غزوہ بدر: تاریخ اسلام کی اہم جنگ

پروفیسر حکیم سید عمران فیاض

                جنگ بدر جو 17 رمضان المبارک 6 ہجری کو لڑی گئی، تاریخ اسلام کی ایک اہم ترین جنگوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ حق اور باطل، اندھیرے اجالے کا معرکہ تھا۔ حق نے فتح پائی اور باطل نے شکست کھائی۔ اندھیرا چھٹ گیا اور اجالا ہر طرف چھا گیا۔

                غزوہ بدر بطور ایک فوجی معرکے کے کتنا ہی غیر اہم سہی لیکن اس غزوہ نے محمدؐ کی دنیاوی طاقت و حکومت کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ اسلام نے اپنی پہلی اور فیصلہ کن فتح حاصل کر لی تھی اور یہ فتح نئے مذہب کے لیے خدائی تائید و تصدیق تصور کی گئی تھی۔ اسلام کے اسی پہلے مسلح تصادم میں جس جذبہ نظم و ضبط اور موت سے جس حقارت و بے پرواہی کا مظاہرہ کیا گیا وہ اسلام کی تمام آئندہ عظیم تر فتوحات میں اس کا ایک امتیازی وصف ثابت ہوا ہے۔ (از فلپ کے پٹی امریکی مورخ ’’ہسٹری آف دی عرطس‘‘)

                عہد حاضر کا ایک فاضل انگریز مصنف لیفٹنٹ جنرل سرجان گلب رقم طراز ہے کہ بدر فتح اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی (عربوں کی عظیم فتح)۔ جنگھ کی اجازت دیتے ہوئے نبیؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کو اِن مظلوموں کی نصرت پر قدرت ہے ‘‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں اسی جنگ کا نام ’’یوم الفرقان‘‘ ہے۔ کیونکہ اہل کتاب اور اہلِ اسلام کو ان پیش گوئیوں کی وجہ سے اسلام کی صداقت پر ایک عمدہ دلیل مل گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید فرقانِ حمید میں ان الفاظ میں فرمایا ہے ’’خدا نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم کمزور تھے، اب اللہ کے تقویٰ کا اختیار کرو تا کہ اسی کے شکر گزار بنو۔ ‘‘ (آل عمران )

                مسلسل 13 سال سے آپؐ توہین اور اذیتیں برداشت کرتے رہے تھے اور اس کا انعام مزید تحقیر اور مزید اذیتیں و تکلیفیں تھیں۔ مدینہ آ جانے کے باوجود آپؐ جانتے تھے کہ چند ماہ تک آپ کے دشمن پھر آپؐ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوں گے۔ 13 سال تک ظلم سہنے اور مصیبتیں جھیلنے کے بعد اب آپؐ نے یک لخت فیصلہ کر لیا کہ اب مزید برداشت سے کام نہ لیں گے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ یہ بات بالکل روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ یہ قریش ہی تھے جن کی ہٹ دھرمی کی بدولت وہ بے یارو مدد گار بن کر رہ گئے تھے اور اس صورت حال سے نبٹنے کے لیے صرف ایک راستہ تھا اور وہ یہ کہ اب قریش کو اپنی حد سے نہ بڑھنے دیا جائے۔

                حضرت محمد ؐ کے طاقت استعمال کرنے کا ایک سبب خود قریش تھے۔ آپؐ کے خلاف ابو جیل کی دشمنی کے جنون میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ وہ مسلسل حملہ آور جماعتیں بھیج رہا تھا۔ جو مسلمانوں کی چھوٹی اور بکھری ہوئی جماعتوں پر چھپ کر حملے کرتے رہتے تھے اور اسی نے چند ایک حملے مدینے کے قرب و جوار میں بھی کیے اور کھیتوں اور باغات کو نقصان پہنچایا۔ اس کا مقصد حضرت محمد ﷺ پر واضح کر دینا تھا کہ آپؐ کے متعلق اس کے خیال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی اور دونوں فریقین کی نظر میں اس کا ایک ہی حل تھا کہ لڑ کر فیصلہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ کر کے حضرت محمد ﷺ ایک ایسا اصول وضع کر  رہے تھے جو آئندہ چل کر دین اسلام کا ایک باضابطہ عقیدہ بن گیا۔ یعنی جہاد یا مزہبی جنگ جو اگرچہ مذہبی طور پر فرق نہ تھا۔ لیکن اسی جذبہ نے آئندہ زمانے میں اسلام کو دنیا کے گوشہ گوشہ تک لے جانے میں کام کیا جو کسی اور ذریعہ سے نہیں ہو سکتا تھا۔

