مسلمانوں کا تعلیمی نظام: ایک تاریخی جائزہ
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان تعلیم کے دو دھارے (Stream) جاری ہیں۔ ایک کو قدیم یا دینی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو جدید یا عصری۔یہ دونوں دھار ے متوازی چلتے ہیں اور جس طرح دریا کے دونوں کنارے طویل ترین فاصلہ طے کرنے کے با وجود کہیں نہیں ملتے، اسی طرح ان دونوں دھاروں کے درمیان بھی کہیں یکجائی نہیں ہوتی۔ والدین کو ابتدا ہی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی دینی مکتب یا مدرسے کے حوالے کریں یا کسی اسکول میں اس کا داخلہ کرائیں ۔ جدید تعلیم حاصل کرنے والا بچہ ڈاکٹر، انجینیر، آرکیٹکٹ یا کسی پروفیشن کا ماہر تو بن جاتا ہے، لیکن اس کی دینی تعلیم واجبی سے بھی کم ہوپاتی ہے۔ دوسری طرف مدرسے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا عالم و فاضل ہو کر مسجد کی امات اور مدرسے کی مسند صدارت سنبھالنے کے قابل تو ہو جاتا ہے، لیکن تیز رفتار ترقیات سے معمور دنیا میں وہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، چنانچہ احساس کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس صورت حال میں کئی سوالات ابھرتے ہیں ۔ کیا تعلیم کی یہ تقسیم دینی اعتبار سے درست ہے؟ کیا ایک صالح، کار آمد اور انسانیت کے لیے مفید معاشرہ کی تعمیر کے لیے اس تقسیم کو نہ صرف گوارا بلکہ باقی رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں اس تقسیم کو روا رکھا تھااور کیا انھوں نے مسلم بچوں اور بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا الگ انتظام کیا تھا؟ اسلام علم کو ’دینی‘ اور ’دنیاوی‘ خانوں میں باٹنے کا قائل نہیں ہے۔ بنیادی دینی تعلیم، جس کے ذریعہ انسان دین کے تقاضوں پر عمل کر سکے، اسے اس نے ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ (طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ابن ماجہ) اس کے بعد علم و معرفت کے تمام دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنی طلب، مواقع اور محنت کے مطابق ان سے فیض حاصل کر سکتا ہے۔ آج جن علوم کو خالص دینی علوم کہا جاتا ہے، اگر کوئی شخص انھیں اس لیے حاصل کرتا ہے کہ ان کے ذریعہ دنیا کمائے، سماج میں اونچی پوزیشن حاصل کرے اور لوگ اس کے علم و فضل کے قصیدے پڑھیں تو اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے شخص کو وعید سنائی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ جنت سے اتنا دور ہوگا کہ اسے اس کی خوشبو بھی نہ آسکے گی، حالاں کہ اس کی خوشبو میلوں دور سے محسوس ہوگی۔ (من تعلّم علماً مماّ یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلّمہ الا لیصیب بہ عرضاً من الدنیا، لم یجد عرف الجنۃ۔ ابو داؤد)۔
اس کے بر عکس آج جن علوم کو خالص دنیاوی علوم سمجھا جاتا ہے، اگر کوئی شخص انھیں اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس پر معرفت ِ خدا وندی کے اسرار کھلیں اور وہ ان کے ذریعہ خلق خدا کو فائدہ پہنچائے تو وہ اس پر ضرور بارگاہ الٰہی میں اجر و انعام کا مستحق ہوگا اور اس کا ٹھکانہ جنت میں ہوگا۔
قرآن کریم کی ایک آیت ہے :
إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء(فاطر۔28)
’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں ‘‘۔
