مسلم خواتین: ایکٹوزم کی راہیں
سہیل بشیر کار
خواتین نصف انسانیت ہے کسی بھی معاشرہ کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب پوری آبادی سرگرم ہو۔ جہاں آدھی آبادی بیکار ہو وہاں ترقی ممکن نہیں، دور حاضر میں خواتین مختلف میدانوں میں سرگرم رول ادا کر رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں صحیح ڈائریکشن دی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ وہ کس کس میدان میں کام کر سکتی ہیں۔ زیرک مصنف ڈاکٹر محی الدین غازی کی زیر تبصرہ کتاب ’مسلم خواتین ایکٹوزم کی راہیں‘ اس سلسلے کی اہم پیش رفت ہے۔ مصنف نے کتاب کو 9 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب کا فکر انگیز مقدمہ دانشور قائد انجینئر سید سعادت اللہ حسینی نے لکھا ہے۔ کتاب کے بارے میں آپ لکھتے ہیں: "اس کتاب سے موجودہ حالات میں مسلمان خواتین کا مطلوب سماجی کردار پوری طرح واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ عام مروج اسلوب کے برخلاف اور بجا طور پر اس کتاب میں فاضل مصنف نے براہ راست خواتین کو مخاطب کیا ہے۔ انہیں اصول بھی بتائے ہیں، راہیں بھی دکھائی ہیں اور ان راہوں پر آگے بڑھنے کی طاقتور تحریک اور ترغیب بھی فراہم کی ہے۔ مصنف کی بتائی ہوئی راہ اسلام کے معتدل مزاج اور عدل پر مبنی اسلامی نسائی تصور کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے۔ وہ اپنی قارعات کو ان رجحانات سے بھی بچاتے ہیں جو مغربی تہذیب کا سیلاب بلا خیز پیدا کر رہا ہے اور ان روایت پرست رویوں سے بھی اوپر اٹھاتے ہیں جو صلاحیتوں کے استعمال اور دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں۔ دونوں انتہاؤں کے بیچ وہ اسلام کی سواء السبیل ٹھوس دلائل کے ساتھ روشن کر دیتے ہیں۔ ‘‘ (ص 9) مزید لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب خواتین کی سماجی سرگرمی کے سلسلے میں ماضی بعید، ماضی قریب، حال اور مستقبل کو ایک کڑی میں پرونے کی بڑی کامیاب کوشش ہے۔‘‘ (ص 11)
کوئی بھی اہم کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر ہو۔ جس کی شخصیت جس قدر پروان چڑھے وہ اس قدر دین کی خدمت کر سکتا ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے خواتین کو بتایا کہ وہ کس میدان میں اپنی شخصیت کی تعمیر کر سکتی ہے۔ مضمون کے شروع میں مصنف نے جہاں ان خواتین کے رول کو بیان کیا ہے جن خواتین نے مشکل ترین حالات میں اپنے شوہروں کا ساتھ دیا ہے؛ وہیں ان خواتین کا بھی تذکرہ کیا ہے جنہوں نے خود اپنے بل پر بڑے کارنامے سرانجام دئے ہیں :
’’قرآن مجید میں بڑے کارنامے انجام دینے والی جتنی نیک عورتوں کا ذکر ہے، ان میں سے زیادہ تر نے خود اپنے بل پر وہ کارنامے انجام دیے۔ ملکہ سبا نے خود اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد پوری قوم نے اسلام قبول کر لیا۔ فرعون کی بیوی نے فرعون کے نہایت شدید مظالم کا بے نظیر شجاعت کے ساتھ سامنا کیا۔ حضرت موسی کی ماں نے شیر خوار بچے کو صندوق میں رکھ کر نہایت جرات کے ساتھ دریا میں ڈال دیا۔ حضرت موسی کی بہن نے تن تنہا فرعون کے محل تک جا کر نہایت مشکل اور خطرناک مہم کو انجام دیا۔ حضرت مریم کی ماں نے پیٹ میں پل رہے بچے کو اللہ کے لیے وقف کرنے کا خود فیصلہ کیا۔ حضرت مریم نے تنہا اپنی قوم کی اذیتوں کا سامنا کیا۔‘‘(ص 15)
مصنف کہتے ہیں کہ وہ تحریری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تقریری صلاحیت بھی پیدا کریں، انہیں چاہیے کہ جہاں وہ عبادت میں شوق پیدا کریں وہی جتنے ہنر ممکن ہوں؛ ان کو سیکھ لیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ خواتین کو ذاتی ارتقاء کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی خواتین کو خود پیش قدمی کرنی چاہیے۔
