سرد وگرم بیانات کی ہر سو جھڑی لگی ہوئی ہے

عمیر کوٹی ندوی

وزیر اعظم نے 26؍ نومبر کو ‘من کی بات ‘ کے38ویں ایڈیشن میں ‘ نیو انڈیا’ کے بعد ‘ پوزیٹیو انڈیا’ کا  نعرہ دیا ہے اور لوگوں سے اسے سوشل میڈیا پر پھیلانے کی اپیل کی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے انسانیت، انسان دوستی کی بات کی ہے اور ملک کے آئین کو جمہوریت کی روح قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ” ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آئین پر لفظ بہ لفظ عمل کریں، شہری ہوں یا ایڈمنسٹریٹر آئین کی روح کے مطابق آگے بڑھیں، کسی کو کسی بھی طرح سے نقصان نہ پہنچے۔ یہی آئین کا پیغام ہے……ہمارا آئین بہت وسیع ہے۔ شائد زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے، فطرت کا کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو اس سے اچھوتا رہ گیا ہو۔ سب کے لئے مساوات اور سبھی کے تئیں حساسیت ہمارے آئین کی شناخت ہے۔ یہ ہر شہری، غریب ہو یا دولت مند، پسماندہ ہو یا محروم طبقات سے تعلق رکھتا ہو، قبائلی ہو یا عورت سب کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے مفادات کو محفوظ رکھتا ہے”۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ "ملک ایک بڑے مشن پر چل رہا ہے، اس مشن کے لئے ہر طبقہ سے تعاون ملے گا”۔ کرناٹک کے اڈپی میں جاری  وشو ہندو پریشد کی "دھرم سنسد ” میں اسی دن   یعنی 26؍ نومبر کو ہی  سوامی نریندر ناتھ نے ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ "آپ کو لاکھوں روپے کی قیمت کے موبائل رکھنےکی کیا ضرورت ہے۔ ہر ہندو کے پاس موبائل کی جگہ ہتھیار ہونا چاہئے”۔

اسی”دھرم سنسد ” میں 26؍ نومبر کو ہی ویشو ہندو پریشد کےانٹر نیشنل جوائنٹ سکریٹری سریندر کمار جین نے کہا ہے کہ "18؍ اکتوبر2018 سے رام مندر کی تعمیر شروع ہوجائے گی۔ وشو ہندو پریشد کی اسی "دھرم سنسد ” میں 25؍نومبر کو سوامی گوونددیو نے ہندوؤں سےزیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی اور سوامی نریندر ناتھ نے بھی ان کے اس بیان کی حمایت کی ہے۔ اسی "دھرم سنسد ” میں 24؍ نومبر کو آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نےکہا ہے کہ ” رام جنم بھومی پر صرف رام مندر ہی بنے گااور کچھ نہیں بنے گا……رام مندر کے اوپر ایک بھگوا پرچم بہت جلد لہراے گا۔

رام جنم بھومی سائٹ پر کوئی دوسرا ڈھانچہ نہیں بنایا جاسکتا…… رام مندر بننے سے پہلے لوگوں میں بیداری ہونی ضروری تھی۔ ہم منزل کےانتہائی قریب ہیں اور اس وقت ہمیں اور زیادہ آگاہ رہنا ہے”۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ”اگر گئو ہتیا پر پابندی نہیں ہوگی تو امن بھی نہیں ہوگا”۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سپریم کورٹ میں  بابری مسجد – رام جنم بھومی تنازعہ نہ صرف زیر سماعت ہے بلکہ  آئندہ 5؍ دسمبر سے اجودھیا معاملے پر آخری سماعت ہونے والی ہے، لہذا اس موقع پر موہن بھاگوت کا بیان معنیٰ خیز ہے۔ ان سارے بیانات کے علاوہ ابھی حال ہی میں اترپردیش کے کارپوریشن کے الیکشن میں بی جے پی کے ایک لیڈر نے برسرعام اپنی تقریر میں مسلمانوں کو بی جے پی امیدوار کو ووٹ دینے بصورت دیگر انجام کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دی تھی۔

بیانات اتنے ہی نہیں ہیں، خاص طور پرگزشتہ تین برسوں سےتو ان کی جھڑی لگی ہوئی ہے، یہ ایک دو نہیں سیکڑوں میں ہیں۔ سب کے سب ملک کے شہریوں کی دل آزاری اور دھمکیوں پر مشتمل تو ہیں ہی، ساتھ ہی ساتھ انسانیت، انسان دوستی، جمہوریت اور آئین ہند کے صریح خلاف بھی ہیں۔ لیکن بیان دینے والےآئین ہند کی گرفت سے آزاد ہیں اور تسلسل کے ساتھ بیانات پربیانات دئے  جارہے ہیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ یہ سب کے سب اسی نظریہ سے تعلق رکھتے ہیں جو آر ایس ایس کا نظریہ ہے اور اسے سیاسی تحفظ بی جے پی فراہم کرتی ہے جو  کہ اس وقت برسراقتدار ہے۔ ایسی صورت میں کس بیان کا کیا معنیٰ ہے اور وہ کتنا اثر رکھتا ہے اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ بات بیانات کی ہورہی ہے تو معروف صحافی اوراٹل بہاری باجپئی کی حکومت میں سابق مرکزی وزیر رہے ارون شوری نے بھی ایک بڑا بیان دیا ہے۔’ٹائمزلسٹ فیسٹ’ میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ "جھوٹ نریندر مودی حکومت کی شناخت ہے اور یہ روزگار پیدا کرنے  جیسے بہت سے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے”۔انہوں نے کہاہے کہ”ہمیں ایک طویل عرصے سے ایک شخص یا رہنما کیا کر رہا ہےا سکی جانچ نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اس کے کام میں باریکی سے نظر رکھنی چاہئے”۔

گاندھی جی کاحوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ”گاندھی جی کہتے تھے کہ وہ (شخص) کیا کر رہا  ہےیہ مت دیکھئے، بلکہ اس کے کردار کو دیکھئے اور آپ اس کے کردار سے کیا سیکھ سکتے ہیں "۔​​انہوں نے کہا کہ”ہم سے دو بار (سابق وزیراعظم) وی پی سنگھ اور نریندر مودی کےمعاملے میں چوک ہوگئی۔ وہ وہی بات کہتے ہیں جو اس موقع  کے لئے سود مند ہوتی ہے”۔ ایک بیان مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے  بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ "کیا آپ کی جومرضی ہے وہ کریں گے؟……ملک میں  سپر ایمرجنسی کادور چل رہا ہے”۔ موسم سرما میں بھی تیز وتند بیانات نے سیاسی ماحول کو گرم کردیا ہے۔ اس کی کڑی اس بات سے بھی جوڑی جارہی ہے کہ  اسی ماہ گجرات اور ہماچل پردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، عزت  بھی داؤں پر  لگی ہوئی ہے اور وہی سب کچھ کرا اور کہلا رہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