منی شنکر ایّر نے کیا غلط کہہ دیا؟
ممتاز میر
NDTV کے مشہور و معروف اینکر جناب روش کمار نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے’’منی شنکر ایئر نے ضرور وزیر اعظم بننے سے پہلے نریندر مودی کو چائے والا کہہ کر شرمناک بیان دیا تھا ‘‘یہ بات کہ نریندر مودی چائے بیچا کرتے تھے قومی انتخابات سے پہلے اور بعد کے ابتدائی ایام میں قابل فخر ہوا کرتی تھی۔مگر آج خود نریندر مودی جی کے کرتوتوں نے اسے قابل شرم بنا دیا ہے۔اب یہ بات امید ہے دنیا کی بھی سمجھ میں آچکی ہوگی کہ ہر ایرا غیرا اس قابل نہیں ہوا کرتا کہ اسے ملک کا سربراہ بنا دیا جائے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺنے کہا تھا کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ حضور ﷺ نے یہ بات کسی عصبیت کی بنا پر کہی ہوگی۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس بات کا تعلق انسانوں کے گہرے مطالعے سے ہے۔ انسانوں کی نفسیات سے ہے۔ قریش عالم عرب کے سردار ہوا کرتے تھے۔عالم عرب کی سیاست کا مرکز بھی مکہ ہوا کرتا تھا۔پھر حج و عمرہ کے لئے انھیں بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مالک ہونا پڑتا تھا۔اس طرح کے بچوں کو بچپن سے سربراہی کی تربیت ملا کرتی تھی۔ اور صرف حکومت کی نہیں و ہ فوج کی سربراہی میں بھی طاق ہواکرتے تھے۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جہانبانی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خود مسلمانوں نے غلاموں کو تخت شاہی بخشا ہے، مگر کب؟ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غلاموں کو غلاموں کی منڈی سے اٹھا کر تخت شاہی پر بٹھا دیا گیا ہو۔غلام اپنی صلاحیتوں کی بنا پر ترقی کرتا ہوا بالکل فطری انداز میں تخت شاہی تک پہونچا ہے۔ مگر مودی جی کو پرچارک سے سیدھا گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ وہ پارٹی عہدے دار توتھے مگر پہلے کسی طرح کا حکومتی عہدہ ان کے پاس نہیں تھا۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ حکمرانی کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔
ہم۶۳ سال سے اس ملک میں رہ رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے آر ایس ایس رسوائی کے جتنے کام ہیں نچلے طبقات سے لیتی ہے۔کیا آر ایس ایس کو معلوم نہیں تھاکہ مودی جی نے اپنی بیوی کو زندہ درگور کر رکھا ہے۔ ایسے شخص کو اٹھا کر ریاست کا سربراہ بنا دینا، جس کو معلوم ہی نہیں کہ خاندانی زندگی کیا ہوتی ہے۔ ۔انھوں نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی گجرات کو آگ و خون کے حوالے کردیا۔کہا جاتا ہے کہ انھوں نے گجرات پر ایک ڈکٹیٹر کی طرح حکومت کی۔ ہر مخالف آواز کو دبانے کی کوشش کی۔انکاؤنٹروں کی لائن لگادی۔انھوں نے گجرات کو واقعتا ترقی یافتہ بنایا یا نہیں یہ قظعیت کے ساتھ نہیں کہا جا سکتامگر یہ تو خود اس وقت کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ راج دھرم نہیں نبھا رہے ہیں اور یہ کسی غیر نے نہیں بی جے پی کے ہی وزیر اعظم نے کہا تھا۔ وہ بی جے پی کا اس ملک میں پہلا وزیر اعظم تھا۔ مگر اسے پہلے ہی سے حکومت کرنے کا تجربہ تھا۔ وہ برہمن تھا۔ اور منفی یا مثبت یہ بات مشہور ہے کہ برہمن بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ تاریخ میں یہ بات درج ہے کہ برہمنوں نے براہ راست تو بہت کم حکومت کی ہے مگر اکثر حکومتیں ان کے ہی دم سے چلا کرتی تھیں۔ بی جے پی کے دونوں وزرائے اعظم کے دور حکومت پر نظر ڈالی جائے تو ایک برہمن اور ایک چائے والے کے دور حکومت کا فرق واضح نظر آئے گا۔
آج عوام مودی جی کو دنیاکا سب سے بڑا جھوٹا سربراہ حکومت سمجھتی ہے۔ کیا اٹل جی کا بھی یہی حال تھا؟اب عوام مودی جی کو ’’پھینکو‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگی ہے۔کیا واجپئی جی کو بھی اس قسم کے القاب دئے گئے تھے؟
