’منی بل‘ کی آڑ میں حکومت کی معاشی تانا شاہی!

ندیم عبد القدیر  

وطن پرستی کے شور میں اور حب الوطنی کے ہنگاموں کے پیچھے ان ’منی بلوں ‘ کی منظوری کو وہ تشہیر ہی نہیں مل سکی جس کی کہ وہ حقدار تھیں ۔ حکومت نے بھی کمال ِہوشیاری سے ان بلوں کو خاموشی کے ساتھ منظور کرادیا اور سوائے چند سیاستدانوں ، اراکین پارلیمان، نیوز پورٹل کے کہیں کوئی آواز نہیں اٹھی۔ ہمارے قومی دھارے کے میڈیا نے خصوصا ایسے انتظامات کئے کہ کہیں یہ اطلاعات عوام کو پتہ نہ چل جائیں ۔حکومت نےایسے قسم کے مالیاتی بل منظور کرلئے جو حکومت کو جمہوریت سے آمریت کی طرف لے جاتی ہیں ۔ جہاں اطلاعات کے ظاہر نہیں ہونے کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ جہاں عوام کے سوال اٹھانے کے حقوق پر پہرے بٹھادئیے گئے اور جہاں حکومت کو اختیارات کے سولہ سنگھار سے آراستہ کیا گیا۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ منی بل کیا ہوتا ہے ؟ منی بل دراصل مالیاتی بل کا ہی ایک روپ ہے ۔ مالیاتی بل میں آمدنی اور اخراجات کے امور شامل ہوتے ہیں جبکہ ’منی بل‘ خاص قسم کا مالیاتی بل ہوتا ہے جسے اسپیکر کی منظوری حاصل ہوتی ہے ۔ اسپیکر دستور کے آرٹیکل 110؍کی رو سے طے کرتا ہے کہ یہ منی بل ہے یا نہیں ۔عام بل میں اور منی بل میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ جہاں عام بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظوری کی ضرورت ہوتی ہے منی بل اس قید سے آزاد ہوتا ہے ۔ منی بل کو راجیہ سبھا میں منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اسےصرف لوک سبھا میں ہی منظور کرکے قانون کی شکل دیہے ۔ بی جےپی کیلئے منی بل کی شکل سب سے کارآمد ہے، کیونکہ پارٹی کو راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں ہے ۔ وہاں کچھ پریشان پیش آسکتی ہے اسلئے ،ایسے قوانین یا وہ ترامیم جنہیں ’منی بل‘ کا اعزاز مل جائے ، منظور کرانا بی جے پی کیلئے بہت آسا ن ہے۔ پارٹی نے اس راز کو پانے کے بعد ذرا بھی دیر نہیں کی اور ایسے قوانین اور ایسی ترامیم کو بھی ’منی بل‘ کا درجہ دے دیا جن کا مالیات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ ان میں ہی سیاسی جماعتوں کو الیکٹورل بانڈز کے ذریعے ہدیہ پیش کرنے کا بھی بِل شامل ہے۔

الیکٹورل بانڈ ’جیمس بانڈ‘ نہیں ہے لیکن سیاسی جماعتوں کیلئے یہ جیمس بانڈ جیسے ہی کام کرے گا۔بانڈ کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ شیئر ، یا میوچول فنڈ جیسی ہی شئے ہے۔ فرق اتنا ہے کہ آپ شیئر کسی سیاسی جماعت کو نذرانے میں نہیں دے سکتے ہیں جبکہ الیکٹورل بانڈکے نذرانے چڑھائے جاسکتے ہیں ، جتنے چاہیں اتنے چڑھا سکتے ہیں اور آپ کا نام بھی ظاہر نہیں ہوگا۔ طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے آن لائن یا چیک کے ذریعے بینک سے خرید سکتے ہیں ۔اسے اپنے پاس رکھ بھی سکتے ہیں ۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے لیکن اس کے آگے معاملہ ٹھیک نہیں رہتا ہے ۔ کوئی بھی کمپنی ، فرد، تنظیم یہ بانڈز خرید سکتی ہے اور پھر اپنا نام ظاہر کئے بغیر کسی بھی سیاسی جماعت کو بطور ہدیہ دے سکتی ہے ۔ یعنی یہ پتہ نہیں چل سکے گا کہ رقم کہاں سے آئی یا یہ کہ یہ رقم کس نے دی ۔ شفافیت کے نام پر چیخ و پکار اور آہ و فغاں برپا کرنے والی پارٹی نے شفافیت کاہی گلا گھونٹ دیا۔ اس ترمیم پر اگر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس میں سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے والوں کے نام راز رکھنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں ۔یہ طریقہ دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود نہیں ہے ۔

