ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
محمد نصیر اصلاحی
اس وقت لوک سبھا 2024 ء کے لئے وطن عزیز میں انتخابی عمل جاری ہے۔پورے ملک میں یہ انتخابات سات مرحلوں میں ہوں گے۔ یہ سطریں لکھتے وقت انتخابی عمل کے پانچ مرحلے مکمل ہو چکے ہیں۔ اس وقت پورا ملک انتخابی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ ہر طرف الیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا،سوشل میڈیا ہر طرف الیکشن ہی کا چرچا ہے۔چائے خانوں اورہوٹلوں میں، گلی، سڑکوں اور چوراہوں پر یہی بحث ہو رہی کہ ملک میں آئندہ کس سیاسی پارٹی کی حکومت ہو گی؟ ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟ مختلف سیاسی پارٹیاں پوری قوت کے ساتھ میدان میں ہیں۔ وہ اپنی سیاسی پالیسی اور ترجیحات سے عوام کو واقف کرارہی ہیں۔ وعدے اور دعوے کر رہی ہیں۔ حصول اقتدار ہی کے پیش نظر مختلف سیاسی اتحاد وجود میں آئے ہیں۔ مختلف طبقات، لسانی اور مذہبی گروہ اس الیکشن کے ذریعہ اپنے مفادات کے حصول اورتحفظ کے لئے سر گرم عمل ہیں۔ ہر ایک اپنے طبقہ اور گروہ کی ترقی،تحفظ اور بہتر مستقبل کے لئے کوشش کر رہا ہے۔
اس سارے منظر نامہ میں مسلمانان ہند کھلاڑیوں میں نہیں بلکہ تماشائیوں کی بھیڑ میں شامل ہیں۔ ان انتخابات میں بھی نہ تو کسی جماعت نے اس کو کوئی خاص نمائندگی دی ہے اور نہ ہی سیاسی جما عتیں اسے کوئی قابل ذکر وزن اور اہمیت دینے کو تیار ہیں۔ اکثر سیاسی جما عتوں کے منشور میں مسلمانوں کا اور ان کے مسائل و ایشوز کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مسلم دشمنی تو جگ ظاہر ہے۔ رہیں وہ نام نہاد سیکولر جماعتیں جنہیں اقتدار تک پہنچنے کے لئے مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے اور جنہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچانے کے لئے اس وقت مسلمان اور ان کی مختلف جماعتیں اور تنظیمیں رات دن ایک کئے ہو ئے ہیں، ان کے یہاں بھی اگر ہمارا کہیں نام آتا ہے تو بہت محتاط انداز میں، مبادا ان کا کہیں کوئی نقصان نہ ہو جائے۔جن سیاسی پارٹیوں میں کچھ مسلمان آج ہیں یا پہلے رہے ہیں وہ آج تک اتنا رسوخ پیدا نہیں کر سکے کہ حسب منشاء مسلم مسائل میں نمائندگی کر سکیں یا ان پارٹیوں کی پالیسی پر اثر انداز ہو سکیں، بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ وہ جس پارٹی میں جاتے ہیں اسی کا چولا پہن لیتے ہیں۔ وہ اپنی ملت اور اس کے مسائل و ایشوز کو بھول جاتے ہیں یہ ان کے احساس کمتری کی واضح مثال اور کم ہمتی کی نمایا ں دلیل تو ہے ہی،ساتھ ہی یہ امر واقعہ بھی ہے کوئی سیاسی پارٹی مسلمانوں کو اس مقام پر نہیں دیکھنا چاہتی ہے جہاں پہنچ کر وہ سیاسی قیادت کر سکیں یاملکی سطح پر وہ سیاست پر اثر انداز ہوکر سیاست کا رخ جس طرف چاہیں موڑ سکیں۔ ہر پارٹی نے انھیں اپنا آلہ? کار ہی بنا یا ہے۔انہیں ٹوکن کے طور پر استعمال کیا۔مسلمانوں کو ووٹ بینک سمجھا۔ایوان سیاست میں مسلمانوں کی کوئی موثر آواز بننے نہیں دیا۔
