متعہ کی حقیقت از روئے قرآن

لیلی علی

ایم اے پرشین، فرام کراچی۔

شیعہ مذہب پر بہت سی تہمتیں لگائی جاتی رہی ہیں۔ اور شیعہ علماء نے ان تہمتوں کا جواب بھی احسن طریقے سے دیا ہے۔ علامہ حلی ، میر حامد حسین اور علامہ امینی وغیرہ نے ایسے ایسے جوابات مسئلہ خلافت پر پیش کئے  کہ مخالفین آج تک انگشت بدنداں ہیں۔ علامہ مرتضی  عسکری نے عبداللہ بن سبا کے مشہور کردار کو افسانوی ثابت کرکے ایک بہت بڑی تہمت کا دندان شکن جواب دیا۔
لیکن بدقسمتی سے ایک تہمت ایسی ہے جسکو عام علماء شیعہ نے قبول کیا ہے ۔یہ ہے تہمت "متعہ” ۔حالانکہ یہ بدعت ابتدائی طور پر شیعہ  مذہب میں نہیں تھی۔ یہ چیز اہل سنت کے ہاں پائی جاتی تھی۔انکی تفسیر وحدیث کی کتابیں گواہ ہیں کہ متعہ ان میں مروج تھا۔ دراصل بنو امیہ اور بنو عباس کے عیاش حکمران اور انکے عیاش گورنروں کی کارستانیوں کو شرعی جواز مہیا کرنے کے لئے "متعہ” یا کنٹریکٹ میرج کو جائز کیا گیا۔

لیکن بدقستمی سے اہل سنت سے ہوتی ہوئی یہ بات شیعہ مذہب میں داخل ہوگئی ۔ اور غالبا یہ اس زمانہ میں داخل ہوئی جب بغداد پر آل بویہہ شیعہ کی حکمرانی تھی۔اس وقت ان حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے بعض شیعہ راویوں  نے اسکو مشرف بہ تشیع کرلیا۔ اور اس کے جواز نیز فضیلت پر بے شمار احادیث گھڑ کرآئمہ معصومین کی طرف نسبت دے دی گئی۔ اس کے بارے میں ایسی ایسی روایات گھڑی گئیں جن کو پڑھ کر انسان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔اور ایک عقل مند انسان ان باتوں کو قبول کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ لیکن جو اذھان لکیر کے فقیر ہوتے ہیں وہ ان باتوں کو سوچے سمجھے بغیر مان لیتے ہیں۔

1؛- متعہ کے جواز میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک قسم کا نکاح ہے۔لہذا قرآن میں جہاں بھی نکاح کی بات ہے اسکو شامل ہے۔
مشہور عالم دین علامہ علی نقی نقوی نے ایک کتاب لکھی تھی "متعہ اور اسلام”  اس کتاب میں علامہ صاحب نے یہی دلیل پیش کی ہے کہ متعہ بھی نکاح ہے لہذا احکام نکاح میں شامل ہے۔

اس پہ میرا پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں 9قسم کے نکاح رائج تھے۔جن میں متعہ بھی شامل تھا۔
اگر اسلامی اور قرآنی نکاح میں متعہ شامل ہے تو پھر باقی 7نکاح کیوں  شامل نہیں کئے جاتے کس بنیاد پر ان اقسام نکاح کو آپ ناجائز قرار دیں گے؟!!

صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی اسلامی سکالر نے باقی انواع نکاح کو جائز نہیں سمجھا۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی نکاح کا ذکر آیا ہے اس کے مقابلے میں طلاق کا ذکر بھی آیا ہے۔
قرآن نے ایسے کسی نکاح کا ذکر ہی نہیں کیا جس میں طلاق نہ ہو۔ طلاق کے ساتھ نکاح کا ذکر کرنا خود اس بات کا قرینہ ہے کہ اسلام کی نظر میں "متعہ” نکاح مشروع نہیں ہے کیونکہ  اس میں طلاق نہیں۔ یہ ایک محکم دلیل ہے ۔

اگر قرآن سے ایسا نکاح  ثابت کردیا جائے جس میں طلاق نہیں تو میں اپنی ساری دلیلوں کوختم سجھوں گی۔

2؛-  قرآن مجید میں نکاح کا ذکر بار بار ہے۔ لیکن جہاں تک متعہ کا تعلق ہے تو اس کا صریح ذکر کہیں بھی نہیں
قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بنیادی اور اہم مسائل کو صراحت کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔

وراثت کا مسئلہ ہو یا  لین دین کا یا طلاق کا قرآن میں سب کا ذکر صریح اور واضح لفظوں میں ہے۔لیکن متعہ کا ایسا ذکر کہیں بھی نہیں
یعنی قرآن میں کوئی ایک بھی آیت ایسی نہیں جس میں واضح لفظوں میں لکھا ہو کہ "تم لوگ مدت معین کرکے چند دن یا چند گھنٹوں کے کئے کسی عورت سے نکاح کرسکتے ہو”

ایسے الفاظ پورے قرآن میں کہیں نہیں۔

3؛- ایک بات جو ابھی ابھی یعنی دم تحریر ذہن میں خدا نے ڈالی ہے۔ کہ اسلام میں طلاق ایک مبغوض ترین حلال ہے ۔ طلاق کا مطلب علیحدگی ہے

جو اسلام علیحدگی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ وہ ایک ایسے تعلق کو کیسے پسند کرسکتا ہے جس میں چند لمحوں یا چند دنوں بعد علیحدگی واقع ہوجانی ہے۔؟ اس سوال کا جواب ہے کسی کے پاس ؟

4؛- اسلام خاندانی نظام کو اہمیت دیتا ہے لیکن متعہ میں خاندانی نظام کی تباہی ہے۔

کیونکہ متعہ کے رواجِ عام  کی صورت میں معاشرے میں ایسے افراد کی اکثریت ہوجائے گی۔ جو بغیر باپ یا بغیر ماں کے زندگی گزارنے پہ مجبور ہوں گے۔ تو ان لاوارث بچوں کا کیا ہوگا؟

اسلام اس بات کو اہمیت دیتا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت کریں۔ تو جب ایک مخصوص مدت کے بعد مرد و عورت نے الگ الگ ہوجانا ہے تو پھر بچوں کو کون سنبھالے گا؟ اگر بچے ماں کے پاس رہیں تو باپ کی شفقت سے محروم۔اور اگر باپ کے پاس رہیں تو پھر ماں کئ آغوش محبت سے محروم۔ ایسے بچے تو رل جائیں گے۔ کیا اسلام بچوں کو رلانا پسند کرتا ہے؟

5؛- قرآن مجید میں بیوی کو شوہر کا وارث بتایا گیا ہے۔

"ولھن الربع مما ترکتم إن لم یکن لکم ولد، فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم الآیة ﴾(سورة النساء، رقم الآیة: 11”

تمھارے ترکے میں تمھاری بیویوں کا حصہ چوتھائی ہے اگر تمھاری اولاد نہ ہو۔اور اگر اولاد ہو تو ان کا حصہ آٹھواں ہے۔
جبکہ متعہ میں بیوی ،شوہر کی وارث نہیں ہوتی۔ مگر یہ کہ وہ شرط لگائے وارث بننے کی۔ چناچہ آیت اللہ سیستانی کی توضیح المسائل میں مسئلہ نمبر۲۴۳۴۔ میں درج ہے” جس عورت کے ساتھ متعہ کیا گیا ہو وہ ہم بستری کا حق نہیں رکھتی اور شوہر سے میراث بھی نہیں پاتی اور شوہر بھی اس سے میراث نہیں پاتا۔ لیکن اگر ۔ ان میں سے کسی ایک فریق نے یا دونوں نے ۔ میراث پانے کی شرط رکھی ہو تو اس شرط کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔ لیکن احتیاط کا خیال رکھے۔”

اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کئ رو سے بیوی وہی ہے جو شوہر کی میراث میں غیر مشروط طور پر  وارث بنتی ہے۔
یہاں ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ رضاعی بھائی بھی میراث میں حصہ دار نہیں ہوتا حالانکہ رضاعی رشتے بھئ نسبی رشتوں کی طرح محرم ہوتے ہیں۔
تو اس پہ عرض ہے کہ اولا تو دودھ شریک بھائی کا مسئلہ قرآن میں مذکور ہی نہیں۔ قرآن میں صرف اپنی اولاد کو دودھ پلانے کا ذکر ہے

والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین۔۔۔۔۔”

جبکہ حدیث میں رضاعت کی وجہ سے حرمت ثابت کی گئی ہے۔ لیکن میراث نہیں کیونکہ وہ حقیقی بھائی نہیں۔ ان کے والدین بہرحال الگ الگ ہیں۔لہذا اسکو بیوی کے مسئلہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔

کیونکہ بیوی کی میراث سببی ہے۔ نسبی نہیں.نسب میں نسب حقیقی الگ ہے اور نسب رضاعی الگ ہے۔ رضاعی نسب بہت سی چیزوں میں حقیقی نسب کے برابر نہیں۔ یعنی دونوں ایک دوسرے پر قیاس نہیں لیا جاسکتا۔ کیونکہ دونوں کا سبب الگ الگ ہے۔

جبکہ بیوی کا رشتہ ہی سببی ہے۔ اور یہ سبب زن دائمی اور زن ممتوعہ دونوں میں برابر طور پر موجود ہے تو پھر زن ممتوعہ میراث سے محروم کیوں؟

سبب ایک جیسا ہونے کا مطلب یہ کہ دونوں کا حق بھی ایک جیسا ہے۔

6؛- متعہ عورت کے حقوق کو ضائع کرتا ہے۔ متعہ والی عورت نان و نفقے اور میراث کی حقدار نہیں ہوتی  ۔اور یہ عورت پر ظلم ہے۔

7؛-رہ گئی سورہ نساء کی  آیت 24۔جو پانچویں پارے کی پہلئ آیت ہے۔

” وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (24)

اورشوہر دارعورتیں( تم پر حرام ہیں) سوائے انکے جو (اسیر ہو کر)تمھارے قبضے میں آجائیں۔یہ حکم خدا کا لکھا ہوا ہے تمھارے لئے۔ اور ان (محرمات جن کا ذکر آیت23 میں ہوا) کے سوا دوسری عورتیں تم پر حلال ہیں اس طرح کہ تم مال خرچ کرکے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ تمھارا مقصد عصمت و پاکدامنی ہو نہ کہ شہوت رانی ، تو جن عورتوں سے تم نے نکاح کیا ہے انکا مقرر کردہ حق مہر ادا کردو۔ اور مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر کمی بیشی بھی کرسکتے ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

اس آیت میں ایک لفظ "استمتعتم” استعمال ہوا جس کو یارلوگوں نے متعہ کی دلیل۔کے طور پر استعمال کرتے ہین ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے ؛

عربی کا قاعدہ ہے  اصل معانی لفظ کے اصلی مادہ (Root word)  کے ہی ہوتے ہیں۔اور لفظ جتنی اشکال بدلتا رہے اصلی معنی اس کے اندر محفوظ رہتا ہے۔

اس لفظ ” استمتعتم” کا مادہ (Root word)  "متع” ہے۔
اور متع کا معنی لسان العرب نے لکھا ہے ؛-

"متع النبیذ :ای اشتدت حمرتہ”

متع النبیذ کا مطلب ہے نبیذ کا سرخ رنگ گہرا ہوجائے”

لسان العرب کے مصنف علامہ ابن منظور مزید لکھتے ہیں کہ

"المتاع والتمتُّع والاستمتاع والتمتیع ان سب الفاظ کا بنیادی معنی ایک ہے۔ اور وہ ہے”فاما المتاع فی الاصل فکل شئ ینتفع بہ ویتزود”
متاع اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی طرح کا کوئی نفع حاصل ہو۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ” استمتعتم” کا مطلب ہے منفعت حاصل کرنا۔ اور بیوی سے منفعت کا مطلب "نکاح "ہی ہے ۔لہذا یہاں استمتعتم کا مطلب یہ ہوا کہ جن عورتوں سے تم نے نکاح کیا ہے ان کا حق مہر ادا کردو۔ یہان مدت کا کوئی ذکر نہیں۔

علامہ ابن منظور نے بھی یہاں زجاج کا قول بھی نقل کیا ہے کہ سورہ نساء کی آیت 25میں "فمااستمتعتم بہ منھن ” کا معنی  ہے ” فما نکحتم منھن علی الشریطة التی جری فی الآیة  انہ الاحصان ان تبتغوا باموالکم محصنین  ای عاقدین التزویج الذی جری ذکرہ فاتوھن اجورھن فریضة ای مھورھن۔((لسان العرب ؛مادہ: متع))

” یعنی جن عورتوں  سے تم نے نکاح کیا ہے۔۔پاکدامنی والی اس شرط کے ساتھ جس کا ذکر آیت میں ہوا ہے۔۔ کہ تم اپنے اموال کے ذریعہ پاکدامنی کے ساتھ ازدواج کرو اور انکو انکا حق مہر ادا کردو۔”