اس آیت میں ’ خشیت الٰہی ‘سے بہرہ ور ہونے کا سہرا ’علماء‘ کے سر باندھا گیا ہے۔ لیکن کون سے ’علماء‘؟ محض روایتی، قدیم، دینی علوم کے فیض یافتگان نہیں ، بلکہ تمام علوم سے شغف رکھنے والے لوگ۔ اس آیت سے متصل اس کا نصف اول ٹکڑا اور اس سے پہلے کی آیت ملاحظہ کیجیے :
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء ِ مَاء ً فَأَخْرَجْنَا بِہِ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفاً أَلْوَانُہَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُودٌ ۔وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِک (فاطر: ۲۷۔۲۸)
’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں ، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں ، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں ‘‘۔
دیکھا جائے تو ان آیات میں علم موسمیات (Climatology) علم نباتات(Botany) علم طبقات الارض(Geology)علم بشریات (Anthropology) اور علم حیوانات(Zoology) کی طرف اشارے موجود ہیں اور ان تمام کا شمار موجودہ اصطلاحات کے اعتبار سے جدید علوم میں ہوتا ہے۔
تعلیم گاہ کی خشت اول مسجد نبوی میں بنے ہوئے چبوترے پر رکھی گئی تھی، جسے ہم ’صفہ ‘ کے نام سے جانتے ہیں ۔ وہاں بھی علم کی جامعیت کا تصور پیش کیا گیاتھا۔ اصحاب صفہ نہ صرف قرآن حفظ کرتے اور اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات کو سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کرتے تھے، بلکہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھتے تھے اور فنونِ حرب کی بھی مشق کرتے تھے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جن سردارانِ مکہ کو گرفتار کیا گیا تھا ان کا فدیہ یہ قرار دیا گیا تھا کہ ہر شخص دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ ظاہر ہے کہ ان اسیرانِ قریش نے دینی تعلیم نہ دی ہوگی۔
عہدِ اموی میں جب اسلامی مملکت کی سرحدیں وسیع ہو ئیں اور دیگر قوموں سے ربط و تعامل بڑھا تو اس زمانے کے مرو ّجہ علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی تحریک شرع ہوئی۔ یزید بن ابی سفیان کی وفات (م۶۴ھ) کے بعد رواج دیے گئے دستور کے مطابق ان کے بیٹے خالد کو زمامِ اقتدار سنبھالنی تھی، لیکن اس کا علمی شغف اتنا زیادہ تھا کہ اس نے خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خالد بن یزید نے خود بھی بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا اور دوسروں سے بھی کروایا۔
عالم اسلام میں سیاسی آویزشیں جاری رہیں اور میدان سیاست میں کشت و خوں کا بازار گرم رہا، یہاں تک کہ خلافتِ بنو امیہ کا خاتمہ ہوگیا اور خلافتِ بنو عباس قائم ہو گئی، لیکن علمی تحریک برابر زور پکڑتی گئی۔ عباسی حکم رانوں : منصور اور ہارون رشید نے اس کی سرپرستی کی، یہاں تک کہ مامون رشید نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس کے عہد میں قائم ’بیت الحکمۃ‘میں اس دور کے تمام مرو ّجہ علوم کی کتابوں کا دیگر زبانوں سے عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا ۔
اس دور میں خلافتِ اسلامی کے حدود میں مدارس کا قیام شروع ہوا تو ان میں علوم کی تقسیم کو روا نہ رکھا گیا۔ ان میں داخلہ لینے والے طلبہ تمام علوم حاصل کرتے تھے اور بعد میں ذوق کے مطابق کسی فن میں اختصاص کرتے تھے۔
