بہار کا سیاسی بدلاؤ سیاست میں انقلاب کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا

عادل فراز

بالآخر نتیش کمار نے بی جے پی کاساتھ چھوڑ کر آرجے ڈی سے اتحاد قائم کرلیا۔ بی جے پی اب تک حیرت زدہ ہے کہ وہ صورتحال کو سمجھنے میں کہاں غچّا کھاگئی۔ کیونکہ اسے یہ توقع نہیں تھی کہ نتیش کمار اچانک پالا بدل لیں گے۔ لیکن کیا بی جے پی اپنے تربیت کردہ نتیش کمار کی فطرت سے آگاہ نہیں تھی؟اگر ایسا ہے تو یہ بی جے پی کی بڑی سیاسی شکست ہے۔ مشکل یہ ہوئی کہ حزب اقتدار بی جے پی نے بہار کو مہاراشٹر سمجھ لیا تھا۔بی جے پی نے شیوسینا کے لیڈر ایکناتھ شندے کے ساتھ مل کر جس طرح اُودھوٹھاکرے کے پیروں تلے سے سیاسی بساط کھینچ لی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ صورتحال یہ ہے کہ شیوسینا کے وجود پر خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔ایک وقت وہ تھا کہ جب اُودھوٹھاکرے کو محسوس ہورہا تھا کہ شیو سینا کے ہر لیڈر میں کہیں نا کہیں بغاوت پنپ رہی ہے، اسی لئے وہ وقت رہتے ہوئے سرکاری رہائش گاہ چھوڑ کر اپنے گھر منتقل ہوگئے تھے۔شیوسینا میں بغاوت نمودار ہوتی تو تعجب نہیں ہوتا۔ تعجب خیز یہ تھاکہ شیوسینا کے تمام باغی لیڈروں کی نکیل دیویندر فڑنویس کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ جس طرف انہیں ہنکاتے سب بغیر کسی تامل کے اسی طرف کو چل پڑتے تھے۔ بی جے پی نے انہیں ایسے سبز باغ دکھلائے کہ شیوسینا کے ٹکٹ پر جیت کر آنے والے لیڈر شیوسینا کو ہی دھوکہ دے بیٹھے۔ اور پھر دنیا نے وہ نظارہ بھی دیکھاکہ جب باہم پریس کانفرنس میں دیویندر فڑنویس نےبادل نخواستہ ایکناتھ شندے کے وزیراعلیٰ ہونے کا اعلان کیااور اپنی سیاسی حیثیت کے زوال کا مرثیہ بھی نہیں پڑھ سکے۔ فڑنویس نے گنگاکا دھارا اپنے لئے موڑا تھا مگر نہا کوئی اور گیا۔ بہار میں نتیش کمار کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلا جارہا تھا۔ مگر نتیش کمار کے سیاسی تجربے نے ان کی کرسی پر آنچ نہیں آنے دی۔ انہیں محسوس ہوگیا تھاکہ ان کے لیڈروں کو بغاوت کے لئے اکسایا جارہاہے لہذا نتیش کمار نے فوراً پالا بدلا اور عظیم اتحاد میں لوٹ آئے۔ یوں بھی اقتدار کی ہوس میں عظیم اتحاد سے کنارہ کشی نتیش کمار کی بڑی غلطی تھی، جس کا احساس نتیش کمار کو بہت دیر میں ہوا۔

نتیش کمار کو معلوم تھاکہ بی جے پی سے مقابلے کے لئے ان کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ اسمبلی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کےباوجود بی جے پی نے انہیں وزیر اعلیٰ کی کرسی سونپ کر ایثار نہیں کیا تھا، بلکہ بی جے پی کا اصلی ہدف تیجسوی یادو کو کمزور کرنا تھا۔ کیونکہ اسمبلی انتخابات کےدوران ریلیوں میں تیجسوی یادو کی عوامی مقبولیت ہر کسی کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔ تیجسوی یادو ریاست بہار کے ابھرتے ہوئے لیڈر ثابت ہورہے تھے۔ بی جے پی کو اصلی خطرہ نتیش کمار سے نہیں بلکہ تیجسوی یادو سے تھا۔ اگر تیجسوی یادو وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ جاتے تو بی جے پی کے لئے درد سر بن سکتے تھے۔اس کے بعد بہار میں بی جے پی کا زمینی کیڈر کمزور ہوسکتا تھا۔ اس لئے بی جے پی نے اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نتیش کمار کو اپنا لیڈر منتخب کرلیا اور وزیر اعلیٰ کی کرسی انہیں سونپ دی۔