں لوگوں نے جگر گوشہ رسول ﷺ کو قتل کردیا حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ یہ دونوں (حضرت حسن اور حضرت حسین) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

 (صحیح البخاری حدیث: ۳۵۷۳: ۴۹۹۵، سنن الترمذی حدیث : ۰۷۷۳)

                صحیح حدیث ہی میں آیا ہے کہ ابن زیاد کے سامنے حضرت حسین کا سر لایا گیا اور طشت میں رکھا گیا۔ ابن زیاد چھڑی سے اسے چھیڑنے لگا اور کچھ کہنے لگا۔ حضرت انس بن مالک ؓ اس وقت موجود تھے۔ انہوں نے ابن زیاد سے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے. (صحیح البخاری حدیث: ۸۴۷۳، سنن الترمذی حدیث: ۸۴۷۳)

                حضرت حسین کی شہادت کے بعد حرہ کا واقعہ پیش آیا جس میں مدینہ منورہ کی حرمت پامال کی گئی۔ یزید نے مدینہ منورہ پر فوج کی قیادت کیلئے عمر وبن سعید کو کہا مگر وہ نہ مانے۔ ان کے انکار پر یزید نے ابن زیاد کو حکم دیا کہ وہ مدینہ منورہ پر فوج لے کر جائے اور اہل مدینہ کو مغلوب کرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خلاف مکہ پر فوج کشی کرے۔ مگر ابن زیاد اب اس قدر رسوا ہوچکا تھا کہ اس نے یہ کہہ کر یزید کاحکم ماننے سے انکار کردیا کہ میں ایک فاسق کیلئے اب ہر گز دوکام نہیں کروں گا نواسہ رسول ﷺ کو بھی قتل کروں اور بیت اللہ پر بھی چڑھائی کروں۔ جب ابن زیاد نے بھی انکار کیا تو یزید نے مسلم بن ولید بن عقبہ  کو فوج کا قائد بنایا اور اسے حکم دیا کہ جب تم اہل مدینہ پر غلبہ پاؤگے تو تین روز تک مدینہ تمہارے لئے مباح ہوگا (یعنی لوٹ مار، درندگی کی کھلی چھوٹ ہوگی. ) ذی الحجہ ٦٣ھ کے آخر میں مسلم مدینہ منورہ کے قتل عام لوٹ مار سے فارغ ہوا۔ اہل مدینہ سے جبراً یزید کے نام پر بیعت لی۔ اگر کوئی کہتا کہ میں کتاب و سنت پر بیعت کرتا ہوں؛ تو اسی وقت اسے قتل کردیتاتھا۔ واقعہ حرہ کی ہولناکیوں کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن حنظلہ ؓ ‘غسیل الملائکہ’ ایک ایک کرکے اپنے بیٹوں کو جنگ کیلئے آگے بڑھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے آٹھ بیٹے شہید ہوئے۔ ان کا بھائی بھی شہید ہوا وہ خود بھی شہید ہوئے۔ حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے کہ واقعہ حرہ کے بعد ان صحابہ میں سے کوئی نہیں بچا جو صلح حدیبیہ میں شریک تھے۔

                مسجد نبوی میں تین روز اذان اور اقامت نہیں ہوئی۔ محرم ٦٤ھ کا چاند نظر آیا تو مدینہ منورہ میں لوٹ مار کا بازار بند ہوا۔

                یکم محرم ٦٤ ھ مسلم بن ولید بن عقبہ مری نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے خلاف جنگ کرنے کیلئے کعبہ کا قصد کیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کعبہ ہی میں مقیم تھے۔ راستے میں ایک مقام پر مسلم بیمار پڑا تو اسے حصین بن نمیر السکونی کو فوج کا قائد بنایا اور یہ الفاظ کہتے ہوئے جان دی:

                ” اے اللہ! میں نے لاالٰہ الا اللہ وان محمد عبدہ و رسولہ کی گواہی کے بعد کوئی ایسا عمل نہیں کیا ہے جو مجھے مدینہ کے قتل عام سے زیادہ محبوب ہو اور آخرت میں اس عمل سے بڑھ کر میرے لئے کوئی اُمید نہیں ہے۔ اگر اس کے بعد بھی آگ میں داخل ہوجاؤں تو میں بدبخت ہوں۔ (الدولة الامویہ ۱:۶۴۵)

