روزے کی بیش قیمت خصوصیات

مولانا سراج الدین ندویؔ

(چیرمین ملت اکیڈمی۔ بجنور)

اللہ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ان کی خوبیاں اور کمالات بے شمار ہیں۔ جن کا احاطہ انسان کے بس میں نہیں۔ ذیل میں چند اہم خصوصیات بیان کی جارہی ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا رب کتنا رحیم ہے اور اس نے ہماری تربیت اور نجات کی خاطر کیوں روزے فرض کیے ہیں۔

۱۔ روزہ تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ روزہ فرض کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اس کا جو مقصد بیان فرمایا تھا وہ یہی تھا کہ اس سے امید ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ اللہ کا ارشاد ہے۔

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، وہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس میں ہدایت اور حق و باطل میں فرق کرنے والی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ: ۱۸۳)

روزہ سے انسان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوتا ہے۔ روزہ انسان کو خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ آپ روزے کی حالت میں اسی لیے تو کچھ نہیں کھاتے پیتے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ یہی وہ احساس ہے جسے تقویٰ کہا جاتا ہے۔ مستقل تیس دن تک یہ احساس اک بندہ ٔ مومن کو باقی کے گیارہ مہینے تک خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس کراتا رہتا ہے۔ ذرا سوچیے کتنا بڑا فائدہ ہے یہ روزے کا۔ اور مجھے بتائیے روزے کے علاوہ وہ کونسی عبادت ہے جو یہ احساس اس درجے تک کراتی ہے کہ گویا انسان خدا کو دیکھنے لگتا ہے۔ وہ کسی تنہائی اور خلوت میں بھی روزے کو توڑنے والا کام نہیں کرتا۔

تقویٰ وہ قیمتی سرمایہ ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں سرخ روئی اور کامرانی عطا کرتا ہے۔ خدا کا ڈر انسان کو دنیا میں ہر گناہ سے باز رکھتا ہے۔ وہ کسی کا دل نہیں دکھاتا،کسی کا مال نہیں مارتا،کسی پر ظلم نہیں کرتا،سب کے حقوق ادا کرتا ہے،لوگوں کو معاف کردیتا ہے۔ لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ دیتا ہے اور اپنے حق سے کم پرراضی ہوجاتا ہے، بھلا بتائیے ایسے انسان سے دنیا میں کون ناراض ہوسکتا ہے۔ جو انسان مخلوق کے حقوق ادا کرتا ہو صرف اس لیے کہ اسے اللہ کو جواب دینا ہے تو پھر وہ اللہ کے حقوق سے کیسے غافل ہوسکتا ہے۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے پر دنیا میں عزت اور اللہ کے حقوق ادا کرنے پر آخرت میں کامیابی کیوں کر نہ ملے گی ؟یہ ہے روزے کی سب سے بڑی خصوصیت جو روزے دار میں پیدا ہوتی ہے۔

۲۔ روزہ ڈھال ہے۔ روزہ انسان کو گناہوں سے، اللہ کی نافرمانیوں سے اور معاصی سے بچاتا ہے۔ شر سے انسان کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ روزے کا بڑا فائدہ ہے۔ انسان گناہوں سے دور رہ کر اپنے اخلاق و کردار سنوارتا ہے۔

۳۔ روزہ مغفرت کا ذریعہ ہے۔ روزے کی وجہ سے روزے دار کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ یہ روزے کا بڑا فائدہ ہے۔ ایک بندے کی معراج یہی ہے کہ اللہ اس سے خوش ہوجائے اور اسے معاف کردے۔ روزے دار کی بخشش کی خوش خبری حدیث میں بیان کی گئی ہے۔

من صام ایماناً واحتساباً غفر لہ ذنبہٗ(متفق علیہ)

جس نے حالت ایمان میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے روزہ رکھا اس کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔

۴۔ روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ روزہ رکھنے والوں کے لیے مخصوص کراتا ہے،یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حشر کے دن آواز لگائی جائے گی کہ روزے دار کہاں ہیں ؟وہ جہاں بھی ہیں باب ریان سے جنت میں داخل ہوجائیں۔ جب تمام روزے دار جنت میں داخل ہوجائیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ :

جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے اوراس میں روز قیامت صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ کوئی اورداخل نہیں ہوسکتا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں، تووہ کھڑے ہوں گے اس دروازے میں ان کے علاوہ کوئی اورداخل نہیں ہوگا جب یہ داخل ہوجائیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا(  بخاری، مسلم )۔