ہمارے سیاسی ضعف اور کمزوری کے جہاں کئی اسباب ہیں وہیں ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک پچہتر سالوں میں ہم اس ملک میں کوئی واضح سیاسی موقف اختیار نہیں کر سکے۔ سیاسی معاملات میں ہم ہمیشہ ایک طرح سے کنفوژن کا شکار رہے ہیں۔ ہم میں بہت سے لوگوں کا یہ موقف رہا کہ یہاں ایک طاغوتی نظام ہے اس لئے ہمیں اس سے الگ رہنا چاہئے اس میں حصہ لینا اور کسی طرح شریک ہونا ہمارے لئے مناسب نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا سیاست ایک گندہ تالاب ہے اس لئے ہمیں اس گندگی کے قریب نہیں جانا چاہئے۔کچھ نے کہا سیاست میں جاکر ہمیں کیا حاصل ہونے والا ہے؟وغیرہ وغیرہ۔
ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی اس جہان کا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ ہم نے اسلام کے بتائے ہوئے طریقۂ زندگی کو اختیار کیا ہے۔ دین اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور یہی دین اللہ کے یہاں قابل قبول ہے۔ یہی دین، دینِ حق ہے۔ اس کے علاوہ باقی سارے دین باطل اور عند اللہ ناقابل قبول ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔یہ بات بالکل صحیح ہے کہ یہاں طاغوتی نظام ہے،کفر کا تسلط ہے،شرک کا غلبہ ہے لیکن یہ کہہ کر اس ملک کے سیاسی معاملات سے خود کو دور کر لینے کی ہماری روش مناسب نہیں ہے۔اس طرح کی روش قوموں اور ملتوں کے لئے خود کشی کے مترادف ہے۔ ہمیں اس امر پر ضرور غور کرنا چاہیئے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں اس طرح کا نظام ہو، اہل کفر و شرک کی اکثریت ہو،اہل اسلام کمزور اور اقلیت میں ہوں وہاں اہل ایمان کو ایک موثر قوت بننے اور اپنے کو سیاسی طور پر امپاور کرنے کے لئے قرآن اور سنت میں روشنی میں کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ان حالات کے لئے قرآن اور سنت میں کوئی رہنمائی موجودنہ ہو۔ زندگی کاکوئی جز اور شعبہ اور ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو۔ اس دین نے جہاں عبادت،تجارت اور معاملات کے شعبوں میں رہنمائی کی ہے وہیں سیاست اور حکومت کے سلسلہ میں بھی یقیناً اس نے واضح رہنمائی کی ہے۔ وہ اسلام جو طہارت اور بیت الخلاء جانے تک کے بارے میں اپنے ماننے والوں کوآداب سکھاتا اور واضح ہدایت دیتا ہے کیا وہ سیاست وحکومت کے شعبوں کو یوں ہی خالی چھوڑ دے۔جب کہ سیاست موجودہ زندگی کا اتنا اہم ترین شعبہ ہے جو تقریبا پوری زندگی پر چھایا ہوا ہے۔
مسلمان وقتی اور عارضی طور پر بے بس،لاچار اور کمزور تو ہو سکتے ہیں مگر مستقل بے بسی،لاچاری اور کمزوری کی زندگی بسر کرنا، اس پر قانع اورمطمئن ہوجا نا اپنی بے بسی اور لاچاری کو عزت ووقار اور اپنی کمزوری اور ضعف کو قوت میں تبدیل کرنے کی تدابیر اختیار نہ کرنا مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ ایسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہو ں وہاں وہ اپنا وزن اور اپنی حیثیت کس طرح منوا سکتے ہیں اس سلسلہ میں خصوصی طور پر سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس پس منظر میں میثاق مدینہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ میثاق مدینہ نبی اکرم ﷺ کی قیادت میں برپا ہونے والی تحریک اسلامی کا عظیم ترین معاہدہ ہے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر مدینہ کی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ تاریخ کے اوراق کھنگال کر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس زمین پر کوئی ایک ریاست بھی تھوڑی بہت قوت استعمال کئے بغیر قائم نہیں ہو ئی ہے کجا کہ معاملہ ایک نظریاتی ریاست کا ہو۔