                حالانکہ صحیح حدیث میں آیا ہے، جو اہل مدینہ کو ڈرائے اسے اللہ ڈرائے اور اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کوئی نفل یا فرض قبول نہیں کرے گا. (مسند امام احمد بن حنبل )٢٦ محرم ٦٤ھ کو یزید کی فوج حصین بن غیر کی قیادت میں مکہ کے قریب پہنچی اور اہل مکہ سے یزید کی بیعت کرنے کو کہا۔ یزید کی فوج نے اپنے قائد کی قیادت میں خانہ کعبہ کے گرد کی پہاڑیوں پر منجنیق نصب کردی اور کعبہ پر سنگ باری شروع کی۔ صفر کے مہینے میں سنگ باری جاری رہی۔ کوئی شخص خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرسکتا تھا۔ ۳ ربیع الاول کو یزیدی فوجوں نے خانہ کعبہ پر آگ برسائی جس سے اس کی چھت اور اس کے پردے جل گئے۔ ٢١ ربیع الاول ٦٤ ھ کو یزید کا انتقال ہوگیا۔ ربیع الآخر کا چاند جس روز نظر آیا اسی روز حالت جنگ میں یزید کے مرنے کی خبر مکہ پہنچی ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے شامی فوجوں کو پکارا کہ اے شامیو! تمہارا گمراہ کرنے والا مرگیا۔ اس کے ساتھ ہی شامی فوج ذلت کھا کر پسپا لوٹی۔ اور حضرت عبداللہ بن زبیر کا محاصرہ ختم ہوا۔ یزید نے تین سال آٹھ ماہ حکومت کی اور وہ ٣٨ سال کی عمر میں فوت ہوا ۔

                واقعہ کربلا، واقعہ حرہ اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی یزید کے مختصر دور حکومت میں پیش آئے ہیں۔ اول الذکر واقعہ میں اگر چہ ابو مخف کی رنگ آمیزی کہی جاتی ہے مگر بعد کے دو واقعات کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔

                واقعہ کربلا کی سنگینی کا اندازہ خود بنواُمیہ کے افراد کی زبان سے ہوسکتا ہے ۔ مروان جس نے ولید بن عقبہ سے مدینہ میں کہا تھا کہ انہیں بغیر بیعت لئے جانے نہ دیں؛ نے جب سنا کہ حضرت حسین مکہ سے روانہ ہوچکے ہیں تو انہوں نے ابن زیاد کو خط لکھا کہ حسین ؓ تمہاری طرف نکلے ہیں اور وہ حسین ابن فاطمہ ؓ ہیں اور فاطمہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہیں۔ وہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں۔

                یزید کو ابن زیاد کے بارے میں ایک عیسائی مشیر سرحون نے مشورہ دیا تھا مگر بنو امیہ اور حکومت کے بڑے بڑے منصب دار بھی اس کی کمینہ فطرت سے واقف تھے چنانچہ عمر و بن سعید بن عاص نے بھی ابن زیادہ کو حضرت حسین سے معاملہ کرتے وقت نرمی برتنے کی نصیحت کی تھی اور لکھا تھا کہ حسین سے سامنا ہو تو احتیاط سے کام لینا ۔ مدینہ میں ولید بن عتبہ نے حضرت حسین کو یزید کی بیعت کرنے کیلئے بلایا تو مروان نے کہا تھا کہ بغیر بیعت لئے ان کو جانے مت دینا جس پر ولید نے کہا تھا کہ اگر مجھے ساری دنیا کی دولت اور بادشاہی دی جائے اور کہا جائے کہ یزید کی بیعت نہ کرنے پو نواسہ رسول کو قتل کردوں تب بھی قبول نہیں کروں ۔ حسین کا قاتل قیامت میں سب سے زیادہ خفیف المیزان ہوگا جس پر مروان نے بھی کہا ہاں بات سچ ہے۔ یہ خانوادہ رسالت ہی کا احترام تھا جس نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ کو کوفہ میں حضرت مسلم کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے باز رکھا۔

                حضرت حسین کے قتل سے خود یزید کا خاندان خوش نہ تھا۔ دمشق میں کربلا کے واقعے کی خبر پہنچی تو یزید کے محل خانے سے اس کی بیوی باہر نکلی اور بال نوچتے ہوئے رو رو کر یزید کو لعن طعن کرنے لگی۔ خود یزید اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر بار بار ابن مرجانہ (ابن زیاد) پر لعنت کیاکرتا تھا اور ابن زیاد کی ماں نے ابن زیاد سے کہا کہ تم پر افسوس ! تم نے یہ کیا کیا ؟ ابن زیاد کا بھائی عثمان بن زیاد تھا۔ وہ بھی حضرت حسین کے قتل سے نالاں تھا.