لغت کے علاوہ خود قرآن مجید سے بھی استمتعتم کا مطلب سمجھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہی لفظ قرآن میں کئی جگہ تکرار ہوا ہے۔چنانچہ
سورہ توبہ کی آیت 69میں آیا ہے

” فاستمتعتم بخلاقکم کمااستمتع الذین من قبلکم بخلاقھہم”

ترجمہ؛ جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اسی طرح تم نے بھی اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا ہے”
دوسری جگہ ” سورہ احقاف آیت20 میں

"واستمتعتم بھا”

ترجمہ؛ اور انسے تم فائدہ اٹھا چکے ہو۔۔”

"تَمتَّعَ” کا لفظ بھی قرآن میں کئی جگہ آیا ہے کسی جگہ بھی متعہ بمعنی نکاح موقت کے معانی میں نہیں آیا۔

اس کےعلاوہ اسی مادہ سے دوسرے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے "ومَتِّعُوھُنَّ علی الموسع قدرہ "((بقرہ 236)) یہاں بھی "مَتَعَ "کے مادہ سے متعوھن استعمال ہوا ہے ۔لیکن یہاں اس کا مطلب کسی مفسر نے متعہ نہیں لیا بلکہ اس کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ کہ جن عورتوں کو تم نے طلاق دے دی ہے انکو مال ومتاع ادا کرو ۔

سوال یہ ہے کہ ان تمام موارد میں متع کے مادہ سے استعمال ہونے والے الفاظ کا معنی "متعہ” نہیں لیا گیا تو سورہ نساءکی آیت 24میں کیونکر متعہ مراد لیا جاسکتاہے؟استمتاع کا لغوی مطلب ہے "فائدہ اٹھانا” نفع حاصل کرنا”،

اور عورت سے استمتاع کا مطلب ہے نکاح کرنا ۔لیکن یہ کہاں سے آگیا کہ یہ نکاح موقت اور عارضی  ہوگا؟
قرآن مجید کی اس آیت میں استمتاع سے مراد نکاح ہی لیا جائے گا۔لیکن اس نکاح کی محدود و مدت دار ہونے پر کوئی قرینہ(نہ قرینہ مقالیہ نہ قرینہ حالیہ) موجود نہیں ہے۔

اس آیت سے متعلق یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ اس سے پہلے والی آیت یعنی نساء23 میں یہ بتایا گیا کہ کون کون سی عورتیں تمھارے لئے حرام ہیں اور  محرمات کے ذکر کے بعد اس آیت میں یہ بتایا جارہا ہے کہ فلاں فلاں رشتہ دار عورتوں کے علاوہ تمھارے لئے باقی عورتیں حلال ہیں۔ اس صورت میں یہاں اصولا نکاح کا ذکر ہی ہونا چاہئے۔ اگر نکاح دائمی یعنی نکاح اصلی کا اس آیت میں ذکر ہی نہ ہو اور نکاح موقت (متعہ) کا ذکر کردیا جائے تو یہ بات بھی آیت کے سیاق وسباق کے خلاف لگتی ہے۔
کیونکہ اصولا نکاح دائمی واصلی کا ذکر تو پہلے ہونا چاہئے۔
بہرحال متعہ کے طرفداروں کا اہم ترین حربہ اس آیت کے ذیل میں ابن عباس کی ایک روایت ہے۔جو یہاں نقل کی جاتی ہے کہ  یہ آیت اصل میں یوں تھی۔

"فاستمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی”

لیکن اگر اس روایت کو مانا جائے تو قرآن میں تحریف لازم آتی ہے۔

مطلب یہ کہ "کسی نے "الی اجل مسمی” کا لفظ قرآن سے نکال دیا ہے ۔یہ بات تو اہل اسلام کو قابل قبول ہی نہیں۔لہذا اس روایت سے استدلال کسی صورت درست نہیں۔

8؛ سورہ نساء کی آیت 25 میں ارشاد ہوا ہے؛-

( ومن لم يستطع منكم طولا أن ينكح المحصنات المؤمنات فمن ما ملكت أيمانكم من فتياتكم المؤمنات والله أعلم بإيمانكم بعضكم من بعض فانكحوهن بإذن أهلهن وآتوهن أجورهن بالمعروف محصنات غير مسافحات ولا متخذات أخدان فإذا أحصن فإن أتين بفاحشة فعليهن نصف ما على المحصنات من العذاب ذلك لمن خشي العنت منكم وأن تصبروا خير لكم والله غفور رحيم ( 25 ) )