دوسرے باب "علم کا میدان آپ کا اپنا میدان ہے "میں مصنف خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ علم کا میدان جس طرح مردوں کا میدان ہے اسی طرح خواتین کا بھی ہے۔ ماضی میں خواتین اس سلسلے میں آگے تھیں لیکن اب صورتحال بہتر نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ خواتین علم کے میدان میں آگے بڑھے۔ ماضی کی مثال دے کر وہ لکھتے ہیں: "ایک دور تھا جب علم کا ہر طرف دور دورہ تھا علم کے سفر میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شریک تھیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں حدیث کے علم میں ماہر خواتین سینکڑوں کی تعداد میں تھیں۔ اس زمانے میں حدیث کا کوئی عالم ایسا نہیں ملتا جس کے اساتذہ میں خاتون محدث نہ ہوں۔ امام ابن حجر جیسے متعدد مشہور علمائے حدیث نے خواتین سے علم حاصل کیا تھا۔”(ص 40) پھر وہ تاریخ سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جہاں آپ عائشہ صدیقہ کی عظیم درس گاہ کی سیر کرواتے ہیں؛ وہیں آپ فخر نسواں شھدہ بنت ابونصر سے بھی قاری کو واقف کراتے ہیں۔
تیسرے باب ’’گھر، خاندان اور پڑوس (آپ کے سرگرمی کے میدان) میں مصنف لکھتے ہیں کہ مسلم خاتون کی سرگرمی کا سب سے پہلا میدان گھر ہے۔ اس کے بعد خاندان اور پڑوس ہے۔ مصنف حضرت اسما کی سیرت کے چند گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے ان کی شخصیت کے اندر توازن تھا۔ ایک طرف وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمی و تربیتی مجلسوں سے فیض اٹھاتیں، اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرتی؛ وہیں گھر اور باہر کے سارے کام اپنے ذمے لے لیتی تھی۔ عظیم شوہروں کی عظیم بیویاں کے تحت انہوں نے ماضی قریب کی کئی مثالی بیویوں کا ذکر کیا ہے۔’’اپنے پڑوس کی قدر پہچانیں‘‘ کے عنوان کے تحت سمجھایا ہے کہ پڑوسی کے لیے ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی مصنف سمجھاتے ہیں کہ خوش مزاج بنیں اور دل کو کشادہ رکھیں۔
آج کے دور میں سماجی خدمت کا دائرہ کافی بڑھ گیا ہے، سماجی خدمت کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خواتین سماجی خدمت کے میدان میں بھی پہل کریں۔ مصنف نے چوتھے باب ’سماجی خدمت کے میدان میں آگے بڑھیں‘‘ میں خواتین کو مختلف میدانوں میں کام کرنے کی ترغیب دی ہے۔ انہوں نے مثالوں سے سمجھایا ہے کہ ماضی میں کس طرح خواتین نے قانونی میدان، اہل اختیار پر اثراندازی، مالی مدد کے ذریعہ شاندار مثالیں قائم کی ہے۔ مضمون میں خواتین کی طرف سے کی گئی سماجی خدمت کی بہترین مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’مراکش کے شہر فاس میں ایک یونیورسٹی ہے جس کا نام جامعہ قرویین ہے۔ جب بات آتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کون سی ہے، تو ایک نام جامعہ قرویین کا بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اعلی تعلیم کے اس قدیم ادارے میں یوروپ کے بڑے پادری بھی زیر تعلیم رہے اور عالم اسلام کے بعض چوٹی کے علما بھی یہاں سے وابستہ رہے، جیسے علامہ ابن العربی؛ علامہ ابن حزم، علامہ ابن رشد اور علامہ ابن خلدون۔ اس جامعہ کی تاریخ یہ ہے کہ قیروان کے ایک فقیہ محمد بن عبداللہ الفہری نے اپنے پیچھے اپنی دو بیٹیوں مریم اور فاطمہ کے لیے بڑی دولت چھوڑی۔ مریم اور فاطمہ دونوں بہنوں نے طے کیا کہ اپنی زمین پر خاص اپنی رقم سے ایک بڑی مسجد تعمیر کریں گی۔ جب مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو انھوں نے اسے ایک بڑی درس گاہ کی شکل دی اور اس وقت کے تمام علوم کی تعلیم کا نظام شروع کیا۔‘‘
سماجی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ مختلف معمولات اور روایات کی پشت پر موجود ریفرنس گروپوں کی شناخت کی جائے اور ان پر محنت کی جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شادی بیاہ سے متعلق معاملات میں سب سے اہم ریفرنس گروپ خواتین کا گروپ ہے، خاص طور پر درمیانی عمر کی اور معمر خواتین جو خاندانوں کی روایات اور تقریبات وغیرہ پر اکثر غیر معمولی کنٹرول رکھتی ہیں اور کئی صورتوں میں مرد بھی ان کے دباؤ کے آگے بے بس ہوتے ہیں۔ ہر خاندان میں دو چار خواتین، تبدیلی کے لیے تیار ہو جائیں تو خود بخود تبدیلی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ خواتین کے درمیان کام کرنے والی اصلاحی تنظیمیں ہر شہر اور قصبے میں خواتین کے ایسے گروپ تشکیل دے سکتی ہیں جو مستقل ان باتوں کی طرف متوجہ ہوں اور آسان نکاح کے لیے صرف بیداری ہی نہ لائیں بلکہ شدید سماجی دباؤ بھی پیدا کریں۔“ (اصلاح معاشرہ منصوبہ بند عصری طریقے، ص 86)