                ابن زیاد کی فطرت مسخ ہوئی تھی۔ حضرت عائد بن عمرو ؓ جیسے صحابی اس کے پاس آئے اور تعجب کرتے ہوئے ابن زیاد سے کہا بیٹے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ بد ترین حکمران ظالم ہونگے ۔ خبردار تم ان میں سے مت ہوجانا تو اس نے صحابی رسول ﷺ سے کہا بیٹھ جاؤ. تم تو اصحاب محمد کا بھوسہ ہو جس پر حضرت عائذ نے کہا؛ کیا ان میں بھوسہ ہوتا تھا بھوسہ تو ان کے بعد والوں اور ان کے سوا دوسروں میں ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم حدیث: ۰۳۸۱، مسند امام بن حنبل حدیث: ۳۱۹،۳)

                ابن زیاد کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ شہادت حسین کے ٹھیک پانچ سال بعد یوم عاشورہ ١٠ محرم ۶۶ ھ کو اسی محل میں ابن زیاد کا سرکاٹ کر مختار تقی کے سامنے پیش کیا گیا جس میں حضرت حسین کا سر ابن زیاد کے سامنے پیش ہوا تھا۔ مختار نے ابن زیاد اور عمر ابن سعد کے سر امام زین العابدین کے پاس بھیج دئے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ابن زیاد کا سر مسجد میں رکھا گیا۔ لوگ دیکھ رہے تھے۔ ایک سانپ آیا اور سر کے ایک نتھنے میں داخل ہوکر دوسرے سے نکل گیا۔ دو تین بار سانپ نے ایسا کیا پھر غائب ہوا۔ (سنن الترمذی حدیث: ۰۸۷۳)

                عمرابن سعد قتل حسین سے بچنا چاہتے تھے مگر ابن زیاد کے دباو اور شمر کی سازشوں سے حضرت حسین کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ ہوئے۔ شہادت حسین کے بعد ان کے دوست حمید بن مسلم جو کربلا میں اس کے ساتھ تھے اس کی خیر و عافیت پوچھنے لگے تو عمر بن سعد نے کہا:

                ”میرا حال مت پوچھ کوئی غائب اس سے بڑا شر لیکر اپنے گھر نہیں لوٹا ہے جو میں لے کر لوٹا ہوں۔ میں نے قریبی قراپت کو قلع کیا اور بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا۔

                قاتلاں حسین کا انجام بہت برا ہوا۔ شمر، خولی بن یزید ا، سنان وغیرہ سب کے سب برے انجام کو پہنچے. خود یزید کو واقعہ کربلا ، واقعہ حرہ اور محاصرہ کعبہ سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنو امیہ کے صالح اور دیندار خلیفہ عادل کے سامنے ایک شخص نے امیر المومنین یزید کہا تو خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ تم یزید کو امیر المومنین کہتے ہو؟ چنانچہ انہوں نے اسے تیس کوڑے لگوائے۔ (تہذیب التہزیب تاری الخلفاءص ۲۴۱)

                تاہم محتاط علماءیزید پر لعنت کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ امام احمد بن حنبل ، امام غزالی اور امام ابن تیمیہ بھی لعنت کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ بیدل عظیم آبادی کا شعر ہے

 اوقات کہ صرف گشت در لعن یزید

اے کاش شدے صرف درود حسین ؓ

                جو عمارت یزید پر لعن طعن کرنے میں صرف ہوں؛ کاش وہ حضرت حسین پر درود بھیجنے میں صرف ہوجائیں۔

4 تبصرے
  1. سہیل بشیر کار* کہتے ہیں

    بہترین مضمون

  2. سلیم مکائی کہتے ہیں

    نہایت عمدہ مضمون۔ اللہ ڈاکٹر لون صاحب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے

  3. دلاور حسین کہتے ہیں

    کلمہ کا آغاز ہی لا سے ہوتا ہے یعنی پہلے طاغوت سے انکار و بیزاری مطلب یزید اور یزیدیت کا انکار اور لعنت

  4. خورشید احمد کہتے ہیں

    ڈاکٹر لون ایک ثقہ محقق ھیں ان کی تحریر بازاری نہیں ھو سکتی اس کی گواہ ان کی کتب مطالعہ تصوف ، قرون وسطی کے مسلمان سانس دان و دیگر تصانیف ہیں

تبصرے بند ہیں۔