مفلس کی صدا
فانی ایاز گولوی (رام بن)
میں ایک غریب باپ کا بیٹا تھا۔ میرے ابو محنت مزدوری کر کے ہمیں پالتے تھے۔ ہم دو بھائی اور چار بہنیں تھی۔ہم نے بہت تنگ دستی دیکھی کبھی کبھی کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔ کبھی ہمسایوں سے کچھ مانگ کر لاتے تھے اور ایک روٹی کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے سبھی کھاتے تھے۔ہمیں پہننے کو کپڑے نہیں ہوتے تھے۔ غربت نے اس قدر مارا تھا۔ کہ ہمیں گھاس کی چپل پہننی پڑتی۔ جب سردی آتی تو رات کو کمبل اوڑنے کے لئے نہیں ملتے ۔ کبھی کھبی ہم گھاس نیچے ڈال کر سوتے تھے۔ایک دن ہمارے پاس کچھ مہمان آئے اور ہم پریشان ہو گئے کہ اب ان کو کھانے کے لئے کیا دیں ۔
آخرخیال آیا کہ ساتھ میں ہمسائے ہیں ان سے کچھ کھانے کا سامان لیں ۔ جب وہاں پر گئے تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے ڈانٹا اور کہا روز روز ہمارے پاس کیا ہے ہم آپ کے لئے کما کر لاتے ہیں کیا ؟مایوسی کے ساتھ وہا ں سے لوٹ کے دوسرے گھر میں گئے اور ادھارے لے کر تھوڑ ا کھانے کی چیزیں لائیں ۔اور رات کو مہمانوں کی خدمت کی صبح وہ بچارے چائے پی کر چلے گئے۔ غربت نے اس قدر مارا تھا کہ ہم مرنے کے لئے مجبور ہو گئے تھے۔ آخر ہم دو بھائی بڑے ہو گئے اور ہم بھی مزدوری کرنے لگے۔ ابو نے کہا اسکول جائو لیکن ہم نے سوچا ہمارے ابو اب کمزور ہیں ۔ یہ مزدوری نہیں کر سکتے۔اب ہمیں کچھ کرنا ہو گا۔ ہم مزدوری پر جاتے تھے اور اپنے پریوار کا نفس پالتے تھے۔ دن کو مزدوری کر کے تھک جاتے تھے جب گھر آتے تھے تو جسم تھکا ہوا ہوتا تھا۔ کام کر کے ہاتھوں میں چھالے پڑھ جاتے۔ اب نیند کرتے لیکن مکان بھی کچھ ایسا تھا جب بارش آتی تو سارا پانی اندر آ جاتا۔
ایک رات جب بہت بارش ہوئی تو پوری رات چھت سے اندر پانی آیا ہمارے یہاں مٹی کے گھر ہوا کرتے تھے۔ہماری بے بسی اور عاجزی کو بس اللہ ہی جانتا۔ ہمیں کن کن حالات سے گزرنا پڑتا۔لیکن کوئی بھی غریبوں کی مدد کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوتا۔ سبھی اپنا ہی سوچتے ہیں ۔ اب ہم دونوں بھا ئی جوان ہوئے اور اب گھر والوں نے ہماری شادی کے بار ے میں سوچنا چاہا۔ اب میر ے ابو بہت ضعیف ہو چکے تھے کہنے لگے کہ نہ جانے کب سانس نکل جائے گی اور آپ اسی طرح رہ جائو گے اب مجھے کچھ بچوں کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ اب ہمارے ابو صرف گھر کا ہی دھیان رکھتے تھے۔ اور ابھی گھرکا سارا خرچہ ہمارے کندھوں پر تھا۔ میں نے ابھی شادی نہیں کی تھی میں گھر میں سب سے بڑا تھا۔۔ابو نے ایک دن امی کو کہا ہمارے بچے جوان ہو گئے ہیں اب ان کی شادی کرنی چاہئے۔ابو نے کہا ہاں جی اب تو سوچنا چاہئے۔۔۔امی نے ابو سے کہاجائو نہ کہیں رشتہ دیکھنے ابو نے کہا۔۔ہا ں جی جائوں گا۔
ایک دن میرے ابواسمعیل چلے گئے کہیں رشتہ مانگنے کے لئے۔ جب گھر میں داخل ہوئے سلام کی اور کہا مجھے اجازت ہے اند ر آنے کی۔ وہا ں پر لڑکی کے ابو جاوید بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا۔ ۔ جی آ جائو۔۔کیسے آنا ہوا۔۔ابو خاموش رہے۔۔اور آہستہ سے کہاجناب میں رشتہ مانگنے آیا ہوں یہ سن کر جاوید آگ بگولہ ہوئے۔ ۔انہوں نے کہا آپ کی اتنی ہمت کہ آپ نے میرے گھر میں قدم رکھا جاوید امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔در اصل اسمٰعیل نے سوچا تھا امیر خاندان ہے میرے بیٹے کا آنے والا کل بہتر ہوگا۔ جاوید نے کہا آپ کا لڑکا ملازم ہے کیا؟ ابو نے کہا نہیں وہ مزدور ی کرتے ہیں ۔پھر اور طیش میں آ کر کہاآپ کو کس نے کہا تھا میرے گھر میں آنے کے لئے چلے جائو یہاں سے۔۔