مضمون میں’’ہندوستانی خواتین میں سماجی خدمت کی روایت‘‘ کے عنوان کے تحت مصنف نے کئی ہندوستانی خواتین کی مثالیں دی ہیں جنہوں نے سماجی خدمت میں اہم رول ادا کیا۔
کتاب کے پانچویں باب ’’آپ سماج کی اصلاح کرسکتی ہیں‘‘ میں مصنف نے خواتین کو بتلایا ہے کہ سماجی بیداری کے لیے وہ کوشش زیادہ کامیاب ہو سکتی ہے جو خواتین کریں۔ اس سلسلے میں انہوں نے درجنوں مثالیں دی ہیں۔ ساتھ ہی مصنف یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہمیں اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے۔
چونکہ دین اسلام نے عورت کو معاشی ذمہ داری سے آزاد رکھا ہے۔ ایسے میں یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے شاید خواتین کو معاشی جدوجہد کرنی ہی نہیں چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کا بنیادی میدان ان کا گھر ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ معاشرہ کی تعمیر میں اپنا ایکٹیو رول نہ نبھائے۔ دور حاضر میں creation of wealth کی کافی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس کے لیے جہاں مردوں کو آگے آنا ہوگا وہیں خواتین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کتاب کے چھٹے باب ’’آپ اپنی دولت کی امین ہیں‘‘ میں مصنف نے خواتین اور معاش پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ نے سیرت مبارکہ سے تین نمونوں حضرت خدیجہ بہترین تاجر؛ حضرت زینب بنت جحش بہترین ہنر مند اور امی عائشہ مال کو تقسیم کرنے والی کی نشاندہی کی ہے۔ اگرچہ دور جدید میں مخلوط معاشرہ کی وجہ سے خواتین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہیں معاش کے ایسے مواقع بھی سامنے آئے ہیں جہاں عورت گھر سے بھی کام کر سکتی ہے۔ اس بارے میں بھی مصنف نے اظہار خیال کیا ہے۔ معاش کے حوالے سے مصنف نے 8 قیمتی مشورے بھی دیے ہیں۔ مصنف کو قرآن کریم سے خاصا شغف ہے۔ انہوں نے قرآن کریم سے خوب استفادہ کیا ہے؛ لکھتے ہیں:
"قرآن مجید میں مدین کی دونوں لڑکیوں کی روداد یہ بتاتی ہے کہ جب مرد معاشی ضرورتیں پوری کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں، یا ان کی کمائی گھر کی معاشی ضرورتیں پوری نہیں کر رہی ہو، تو یہ ہرگز معیوب نہیں ہے کہ خواتین بھی شرم و حیا کا پاس رکھتے ہوئے کسب معاش کے عمل میں شریک ہو جائیں۔‘‘ (ص 118)
البتہ یہ باب مزید تفصیل کا تقاضا کرتا ہے۔ امید ہے مصنف اگلے ایڈیشن میں اس طرف خصوصی توجہ دیں گے۔
ساتویں باب ’’اپنی سیاسی قوت کو پہچانیے‘‘ میں مصنف نے بدلتے ہوئے حالات جب ہر ایک کے ووٹ کی اہمیت ہے؛ میں خواتین کو بتایا ہے کہ وہ اپنی سیاسی قوت پہچانیں، انہوں نے قرن اول سے مثالیں دی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سنہرے دور میں کس طرح خواتین سیاسی معاملات میں اپنا رول نبھاتی تھیں۔ دور حاضر میں کرنے کا کام کے تحت مصنف مسلمان خواتین کو اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سماج کی فعال اور مؤثر خواتین سیاسی میدان میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ملک کے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں ان کے لیے مواقع بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ مردوں کی طرح تمام خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، مردوں کی طرح تمام خواتین کو الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بہت ہی سیٹیں صرف خواتین کے لیے ریز رو ہوتی ہیں، جہاں سے خواتین ہی الیکشن میں کھڑی ہو سکتی ہیں۔ رجحان بھی تبدیل ہوئے ہیں، پہلے کی طرح اب عورتیں مردوں کی اتباع میں رائے نہیں دیتی ہیں، بلکہ وہ اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرتی ہیں۔‘‘ (ص 129)