متعہ کی بہت سی روایات میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ "فلاں نے مٹھی بھر کجھور کے عوض ، یا ایک چادر کے عوض متعہ کرلیا”
ان روایات کو جب قرآن پہ پرکھا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 25میں کہا گیا ہے کہ”اگر تم پاکدامن آزاد عورتوں سے نکاح نہیں کرسکتے تو پھر تم پھر کنیزوں میں سے کسی سے۔۔ اس کے مالک کی اجازت سے۔۔
نکاح کرلیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر دین میں متعہ اتنا ہی سستا ہوتا تو قرآن میں خدا کو یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ تم آزاد عورتوں سے نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تو کنیزوں سے نکاح کرلو۔ ؟!

پھر تو آیت یوں ہوتی کہ اگر تم آزاد عورتوں سے نکاح دائمی نہیں کرسکتے تو ایک مٹھی بھر کجھور دے کر تم متعہ کرلو۔ !!!!
اس نقد سے واضح ہوتا ہے کہ متعہ کوئی مشروع طریقہ نہیں تھا۔ نہ ہی اسلام عورت کو کوئی چیز یا متاع سمجھتا ہے ۔ لیکن متعہ کے طرفدار نہ صرف عورت کو ایک چیز بلکہ انتہائی سستی چیز سمجھتے ہیں۔ جس کو مٹھی بھر کجھوروں کے عوض خریدا جاسکتا ہے۔ افسوس اس ذہنیت پر۔

9؛ حقیقت یہ ہے کہ مطلق العنان اور عیاش اموی و عباسی حکمرانوں کی مرضی کے مطابق یہ متعہ والی روایات گھڑی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں متعہ سے متعلق ابتدائی روایات اہل سنت کے کتابوں میں ملتے ہیں۔ بعد میں جب شیعہ حکمرانوں جیسے آل بویہہ وغیرہ کا دور آیا تو ان حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے یہاں بھی متعہ کا نظریہ داخل در مذہب کرلیا گیا۔

تاریخ میں اودھ کے ایک حکمران کا ذکر  ملتا ہے جس نے ایک رات میں 900عورتوں سے متعہ کیا۔
ویسے بھی   اگر آپ غور کریں تو  جن کتب میں آپکو متعہ والی روایات ملتی ہیں وہ آل بویہہ کے دور میں ہی تالیف کی گئیں۔
بہرحال جب یہ روایات قرآن سے متصادم ہیں تو انکو کیونکر قبول کیا جاسکتاہے؟

10؛- ایک اور نکتہ یہ کہ نکاح متعہ ایک انتہائی آسان سا نکاح ہے (جیسا کہ فقہ شیعہ میں بیان کیا جاتا ہے) ۔اگر یہ رائج ہوجائے تو پھر کون نکاح دائمی کرے گا؟ مردوں کی تو خواہش یہی ہوگی کہ وہ عارضی و موقت نکاح سے کام چلا لیں۔ تاکہ انکے اوپر عورت کی بھاری ذمہ داری عائد نہ ہو۔نان و نفقہ، میراث اور حقوق زوجیت انکو ادا ہی نہ کرنے پڑیں!

11؛- یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ  نکاح متعہ کے جائز ہوتے ہوئے نکاح دائمی کیوں رائج ہوگیا؟ کس چیز نے اسلامی معاشرے میں نکاح دائمی کو رائج کیا؟

اہل سنت کے بارے میں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ انکے مفتیوں نے نکاح متعہ کا منسوخ قرار دیا تھا  اس لئے ان میں یہ رائج نہ ہوا۔
لیکن شیعہ میں کیوں رائج نہ ہوسکا؟۔ جہاں جہاں شیعوں کی اکثریت تھی جیسے ایران وہاں بھی یہ اتنا عام نہ ہوسکا۔ وہاں بھی زیادہ تر نکاح دائم ہی کیا جاتا ہے۔

کیوں؟ کہیں اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ انسان فطری طور پر اس عارضی نکاح کو پسند نہیں کرتا ۔ سوائے ان اکا دکا لوگوں کے جو فطرت سے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور روز روز بیویاں بدلنا پسند کرتے ہیں۔!!