اب تک کمپنیاں اپنے تین سال کے منافع کا زیادہ سے زیادہ 7ء5؍فیصد حصہ ہی سیاسی جماعتوں کو عطیہ دے سکتی تھیں لیکن نئی ترمیم کے بعد اسے کسی بھی حد سے آزاد کردیا گیا۔اب کمپنیوں پر کوئی قید نہیں ، جتنا چاہےاور جس سیاسی جماعت کو چاہے نذرانے دے سکتی ہیں ۔ راشن کی دکان سے چند کلو گیہو ں اور چاول خریدنے کیلئے اور اسکولوں میں ’مڈ ڈے میل‘ کیلئے بھی آدھار کارڈ لازمی کرنے والی مودی حکومت نے ان کمپنیوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو لامحدود چندے دینے کے عمل پر آدھار کارڈ لازمی کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اگر سادہ الفاظ میں سمجھیں تو معاملہ کچھ ایسا ہے کہ کوئی بھی فرد یا تنظیم یا جماعت ایک فرضی کمپنی بنا کرجتنی چاہے اتنی رقم کسی بھی سیاسی جماعت کو عطیہ میں دے سکتی ہے ۔ اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی اس پر قانون کی کوئی تلوار بھی نہیں لٹکے گی۔ غیر ملکی کمپنی بھی سیاسی جماعتوں کو عطیات دینے کی اہل ہونگی۔ یعنی کوئی بھی غیر ملکی کمپنی سیاسی جماعت کو فنڈنگ کرکے پوری حکومت چلا سکتی ہے اور عوام کو اس کی بھنک تک نہیں لگ سکے گی۔

اس کے علاوہ حکومت نے ’منی بل‘ کا سہارا لے کر انکم ٹیکس قوانین میں ترمیم بھی خاموشی کے ساتھ ہی انجام دے دی ۔ نئے قانون کے مطابق انکم ٹیکس افسران صرف شک کی بنیاد پر کسی بھی فرد، تنظیم یا کمپنی کے مکان ، دفتر ، سواری، بینک کھاتہ کی تلاشی لے سکتے ہیں ۔ کسی الماری کی اگر انہیں چابی نہیں ملے تو وہ اسے توڑ بھی سکتے ہیں ، صرف شک کی بنیاد پر ۔اس ترمیم کے ذریعے محکمہ انکم ٹیکس کو یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ املاک کو چھ مہینوں تک قرقی بھی رکھ سکتےہیں ۔ ملزم فرد ، تنظیم یا کمپنی کو عدالت بھی جانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔یہ قانون حکومت کے ہاتھ میں کسی کے ساتھ بھی دشمنی نکالنے کا انتہائی مؤثر ہتھیار ہوسکتا ہے ۔ اس میں پھنسا کر سرکار کسی کی بھی زندگی چھ مہینوں تک بڑی ہی آسانی سے دوبھر کرسکتی ہے۔

ایسی ہی ایک ترمیم میں سرکار نے شہریوں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی شروع کردی ہے۔اس میں پہلے قدم کے طور پر پین کارڈ کیلئے آدھار کارڈ کو لازمی قرار دینا ہے ۔اس کے بعد پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس اور دیگر سرکاری دستاویزات کیلئے بھی آدھار کار ڈ کے لازمی قرار دینے اور تمام اطلاعات کو آدھار کے بایو میٹرک نمبر کے ساتھ جوڑ دینے سے کسی بھی شہری کی تمام اطلاعات حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہ جائے گا۔ اس کا ڈرائیونگ لائسنس نمبر، پاسپورٹ نمبر، پین کارڈ نمبر، بینک اکاؤنٹ نمبر ، گاڑی نمبر انکم ٹیکس ریٹرنس وغیرہ وغیرہ جیسی اطلاعات حالانکہ حکومت کے پاس رہے گی لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ اطلاعات محفوظ ہی رہے ۔ کسی بھی شخص کی اتنی ساری ذاتی معلومات ایک جگہ رکھنا خطرے سے خالی بھی نہیں اور یہ اس کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی بھی ہے ۔ یہ وہ خطرات ہیں جن کے بارے میں بی جےپی حکومت نے اپنے دورِ حزب ِ  اختلاف میں کئی بار سوالات اٹھائے تھے۔ تب آدھار کارڈ کا ضرورت سے زیادہ استعمال شہریوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت مانا جاتاتھا۔حکومت بدلتے ہی فلسفے بھی بدل گئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