                حضرت محمد ﷺ پر جہاد کی تعلیم دینے کے سلسلے میں بڑے اعتراضات لیے گئے ہیں۔ خصوصاً ان سوانح نگاروں نے جو آپؐ کو (نعوذ باللہ) جھوٹا ہی خیال کرتے ہیں۔ آپؐ پر بڑے حملے کیے ہیں اور اسیا ظاہر کیا ہے کہ گویا مذہبی جنگ کی تبلیغ پہلے پہل آپؐ نے کی۔ غالباً وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت قدیم زمانے سے زیادہ تر لڑائیوں کا محرک اصل یا ثانوی مذہب ہی رہا ہے۔ حقیقت میں جنگ حضرت محمدﷺ کے لیے ناگزیر اور مصلحت کا تقاضا تھی۔ جو بعد میں سود مند ثابت ہوئی لیکن آپؐ ان عرب حملہ آوروں کی طرح نہ تھے۔ خون بہانہ جن کی عادت تاثیر بن چکی تھی اور اگر قریش آپؐ کو اپنے دین کی پرسکون تبلیغ کے لے تھوڑا سا بھی موقع دے دیتے تو لڑائی کا خیال بھی آپؐ کے دل میں نہیں آتا۔

                جنگ بدر کی ایک خاص بات میں یہاں بیان کرتا چلوں کہ اسی جنگ میں اصحابِ رسول اللہ ﷺ نے جس ایثار و جانثاری کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے کسی بھی پیغمبر کو ایسے جاں نثار ساتھی نصیب نہ ہوئے۔ ذیل کے واقعہ سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔

                جب قریش کی پیش قدمی کی خبریں رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپؐ نے اپنے رفقاء کو مشاورت کے لیے طلب فرمایا۔ سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی رائے پیش کی اور رسول اللہ ﷺ کو اختیار دیا کہ وہ جس طرح مناسب سمجھیں کریں۔ ان کے بعد حضرت مقداد بن عمرؓ تھے اور بڑے موثر انداز میں اس طرح گویا ہوئے ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ وہی کچھ کریں جو آپؐ کے رب نے آپؐ کو سمجھایا ہے۔ ہم خدا کی قسم آپؐ کے ساتھ ہیں اور اگر آپؐ ہمیں یمن کی آخری پہاری بزل انعاد تک بھی لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ چلیں گے اور پیچھے نہیں رہیں گے۔ ‘‘ (ابن الھق، بن الہشام، ابن معد وغیرہ )

                صحیح بخاری کے مطابق جناب حضرت مقداد بن عمر ؓ نے کہا تھا کہ ہم آپؐ کو وہ جواب نہیں دیں گے جو موسیٰؑ کی قوم نے موسیٰ ؑ کو دیا تھا۔ ہم آپؐ سے نہیں کہیں گے کہ آپؐ کا خدا جانیں اور دشمنوں سے لڑیں گے اور ااپؐ کے دائیں بائیں بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔حضرت مقداد بن عمرؓ کے ان الفاظ سے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دمک اٹھا اور آپؐ کو بہت خوشی ہوئی۔

                رسول خدا ﷺ کا مقصد صرف رائے معلوم کرنا نہیں تھا۔ آپؐ تو انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے آپؐ نے انصار کی طرف اشارہ کیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب انصار کو محسوس ہوا کہ رسول اخدا ص کا اشارہ ہماری طرف ہے تو ان کے لشکر کے علمبردار سعد بن معاذ انصاری نے پیش ہو کر عرض کیا کہ جناب کا اشارہ ہماری طرف ہے ؟ فرمایا میرا اشارہ تمہاری طرف ہی ہے۔ یہ سنتے ہی سعد بن معاذؓ نے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار اس طرح کیا ’’یا رسول اللہؐ ! ہم آپ کی رسالت پا ریمان لائے، ہم نے آپؐ کی تصدیق مین سبقت کی، ہم نے قرآن کی توثیق کی، آپؐ کی اطاعت پر عہد مواثق کیا۔ پکا عہد کیا۔ خدارا آپؐ احکام خداوندی کی تعمیل میں ہماری طرف سے کوئی خدشہ دل میں نہ لائیں۔ خدائے یکتا کی قسم جس نے آپؐ کو معبوث فرمایا اگر آپؐ سمندر میں قدم رکھیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے کوئی فرد پیچھے نہ رہے گا۔ نہ ہم دشمن کا مقابلہ کرنے میں کوئی تاخیر کریں گے۔ ہم لڑائی کے میدان میں صابر اور مقابلہ کے موقع پر ثابت قدم رہیں گے۔ امید ہے ہماری وجہ سے اللہ تقالیٰ آپؐ کے دل کو ٹھنڈا رکھے۔ بہتر یہ ہے کہ آپؐ دشمن کو گھیرنے کے لیے جلدی کوچ فرمائیں۔ سعدؓ کی تقریر جاری تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے اور فرمایا اب یہاں سے کوچ کرو، خدا کی طرف سے فتح کی بشارت ہے۔ بخدا مکہ والوں میں سے ایک ایک کا مقتل میری آنکھوں کے سامنے ہے اور اس طرح مسلمان منزل طے کرتے ہوئے بدر کے قریب جا پہنچے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے۔ 313 نیم مسلح مجاہدوں نے پوری مسلح اور جنگی ساز و سامان سے آراستہ ایک ہزار کے لشکر کو بہت بری طرح مارا اور ایک ایسی عظیم الشان فتح حاصل کی جس نے تاریخ کا رخ ہی بدل دیا۔ بقول شاعر:

جو راہِ حق میں بسر زندگی نہیں کرتے

وہ ایسے دیپ ہیں جو روشنی نہیں کرتے

تبصرے بند ہیں۔