محفل افطار: امت مسلمہ کے اتحاد کی علامت
الطاف حسین جنجوعہ
جموں میں عرصہ دراز سے یہ روایت رہی ہے کہ رمضان المبارک کے دوران سرمائی راجدھانی جموں میں غیر مسلم، مسلم بھائیوں کے لئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے۔ ہر برس پندرہ روزے گذرنے کے بعد محفل افطار کا یہ سلسلہ آخری روزہ تک جاری رہتا۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ اور ماتحت عدالیہ میں کام کرنے والے غیر مسلم سنیئروکلاءحضرات مسلم وکلاءبھائیوں کے لئے افطار پارٹی کا اہتمام کرتے تھے۔ یہ اس مقصد سے کیاجاتاکہ آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیاجائے اور آپسی تعلقات مزید مضبوط ومستحکم ہوں۔
رواں برس کے پہلے ہی ماہ ضلع کٹھوعہ کی تحصیل ہیرا نگر کے رسانہ گاوں میں آٹھ سالہ معصوم بچی کی عصمت ریزی اور قتل کا سنسنی خیز معاملہ سامنے آیا جس سے یہ صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ آج تک یہ رسانہ معاملہ اخبارات کی شہ سرخیاں بنا ہوا ہے۔ اس معاملہ میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، کرائم برانچ کی طرف سے دورانِ تفتیش سختی برتنے کی وجہ سے لوگوں نے سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ شروع کیا۔ اس کے لئے ’ہندوایکتامنچ‘ تشکیل دی گئی جس میں سبھی سیاسی، سماجی پارٹیوں اور ہندو مذہبی تنظیموں سے وابستہ لیڈران ایکساتھ دِکھے۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے عہدادران نے بھی جذبات میں آکر خارجی عناصر کے زیر تسلط بھی سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کے لئے اپریل میں ایجی ٹیشن شروع کر دی، چونکہ جن مطالبات کو لیکر یہ ایجی ٹیشن شروع کی گئی وہ سبھی ایک مخصوص طبقہ کے خلاف تھے۔ اس لئے مسلم وکلاءنے اس کا زرابھر ساتھ نہ دیا۔ خاموشی سے بار ایسو سی ایشن کے احتجاجی پروگرام سے کنارہ کشی کی لیکن اس خاموشی نے بھی سمندر جیسی طوفانی لہرو ¿ں کے شور جیسا پیغام دیا۔ بار ایسو سی ایشن کی ہڑتال میں نہ وہ دم خم نظر آیا اور نہ ہی وہ تاثر۔ سول سوسائٹی اور سماج کے ذی شعور افراد کے ساتھ ساتھ مقامی وملکی سطح کی میڈیا نے بھی یہ بات محسوس کی نتیجہ کے طور اس ایجی ٹیشن کا انجام انتہائی شرمناک ہوا۔ رسانہ واقعہ سے کئی لوگ ہیرو بنے، کئی زیرو ہوگئے، کئی کے چہروں سے سیکولر ازم کانقاب اترا، کئی آستین کے سانپ بھی باہر نکل آئے۔
خیر اس واقعہ کے بعد سے کیا حالات وواقعات رونما ہوئے اس سے قارئین بخوبی واقف ہیں،اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ شروع میں ہم افطار پارٹی کا ذکر کر رہے تھے، تو اسی موضوع پر آتے ہیں۔ رسانہ واقعہ کے بعد غیر مسلموں کی طرف سے ’افطار پارٹی‘جس کو آپسی بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت تصور کیاجاتاہے، اس مرتبہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ کسی بھی غیر مسلم کی طرف سے افطار پارٹی کا اہتمام نہ کیاگیا۔ اس سے پہلے کبھی مسلم وکلاءکی طرف سے افطار پارٹیاں کرانے کا رواج کم ہی تھا لیکن اس مرتبہ انہوں نے غیر مسلم وکلاءکہ اس وہم وگمان، کہ مسلم وکلاءخود کچھ نہیں کرسکتے، یہ پارٹیاں صرف ہم کراتے ہیں، کوبھی ثابت کیا اور بتا دیاکہ وہ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اس مرتبہ مسلم وکلاءنے آپسی اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کر کے سنیئروکلاءکی زیر سرپرستی جس طرح بڑے پیمانے پر افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا وہ ایک خوش آئند اور آپسی اتحاد کے لئے نیک شگون ہے۔ پہلی افطار پارٹی ٹی آر سی ہوٹل جموں میں ہوئی، پھر ہوٹل ریڈیسن، اس کے بعد گرینڈ ہلز ہوٹل میں دو شاندار محفل افطار کا اہتمام ہوا جس میں راجوری، پونچھ، کشتواڑ، رام بن، ڈوڈہ، ریاسی، اودھم پور، جموں،کٹھوعہ اور سانبہ اضلاع کے مسلم وکلاءجوکہ جموں ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ میں وکالت کرتے ہیں، ایک ساتھ نظر آئے۔ آپسی جوش وخروش، ایکدوسرے کے تئیں عزت واحترام،پیارومحبت کے بہترین مناظر دیکھنے کو ملے۔