میری لڑکی پڑھی لکھی ہے۔ اور میں اچھے گھر میں شادی کرائوں گا۔دوبارہ یہاں کی طرف دیکھنا بھی نہیں ۔ مایوس ہو کر وہا ں سے نکل پڑے اور گھر کی جانب روانہ ہوئے۔اسی طرح بہت سی جگہوں پر رشتہ مانگنے کے لئے گئے لیکن انکار ہی ہوا۔ ۔۔آخر ایک دن اس نے نعیم خان سے کہا جو پاس میں رہتے تھے۔ان سے کہا مجھے بیٹے کا رشتہ کرنا تھا لیکن کوئی دیتا ہی نہیں اگر آپ میری مدد کریں گے مہربانی ہوگی۔اس بزرگ نے کا ٹھیک ہے میں کوشش کروں گا۔۔کچھ دنوں کے بعدبزرگ نے آواز دی اسمعٰیل ادھر آئو ۔ ۔۔۔۔اسمعٰیل دوڑے دوڑے چلے آیا اور کہا سنا ئو جناب کیا خبر لائے ہو۔۔۔بزرگ نے کہا میں نے ایک جگہ بات کی ہے رشتہ آ پ کو مل جائے گا۔ لیکن ڈمانڈ Demand پوری کرنی ہو گی۔ ۔اسمعٰیل خاموش رہے۔ ۔۔بعد میں کہا کیا ڈمانڈ کیا ہے۔
بزرگ نے کہا دو تولے سونا اور تیس تولے چاندی بطور حق محر ادا کرنی ہو گی۔۔اگر منظور ہے تو بتائو۔ ۔اسمعٰیل نے کہا میں گھر جائوں گا اور آ پ کو بتا ئوں گا۔ ۔جب گھر میں آئے تو امی سے کہا وہ وہ کہانی سن کر پریشان ہو گئی کہ اتنا سونا کہاں سے لائیں ہمیں تو کھانے کے لئے کچھ نہیں ملتا ہے اب کیا کریں ۔آ خریہ خبر اسمعٰیل کے بیٹے سمیر تک پہنچ گئی۔اس نے امی او ر ابو کو پریشان دیکھا۔ اوراپنی امی سے کہا امی پریشان کیوں ہو؟ امی نے پوری کہانی سنائی۔ بیٹے نے کہا کوئی بات نہیں میں محنت مزدوری کر کے سونا چاندی بنائوں گا آپ ہاں کہو ان سے جا کر۔اسمعٰیل گئے اور نعیم خان سے کہا کہ جائو ان سے کہوں رشتہ منظور ہے۔اسی طرح کئی دنوں کے بعد میری شادی ہو گئی۔ ۔اب محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے تھے ایک دن گھر میں جھگڑا ہوا اور مجھے گھر سے الگ کر دیا۔۔بڑا خو شحال گھر تھا اب مجھے رہنے کے لئے گھر نہیں تھا۔ اب میں نے مٹی کا گھر تیار کیا۔ لیکن اب میں زیادہ پریشان ہو گیا غربت نے پہلے ہی ختم کیا تھا۔ اب پوری ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر آ پہنچی۔
اسی طرح سال گزر گیا مگر کوئی او لاد نہ ہوئی ابھی اس پریشانی میں دونو ں میاں بیوی مبتلا ہوئے۔ آخر منتیں مانگ مانگ کر اولاد ہوئی۔ ہماری آغوش میں ایک ننھی سی بچی آئی جس کا نام آسمہ رکھا۔ابھی غربت کے غموں میں ہی گھیرے ہوئے تھے۔ اچانگ لڑکی گھر سے غائب ہو گی۔ پولیس تھانے میں کیس درج کیا لیکن پولیس بھی خاموش رہی۔ پولیس نے جلدی سے کاروائی نہیں کی۔ ہم زار زار چلاتے رہے آنکھوں سے خون کی ندیاں بہا دی لیکن ہمیں سات روز تک لڑکی نہیں ملی۔ لیکن کسی نے ہماری مدد نہیں کی۔ آخر سات روز کے بعد اس ننھی سی بچی کی لاش جنگل سے ملی جو درندہ صفت انسانوں نے عصمت دری کر کے مار دی تھی جو گھر سے دورجنگل میں پھینکی تھی۔ ۔
یہ خبر سنتے ہی سارے شہر میں ماتم چھا گیا۔ آب ہمیں کسی کی آس نہ رہی اور وہ حسین وجمیل بیٹی بھی اس دنیا ئے فانی سے چل بسی۔ہم بے بس اور لاچار وں کو الودہ کہہ گئی۔ اور ساری آفتوں نے ہمارے گھر کو گھیر لیا۔ تب سے ہم خون کے آنسوں بہا رہے ہیں لیکن ہماری کوئی سنتا نہیں جن کو چن کر ایو ا نوں میں بھیجا تھا وہ اخباروں کی زینت بن رہے ہیں ۔ اب ہم انصاف کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن ہمیں کوئی انصاف نہیں ملتا۔ بس شب و روز اپنی جھونپڑی میں لہوبھری آنکھوں سے آنسو بہارہے ہیں ۔ اور زندگی کی تلخیوں سے تنگ آکر موت مانگ رہے ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