حفیظ نعمانی
اترپردیش کے لیے بی جے پی کے اندر کون سا مسئلہ ہے یہ وہ جانیں لیکن بی جے پی کے حلقہ سے باہر اترپردیش اور دہلی میں صرف ای وی ایم مشین بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اور ہم خود بھی حیران ہیں کہ مس مایاوتی 2007ء میں 207سیٹیں لے کر آئی تھیں اور وزیر اعلیٰ بنی تھی تب بھی یہی مشین تھی۔ فرق یہ تھا کہ اس وقت بی جے پی کہا کرتی تھی کہ مشینوں میں گڑبڑی کرکے ہمارے ووٹ مخالفوں کو دے دئے گئے۔ اور سب کو یاد ہوگا کہ ایڈوانی جی سب سے پیش پیش تھے۔
پنجاب میں کیا ہوا یہ پنجاب والے جانیں یا کجریوال لیکن اترپردیش کی کہانی صاف ہے کہ مس مایاوتی نے یہ یقین کرلیا تھا کہ اس بار ان کی با ری ہے۔ اور اترپردیش میں بھی وہی ہوگا جو تمل ناڈو میں ہوتا رہا ہے کہ ایک بار کروناندھی اور دوسری بار جے للتا۔ یا کیرالہ کی طرح ایک بار کمیونسٹ پارٹی اور دوسری بار کانگریس اور اکھلیش بابو یہ سمجھتے رہے کہ اس بار وہ ہوگا جو ممتا بنرجی نے بنگال میں کیا، نتیش کمار نے بہار میں اور جے للتا نے تمل ناڈو میں ۔ اور ہر سیاست کا جاننے والا ایسی ہی امید کررہا تھا۔ لیکن وزیر اعظم نے اپنا تام جھام اپنے آداب اور اپنی ذمہ داریاں طاق پر رکھ دیں اور وہ آرایس ایس کے پرچارک بن کر الیکشن میں اتر آئے۔ اور اکھلیش یادو اور مایاوتی کا نا م لے لے کر اس طرح ان پر برسے جیسے وہ مخالف پارٹی کے لیڈر ہوں اور حکمراں پارٹی کے خلاف بول رہے ہوں اور یہ سب انھوں نے اس لیے کیا کہ جن کی طرف سے وہ بول رہے تھے وہ تالیاں بجا رہے تھے اور ان تالیوں کے جوش میں وہ رمضان کو دیوالی سے ملا رہے تھے اور قبرستان کو شمشان سے ۔ جب وزیر اعظم یہ بھول جائے کہ وزیر اعظم کا کیا مقام ہے تو انجام صرف یہی نہیں ہوتا جو اترپردیش میں ہوا بلکہ وہ بھی ہوتا ہے جو گوا اور منی پور میں ہوا کہ طا قت اور حکومت کے بل پر حکومت بنالی۔
اترپردیش میں 22 فیصدی ووٹ مس مایاوتی کو ملے جو خود ان کے کہنے کے مطابق دلتوں کے ہوں گے۔ انھوں نے صرف مسلمانوں کو ٹکٹ دیا اور پیشہ ور دلال مولویوں سے حمایت خرید لی اور یہ سمجھ لیا کہ 19 فیصدی مسلمان سب انہیں مل جائیں گے۔ انھوں نے اپنے پانچ سال میں مسلمانوں کے لیے اتنا بھی تو نہیں کیا جتنے پتھر کے سیکڑوں ہاتھی بنا لیے۔ مایاوتی جی مشینوں کو تو نشانہ بنا رہی ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہیں کہ اترپردیش کے مسلمانوں نے ان کو 2007ء میں بھرپور ووٹ دئے تھے۔ جس کا جواب انھوں نے ایک تو یہ دیا کہ ایک عیدگاہ کے امام کو سیکورٹی دے دی اور تام جھام سے رتبہ بڑھا دیا۔انھوں نے دیکھا کہ ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان اس کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تو یہ بھی مسلمانوں کا کانشی رام ہے۔ اور یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ وہ نہ اسلام کے با رے میں کچھ جاننا چاہتی تھیں اور نہ نماز پڑھنے ا ور پڑھانے والوں کے رشتہ کے بارے میں معلوم کرنا چاہ رہی تھیں ۔