مودی جی کو منی شنکر ایئر نے غلطی سے ’’نیچ‘‘ کہہ دیا۔ اس تعلق سے منی شنکر نے یہ وضاحت کی ہے کہ وہ ہندی اچھی طرح نہیں جانتے۔اس کے باوجود انھیں کانگریس سے نکال دیا گیا ہے۔ کیا بی جے پی نے کبھی ایسے اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے؟کسی کے نیچ یا اونچے ہونے کا تعلق کم سے کم مسلمانوں کے نزدیک رنگ نسل یا نسب سے نہیں ہوتا۔ اس کے اقوال و افعال اسے نیچ یا اونچا بناتے ہیں۔ ہندوستانی سیاست آج جس پستی میں گر چکی ہے اسے وہاں تک پہونچانے میں کس کا ہاتھ ہے اس کی تحقیق کی جانی چاہئے اور ذمے داروں کا تعین کیا جانا چاہئے۔خاتون صحافی رعنا ایوب نے اپنی کتاب گجرات فائلس میں بھی لکھا ہے اور یہ خبریں اخبارات کی زینت بھی بن چکی ہیں کہ’’آنریبل‘‘وزیر اعظم نریندر مودی جی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے مانسی سونی نامی ایک نوجوان لڑکی کے جو کے عمر میں (اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہ کر بچے پیدا کرتے تو )ان کی لڑکی کے برابر تھی کے پیچھے پڑ گئے تھے اور اس کی جاسوسی کے لئے ساری ریاستی مشنری کا استعمال کیا تھا۔ یہاں بھی ان کے لفٹننٹ امت شاہ ہی تھے جو صاحب کا نام لے لے کر پولس کو لڑکی کے پیچھے بھگاتے تھے۔
یہ تو طے ہے کہ ایسا بد فطرت وزیر اعظم ملک کو اس سے پہلے کبھی نہیں ملا۔اور ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ ایسا پست اخلاق وزیر اعظم آئندہ بھی کبھی نہیں ملے گا۔یہ مودی جی کی اوّلیات میں سے ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کواپنے جیتے جی بیوہ بنا رکھا ہے اور بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ مسلم عورتوں کے درد میں ملک کو سر پر اٹھا رکھاہے۔مودی جی ملک کے وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جن کے وزیر اعظم بننے تک بہت سے ملکوں نے اپنی سرزمین میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ ان میں وہ ملک بھی شامل ہے جسے مودی جی نے آج اپنا سر پرست بنا رکھا ہے۔ مودی جی اگر آج وزیر اعظم نہ ہوتے تو امریکہ میں ان کا داخلہ آج بھی ممکن نہ ہوتا۔بہت ممکن ہے کہ یہ بھی ایک وجہ ہو جو وہ جلد سے جلد ساری دنیا گھوم لینا چاہتے ہیں۔
ہمارے ہی نہیں، اس ملک کے ہم جیسے تمام عوام کے نزدیک مودی جی کا سب سے بڑا کارنامہ اچانک نوٹ بندی کا ہے۔پرانے نوٹوں کو بند کرکے نئے نوٹوں کا اجراء کسی بھی ملک میں کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔خود وطن عزیز میں یہ کام کئی بار ہو چکا ہے۔مگر مودی جی کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اس عام بات کو بھی خاص بات بنا دیاتھا۔انھوں نے کافی متبادل کرنسی چھاپے بغیر نوٹ بندی کا حکم دے دیا۔ سونے پہ سہاگہ جو نئی کرنسی چھاپی گئی اس کے سائز کے تعلق سے مجرمانہ غفلت برتی گئی۔نئے نوٹوں کے لئے ملک بھر کی ATM مشینوں کیsettingsتبدیل کرنی پڑی۔کروڑوں لوگ مہینوں لائنوں میں کھڑے رہے۔ شادیاں اور دیگر تقریبات برباد ہوگئیں۔ سو سے کچھ اوپر لوگ ان صعوبتوں کی بنا پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ سب کیوں ہوا؟یہ ایک ایسے شخص کی حماقتوں کی وجہ سے ہوا جو جہانبانی کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ بات یہاں تک ہوتی تو اسے حماقت کہا جا سکتا تھا۔ مگر بے شرمی و بے حسی کی حد یہ ہے کہ سو سوا سو اموات کے بعد بھی حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس سے غلطی ہوئی۔وہ اور اس کے چمچے آج بھی نوٹ بندی کو اپنا کارنامہ ہی شمار کرتے ہیں۔
’’ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں ‘‘ہم تو عام آدمی ہیں اور باتیں بھی عام آدمی کی کرتے ہیں۔ اسلئے غلطی ہی سے سہی منی شنکر ایئرنے صحیح کہا تھا۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