۵۔ روزے کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزے اور قرآن کے علاوہ کسی عبادت کو یہ سعادت حاصل نہیں کہ وہ کسی کی سفارش کرسکے۔ عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوت کے کام سے روکے رکھا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما، قرآن کہے گا اے رب! ہم نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان دونوں کی سفارش قبول فرمالے گا۔ (مسند احمد )

۶۔ روزہ دار کے منہ کی بو،اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے۔ یعنی روزے کی حالت میں اگرچے منھ کی بو انسانوں کو ناگوار لگتی ہے۔ مگر اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے اس کو وہ بو بھی مشک سے زیادہ پسند ہے۔ یہ ایک مشت خاکی کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ اس کا خالق و مالک اس کی ناگوار بو کو بھی پسند فرماتا ہے۔

صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا ’’ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے: ہرعمل کا کفارہ ہے اور روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور یقینا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ ہے۔ ‘‘ِ( البخاری )

۷۔ اللہ روزے کی قدر فرماتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اللہ نے تمام عبادات کا اجر متعین کردیا ہے۔ اسی حساب سے ان کو اجر ملتا ہے مگر روزے کے متعلق فرمایا کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ جیساکہ اوپر حدیث میں گزر چکا ہے۔

۸۔ آٹھویں بات یہ ہے کہ اللہ روزے دار کو افطار کرانے پر بھی اجر دیتا ہے اور روزہ افطار کرانے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرتا، اگر کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اس کی مغفرت کا وعدہ کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ اگر کوئی شخص رمضان میں کسی شخص کاروزہ کھلوائے تو وہ اس کی مغفرت اور دوزخ سے چھٹکارے کاسبب ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا روزے دار کے لیے ہے اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی واقع نہیں ہوگی۔ ‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’ اے رسول خدا ﷺ ہم میں سے ہر شخص روزہ افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ یہ اجر اس کو بھی دے گا جو دودھ کی لسی یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرادے۔ اور جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کھلانا کھلائے تو اللہ اس کو میرے حوض سے ایسا شربت پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک اس کو پیاس نہیں لگے گی۔ ‘‘ (بیہقی)

۹۔ روزے کی نویں خصوصیت یہ  ہے کہ یہ روزے دار کودو خوشیاں عطا کرتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا :

 أنَ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: للصائم فرحتان: فرحۃ حین یفطر، وفرحۃ حین یلقی ربہ.(مسلم)

 نبی ﷺ نے فرمایا کہ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک جب، جب کہ وہ افطار کرتا ہے اور دوسری جب، جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے گا۔

ایک خوشی کا موقع وہ ہوتا ہے جب روزے دارافطار کے لیے بیٹھتا ہے۔ پیاس کی شدت میں وہ شربت کی طرف دیکھتا ہے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے، تیز گرمی میں ٹھنڈے پانی اور شربت کی لذت کو صرف ایک روزے دار ہی محسوس کرسکتا ہے۔ اس کی لذت اور ذائقہ کے حسن کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ روزے دار اپنے روزے کی تکمیل پر بھی خوش ہوتا ہے اور اپنے رب کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوکر بھی خوش ہوتا ہے۔

دوسری خوشی روزے دار کو اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ اس وقت اس کا رب اسے روزوں کے بدلے جو انعامات عطا کرے گا وہ روزے دار کے اندازے سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ اس کے منھ کی بو کو مشک سے زیادہ پسند کیا جائے گا،اسے با ب الریان سے جنت میں جانے کا مژدہ سنایا جائے گا۔ یہ خوشی پاکر روزے دار پھولا نہ سمائے گا۔

۱۰۔ روزے کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کا بدلہ طے شدہ نہیں ہے۔ جب کہ تمام عبادات کا بدلہ اللہ کے یہاں طے ہے کسی نیکی پر دس گنا اجر ملتا ہے کسی پر ستر گنا، کسی پر سو گنا اور کسی پر سات سو گنا لیکن روزے کے متعلق اللہ نے فرمایا۔ حدیث قدسی ہے۔

صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے: ہرعمل کا کفارہ ہے اور روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ ( البخاری )

روزے دار کا کتنا بلند مقام ہے۔ روزے رکھنے کے کتنے فائدے ہیں۔ یہ فائدے اور خصوصیات تو وہ ہیں مجھ جیسے کم علم نے بیان کیے ہیں۔ علماء نے اس کے علاوہ اور بہت سی خوبیاں بیان کی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے فائدے حکیموں، طبیبوں نے بیان کیے ہیں وہ الگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان فائدوں کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