اپنی ۵ سالہ حکومت کے دوران انھوں نے کبھی اردو کے ادیبوں اور دانش وروں کو بلا کر معلوم نہیں کیا کہ اردو کا کیا مسئلہ ہے؟ ایک اردو اکادمی ہے اس کے چیرمین کا مسئلہ آیا تو انہیں یاد آیا کہ ایک مسلمان لڑکے نے جو قریشی برادری کا تھا پیسے بھی بہت دئے اور ووٹ بھی دلائے اور یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس کی تعلیم کیا ہے؟ بس یہ معلوم تھا کہ وہ مسلمان ہے گلے میں سونے کی زنجیر پہنتا ہے اور سلک کا کرتہ ،اتنی سی معلومات پر اسے اردو اکادمی کا چیرمین بنادیا۔ اور وہ جب آیا تو اکادمی ہل گئی۔ انھوں نے اپنا تعارف کرایا کہ ہم ا ردو پڑھ تو لیتے ہیں لکھ نہیں سکتے اگر مایاوتی ۵ سال رہتیں تو وہ ۵ سال چیرمین رہتا اور ہوسکتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرتا کہ جو کتاب وہ پڑھ نہیں سکتا اسے ردّی میں بیچ دیا جائے اور شاید حکم کی تعمیل ہو بھی گئی ہوتی۔ خیریت یہ ہوئی کہ ملائم سنگھ آگئے اور چیرمین صاحب کی چھٹی کردی گئی۔
حیرت یہ ہے کہ انھوں نے کیوں سمجھ لیا کہ مسلمان ان کو ووٹ دے دیں گے؟ 2007ء میں ووٹ دئے تھے تو اس لیے کہ مسلمان ملائم سنگھ سے ناراض ہوگئے تھے۔اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ملائم سنگھ امر سنگھ کی مٹھی میں بند تھے اور امر سنگھ کو مسلمانوں نے کبھی پسند نہیں کیا۔
دہلی میں زور شور سے مطالبہ ہورہا ہے کہ کارپوریشن کے الیکشن بیلٹ پیپر سے کرائے جائیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ اس بیلٹ پیپر کو کیوں آواز دی جارہی ہے جسے اس لیے ختم کیا گیا تھا کہ اس میں بے ایمانی بہت آسان تھی۔ 1953میں میونسپل بورڈ کے ا لیکشن ہوئے تو بیلٹ پرچی ہوتی تھی جو دو روپے کے نوٹ جیسی ہوتی تھی۔ ہم نے خود دیکھا کہ ووٹ دینے والے سے کہا جارہا ہے کہ پرچی گولک میں ڈالنا نہیں جیب میں رکھ لے آنا اور ہم سے دس روپے لے کر ہمیں دے دینا۔ اور جب 25-20ہوجاتی تھیں تو اپنے بھروسہ کے آدمی کو دے دی جاتی تھیں کہ اپنی پرچی کے ساتھ انھیں بھی گولک میں ڈال دینا۔ بے ایمانی کا سب سے آسان طریقہ یہ تھا۔ اس کے بعد ووٹ دینے والے کے دستخط بھی کرائے انگوٹھا لگوایا لیکن بے ایمانی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ 1971میں یونس سلیم صاحب علی گڑھ سے الیکشن لڑ رہے تھے، دو رائونڈ میں الیکشن ہونا تھا، اسمبلی کی2 سیٹوں کا پہلے رائونڈ میں ہوا جس میں سلیم صاحب کو 70فیصدی ووٹ مل گئے اور شام کو شہر میں فساد کرادیا گیا۔ ہر طرف کرفیو لگ گیا اور پولنگ کو 10 دن کے لیے بڑھا دیا گیا۔