پھر دنیا کے اکثر حصوں میں بھی نکاح دائم ہی رائج ہے۔ کہیں بھی اس عارضی تعلق کو پسند نہیں کیا جاتا۔ حتی کہ یورپ جہاں لڑکی لڑکے کی دوستی کو برا نہیں سمجھا جاتاوہاں بھئ نکاح کرتے ہوئے نکاح دائم ہی کیا جاتا ہے ۔جسکو ختم کرنے اور علیحدہ ہونے کے لئے طلاق کی ضرورت پڑتی ہے۔  جبکہ متعہ میں تو یہ سہولت ہے کہ علیحدگی کے لئے طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس مدت ختم اور میاں بیوی الگ الگ۔ پھر لوگوں کی اکثریت اسکو کیوں نہیں اپناتی؟

کیا یہ عجیب اور جاہلانہ قسم کا رواج نہیں؟ وہ مرد جو متعہ کے جواز میں دلیلیں اور حدیثیں گھڑنے میں مصروف ہیں وہ بھی اپنے گھر کی عورتوں کا متعہ پسند نہیں کرتے!

12؛- آخری بات یہ کہ حضرت محمد(ص) نے تیرہ شادیاں کیں ۔وہ سب کی سب نکاح دائمی ہی تھیں۔ کیا کوئی ایک بھی ممتوعہ تھی؟
حضرت محمد(ص) نے خود اس عمل کو انجام دینا کیوں پسند نہ کیا جسکی فضیلت میں جھوٹے راویوں نے بے حد وحساب ثواب گھڑ رکھا ہے؟

