محمد علی ۔ عام آدمی کیلئے ایک عالمی سپاہی
عبدالعزیز
محمد علی (باکسر) باکسنگ کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے۔ باکسنگ کی تاریخ میں ابھی تک ایسا آدمی پیدا نہیں ہوا ہے جسے تین بار عالمی چمپئن کے خطابات سے نوازا گیا ہو۔ جسے اس قدر شہرت و عزت ملی کہ شاید بیسویں اور اکیسویں صدی میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ شہرت ملتے ہی کسی شخصیت کا اسلام قبول کرنا شہرت میں بٹہ لگ سکتا تھا کیونکہ عام طور پر میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے مگر محمد علی کی ناموری میں اضافہ ہوگیا۔ مسلم دنیا کے علاوہ غیر مسلم دنیا میں بھی ان کی شہرت اور عزت میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس کی کئی وجہیں ہیں۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ محمد علی نے عالمی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود ہمیشہ عام آدمی کے درمیان رہا، ان کی مدد کی، ان کے کام آیا، ان کے آنسوؤں کو پونچھااور ان کیلئے لڑنے بھڑنے کو تیار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ نتاشا مندکر جو غریب لڑکی تھی۔ گزشتہ رات کو محمد علی کیلئے روتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ جب اس پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا تو محمد علی نے اپنی پوری قوت سے اس پہاڑ کو اٹھاکر پھینک دیا جس کی وجہ سے اس کو ایک کامیاب زندگی گزارنے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ محمد علی کے گاؤں ٹویوبس ویلی کے اسکول میں امتیاز برتا گیا۔ اسے Outsider (باہری) کہا گیا۔ محمد علی وہاں بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس نے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کو بتایا کہ پنساری کی دکان (grocery) سے لے کر اسکول تک اسے باہر کا احساس دلایاجاتا رہا۔ محمد علی نے ہر مقام اورہر موقع پر اس کی مدد کی جس کی وجہ سے اس کی مصیبتوں کے بادل چھٹے۔ جب وہ جلسہ تعزیت میں محمد علی کی تعریف میں رطب اللسان تھی تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھری لگ گئی۔ وہ چہرہ جو آج 12جون کیٹیلیگراف کے سرورق پر چھپا ہے، وہ ایک چیخ چیخ کر روتے ہوئے لڑکی کا چہرہ ہے جو بتا رہا ہے کہ اس کے دل میں محمد علی کی کس قدر محبت تھی۔ اخبار مذکور نے لکھا ہے کہ پہلے وہ اسٹیج پر آنے کیلئے تیار نہیں تھی کیونکہ وہ اس قدر غمزدہ تھی کہ وہ سمجھ رہی تھی کہ جب وہ محمد علی کے بارے میں کچھ بیان کرے گی تو الفاظ اس کا ساتھ نہ دے سکیں گے۔ اس نے شروعات میں کہا:
’’مجھے ایک غیر معمولی شخص کی کہانی بتانا ہے۔ ایک ایسا شخص جو کہتا تھا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ناممکن ہے۔ ایک ایسا آدمی جو اپنے کردار کی کتابوں سے ایک 8 سالہ لڑکی کے دل تک میں جگہ بنائی جس نے گورے اور کالے کے امتیاز سے اپنے کو دور رکھا اور کہا کہ ’’جو کرے گا امتیاز رنگ و خون مٹ جائے گا‘‘ ۔ نتاشا نے کہاکہ وہ پہاڑ کی طرح میرے ساتھ کھڑا ہوا اور کہاکہ تمہاری زندگی کے سمندر میں جو لہریں اٹھ رہی ہیں میں اسے روک کر رہوں گا چاہے مجھے زندگی سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونا پڑے‘‘۔ نتاشا ایک ایک کرکے علی کے اثرات جو اس کی زندگی پر پڑے تھے۔ روتی آنکھوں اور غمزدہ چہرہ اور لرزتے ہونٹوں سے بیان کیا۔ اس کی باتوں سے سامعین کی آنکھوں میں بھی آنسو رواں ہوگئے۔ پورا مجمع غمزدگی کا مجسمہ بن گیا۔ آخر میں اس نے کچھ اس طرح کہا
کہاں سے لاؤگے ایسا رہبر لوگو ۔ ہر اک کو خون کے آنسو رلا گیا لوگو
وہ غم شناس، وہ ہمدرد چارہ گر کی طرح ۔ وفا اساسِ محبت رہگذر کی طرح
نشان راہ کبھی اور کبھی خضر کی طرح ۔ وہ راہبر تھا مگر ایک ہمسفر کی طرح