اس مرتبہ ایک بڑی خوش آئند بات یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ تمام سنیئر مسلم وکلاءنے تمام ترمصروفیات کے باوجود ان تقریبات میں شرکت کی، سابقہ ایڈووکیٹ جنرل محمد اسلم گونی، ایڈووکیٹ شیخ شکیل احمد، سنیئر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل حسین احمد صدیقی، سابقہ ایم ایل سی اور وکیل محمد رشید قریشی، سابقہ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل اے ایچ قاضی،محمد اسلم بھٹ، سرفرازحمید راتھر، خالد مصطفی بھٹی، شیرخان سبھی ساتھ ساتھ دکھائی دیئے۔ ایڈووکیٹ شیخ شکیل احمد جنہیں ریاستی حکومت نے حال ہی میں اوقاف اسلامیہ سے متعلق اعلیٰ اختیاری فیصلہ کن کمیٹی’جموں وکشمیر وقف کونسل‘کا ممبر منتخب کیاگیاہے، نے اس موقع کا فائیدہ اُٹھاکر ایک نئی روایت قائم کی۔ انہوں نے گذشتہ دنوں محفل افطار کااہتمام کیا جس میں زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے غیر مسلم شخصیات کو بھی مدعو کیاگیاتھا۔ بھاجپا کے ترجمان اعلیٰ اور سنیئر وکیل ایڈوکیٹ سنیل سیٹھی، جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابقہ صدر ایم کے بھاردواج، وکرم شرما،قومی چینلوں سے وابستہ غیر مسلم صحافی، سول سوسائٹی ممبران، سنیئر افسران، تاجر، صنعتکار وغیرہ بھی اس محفل افطار کا حصہ تھے۔ انتہائی خوشگوار اور پرسکون ماحول میں یہ افطار پارٹی ہوئی جس میں قریب350افراد نے شرکت کی۔ مسلم وکلاءکی طرف سے اس طرح کی تقریبات آپسی اتفاق واتحاد کی علامت تصور کی جارہی ہیں اور یہ ایک نیک شگون ہے۔
جموں میں امت مسلمہ کے اتحاد کے حوالہ کربلا کمپلیکس میں بھی ایک منفرد محفل افطار ہوئی جس میں شیعہ اور سنی فقہ کے لوگوں نے ایکساتھ مل کر افطار کیا۔ سنی امام نے کربلا کمپلیکس میں نماز مغرب پڑھائی جس کے پیچھے شیعہ اور سنی فرقہ سے وابستہ افراد نے ایکساتھ نماز ادا کی۔ عالمی، ملکی اور ریاستی پر جوحالات اور واقعات بنے ہوئے ہیں، اس کے پیش نظر امت مسلمہ میں آپسی اتفاق و اتحادوقت کی پکار ہے اور ایسی تقریبات سے اس مقصد کے حصول میں کافی مدد ملے گی۔ زندگی کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے مسلم کو بھی اس طرح کی پہلیں کرنی چاہئے تاکہ کشمیری، ڈوگرہ، پونچھی، پہاڑی، گوجری، بھدرواہی، کشتواڑی، رام بنی، بانہالی وغیرہ کے تفرقات کو دور کر کے ہم اور قریب آئیں۔ ایک محفلِ افطار کے دوران یہ تجویز رکھی گئی کہ جتنے بھی مسلم وکلاءہیں وہ ماہانہ طور پر کم سے کم پانچ سوروپے جمع کریں تاکہ اس طرح جمع ہونے والی رقم کو مسلم وکلاءکی فلاح وبہبودی پر خرچ کیاجائے اور اگر کسی کو مشکل وقت میں پیسو ں کی ضرورت ہوتو اس کو بھی پورا کیاجاسکے۔ علاوہ ازیں محفل افطار یا اس نوعیت کی اور تقریبات، پروگرام منعقد کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔
یہ تجویز بہت ہی اچھی ہے، اگر اس کو عملی جامہ پہنایاجائے اور صوبہ کے سبھی مسلم وکلاءاس کا ساتھ دیں تو ہماری بہت مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ جس طرح رسانہ معاملہ کے بعد غیروں کی اصلیت ہم پر عیاں ہونے کے بعد ہماری صفحوںمیں کچھ حد تک اتحاد دیکھنے کو ملا ہے، اسی طرح مذکورہ تجویز بھی آنے والے وقت پر کامیاب ہو….آمین!
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