غرض متعہ ایسا عمل ہے جس کی نہ عقلی طور پر کوئی تک بنتی ہے نہ شرعی طور پر۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    متعہ پر ایک تحقیقی نظر :۔
    نہ تو میرا مقصد اس(متعہ ) کو غیر مشروط ٹھہرانا ہے اورنہ اس کی مذمت ۔متعہ کو عارضی نکاح بھی کہا جاتا ہے ، اس کو ایران میں (جہاں یہ بہت بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے)’ صیغہ ‘کہا جاتا ہے ۔عربی زبان میں متعہ کے معنی ہے ’’چاہت کی شادی ‘‘۔جو کہ عربوں کی ایک ماقبل مذہبی روایت ہے ۔متعہ ، عارضی نکاح/ شادی ایک معائد ہ ’عقد‘ ہے ۔جس میں ایک مرد اورایک غیر منکوحہ عورت یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ حالت نکاح میں کتنی مدت تک رہیں گے ؟اورعارضی بیوی کو اُ س مرد کی جانب سے کتنا روپیہ دیا جائیگا؟عورت کے ساتھ متعہ کا رواج، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں حضرت عمرفاروقؓ نے خلاف قانون دےدیا تھا لیکن شیعان علیؓ اُن (حضرت عمر فاروقؓ) کے اس فرمان کو قانونی طور پر ناقابل تعمیل اورمذہبی اعتبار سے غیر مؤثر سمجھتے آئے ہیں ۔ اس حکم کے جوا ب میں ان کا استدلال یہ ہے کہ متعہ عارضی نکاح /شادی کی قرآن مجید کی سورت النساء (آیت نمبر چوبیس) میں منظوری دی گئی ہے اوریہ کہ رسول اکرم ﷺ نے خود اس کی اجازت دی ہے ۔ جبکہ سنیوں کا کہنا ہے کہ پہلے واقعی اجازت تھی مگر بعد میں اس سہولت کو واپس لے لیا گیا تھا۔
    نویں صدی عیسوی میں عباسی خلیفہ ، مامون الرشید نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے متعہ کو ایک بار پھر قانونی (جائز ) قرار دےدیا لیکن اُس کو سنی علماء کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرناپڑا اوراس قانون کی علی الاعلان مذمت وملامت کی گئی ۔اس طرح وہ اپنے حکم نامے کو واپس لینے پر مجبور کردیا گیا۔
    1979ء کے انقلاب سے پہلے سیکولر ایرانی متوسط طبقات نے عارضی شادی (متعہ ) کو عصمت فروشی کی ایک شکل قرار دیتے ہوئے نامنظور کیا تھا۔جبکہ مذہبی طبقات اس کو جائز کہتے ہیں اوراب (انقلاب کے بعد) اس نے ایک جائز قانونی شکل اپنالی ہے ۔
    فی زمانہ ابتدائی سطح پر ،ہم عصر ایران میں یہ ایک شہری مظہر ہے اورعارضی نکاح /متعہ نکاح مذہبی زیارتوں اورطویل فاصلوں کی تجارت سے وابستہ رہا ہے ۔یہ عظیم مذہبی پیشواؤں کے آستانوں کے اطراف بہت کثرت سے ہوتا ہے لیکن (ایران میں)اسلامی حکومت کی حمایت اورامدادی پالیسیوں کی بدولت متعہ کا رواج (فروغ پانے کے ساتھ ساتھ )تبدیل بھی ہوتا جارہا ہے ۔متعہ میں دوباتوں کی وضاحت ضروری ہوتی ہے ، کہ اس عارضی شادی کی مدت کتنی ہوگی؟ اورسکہ رائج الوقت کی مقدار کیا ہوگی؟ اس(عارضی شادی کے معائدے ) کیلئے گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی اورنہ اس کی کہیں رجسٹریشن کی جاتی ہے ۔ایک عارضی شادی کی زندگی کی توقع اتنی ہی طویل یا مختصر ہوتی ہے ،جتنی کہ فریقین خواہش رکھتے ہوں۔اس کی مدت ایک گھنٹے سے ننانوے سال تک ہوسکتی ہے ۔
    ایک شیعہ مسلم مرد کو یہ اجازت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت اپنی خواہش کے مطابق کتنے ہی عارضی نکاح کرسکتا ہے ۔یہ (سہولت) اُن چار بیو یوں کے علاوہ ہے جو تمام مسلم مردوں کے لئے قانونی طور پر جائز ہیں ۔شیعہ قانون کے بانی امام جعفر صادق سے ایک مرتبہ دریافت کیا گیا تھا کہ کیا ایک متعہ زوجہ ،ان چار ازواج میں سے ایک ہوتی ہے ؟(جن چار ازواج کو اسلام نے قانونی طور پر جائز کیا ہے )کہا جاتا ہے کہ اما م موصوف نے یہ جواب دیا کہ ’’ان (متعہ زوجاؤں )میں سے ایک ہزار عارضی نکاح /شادی کرلو ، کیونکہ وہ اجیر(یعنی اجرت کمانے والی ) ہیں ۔ایک شیعہ مسلم عورت ،خواہ کنواری ہو یا مطلقہ ،اس کواجازت ہوتی ہے کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک مرد کے ساتھ متعہ کرسکتی ہے ۔
    لیکن واضح رہے کہ ہر عارضی ملاپ(متعہ) کے خاتمے کے بعد، خواہ وہ کتنی ہی مختصر مدت کا ہو،اُ سے ایک مقررہ مدت کیلئے جنسی اجتناب سے گزرنا پڑتا ہے ۔یہ اس لئے ہے کہ اگر اس دوران وہ حاملہ ہوجائے تو یہ شناخت ہوسکے کہ (نوزائیدہ ) بچے کا باپ کون ہے ؟متعہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے بچوں کو جائز(حلال اولا د) تسلیم کیا جاتا ہے اورنظری اعتبار سے اپنے (خونی رشتے کے ) بہن بھائیوں کے مساوی حیثیت رکھتے ہیں ۔جو مستقل نکاح سے پیدا ہوئے ہوں ۔یہاں متعہ کی قانونی یکتائی پائی جاتی ہے جو نظریاتی طورپر نکاح کی زبردست مشابہت کے باوجود عصمت فروشی سے فرق پیدا کردیتی ہے۔لیکن اس کے باوجود حقیقت میں عارضی ملاپ سے پیدا ہونے والے بچوں کیلئے کسی حد تک بدنامی ورسوائی کا معاشرتی درجہ سمجھا جاتا ہے ،اس وقت جب کسی (متعی)بچے کو نظرا نداز کردیا جاتا ہے تو ان دو رشتوں کے درمیان اختلافات کو ذیل کے محاورہ سے اس طرح بیان کیا جاتا ہے ’’کیا میں صیغہ (متعہ) سے پیدا ہونے والا بچہ ہوں؟‘‘۔
    قانون بھی کسی بھی باپ کو بچے کو جائز تسلیم کرنے سے انکار کا حق دیتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