تین اسمبلی سیٹوں کا الیکشن دیہات کا تھا جو جاٹوں کا علاقہ تھا۔ وہاں پولنگ ایجنٹ کون جاتا؟ جب ہم لوگ گئے تو پولنگ پر کوئی ووٹ دینے والا نہیں تھا اور جب شام کو واپس آئے اور افسروں سے معلوم کیا کہ کتنے ووٹ پڑے تو جواب ملا کہ 80فیصدی۔ سب حیران تھے کہ ووٹ کون ڈال گیا؟ یہ کام سرکاری کارندوں نے کیا کہ خالی بیٹھے بیٹھے کیا کریں ۔ ووٹ ڈالتے رہیں ۔اور سلیم صاحب ہار گئے اس لیے کہ پولنگ کااسٹاف ہندو تھا،اس سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ چرن سنگھ کی حکومت تھی اور وریندرورما وزیر داخلہ تھے انھوں نے جاٹ کو جتا دیا۔ ہم نے نہ جانے کتنے الیکشن لڑائے ہیں ۔ اگر بے ایمانی کی کمی ہوئی ہے تومشینوں کے آنے سے ۔مایاوتی جو چاہیں کریں اور جب تھک جائیں تو پوری ایمانداری سے راہل گاندھی اور اکھلیش کے ساتھ محاذ بنالیں ۔ بی جے پی کی کامیابی میں دو مسلمان دلالوں کے ساتھ اجیت سنگھ بھی شریک ہیں ۔ جنھوں نے ٹکٹ تو سیکڑوں دے ئے اور سیٹ ایک ملی، انھوں نے اکھلیش اور مایاوتی کے ہندو ووٹ خوب کاٹے اور جو ہوا اسی کا نتیجہ ہے۔
مس مایاوتی نے اپنی حکومت میں ایک کام مسلمانوں کے لیے اور کیا کہ ایک کانشی رام اردو فارسی عربی یونیورسٹی بنا دی۔ ہم نہیں جانتے کہ کس مسلمان دانش ور نے یہ مشورہ دیا تھا؟ لکھنؤ یونیورسٹی اور اس سے جڑے ہوئے ایک درجن سے زیادہ کالجوں میں اردو عربی فارسی کے شعبے ہیں اور بی اے تک ہر کالج میں پڑھائی ہوتی ہے۔ ایک یونیورسٹی کس کام کی؟ پھر اس کا نام بھی کانشی رام رکھا جو نہ اردو جانیں نہ فارسی نہ عربی۔ وہ اگر ہر شہر میں ایک اسکول اردو پڑھانے کا کھولنے کا حکم دیتیں اور سرکاری ملازم کو اردو جاننا لازمی کردیتیں اور اردو کا جواب اردو میں دینا لازمی کردیتیں اور اس پر عمل کرادیتیں تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ مسلمان 2012میں بھی ان کو لاتے، نہیں تو 2017میں تو ضرور لاتے۔ لیکن وہ ہاتھی پارک، مورتیاں اور نیلے رنگ میں ایسی ڈوبیں کہ اس سے نکل ہی نہ سکیں ۔ ان سب باتوں کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقہ کے لیے دروازے کھلے رکھے جائیں اور ہر طرح کے لوگوں سے مل کر ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی جائے جو ان کے اندر بالکل نہیں ہے۔ اب بھی اگر انہیں سیاست میں رہنا ہے تو سب کے لیے دروازے کھول کر رکھیں اور سب کے خیال کا تبادلہ کرنے کی عادت ڈالیں ۔ 22 فیصدی دلتوں پر گھمنڈ چھوڑ دیں ۔ آج کے زمانہ میں کوئی کسی کا غلام نہیں ہوتا۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