بی جے پی نےکوئی ایثار نہیں کیا تھا بلکہ بہار میں اپنے زمینی کیڈر کو مضبوط کرنے اور اپنے سیاسی وقار کو محفوظ رکھنے کے لئے جواکھیلا تھا۔ اب جبکہ نتیش کمار بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کوریاست بہار میں نافذ کرنے سے کترارہے تھے، بی جے پی نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی پالیسی پر کام شروع کردیا۔ اس خطرہ کو نتیش کمار نے بہت پہلے بھانپ لیا تھا اس لئے وقت رہتے ہوئے انہوں نے بی جے پی سے دامن چھڑانے میں عافیت جانی۔ جس وقت پورا ہندوستان نفرت کی آگ میں جھلس رہا تھا اس وقت بھی بہار میں نفرت اور تقسیم کی سیاست کا اثرکم دیکھا گیا۔ بی جے پی چاہتی تھی کہ اپنے نفرت کے ایجنڈہ کو بہار میں اسی طرح نافذ کرے جس طرح اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں نافذ کیا جاچکاہے، مگر نتیش کمار نے اس کے تمام سیاسی حربوں کو ناکام بنادیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ ریاست بہار میں نتیش کمار کو ہر ذات اور مذہب کے لوگوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ نتیش کمار جانتے تھے کہ اگر انہوں نے بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کو بہار میں نافذ کرنے کی کوشش کی تو ان کی رہی سہی سیاسی ساکھ بھی دائو پر لگ جائے گی۔ اس کا خمیازہ نتیش کمار کو بھگتنا پڑ سکتا تھا اگر وہ ماہر سیاست مدار کی طرح وقت پر بی جے پی سے کنارہ کشی اختیار نہ کرلیتے۔ یوں بھی ہندوستان کی سیاست میں جمہوری قدریں ختم ہوچکی ہیں۔ آج عوام کے مفاد میں سیاست نہیں ہوتی بلکہ سیاست مدار اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے پیش نظر سیاسی فیصلے لیتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال شیوسینا کے باغی لیڈروں کے ساتھ بی جے پی کا اتحاد اور ایکناتھ شندے کا وزیر اعلیٰ بنایا جاناہے۔ تیجسوی یادو کا نتیش کمار کے ساتھ اتحاد قائم کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اب اس کو کیا کہا جائے کہ بی جے پی نتیش کمار کو دھوکے باز قرار دےرہی ہے۔ اس کو کہتےہیں ’ سو چوہے کھاکر بلّی حج کو چلی ‘۔جبکہ یہی سیاسی کھیل بی جے پی مہاراشٹر میں شیوسینا کے ساتھ کھیل چکی ہے۔ اُودھو ٹھاکرے کو دھوکہ دینے والےایکناتھ شندے بی جے پی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں۔ سیاست میں دھوکہ دہی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2017 میں جس وقت نتیش کمار نے آرجے ڈی سے رشتہ توڑ کر بی جے پی سے اتحاد قائم کیاتھا، اس وقت لالو یادو نے انہیں دھوکہ باز کہا تھا۔ جبکہ لالو یادو اچھی طرح جانتے تھے کہ نتیش کمار نے بی جے پی کی نظریاتی آغوش میں پرورش پائی ہے اس لئے نتیش کا بی جے پی کے ساتھ چلے جانا ’’گھر واپسی‘ سے تعبیر کیاجاسکتا تھا۔ 2015 میں لالو یادو اور نتیش کمار نے متحد ہوکر الیکشن لڑا اور جیت حاصل کی۔ آرجے ڈی نے اسمبلی الیکشن میں اکثریت حاصل کی تھی، اس کے باوجود لالو یادو نے نتیش کمار کو وزیراعلیٰ بنایا،تاکہ اس اتحاد کو مزید تقویت مل سکے۔ لیکن نتیش تو پھر نتیش ٹھہرے۔انہوں نے لالو یادو کے ایثار کو پس پشت ڈالتے ہوئے اچانک آرجے ڈی سے تعلقات منقطع کرکے بی جے پی سے سیاسی اتحاد قائم کرلیا۔ لالو یادو بھونچکے رہ گئے اوربہار کی عوام سیاست مداروں کی فریب دہی اور طوطا چشمی کو دیکھ کر انگشت بدنداں نظر آئی۔ اس طوطا چشمی کا خمیازہ نتیش کمار کو 2020 کے اسمبلی الیکشن میںاس طرح بھگتنا پڑا کہ ان کی پارٹی محض 40 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی۔ نتیش کمار کی سیاسی جڑیں کاٹنے کاکام ان کی حلیف جماعت بی جے پی نے بھی کیا، جس کا پورا احساس نتیش کو تھا۔ چراغ پاسوا ن کو بہار کی سیاست میں جس طرح فعال کیا گیا اس کا نقصان صرف نتیش کو پہونچا۔ مگر اس وقت نتیش کمار بے دست و پا تھے۔ ان کے پاس کوئی سیاسی متبادل موجود نہیں تھا اس لئے انہوں نے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کرلی۔ مگر وہ ہمیشہ موقع کی تاک میں رہے۔ یہ موقع انہیں دوسال بعد تیجسوی یادو کی شکل میں ملا اور وہ ایک بار پھر لالو یادو کے خیمے میں لوٹ آئے۔ بی جے پی کو اس بات کا قطعی احساس نہیں تھاکہ نتیش کمار اس کے ساتھ اتحاد ختم کرسکتے ہیں۔ نتیش کمار کا فیصلہ بی جے پی کے لئے ناقابل یقین تھا اس لئے بی جے پی انہیںدھوکہ باز قرار دے رہی ہے۔ جبکہ بی جے پی یہ بھول رہی ہے کہ نہ جانے کتنی ریاستوں میں اس نے اپوزیشن کی حکومت گراکر اپنی حکومت قائم کرلی ہے۔ کیا یہ عمل دھوکہ دہی نہیں ہے ؟یہ ایسا سیاسی حمام ہے جس میں سب ننگے ہیں۔

نتیش کمار وزیر اعلیٰ کی کرسی کھونا نہیں چاہتے تھےاور تیجسوی یادو اپنی عوامی مقبولیت کی بازیابی کے لئےہاتھ پیر ماررہے تھے۔عوامی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے اقتدار کا حصول ضروری تھا اس لئے نتیش کمار کے مقابلے میں اکثریت ہونے کے باوجود بی جے پی کی طرز پر تیجسوی یادو نے نتیش کمار کو ہی وزیراعلیٰ کی کرسی کے لئے مناسب امیدوار سمجھا۔ورنہ وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لئے نتیش کمار سے بہتر تیجسوی یادو ثابت ہوسکتے تھے۔ مگرتیجسوی یادو نے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظروزیر اعلیٰ کے عہدہ کی قربانی دے کرمنجھے ہوئے سیاست مدار ہونے کا ثبوت دیا۔ کیونکہ اقتدار میں رہتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو ریاست بہار میں شکست دینا ممکن ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تیجسوی یادو اور نتیش کمار کا یہ اتحاد کیا گل کھلاتاہے۔ یہ دونوں ایسے لیڈر ہیں جو بہار کے عوام کی سیاسی نبض کو پہچانتے ہیں۔ نتیش کمار کا طویل تجربہ اور تیجسوی یادو کا جوان خون کس حدتک بہار میں سیاسی بدلائو لاسکتاہے، یہ تو عنقریب معلوم ہوجائے گا۔ البتہ تیجسوی یادو کو نتیش کمار کے سیاسی پینتروں سے ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ وہ اقتدار کے لئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ اس کا تجربہ تیجسوی یادوا بھی کرچکے ہیں اور ان کے والدلالو پرساد یادو بھی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نتیش کمار کا ساتھ لوک سبھا انتخابات میں تیجسوی کو مہنگا پڑ جائے۔ کیونکہ عوام نتیش کمار کی طوطا چشمی اور مکر طبیعت سے تنگ آچکی ہے، اس کا اندازہ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں ہوچکاہے۔ اس لئے تیجسوی کو حالات پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سیاسی اتحاد آرجے ڈی کو بھاری پڑجائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