محسن کائنات، آفتاب رسالت ﷺکی مکی زندگی

محمد کلیم الدین مصباحی

(خطیب وامام سنی مسجد بنٹن ہلی بیلور)

 ربیع الاول شریف کا مہینہ آتے ہی پوری دنیائے اسلام میں فرحت وانبساط کا ماحول بن جاتا ہے۔اور کیوں نہ ہو کہ رحمت عالم، شفیع امت،خاتم المرسلین،رحمتہ العالمین، باعث تخلیق آدم، فخر آدم وبنی آدم، دعاء ابراہیم،بشارت عیسی وموسی، کشتئی نوح کی حفاظت کا راز، سارے جہان کے لئے رحمت بن کر، یتیموں کا سہارا بن کر، دکھ درد،غم کے ماروں کا مداوا بن کر اسی ماہ مبارک میں تشریف لائے۔ اس لئے غلامان مصطفے ﷺ ہر دور میں اپنے رب کی اس نعمت کبری ﷺ کا شکریہ ادا کرتے آئے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔

ولادت باسعادت

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

ربیع الاول شریف کا مہینہ تھا، پیر کا دن تھا، صبح صادق کی دل افروز ساعت تھی، رات کی سیاہی ختم ہورہی تھی،دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا تب مکہ کے سردار حضرت عبد المطلب ؓ کی بہو حضرت آمنہ ؓ کے گھر مسرتوں اور سعاد توں کا ایک ایسا نور چمکا جس سے ساری کائنات منور ہوگئی۔ ایک ایسامبارک ومسعود مولودجو ساری کائنات کے لئے خوشی ومسرت کا حسیں سوغات لیکر آیا۔ آپ مختون (ختنہ شدہ)  اور ناف بریدہ پیدا ہوئے۔ ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا گیااس موقع پر حضرت عبد المطلب ؓ نے قریش کی ایک پر تکلف دعوت کی۔ اور جب کھانے کھاچکے تو انہوں نے کہا کہ اے عبد المطلب!جس مولود کی خوشی میں آپ نے ہمیں عزت بخشی، آپ نے پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا یہ تو بتائے کہ اس فرزند کا نام آپ نے کیا تجویز کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس کا نام ’’محمد‘‘ تجویز کیا ہے از راہ حیرت وہ گویا ہوئے۔ آپ نے اپنے اہل بیت میں سے کسی کے نام پر اس کا نام نہ رکھا۔ آپ نے جواب دیا ’’میں نے اس لئے اس کا نام  یہ تجویز کیا ہے تاکہ اللہ تعالی آسمانوں میں اور زمین میں اس کی مخلوق اس مولود مسعود کی حمد وثنا کرے۔‘‘(ضیاء النبی ج ۱)َ۔حضور ﷺ کا بچپن۔نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ہر گوشہ اور ہر لمحہ بے مثال ہے۔ آپ کا بچپن، جوانی سب بے مثال ہے اور کیوں نہ ہو کہ اللہ تبارک وتعالی نے ہر قدم پرآپ کی حفاظت کا اہتمام کیا۔ اس لئے اعلان نبوت سے پہلے اور بعد اعلان نبوت گناہ ومعصیت اور انسانی شخصیت کو داغدار کرنے والے گھٹیا قسم کے افعال واعمال سے محفوظ و معصوم رہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ سرکار مصطفے ﷺ جس معاشرہ میں پروان چڑھے اور جس میں آپ نے اپنا بچپن اور جوانی گذارا اس میں زنا کاری،فحاشی،شراب نوشی،جوا بازی،قمار،ناچ گانا، بت پرستی بام عروج پر تھا۔ بلکہ بہت سی برائیاں تہذیب وشرافت کی علامت بن چکی تھیں، ایسے آشوب زدہ ماحول میں چھوٹے سے چھوٹے برائی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا  بہت کمال کی بات ہے۔ اللہ کریم کی ایک خاص نگرانی  اور حفاظت کی برکت سے نبی کریم ﷺ سے کسی بھی وقت کوئی ایسا عمل صادر نہ ہوا جس کو بنیاد بنا کر آپ کے دشمنوں کو آپ کی ذات پر انگشت نمائی کا موقع مل سکے۔