تاریخ اسلامی میں دولت سلجوقیہ کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی (م۴۸۵ھ) کے ذریعہ قائم ہونے والے مدرسے کو، جو اس کے نام سے منسوب ہو کر ’مدرسۂ نظامیہ‘ کہلایا، غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔ امام غزالیؒ (م۵۰۵ھ) اور ان کے استاد امام الحرمین جوینی (م۴۷۸ھ) اسی طرح ابن الخطیب(م۷۷۶ھ)، تبریزی شارح حماسہ(م۵۰۲ھ)، ابو الحسن فصیحی شاگرد امام عبد القادر جیلانی اور سعدی شیرازی نے اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی یا تدریس کے فرائض انجام دیے تھے۔ نظام الملک نے اپنے حدود مملکت کے دوسرے حصوں میں بھی مدارس کا جال بچھا دیاتھا۔ علامہ شبلیؒ نے اپنے مشہور مقالہ ’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم ‘ میں ایسے مدارس کی ایک طویل فہرست نقل کی ہے جو مسلم حکم رانوں کے دور میں ان کی حدودِ مملکت میں قائم ہوئے۔ نیسا پور، بغداد، ہرات، موصل، اصفہان، ماوراء النہر، بلخ،مرواور خوارزم وغیرہ میں بڑے بڑے مدارس قائم تھے۔علامہ شبلی نے انھیں موجودہ دور کی یونی ورسٹیوں سے تشبیہ دی ہے۔ انھوں نے مصر میں نور الدین زنگی (م۵۶۹ھ) اور سلطان صلا ح الدین ایوبی (م۵۸۹) کے زمانوں میں قائم ہونے والے مدارس کی بھی تفصیل پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ ایران، ترکی اور اندلس کے مدارس کا تذکرہ بھی تفصیل سے کیا ہے۔
ان مدارس میں دینی اور دنیاوی ہر طرح کے علم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ علماء متقدمین میں بعض ایسے حضرات بھی گزرے ہیں جو کسی دینی علم میں بھی مہارت رکھتے تھے اور کسی دنیاوی علم میں بھی۔ مثال کے طور پر الشیخ الرئیس ابو علی ابن سینا (م ۴۳۸ھ) کی شہرت عظیم طبیب کی حیثیت سے ہے۔ اس کی کتاب ’القانون فی الطب‘ ایک ہزار سال سے طبی نصاب کی اہم ترین کتاب ہے۔ یوروپ کے میڈیکل کالج میں بھی تقریباً پانچ سو سال تک داخل نصاب رہی ہے۔ اسی کے ساتھ فلسفہ میں بھی انھیں درک حاصل تھا۔ تیسری طرف علم تفسیر میں بھی انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں ہیں ۔ علامہ علاء الدین ابن نفیس قرشی دمشقی (م ۶۸۷ھ) کا شمار بھی مشہور اطباء میں ہوتا ہے۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے قائم کر دہ اسپتالوں میں وہ افسر الاطباء رہے۔ اس کے علاوہ وہ عظیم فقیہ بھی تھے ۔ قاہرہ کے مدسۂ مسروریہ میں فقہ شافعی کا درس دیتے تھے۔ اس ضمن میں اندلس کے علامہ ابن رشد قرطبی(م ۵۹۵ھ) کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہ بیک وقت طبیب بھی تھے، فلسفی بھی اور فقیہ بھی۔ فقہ میں ان کی کتاب بدایۃ المجتھد، فلسفہ میں تھافت التھافت اور طب میں کتاب الکلیات، یہ تینوں اب تک مرجعِ خلائق ہیں اور مشرق و مغرب میں ان سے بھر پور استفادہ کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان میں بھی مدارس کے قیام کی ایک زرّیں تاریخ ہے۔ عہدِ سلطنت میں اور بعد میں مغلیہ عہد میں ملک کے ہر حصہ میں مدارس قائم کیے گئے۔ ان میں تمام مروجہ علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ان مدارس کو حکومت کی سرپرستی حاصل رہتی تھی اور ان کا پورا خرچ سرکاری طور پر اٹھایا جاتا تھا۔
ہندوستان سے جب مسلمانوں کی حکم رانی ختم ہوئی اور اس پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو ان مدارس پر افتاد پڑی۔ سرکاری امداد سے محروم ہوجانے کی وجہ سے وہ بند ہو گئے۔ انگریزوں نے اپنا نظام تعلیم جاری کیا۔ اس کے تحت جو تعلیمی ادارے قائم کیے گئے وہ ظاہر ہے کہ انگریزوں کی ضرورت پوری کر نے کے لیے تھے۔ سیاسی یلغار کے ساتھ فکری یلغار کی بھی زبردست کوششیں کی گئیں اور عیسائیت کو خوب بڑھاوا دیا گیا۔