وہ بھی مدینہ کی ریاست کا قیام ایک اجنبی ماحول میں اور مختلف عناصر کے تعاون سے عمل میں آیا۔ یہ دستوری معاہدہ حضور اکرم ﷺ کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ مہارت کی ایسی مثال ہے جس کا کہیں کوئی جواب نہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کی کل آبادی اس وقت اندازاً پانچ ہزار ہو گی جس میں تقریباً نصف یہودی تھے۔ اس ساری آبادی میں مہاجرین اور انصار کوملا کر مسلمانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ پانچ سو ہوگی۔مگر اسی فعال،بیدار اور منظم اقلیت کے بل پر حضور ﷺ نے پانچ ہزار کی آبادی کی سیاسی،معاشی،دفاعی ہر محاذ پرقیادت کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔ میثاق مدینہ بقول ڈاکٹر حمید اللہ جس کی نظیرپہلے کی تاریخ میں قطعاً نہیں مل سکی،اعلیٰ درجہ کے سیاسی سلیقہ سے لکھی گئی،نہایت ہی محتاط دستاویزی زبان میں ہے اور اس میں حضور ﷺ نے اپنی مطلوبہ نظریاتی و سیاسی اقدار کو مختلف عناصر سے تسلیم کرایا ہے۔بھارت کے پس منظر میں یہ میثاق ہمارے لئے مشعل راہ ہیہمیں اس دستاویز کے اہم ترین مندرجات کا سیاسی پہلو سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس میثاق میں سیاسی امور کو جس خوبی سے طے کیا گیا ہے اس کا جائزہ لے کر اس ملک میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے۔
یہ بات بھی صحیح ہے کہ موجودہ سیاست انتہائی گندی ہے۔یہ شر، فساد، دہشت گردی،رشوت،خیانت،بد عنوانی،بے ایمانی، وعدہ خلافی، دغا بازی،دھوکہ بازی،زور زبر دستی،جرائم پیشگی،قتل و غارت گری کی آماجگاہ ہی نہیں بلکہ پرورش گا ہ بنی ہو ئی ہے۔آج ووٹ نہیں ڈالے جاتے بلکہ ڈھا لے جاتے ہیں۔ ان سب کے باوجود میدان سیاست سے ہٹ جانا بھی مومن کی شان نہیں ہے۔ مومن تو اس دنیا میں ہوتا ہی اس لئے ہے کہ وہ تمام گندگیوں اور نجا ستوں سے اس کو پاک وصاف کرے۔زندگی کے اس اہم محاذسے مومن بھاگ نہیں سکتا بلکہ وہ اسے شر و فسا د اور دیگر برائیوں سے پاک کرکے خدمت انسانیت کا ذریعہ بنائے گا۔ اس میدان میں بھی شریعت کے دائرہ میں رہ کرہمیں اپنا مو?ثر رول اور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ اس زمین پر عدل و انصاف قائم ہو سکے اور انسانوں کے حقوق پامال نہ ہو ں۔
مسلمان اس ملک میں دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ اور دنیا کی سب سے بڑی مسلمان اقلیت ہیں۔ بعض لوگ انہیں دوسری اکثریت بھی کہتے ہیں۔ حالات پر اثر انداز ہونے اوراخلاق سے عاری بے بہرہ سیاست کو صحیح رخ پر لانے کے لئے اب مسلمانوں کے نمائندہ افراد کو مل کر سنجیدگی سے سوچنا اور کوئی طویل المیعاد سیاسی منصوبہ بنا نا چاہئے۔یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔طویل المیعاد کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم آئندہ 25? سالوں کے لئے ہمیں ملت کاسیاسی وژن سیٹ کر نا ہوگا۔ ہمیں آج ہی یہ طے کرنا ہیہوگا کہ اگلے 25 ?سالوں میں، 2050 میں اس ملک میں اس ملت کی سیاسی پوزیشن اور حیثیت کیا ہو گی؟ سیاسی لحاظ سے اس کا اوزن کتنا ہوگا؟وہ سیاست پر کتنا،کس طرح اور کیسے اثر انداز ہوسکتی ہے؟سیاست صرف ووٹ دینے کا نام نہیں ہے۔بلکہ یہ مسلسل کام کرنے کا ایک اہم محاذ ہے۔جہاں اس کے لئے ذہین اور مضبوط قیادت کی ضرورت ہیوہیں ملت کے افراد میں سیاسی شعور اور سیاسی فہم و بصیرت پیدا کرنا اہم کام ہے۔ملت مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے ایثار و قربانی،قوت برداشت اور اخلاص جیسی اہم صفات پیدا کرنی ہوگی۔ سیاست کے نام پر ابھی تک ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ زیادہ ترہر پانچ سال میں ہونے والے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کو پیش نظر رکھ کر کیا ہے۔ وہ بھی کسی پارٹی کو فتح دلانے کے لئے اور کسی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے۔ہمیں اب اس خوف اور ڈرکی کیفیت سے بھی باہر آنا ہوگا کہ اگر فلاں پارٹی اقتدار میں آگئی تو کیا ہوگا؟ اس کا رویہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ وہ ہمارے ساتھ ایسا اور ویساکریگی وغیرہ۔یاد رکھئے جو مسلسل ڈر اور خوف کی زندگی گزارتے ہیں ایک دن وہ اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگتے ہیں۔ موجودہ سیاسی جماعتوں میں کوئی بھی ہمارا خیر خواہ اور ہمدرد نہیں ہے۔ پچھلے پچہتر سال اس پر گواہ ہیں۔ جس سیاسی پارٹی کا ہم نے زیادہ ساتھ اور جس پر اعتماد و اعتبار کیا ہم کواسی نے سب سے زیادہ دبانے اور کمزور کرنے کا کام کیا ہے مسلم قیادتوں کو ابھرنے کے بجائے دبایا گیا۔ اگر آج ہمارے غم میں کوئی آنسو بہاتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس کی ضرور کوئی غرض ہے اس کا کوئی نہ کوئی مفاد ہے۔ یہ آنسو مگر مچھ کیآنسو ہیں اور یہ ہمدردی ایک نمائش ہے۔ زندہ قومیں اپنی حکمت عملی سے آگے بڑھتی ہیں۔ دوسروں پر انحصار کرنے والے آج تک آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ انحصار قوت نہیں ضعف اور کمزوری کی علامت ہے اور کمزوروں کو عزت و وقار،عظمت و بلندی تو دور کی بات ہے انہیں جینے کا حق بھی آسانی سے نہیں ملتا۔
2024 کایہ پہلا عام انتخاب ہے کہ ملت میں سیاسی ہل چل پہلے کے مقابلہ میں اب کچھ زیادہ نظر آرہی ہے۔ یہ ایک خوش آئندعلامت ہے۔ اس وقت یہ پہلی بار دیکھا جارہا ہے کہ کی ریاست کی بیشتر مساجد میں ووٹ کی اہمیت اور دیگر سیاسی عنوانات پر خطبات جمعہ دیئے گئے۔ذہن سازی کے لئے اردو اخبارات میں مضامین لکھے گئے۔ علما اور ائمہ نے گلیوں اور محلوں میں چل پھر کر ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندارج سے لے کر پولنگ بوتھ پر جاکروو ٹ ڈالنے تک جو کوششیں کی ہیں وہ لائق تحسین ہے۔نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مگر ان کوششوں کے پیچھے بھی محدود مقصد وہی ہے جس کا اوپرذکر کیا گیا کہ کچھ طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھاجا سکے،اس میں ڈر اور خوف کا عنصر شامل ہے۔آج بھی ان کوششوں کا محرک ملت کا کوئی طویل المیعاد منصوبہ اور وژن نہیں ہے۔ عارضی اور وقتی نوعیت کے اہداف کے لئے جدو جہد سے ہماری محرومیوں اور استحصال کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