رضاعت

سب سے پہلے سیدہ آمنہ ؓ نے اپنے نور نظر اور لخت جگر کو دودھ پلایا پھر ثویبہ(ابو لہب کی باندی تھی، ابولہب نے اپنے بھتیجے کی پیدائش کی خبر دینے پر آزاد کر دیا) کو یہ شرف حاصل ہوا۔اسکے علاوہ ام ایمن، حلیمہ سعدیہ،کو یہ شرف حاصل ہوا ان تمام میں سب زیادہ جن کو یہ شرف حاصل ہو اوہ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کی ذات ہے۔ لگاتار دو سال تک آپ نے یہ خدمت انجام دی۔قریش اور دیگر رئوسا عرب اپنے بچوں کو دودھ پلانے  والیوں کے حوالے کرتے تھے تاکہ ان کی عورتیں ان کی خدمت کے لئے فراغت پا سکے،تاکہ صحرائی ماحول میں انکی پرورش ہو اور فصیح عربی زبان ہو سکے، تاکہ صحراء کی پاک وصاف ہوا  سے تندرست اور توانا ہو سکے۔ مختلف قبائل کی عورتیں خاص خاص کوقع سے آتیں اور متمول گھرانے کے بچوں کو لیکرجاتیں پھر جب مدت رضاعت ختم ہو جاتی تو ان بچوں کو ان کے والدین کے پاس لوٹادیتیں اور اپنا انعام اکرام لیکر اپنے قبیلوں کو لوٹ جاتیں۔ معمول کے مطابق قبیلہ بنو سعد کی عورتیں بچوں کی تلاش میں مکہ کے لئے روانہ ہو ئیں جن میں حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ  بھی تھیں باقی تمام خاتون  سواری کی  سبک روی کے سبب پہلے پہنچ گئیں۔ جب تک حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ پہونچتی سارے بچے جا چکے تھے۔ آپ ﷺ چونکہ یتیم تھے اس کے سبب کسی نے آپ کو نہیں لیا مگر میں نے سونچا کہ جب آگئی ہوں تو خالی واپس نہیں جائوں گی یہ سوچ کر ہم نے آپ کو لے لیا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ جب ہم مکہ پہونچے تو حضرت عبد المطلب ؓ سے ملاقات ہوئی اور میرا نام پوچھا میں نے کہا ’’حلیمہ سعدیہ‘‘اس پر وہ بہت خوش ہوئے، پھر فرمایا میرے یہاں ایک یتیم بچہ ہے کسی نے یتیم ہونے کہ سبب اس کو نہیں لیا کیا تم اس کو گود لے سکتی ہو ‘‘کیا تم اس کو دودھ پلانے کے لئے تیار ہو،ہو سکتا ہے اس بچے کی وجہ سے تیرا گھر بقعہ نور اور تیرا دامن ابدی سعادتوں سے لبریز ہو جائے ‘‘میں نے اپنے خاوند سے یہ سارا حال سنا کر اس بچے کو لینے کی اجازت طلب کی میرے خاوند نے مجھے کہا کہ دیر نہ کر جا اس بچے کو لے لے۔ میں واپس حضرت عبد المطلب ؓ کے پاس آئی اور کہا کہ میں اس دودھ پلانے کے لئے تیار ہوں۔ حضرت عبد المطلب ؓ سیدہ آمنہ ؓ کے گھر مجھے لے گئے میں نے دیکھا کہ آپ ایک دودھ کی طرح سفید چادر پر آرام فرمارہے تھے اور کستوری کی مہک پھوٹ رہی تھی، آپ کے حسن وجمال کو دیکھ کر میں آپ پرفریفتہ ہوگئی، آپ کے سینہ مبارک پر ہاتھ رکھا آپ نے مسکرا دیا اور اپنی نورانی آنکھیں کھولیں۔ آپ کو اٹھاکر سینے سے لگا لیا اور اپنے خاوند کے پاس لے آئی۔(ضیاء النبی ج۲)حضرت حلیمہ سعدیہ  ؓ فرماتی ہیں کہ ٓاپ کی برکت سے ہماری بے جان سواری میں جان آگئی، ہمارا گھر نور ونکہت سے بھر گیا، ہمارے بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے، ہر طرف برکت ہی برکت نظر آنے لگی۔