اس صورت حال نے تعلیم کی دوئی پیدا کی اور دینی تعلیم اور غیر دینی تعلیم کے دھارے وجود میں آئے۔ کچھ مسلمانوں کے ذریعہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے جو انگریزی حکومت کی ضروریات پوری کر سکیں اور ان کے لیے سول سرونٹس فراہم کر سکیں ۔ دوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیبی وجود و بقا کے لیے فکر مند اصحاب نے ان کے لیے خالص دینی تعلیم کے ادارے قائم کیے، تاکہ ارتداد سے ان کی حفاظت ہو سکے اور وہ مسلمان رہتے ہوئے یہاں زندگی گزار سکیں ۔علی گڑھ کالج غیر دینی تعلیم کا نمائندہ تھا تو دیوبند کا مدرسہ انھیں دینی تعلیم فراہم کرتا تھا۔ ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، انگریزوں کی حکومت ختم ہو چکی ہے، یہ دونوں دھارے اب بھی متوازی چل رہے ہیں اور اپنی اپنی جگہ خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
ادھر کچھ عرصے سے مسلمانوں کی سوچنے سمجھنے والی اور ان کی فلاح و بہبود سے دل چسپی رکھنے والی شخصیات میں تعلیم کی دوئی کو ختم کرنے یا کم سے کم دونوں نظام ہائے تعلیم کے درمیان قربت پیدا کرنے کی فکر ہوئی اور اس کے لیے انھوں نے مختلف تدابیر اختیار کیں ۔ ایک تدبیر انھوں نے یہ اختیار کی کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو کچھ انگریزی پڑھادی جائے اور معاشیات، سیاسیات اور کچھ دوسرے مضامین کی شدھ بدھ فراہم کر دی جائے، تاکہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں سے بالکل اندھیرے میں نہ رہیں اور جدید تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اپنے دین سے بالکل نا بلد رہ جائیں اس کے لیے صباحی اور مسائی تعلیم morning classes اور Evening classes کا انتطام کیا گیا۔ اس تعلق سے زیادہ زور اور محنت دینی تعلیم کے اداروں پر صرف کی گئی۔ مدارس کے نصاب کو out of date قرار دیا گیا،اس کی اصلاح کے لیے زبردست تحریکیں چلائی گئیں ، کانفرنسیں منعقد کی گئیں ، سمینار اور ورکشاپ کیے گئے، تجویز کردہ نئے نصاب کے مطابق کتابیں تیار کی گئیں ۔
دوسری تدبیر یہ اختیار کی گئی کہ دینی مدارس کے فارغین کو جدید مضامین سے واقف کرنے کے لیے خصوصی کورسیز شروع کیے گئے ۔ اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں متعدد تجربات ہو رہے ہیں ۔ یہ تمام کوششیں قابلِ قدر ہیں ۔ ان کے کچھ ثمرات بھی ظاہر ہو رہے ہیں ، لیکن راقم کا احساس ہے کہ دوسری طرف جدید تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے بچوں کی دینی تعلیم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جتنی کوششیں مطلوب تھیں ، وہ نہ کی جاسکیں ۔ دینی مدارس میں مسلم آبادی کے زیادہ سے زیادہ چار(۴) فی صد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ان کی جدید تعلیم کے لیے تو اتنی فکر اور کوشش کی گئی، لیکن جدید تعلیمی اداروں میں داخل چھیانوے(۹۶) فی صد بچوں کو بنیادی دینی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لیے اس کا عشر عشیر بھی کوششیں نہیں کی گئی۔
تعلیم کی دوئی ختم کرنے کے لیے ایک نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ ابتدا میں ایک مرحلے تک بچوں کو دینی اور غیر دینی دونوں طرح کے مضامین پڑھائے جائیں ۔ اس کے بعد اختصاص کی تعلیم شروع کی جائے۔ اس مر حلے میں بچے کے ذوق اور دل چسپی کو دیکھتے ہوئے کسی ایک فن کو خاص کر دیا جائے اور وہ اس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور جس حد تک مہارت پیدا کر سکے، کرے۔
