یہ جرم تمہارا ہے ملت کے نگہبانو! 

عبدالقوی عادل

لفظ ‘بچپن’ جیسے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے، ذہن میں نہ جانے کتنی تصویریں دوڑنے لگتی ہیں . ماں باپ کی آنکھوں کا دلارا ہونا، دادا دادی سے قصے کہانیاں سننا، دن بھر کھیلنا کودنا، گھر بھر میں دھماچوکڑی مچانا اور پڑھنے کا وقت ہوتے ہی بستا کھول کر بیٹھ جانا. کتنا حسین ہوتا ہے ناں بچپن؟ سچائی، معصومیت اور سادگی سے بھرا ہوا. نا آنے والے کل کی فکر اور نا ہی ذمہ داریوں کا بوجھ. لیکن ذرا سوچیے کہ وہ بچپن کیسا ہوگا جس کی صبح و شام دھماکوں کی ہولناک آوازوں سے ہوتی ہوگی، جس نے پیٹھ پر بستے کی بجائے اینٹیں اور پتھر لادے ہوں گے، جس کے نازک ہاتھوں نے قلم کے بجائے بندوق اٹھائی ہوگی اور جو جوانی کے دن دیکھنے سے پہلے ہی نام نہاد امن پسند ملکوں کی آپسی جنگ کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلا گیا ہوگا، تصور کر کے ہی روح کانپ جاتی ہے لیکن شام کے زمینی حقائق کچھ یہی کہتے ہیں .

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف (UNICEF) کی حالیہ رپورٹ (13/03/2017) شامی بچوں کی ایک ہولناک داستان بیان کر رہی ہے جس کے مطابق گزشتہ سال 2016 شامی بچوں کے لیے ایک دردناک اور بدترین سال رہا. خانہ جنگی کی چھٹی سالگرہ کے موقع پر پیش کی گئی یونیسف کی یہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ سال 2016 میں پہلے سے کہیں زیادہ بچے جاں بحق ہوئے ہیں اور ایک بڑی تعداد ابھی بھی زخموں سے چور ہے.

چھ سال سے جاری اس خانہ جنگی میں 80 فیصد سے زیادہ بچے بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے ہیں جب کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً 37 لاکھ بچے پیدا ہوئے ہیں ، وہ معصوم بچے جنہیں تتلیوں اور کھلونوں سے کھیلنا تھا، جنہیں پارکوں اور جھولوں سے لطف اندوز ہونا تھا وہ بچپن کے خوبصورت اور یاد گار لمحات کو حاصل نہ کرپائے، انہوں نے سوائے جنگ کے کوئی دوسرا ماحول دیکھا ہی نہیں . بھوک اور بیماری، گولی اور بمباری، زخم اور علاج ہی ان کے بچپن کی داستان ہے.

شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی اپنے چھٹے سال میں داخل ہوچکی ہے اس دوران جنگ نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کیا ہے اور وہ معصوم بچے ظالم و جابر حکمرانوں کے ظلم کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں . یونیسف کے مطابق صرف سن 2016 میں شام کے اندر کم از کم 652 بچے ہلاک ہوئے ہیں اور ان میں سے تقریباً 250 بچے اسکول کے اندر یا کھیل کے میدان میں ظلم کا شکار ہوئے ہیں ، یہ تعداد صرف مصدقہ اموات کی ہے اصل حقائق اس سے کہیں زیادہ اور رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں .

2015 کے مقابلے میں 2016 میں اموات کی شرح میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے.

رپورٹ میں اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ گزشتہ سال 850 سے زیادہ بچوں کو لڑنے کے لیے جبراً فوج میں بھرتی کیا گیا ہے اور یہ تعداد 2015 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے. بھرتی کیے جانے والے بچوں کو عام طور پر محاذ پر لڑنے کے لیے بھیجا گیا، بعض کو پھانسی دینے والے، خودکش حملہ آور اور جیل کے محافظوں کے طور پر استعمال کیا گیا.

2016 میں شامی حکومت نے روسی طیاروں کی مدد سے اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنائے رکھا جس سے تقریباً 255 بچے اسکول کے اندر یا اس کے آس پاس مارے گئے.

 جنگ نے شام میں پورے نظام تعلیم کو تباہ کر دیا ہے، تقریباً 30 فیصد اسکول تباہ ہو چکے ہیں یا وہاں پناہ گزیں کیمپ یا فوجی چھاؤنی بننے کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ بند ہوگیا ہے.