شق صدر

شق صدر بھی سیرت نبوی ﷺ  کا ایک اہم باب ہے۔ شق صدر کا واقعہ آپ کی حیات طیبہ میں چار بار پیش آیا پہلی بار جب آپ کی عمر چار سال کی تھی اور آپ حضرت حلیمہ ؓ کے گھر قبیلہ بنو سعد میں تھے۔ دوسری بار  دس سال کی عمر میں تیسری بار بعثت کے وقت اور چوتھی بار معراج کے وقت شق صدر کا وقعہ پیش آیا (سیرت مصطفی ص۵۷)اس کی حکمت یہ تھی کہ اللہ نے آپ کے سینئہ اقدس کو نور وحکمت کے خزانوں سے بھر دیا۔

آپ کی والدہ ماجدہ اور دادا کا وصال

آپ کے والد حضرت عبد اللہ ؓ  کا وصال تو پہلے ہی ہو چکا تھا، جب آپ کی عمر شریف ۶ سال کی ہوئی تومدینہ شریف سے واپسی کے موقع پر مقام ابواء میں آپ کی والدہ  حضرت آمنہ ؓ  کا  وصال ہو گیا۔ اور جب آٹھ سال کی عمر شریف ہوئی تو آپ کے مشفق و  مہربان داداحضرت عبد المطلب ؓ کا بھی وصال ہو گیا۔ اس کے بعد وصیت کے مطابق آپ کی کفالت آپ کے چچا ابو طالب کے ذمہ ہو گئی۔ آپ کے چچا ابو طالب نے ہر طرح آٓپ کا خیال رکھا۔ آپ سے بہت پیار کرتے تھے ہر وقت اپنے نگاہوں کے سامنے رکھتے۔ ایک مشفق ومہربان چچا ہونے کا حق ادا کیا۔

سفر شام

نبی کریمﷺ نے دوبار بغرض تجارت ملک شام کا سفر فرمایا۔ جب حضور ﷺ کی عمر شریف بارہ سال کی تھی تو آپ نے اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ سفر شام فرمایا۔ اسی سفر میں بحیرہ راہب کا واقعہ پیش آیا کہ انہوں نے آپ ﷺ کو پہچان لیا اور آپ کے چچا ابو طالب سے کہا کہ کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں کہ آپ کا بھتیجا کوئی معمولی بچہ نہیں ہیں بلکہ ’’ عالمین کا سردار، رب العالمین کا رسول ہے ‘‘ آپ کے چچا وہیں سے واپس لے کر آگئے۔  اورجب آپ کی عمر شریف ۲۴ یا۲۵ سال کی ہوئی تو حضرت خدیجۃ الکبری ؓ کا سامان تجارت لے کر دوسری بار شام کو  گئے۔ آپ کے اخلاق حسنہ، امانت ودیانت داری، ایفاء عہد اورصدق بیانی سے حضرت خدیجۃ الکبری ؓ پہلے سی متاثر تھی اس لئے آپ نے اپنے مال کا امین بنا کر ان کو ملک شام بھیجا۔

ازدواجی زندگی

نبی کریم ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجۃ الکبری ؓ کے ساتھ ہوا۔ آپ پہلے ہی دوشوہروں سے بیوہ ہو چکی تھیں۔ نبی کریم ﷺ کے متعلق پہلے بہت کچھ سن چکی تھیں مزید برآن یہ کہ آپ کے غلام  میسرہ نے سفر شام کے دوران پیش آنے والے واقعات اور نسطوراء راہب کی پیشن گوئی کے بارے میں خبر دیا تو اور زیادہ آپ انسے متاثر ہوگئیں اور آپنے حضور ﷺ سے نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ اس کے بعد طرفین سے معاملہ طے ہونے کہ بعد آپ ﷺ کا نکاح حضرت خدیجۃ الکبری ؓ کے ساتھ ہوا اس طرح آپ نبی کریم ﷺ کے حریم ناز میں داخل ہوگئیں۔ اس وقت آپ ﷺ کی ۲۵ سال اور حضرت خدیجہ الکبری ؓ کی عمر چالیس سال تھی۔

