مجتبیٰ فاروق
ڈاکٹر مصطفی الاعظمی برصغیر اور عالم عرب ہی کے نہیں بلکہ عالم اسلام کی ایک ممتاز علمی و فکری شخصیت تھے ڈاکٹرصاحب دور جدید کے ایک جید قرآنی اسکالر اور محدث تھے۔ وہ علم و فکر کے ہمہ جہت اور ہمہ گیر تابندہ ستارہ تھے اور اللہ تعالی ٰ نے انہیں گونا گو علمی و عملی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ موصوف کی پوری زندگی مشعل راہ ہے۔ وہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک ادارہ تھا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مستشرقین کا نصوس کی روشنی میں منہ توڑ جواب دیا۔ انھوں نے اسلام کی نصرت و دفاع کا جو اسٹینڈ لیا ہے، وہ کمال کی بات ہے۔ وہ نہ صرف ماہر قرآنیات تھے بلکہ ایک عظیم محدث بھی تھے۔ ہندوستان کو یہ اعزازحاصل ہے کہ ان جیسے علوم اسلامیہ کے ماہر کو پیدا کیا۔ ڈاکٹر موصوف کا تحقیقی میدان علم حدیث تھا۔ بیسویں صدی میں اگر ہندوستانی علماء نے حدیث کی طرف توجہ نہ دی ہوتی تو آج حدیث کے معاملے میں بے شمار فتنوں نے سر اٹھایا ہوتا۔
راقم نے ڈاکٹر مصطفی کا نام آج سے پانچ پہلے معروف محقق اور سابق امیر جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر عبدالحق انصاری کی زبان سے سنا، میں ان دنوں اسلامی اکیڈیمی دہلی میں زیر تعلیم تھا۔ انھوں نے مجھے ڈاکٹر مصطفی الاعظمی کی ایک مشہور کتاب "The History of the Quran : Text from Revelation to Compilation ” پڑھنے کے لیے دی تھی اور اس کتاب کو یکسوئی کے ساتھ پڑھنے کی تاکید کی تھی۔ انھوں نے ایک کتاب لکھ کر خاموشی اختار نہیں کی بلکہ مسلسل زندگی کے آخری لمحات تک قلمی و علمی جہاد جاری رکھا۔ ڈاکٹر مصطفی صاحب کا اصل تحقیقی میدان علم حدیث تھا اوران کا نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے علم حدیث کی بالکل نئے اور اچھوتے انداز میں خدمت کی۔ان کی یہ عظیم خدمات ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گی اور ان کا لکھا گیا علمی سرمایہ ابد تک علمی و فکری دنیا پر گونجتا رہے گا۔ ان کی علمی خدمات کی اہمیت ہمیشہ Text اور Refrence کی حیثیت رہیں گی۔ فن حدیث میں وہ دنیا کے سربر آوردہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اسی لیے حدیث کی خدمات پر انہیں ۱۹۸۰ ء میں شاہ فیصل عالمی ایوارڑ سے نوازا گیا۔ ان کا ایک قابل تحسین کارنامہ یہ بھی ہے کہ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں احادیث کی عربی عبارتوں کو کمپیوٹرئز کیا جس کی وجہ سے آج ڈجیٹل دنیا میں علمی کام آسانی سے ہورہا ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب کی خدمات بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں سعودی حکومت نے انہیں ۱۹۸۱ء میں اپنی نیشنلٹی سے نوازا۔