یہ ایک آئیڈیل نظریۂ تعلیم ہے، لیکن یہ جتنا دل کش معلوم ہوتا ہے اتنا ہی دشوار ہے۔ اس کے متعدد تجربے کیے جا رہے ہیں ، لیکن اس میں خاطر خواہ کام یابی نہیں ملی ہے۔ پھر بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس راہ میں برابر پیش قدمی کی جاتی رہے تو ان شا ء للہ منزل دور نہیں ہوگی۔
تحریر الحمد للہ اچھی ہے اور کیوں نہ ہو۔ صاحب تحریر کو اللہ نے ذوق علم سے نوازہ ہے۔ مضمون میں تعلیم کی دوئی کی ساری ذمہ داری انگریزوں کے سر ڈال دی گئی ہے جو ہماری رائے میں صحیح نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ انگریزوں سے سیاسی کشمکش کے سبب انگریزی (رائج الوقت عصری تعلیم) سے مسلمانوں کا گریز بھی رہا ہے۔ اس کی توجیہات اپنی جگہ۔ نقصان ملت کا ہوا ہے۔ جس کی تلافی مشکل ہے۔
برصغیر میں انگریزی علوم آنے کے بعد دو گروہ ہو گئے۔۔۔
ایک وہ مذہبی گروہ جس نے دین کو مقدم رکھا اور سائنسی علوم وغیرہ سب کچھ موخر کردیا_ انہوں نے عوام سے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ سائنسی ایجادات سے مستفید نہ ہوں اور جہاں اسلام پر زد پڑتی تھی یا جدید و قدیم کا کوئی قضیہ پیدا ہوتا تو اس گروہ نے اس کو حل کرنے کی کوشش کی۔۔
الانتباھات المفیدہ
احکام اسلام عقل کی روشنی میں
اسلام اور عقلیات جدیدہ
اور جدید علم الکلام کی تدوین کی بات اسی شعور کی آواز تھی ۔۔
جس سے علم الکلام شبلی اور العقل و النقل شبیر احمد عثمانی اوعلامہ اقبال کی تصانیف ظہور ہوئیں۔۔۔!!!
یہ طبقہ سویا نہیں تھا اور نہ حقائق سے بے خبر تھا ابوالکلام آزاد ، جوہر برادران، عبیداللہ سندھی اور ان جیسے علماء کا فرمانا تھا کہ:
کسی طریقہ سے خلافت کا احیا کیا جائے تو تمام مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔۔۔!!!
اور باقی علما جو مسلم لیگ کے ساتھ تھے وہ بھی ایک الگ وطن اسی مقصد کے لئے چاہتے تھے۔۔۔!!!
دوسرا طبقہ وہ تھا کہ جو انگریزی پروپیگنڈہ کا اتنا شکار ہوا کہ دین کو خدا حافظ کہہ دیا..
سر سید احمد خان، اور ان کے ساتھ سارے سیکولر اور لبرل طبقہ کا یہی حال تھا۔۔!!!
باقی رہے مولاناحمید الدین فراہی ، امین احسن اصلاحی اور ان کا مکتب فکرتو, ایسی کوئی فکر لاحق نہیں تھی کہ قدیم و جدید کو کیسے اکٹھا کیا جائے بلکہ اس کے برعکس مدرستہ الاصلاح کی تاسیس کی وجہ مولاناامین احسن اصلاحی کے مطابق یہ تھی کہ:
حمید الدین فراہی فرمایا کرتے تھے کہ دین نکلتا جارہا ہے ۔۔
یہ گروہ بھی درحقیقت پہلے گروہ میں شامل تھا اور اسرار صاحب نے شاید اس گروہ کو سرسید کے ساتھ اس لئے ملایا کہ یہ سارے سرسید کے شاگرد تھے ۔۔۔
اور ان پر جو مخالفت ہوئی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ یہ جدیدیت کے قائل تھے بلکہ قرآن کے اصول تفسیر میں جمہور کا راستہ چھوڑنے کی وجہ سے قابل ملامت ہوئے حالانکہ مولانا
حمیدالدین فراہی کی شخصیت اتنی قدیم مزاج تھی کہ وہ٫٫ تفسیر القرآن بالقران ،،کے بعد شعر جاہلی کو مآخذ مانتے تھے یہ الگ بحث ہے۔۔۔
اورمولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تفسیر لکھی لیکن سائنسی نہیں۔۔۔!!!
مجموعی طور پر یہ سارے حضرات پہلےا ہی گروہ سے ہیں ,سوائے سرسید اور ان کے دلدادہ کے۔۔۔