کتاب کے آٹھویں باب ’’دین کی نصرت میں پیچھے نہ رہیں‘‘ میں مصنف خواتین کو بتاتے ہیں کہ اس دور میں جب مسلمانوں کو نصرت کی ضرورت ہو تو انہیں بھی اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے، مصنف جہاں قرن اول سے حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت خولہ کی مثال دیتے ہیں وہیں ماضی قریب سے زینب الغزالی کی جدوجہد سے بھی قاری کو روشناس کراتے ہیں۔ کرنے کے کام کے تحت 9 چیزوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
قرآن کریم خواتین کو کس حیثیت سے پیش کرتا ہے، نویں باب ’’قرآن مجید میں مسلم عورت‘‘ میں مصنف نے دکھایا ہے کہ قرآن کس طرح خواتین کو پیش کرتا ہے، مصنف مضمون کے شروع میں ہی لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں مسلم عورت کا نہایت طاقت ور کردار پیش کیا گیا ہے۔ اور یہ طاقت ور کردار اس دنیا کے سامنے پیش کیا گیا جوعورت کو بے حد کم زور سمجھتی تھی۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں مسلم عورت کا تذکرہ ہے، اس میں کہیں بھی ذرہ برابر کم زوری نظر نہیں آتی ہے۔ وہ حالات کا بہادری اور پامردی سے مقابلہ کرتی ہے۔ نہایت پر خطر مہمات انجام دیتی ہے۔ نہ بھی راہ فرار اختیار کرتی ہے، نہ کسی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے، اور وہ یہ سب تنہا کرتی ہے۔ کبھی مردوں پر انحصار کیے بغیر اور کبھی مردوں کی مخالفت کے علی الرغم، محض اپنے ذاتی فیصلے سے وہ اللہ کی راہ میں اسی طرح سرگرم اور ثابت قدم نظر آتی ہے جس طرح مومن مرد نظر آتے ہیں۔ ذرا بھی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ البتہ مومن مردوں اور مومن عورتوں میں دین کی خاطر باہم تعاون کا پہلو بہت نمایاں نظر آتا ہے، یہی مثالی صورت ہے۔‘‘ (ص 149)
مصنف نے دکھایا ہے کہ قران کریم میں کس طرح دو باہمت بیویوں (حضرت سارہ)، عظیم ماں (عمران کی بیوی)، بلند ترین نسائی منزل (مریم)، صبر و ہمت والی ماں اور بہن (حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں اور بہن) مدین کی عفت شعار بچیاں (حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں )؛ حکمت و دانائی سے مالامال ملکہ سبا؛ ظالم فرعون کی بہادر بیوی کا خوبصورتی سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس باب کا اختتام مصنف مسلم خاتون کو جھنجھوڑتے ہوئے کرتے ہیں، لکھتے ہیں: ’’جب دین کی نصرت وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہو، حق و باطل کا معرکہ برپا ہو، دین کی دعوت سب پر فرض ہو چکی ہو، ایسے میں اسلام کا فہم و شعور رکھنے والی خواتین کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو گھر کے کچھ کاموں تک محدود کر لیں اور حال کی آدھی انسانیت، یعنی عورتوں میں اور مستقبل کی پوری انسانیت، یعنی بچوں میں باطل کو پھلتے پھولنے اور پھیلنے کی کھلی آزادی دے دیں۔ قرآن وسیرت میں تو انھیں اونچے نصب العین اور عظیم کردار کی تعلیم دی گئی ہے۔‘‘ (ص 166)
168 صفحات کی Thought Provoking زیر تبصرہ کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ practical باتوں کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ اس میں کلامی اور فقہی بحث سے اعراض کیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب کو وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے اور اجتماعات میں اس کی خواندگی کی جائے۔ مصنف اپنی بات آسان اسلوب میں سمجھانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کتاب اعلی طباعت سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئ دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کی قیمت 150 روپے مناسب ہے۔ یہ کتاب واٹس ایپ نمبر 7290092403 سے رابط کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔
مبصر سے رابط: [email protected]
بہت عمدہ کتاب پر بہت جامع تبصرہ – جزاکم الله خیرا کثیرا محترم