ڈاکٹر مصطفی العظمی۹۰۳۰ء میں مئو اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وتربیت گھر سے حاصل کی جس کا وہ گاہے بہ گاہے فخر سے اعتراف کرتے تھے۔ اس کے بعد انھوں ازہر ہند دا رلعلوم دیو بند کی طرف رخ کیا جہاں سے انھوں نے ۱۹۵۲ء میں فضیلت کی سند حاصل کی تھی۔ فضیلت کے بعد الازہر یونیورسٹی سے ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ ایم کے بعد انہیں علی گڑھ یونیورسٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے داخلہ ملا لیکن یہاں کا علمی ماحول ان کو راس نہیں آایا اور قطر چلے گئے جہاں انھوں نے پبلک لائبریری میں کئی علمی مخطوطات پر کام کر کے ایڈیٹ کیا۔ اس کے بعدمذید علمی پیاس بجھانے کے لیے لندن کی رخ کیا جہاں انھوں نے ۱۹۶۶ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے اے۔ کے۔ آربری اور آر۔ بی۔ سرجینٹ کی سرپرستی میں Studies in Early Hadith Literature کے موضوع پرپی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد پانچ سال تک ام القریٰ یونیورسٹی میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد یعنی ۱۹۷۳ء سے ۱۹۹۱ء تک علوم الحدیث جیسا دقیق موضوع پڑھاتے تھے۔ پروفیسر موصوف کنگ سعود یونیورسٹی کے کالج آف ایجوکیشن کے شعبہ اسلامیات کے چیئرمین بھی تھے۔ اس کے علاوہ مشیگن پونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر، سینٹ کراس کالج آکسفورڈ کے وزیٹنگ فیلو اوریونیورسٹی آف کالروڈاامریکہ کے وزیٹنگ اسکالربھی رہ چکے تھے۔ ان کے علاوہ کئی علمی و تحقیقی اداروں کے ممبر بھی رہے۔
قرآن کریم پر مستشرقین کی ہرزہ سرائیوں کا جائزہ
قرآن مجید پرخلاف مستشرقین نے ہر وقت ہرزہ سرائیاں کیں ۔ انھوں نے قرآن پر خوب دریدہ دہنی سے کام لیا ہے۔ ان سبھی مفسدین کا حملہ قرآن کی تاریخ و تدوین اور متن حدیث پر تھا اور یہ سلسلہ ہنوز جارہ ہے۔ مشہور مستشرق تھیوڈور نولڈیکی (Theodore Noldeke) نے قرآن کریم کو دیگر مذاہب کی الہامی کتب کی طرح انسانی ذہن کی تخلیق مانتے ہوئے اسے ترتیب نزولی کے لحاظ سے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔راڈرل اور این جے داؤد (Radivell and N.J. Dawood)نے بھی قرآن میں تاریخی اور ارتقائی عمل کو بنیادی مفروضہ قرار دیتے ہوئے اسے انسانی ذہن کی تخلیق ثابت کرنا چاہتا ہے۔ جارج سیل نے اپنی کتاب Meaning of the Quran(معانی قرآن( کے مقدمے میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے ’’قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ایجاد وتالیف ہے اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ اس میں جھول کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ریچرڈ بل (Richerd Bell ) کے اپنے زعم کے مطابق قرآن کو یہودیوں کی کتابوں خاص طور پر عہد نامہ قدیم اور نصاریٰ کی کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ایک اور مستشرق وززی کے مطابق قرآن انتہائی بد ذوق کتاب ہے۔ اس میں بعض خاص چیزوں کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ولیم میور (william Miur) قرآن کے بارے میں لکھتا ہے:قرآن تہذیبوں ، آزادی اور سچائی کا بہت ہی قوی دشمن ہے جس سے دنیا ابھی بے خبر ہے۔ نیز وحی کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مرگی کے دوروں کے دوران نازل ہوتی تھی۔ دور جدید میں بھی اس طرح کے اعتراضات کاکام بڑے پیمانے پر ہوراہا ہے، مثلا ٹوبے لسٹر (Tobe Lister) کا مضمون What is the Karvan جو پہلے Atlantic Monthly میں جنوری 1999 میں پہلے شائع ہوا بعد میں اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا گیا اس میں قرآن کریم کے جمع وتحفظ کے بارے میں اعتراضات کیے گئے ہیں جس سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں قرآن کریم کے متعلق شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ۔