کتنا گہرا زخم آیا ہے میری روح پر ۔ خون کی بوندیں مری آنکھوں میں چسپاں ہوگئیں
سابق صدر امریکہ مسٹر بل کلنٹن نے تعزیتی جلسہ میں محمد علی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’’محمد علی نے خود اپنی زندگی کی کہانی لکھی ہے۔ جب وہ جواں سال تھا تو اس نے اپنی زندگی کی کہانی لکھی۔ وہ حقیقت میں عام آدمی کا عالمی سپاہی تھا‘‘۔
اسپورٹس کا تبصرہ نگار برینٹ گمبل نے کہاکہ وہ اپنے ملک کا سب سے مشہور و معروف شخص تھا اور صرف مشہور و معروف ہی نہیں تھا بلکہ سب سے محبوب بھی تھا‘‘۔ جب سیاہ فام انسانوں سے لوگ نفرت کرتے تھے تو اس وقت محمد علی نے کہا تھا ’’میں ایک سیاہ فام (Black) ہوں اور مجھے اپنی سیہ فامی پر فخر ہے اور میں حسین وجمیل بھی ہوں‘‘۔ علی نے سیہ فاموں سے محبت کا اعلان کیا جب سیہ فاموں کے سامنے مصیبتوں کا پہاڑ کھڑا تھا۔
یہودی رسالہ ’’ٹیکون‘‘ (Tikkun) کا ایڈیٹر رابی میکائل جب خطاب کیلئے آئے تو لوگوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے محترمہ ہیلری کلنٹن جو اس وقت امریکہ کی صدارتی امیدوار ہیں ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ’’ہم لوگ کسی سیاستداں یا کسی شخص کو برداشت نہیں کریں گے جو چند لوگوں کی وجہ سے سارے مسلمانوں پر الزام عائد کرتا ہے‘‘۔
کریسٹل نے کہاکہ ’’محمدعلی انتہائی پر مذاق و پر کشش شخصیت تھی۔ اس سے مکمل کھلاڑی میں نے نہیں دیکھا۔ وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی کہہ کر پکارتا تھا‘‘۔ محمد علی ایک حق پرست اور شیر دل انسان تھا۔ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔ امریکی حکومت نے جب اسے ویت نام کی جنگ میں شریک ہونے کیلئے کہا تو اس نے فوراً انکار کردیا ۔ امریکی حکومت نے اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کا فیصلہ کیا پھر بھی وہ امریکہ جیسی بڑی طاقت کے سامنے نہیں جھکا۔ امریکہ کے غیور شہری اس کی محبت اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ آخر امریکہ کو جھکنا پڑا تین سال تک اسے باکسنگ میں حصہ لینے سے روک دیا گیا پھر بھی اس کے چہرہ پر شکن نہیں آیا۔
اس طرح کی اس کی اَن گنت خوبیاں ہیں جو ایک بڑے آدمی میں عموماً ہوا کرتی ہیں۔ اس نے کہاکہ مجھے ایسے لوگوں میں یاد کیا جائے جو لوگوں کیلئے کبھی کوئی سودا نہیں کیا۔ یہ کتنی بڑی اور اہم بات ہوسکتی ہے۔ جب اس سے دریافت کیا گیا کہ اسلام کیوں قبول کیا تو اس نے جواب میں کہا:
’’دنیا کی ہر قوم اور ملک میں پیغمبر آئے سب نے ایک ہی بات کہی مگر ہر قوم اور ملک کے لوگوں نے اپنے پیغمبر کی باتوں کو بھلا دیا اسے چھوڑ دیا جیسے یہودی اور نصرانی یا دیگر مذاہب کے لوگ مسلمانوں نے بھی چھوڑ دیا ہے۔ پھر بھی میں نے اسلام قبول کیا، اس لئے کہ جب میں چرچ جاتا تھا تو مجھے چرچ سے بھگا دیا جاتا کیونکہ میں سیہ فام (کالا) ہوں لیکن مسلمانوں میں آج بھی ایک بات ہے جب میں مسجد میں گیا تو انھوں نے مجھے گلے لگایا، اپنا بھائی کہا۔ معمولی سے معمولی مسلمان راہ چلتا یا محلوں میں رہنے والا نے مجھے گلے لگایا اور اپنا بھائی کہا۔ مسلمانوں نے مساوات اور برابری کا دامن پکڑ رکھا ہے۔ اسی چیز نے مجھے اسلام کی طرف مائل کیا اور میں مسلمان ہوگیا۔ میں مسلمان ہوں، آج تک میں نے کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی ، بس یہی ایک مسلمان کی پہچان ہے‘‘۔
غور کیجئے کہ محمد علی کی بات میں کتنا زور اور شور ہے اور کتنی بڑی حقیقت ہے۔ خدا کرے ہر مسلمان محمد علی کی بات سے متاثر بھی نہ ہو بلکہ اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے تاکہ وہ بھی محمد علی کی طرح کہہ سکے کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔
تبصرے بند ہیں۔