اس وقت نئی نسل کی تعلیم ایک بڑا مسئلہ ہے 2011 کے بعد سے ہزاروں بچے ہلاک ہوچکے ہیں لیکن جو باقی بچے ہیں ان کا مستقبل بھی تاریک دکھائی دیتا ہے، آئے دن اسکول اور اس کے ارد گرد بمباری نے بچوں کو اسکول جانے سے روک دیا ہے جس سے تقریباً 40 فیصد بچے اسکول نہیں جارہے ہیں .

شامی بحران سے متاثر ہو کر نقل مکانی کرنے والے محمد نامی بچے نے "Save the children” نامی ایک گروپ کو بتایا کہ "میں نہیں جانتا کہ کیسے لکھتے اور پڑھتے ہیں ،میں تو صرف سورج، پہاڑ اور ندی کے نقشے بنا سکتا ہوں ".

ایک چار سالہ شامی بچہ فارس جوکہ لبنان میں پناہ گزیں ہے، رپورٹر کو بتاتا ہے کہ "شام میں قیام کے دوران میں نے سبزی، پھل بیج اور اناج بیچے ہیں ، میں نے دکانیں صاف کی ہیں اور بچوں کے درمیان آئس کریم بیچی ہے، لیکن اس کے باوجود میں اپنے وطن واپس جانا چاہتا ہوں ، یہاں میں قید خانے کی طرح محسوس کررہا”.

چھ برس سے جاری اس جنگ اور خونریزی کی وجہ سے اب تک 70 لاکھ بچے شدید غربت کا شکار ہیں اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد پر منحصر ہیں .

جنگ سے بچوں کی معصومیت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور گردش وقت نے ان کو وقت سے پہلے بڑا کردیا ہے، وہ جنگ میں بالغوں کی طرح لڑرہے ہیں ، شدید غربت نے انہیں پڑھائی چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا ہے، ناکافی غذا اور صحت کی ناقص سہولیات کی وجہ سے بچے کمزوری، وبائی امراض اور بھوک مری کا شکار ہو رہے ہیں .

رپورٹ کے مطابق لاکھوں بچے ذہنی تناؤ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، دو تہائی سے زیادہ بچے اپنے کسی نہ کسی قریبی سے محروم ہو چکے ہیں ، یا ان کے گھر بمباری کی زد میں آئے ہیں یا انہیں جنگ نے زخمی کردیا ہے.

ان سب کے باوجود ابھی بھی شامی بچوں کی آنکھوں میں امید کی کرنیں روشن ہیں . آٹھ سالہ بچی وفا بھی ان ہزاروں شامی بچوں میں سے ایک ہے جن پر جنگ کے داغ ثبت ہوگئے ہیں مگر انہوں نے ہار تسلیم نہیں کی ہے. وفا حلب سے نکل کر اب پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہی ہے.

وفا کے گھر پر میزائل گرنے کے بعد گیس دھماکہ ہوا اور آگ نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس نے وفا کے چہرے کو جھلسا کر مسخ کر دیا اور اس کے ننھے تصورات کو جلاڈالا تاہم وہ اب بھی جینے کی طاقت، امید کی وسعت اور عزم مصمم رکھتی ہے. وفا کا کہنا ہے کہ چہرے پر جنگ کے داغ کی چھاپ آجانے کے بعد بھی وہ نا امید نہیں ہوئی ہے اور وہ ابھی بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے اور زندگی کو پورا کرنے کا خواب رکھتی ہے.

یہ جنگ شام کو کہاں لے جائے گی، کتنی معصوم جانوں کو اپنے آغوش میں لے گی، اور کب تک یونہی بے قصور شامی لوگوں کے گھر اجاڑتی رہے گی، اندازہ لگانا مشکل ہے. جنگ کے اتنے خوفناک نتائج کے بعد اگر اب بھی دنیا گونگی اور بہری بنی رہتی ہے، تو تاریخ اس بات کی بھی گواہ رہے گی کہ ایک ملک میں بے گناہ شہریوں جن میں لاکھوں معصوم بھی شامل تھے، کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا، ان پر بموں کی برسات کی جارہی تھی، معصوموں کو ان کے والدین سے دور اپنے ہی وطن میں پناہ گزیں کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا تھا اور دنیائے انسانی خاموشی اختیار کر کے تماشا دیکھ رہی تھی. شاید اب وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو اس جنگ میں امن و امان قائم کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر کوششیں کرنی چاہئے اور ان نام نہاد امن پسند ممالک کی کھل کر مخالفت کرنی چاہئے جنہوں نے امن قائم کرنے کے نام پر شام کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