علما نے ہر دور میں ان کے غیر علمی اور تعصب ذدہ اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا۔ عصر حاضر میں یہ اہم کام ڈاکٹر مصطفی الاعظمی نے انجام دیا۔ انھوں نے دلائل کی روشنی میں ان کے اعتراضات کو مسترد کیا۔ ڈاکٹر موصوف نے
The History of the Quran : Text from Revelation to Compilation ، تاریخ تدوین القرآن الکریم التحدی القرآنی اور "Ageless Quran -Timeless Text” جیسی نادر اور علمی کتابیں لکھ کر دلائل کے ساتھ مستشرقین کے اعتراضات کا مدلل جوابات دئیے ہیں ۔
حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ
مستشرقین نے قرآن کریم کی طرح احادیث پر بھی بے جا اعتراضات کیے ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ بہت ساری احادیث یہود ونصاری کی کتب سے ماخوذ ہیں وہ حدیث کے پورے ذخیرے کو جعلی قرار دیتے ہیں ۔حدیث کو جن مستشرقین نے ہدف تنقید بنایا ان میں ڈاکٹر اسپرنگر (Dr. Sprenger)، گولڈ زہر (Gold Zehr)، پروفیسر الفرڈ گیولوم (Alfred Guillaume)، جوزف شاخت (Joseph Schacht)، مارگولیتھ (Margoliouth)، گب (Gibb)، ول ڈیورانٹ (Will Durant)، منٹگمری وات (Montgomey Watt) وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ جوزف شاخت نے لکھا ہے کہ امام شافعی سے دو پشت پہلے احادیث کی موجودگی کا کوئی اشارہ ملتا ہے تو یہ شاز اور استثنائی واقعہ ہے۔گولڈزہر ( Gold Zehr)کا کہنا ہے کہ امام مالک نے اسناد کی تفصیل بیان کرنے کے لیے کوئی مخصوص طریقہ اختیار نہیں کیا۔ جوزف شاخت (Joseph Schacht) نے لکھا ہے کہ امام شافعی سے دو پشت پہلے احادیث کی موجودگی کا کوئی اشارہ ملتا ہے تو یہ شاز اور استثنائی واقعہ ہے۔ اس کے نذدیک اس مفروضے کو قائم کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اسناد کی باقاعدہ مثال کا رواج دوسری صدی عیسوی سے قبل ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر مصطفی العظمی نے علم حدیث کو موضوع بنا کر کار ہائے نمایا ں انجام دیا ۔ انھوں نے Studies in Early Hadith Literature ،
، Hadith Methodology and litrature اور On Schacts Origins Muhmmadan Jurisprudance لکھ کر نہ صرف حدیث، اسناد اور فن حدیث پر بحث کی ہے اور کتب احادیث کی تخریج و تحقیق کا کارنامہ انجام دیا بلکہ مستشرقین کے اٹھائے گئے اعتراضات کا بھی مدلل جوابات دئیے ہیں۔
علمی و تصنیفی خدمات : ڈاکٹر مصطفی العظمی کی چند علمی کتابوں کا تعارف مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)”The History of the Quran : Text from Revelation to Compilation ": یہ ڈاکٹرصاحب کی ایک معروف تصنیف ہے۔ مستشرقین کی کارستانیوں سے بے چین ہو کر اس کتاب کا منصوبہ بنایا۔ ڈاکٹر موصوف نے اس میں دلائل کے ساتھ قرآن کریم کی تاریخی عظمت اور اور اس کی تدوین کی تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مستشرقین کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب بھی دیا۔ ڈاکٹر صاحب آغاز ہی سے اس کتاب کو اردو میں بھی ترجمعہ کروانا چاہ رہے تھے۔ بقول پروفیسر اشتیاق ظلی’’موصوف اس کتاب کو معیاری اردو ترجمعہ کروانے کے متمنی تھے اور دارلمصنفین سے شائع کروانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا‘‘۔ لیکن اب اس کو اردو میں منتقل کرنے کا کام معروف اسکالر ڈاکٹر عبد لرحیم قدوائی نے انجام دیا جو عنقریب شائع ہوگی۔