اولاد

نبی کریم ﷺ کو چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہوئے ۔ بیٹے حضرت قاسم، حضرت عبد اللہ، حضرت ابراہیم (جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے ۸ ہجری میں پیدا ہوئے) رضی اللہ عنہم اجمعین۔ آپ کی یہ تمام اولاد بچپن میں ہی وصال فرماگئے۔بیٹیاں حضرت زینب۔ حضرت کلثوم ِحضرت رقیہ،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن اجمعین۔

 نزول وحی کا آغاز

جب نبی کریم ﷺ کی زندگی کا چالیسواں سال شروع ہوا۔ توآپ کی زندگی میں ایک نیا انقلاب شرو ع ہو گیا۔ اور ٓاپ نے خلوت نشینی  اختیار فرمایا۔ ایک دن آپ غار حرا میں تھے ایک فرشتہ حاضر خدمت ہوا اللہ کی طرف سے پہلی وحی ’’سورہ علق ‘‘  لیکر۔

اعلان نبوت

جب آپ کی عمر شریف چالیس سال کی ہوئی تو آپ نے اللہ کے حکم سے اعلان نبوت فرمایا اور لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کی دعوت دی۔ بت پرستی اور شرک سے روکا۔ اور بت پرستی کی قباحت وشناعت کو بیان فرمایا۔

اہل مکہ کا ظلم وستم

اعلان نبوت سے پہلے حضور ﷺ کو اہل مکہ امین، صادق کہہ کر پکارتے تھے۔ اعلان نبوت کے بعدپورا مکہ آپ کا دشمن ہو گیا۔ آپ کو بڑی اذیت دی گئی۔ راہوں میں کانٹے بچھائے گئے، پشت انور پراونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئیں، شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رکھا گیا، طائف میں قدم نازنین کو لہو لہان کیا گیا، پاگل، مجنوں (معاذ اللہ )کہا گیا،آپ کے قتل کی ناپاک شازش رچی گئی۔ غرض کہ ظلم کا کوئی ایسا راستہ نہ تھا جس کو آپ کے خلاف استعمال نہ کیا گیا۔ مگر رحمۃ اللعالمین کی شان میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ اللہ کریم نے آپ کے ذکر کو اور بلند فرمایا اور دشمن رسول ﷺ کو ذلیل ورسوا کیا۔

معراج

اعلان نبوت کے بارہویں سال میں اللہ تعالی نے آپ کو مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانی دنیا، عرش سدرۃ المنتہی، حتی کے اپنے دیدار سے نوزا اوراپنی بڑی بڑی نشانیان دکھلائی۔ آپ کی امت کو نماز کی صورت میں ایک عظیم الشان تحفہ عطا فرمایا۔

حکم ہجرت

جب نبی کریم ﷺ اورا ٓپ کے اصحاب پر کفار کے طرف سے ظلم کی انتہا ہو گئی تو اللہ نے اپنے محبوب ﷺ کو مدینہ شریف( جو پہلے یثرب تھا )کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا۔ہجرت کا حکم پاتے ہی نبی کریم ﷺ نے حضرت صدیق اکبر ؓ کے ہمراہ  مدینہ شریف کی طرف ہجرت فرمایا۔ پھر دھیرے دھیرے صحابہ کرام ؓ نے بھی ہجرت فرمایا۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ کی مکی زندگی میں بیشمار واقعات پیش آئے جنگ فجار،حلف الفضول،تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کو اپنی جگہ پر لگانے سے متعلق ایک حکیمانہ فیصلہ جس سے بہت بڑی لڑائی ٹل گئی اور بھی بیشمار واقعات رونما ہوئے جن کو سیرت کی کتابوں میں پڑھا جا سکتا ہے بخوف طوالت ہم نے اختصار کے ساتھ لکھنا پسند کیا تاکہ ہمارے قارئین آپ ﷺ کی سیرت کو جان سکے۔ اللہ ہم سب کو اپنے محبوب ﷺ کی سیرت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