(۲) Studies in Early Hadith Literature۔چونکہ موصوف کا تحقیقی میدا ن علوم الحدیث ہے اور ان کا پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ کا عنوان’’ Studies in Early Hadith Literature ‘‘تھا جو ۱۹۶۸ ء میں پہلی بار شائع ہوا۔ اس کتاب کا عربی ترجمعہ’’ دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ و تدوینہ ‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔
(۳)Studies in Hadith Methodology and litrature یہ کتاب بھی ان کی معروف تصانیف میں سے ایک ہے جس میں انھوں نے حدیث کے منہج کو موضوع بنایا۔
(۴)On Schacts Origins Muhmmadan Jurisprudance : یہ کتاب بھی ایک موضوع پر ہے جس میں انھوں نے اسلام میں قانون کی حیثیت، سنت کا مقام اور سنت کے اسند پر بحث کی ہے اس کے بعد شانخت نے احادیث پر جو تنقید کی اس تنقید پر انھوں نے ناقدانہ جائزہ لے کر تردید کی ہے۔ یہ کتاب ۲۴۳ صفحات پر مشتمل ہے۔
(۵)کتاب النبیﷺ:یہ کتاب کاتبین وحی پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر اعظمی کی تحقیق کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے دلائل کے ساتھ بعض ایسے کاتبین وحی کا نام لکھا جو ان سے پہلے کسی محقق نے نہیں لکھا۔
(۶)موطا امام مالک: انھوں نے تحقیق و تدوین کر کے موطا کا محقق اڈیشن شائع کیا۔
(۷)صحیح ابن خزیمہ : ڈاکٹر العظمی نے صحیح ابن خزیمہ کی تحقیق و تخریج کر کے دوبارہ شائع کیا۔
(۸)سنن ابن ماجہ : ڈاکٹر صاحب نے سنن ابن ماجہ کو پھر سے اڈیٹ کیا۔
(۹)العلل لعلی بن عبداللہ المدینی
(۱۰) کتاب التمیز: امام مسلم کی اصول حدیث کتاب التمیز کو بھی تحقیق تخریج کے ساتھ مرتب کیا۔
عالم اسلام کایہ ہر دلعزیر محقق اور عالم دین ۸۷ سال کی عمر میں ۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو ریاض (سعودی عرب )میں انتقال فرما گئے۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔
ماشاءاللہ_قابل قدرمضمون ہے،مجتبی صاحب لائق مبارک باد.میری خوش قسمتی رہی کہ ایک مرتبہ مصطفی اعظمی صاحب سےملنےکااتفاق ہواہے.ریاض کے,کوکوپالم,ہوٹل میں ایک پروگرام میں اعظمی صاحب نےاختتامی کلمہ کہابعدازاں ان سےہاتھ ملانےکاشرف حاصل ہوا..موصوف وہیل چیئرپرتھے،بدن کافی بھاری تھا.بولتےہوئےبھی سانس پھول رہاتھا..انہوں نےمجھےاپنےگھربھی مدعوکیاتھالیکن افسوس کہ میں اپنی سستی اورکاہلی کےسبب ان کےآستانےپرحاضرنہ ہوسکا.مجھےتاحیات اس بات کاافسوس رہےگا.ان کی تقریرکاایک جملہ اب بھی یادآرہاکہ٫میری والدہ چاہتی تھیں کہ میں حساب کتاب یعنی ریاضی کی تعلیم حاصل کرلوں تاکہ کہیں پرمنشی،کلرکی کرسکوں،لیکن علم حدیث کی تعلیم وتعلم میرامقدربن چکاتھا،اعظمی صاحب پریہ مقولہ صادق آتاہے,موت العالم،موت العالم.
اللہ مرحوم کوغریق رحمت کرے..