مودی جی! زن تو لوٹ لیا، اب دھن لوٹ لیں
مدثراحمد
ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی ملک کے بنیادی مسائل کے لئے کچھ کریں یا نہ کریں، یہاں کی عوام کو خون کے آنسوں کے بجائے پٹرولیم کے آنسوئوں سے ہی تر کردیں لیکن انکے پاس کسی کی سب سے زیادہ فکر ہے تو وہ مسلمانوں کی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی اور انکی پارٹی مسلسل مسلمانوں کے شرعی امور میں مداخلت کرتے ہوئے مسلمانوں کا جینا حرام کرنا چاہ رہی ہے اور اسی حرام زندگی کو کچھ مسلم نماء لوگوں نے قبول کرنے کے لئے اپنی کمر کس لی ہے کیونکہ ان لوگوں کو رضائے الٰہی سے زیادہ رضائے بی جے پی اہمیت رکھتی ہے۔ جب سے ہندوستان پر بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے مودی حکومت اور انکے تابع میں آنے والی عدالتیں اور انتظامیہ مسلسل اس بات کو لے کر فکر مند ہیں کہ کس طرح سے مسلمانوں کو انکے شرعی حدود سے باہر لایا جائے اور کس طرح سے انہیں انکے دین سے دور کیاجائے، اس کام کے لئے انہوںنے مسلمانوں کو ہی منتخب کیا ہے جس کی تازہ مثالیں طلاق ثلاثہ، خلع اور حلالہ کے خلاف عدالتوں کو جانے والی وہ مسلم نماء خواتین ہیں جنہیں دین سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ ہی وہ کبھی دین اسلام کو سمجھی ہیں۔
شہرت اور دولت کی خاطر ان خواتین نے قانون الٰہی کو ہی انکار کرتے ہوئے عارضی شہرت اور عارضی دولت کے پیچھے بھاگتے ہوئے اسلامی قانون کو رد کرنے کے لئے جو دنیاوی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اس کا جواب تو انہیں دنیا و آخرت میں تو ملے گالیکن افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ان اقدامات کو اٹھانے والے مسلمانوں کے لئے ہم مسلمانوںنے ہی راہیں ہموار کی ہیں کیونکہ شرعی عدالتیں جنہیں ہم اور آپ دارالقضاء کے نام سے جانتے ہیں وہاں ہونے والی بے ضابطگیوں اور کچھ مفاد پرست قاضیان کی وجہ سے یہ لوگ اسلامی قانون کو صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پائے اور اسکا اثر سیدھے سیدھے اسلام پر ہونے لگا ہے۔ طلاق، حلالہ اور خلع جیسے معاملات کے سلسلے میں ابھی مرکزی حکومت نے حال ہی میں ایک آرڈینیس پیش کرتے ہوئے اسلامی معاملات میں اپنی مداخلت کا ثبوت جس طرح سے دیاہے اسی درمیان بی جے پی کی ایک خاتون وکیل نازیہ الٰہی خان نے اعلان کیاہے کہ اگلاقدم جائیداد کی تقسیم کو لے کر سپریم کو رٹ سے رجوع ہونے کا ہے۔
اسلام میں خواتین کو جہاںجائیداد کے معاملات میں مردوں سے کم حصـہ دیتے ہوئے مردوں پر زیادہ ذمہ داریاں ڈال رکھی ہیں وہیں اب اگر بی جے پی سپریم کورٹ سےجائیداد کی بات کو لے کر یکساں حق کے لئے مطالبہ کرتی ہے تو اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سپریم کورٹ میں انصاف دینے والے جج صاحبان مسلم مردوں کے حق کو چھین کر خواتین کو مساوی حق دینے کا فیصلہ کرے، اگر ایسا ہوتاہے تو یقین جانئے کہ مسلم مرد وں کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے سے زیادہ عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑینگے۔ ایک طرف عدالتوں میں مسلمانوں کے معاملات سے حق تلافی کی جارہی ہے تو دوسری جانب ہم مسلمانوں کی قیادت بھی کمزور نظر آنے لگی ہے، پچھلے دنوں طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں ملک بھر میں مسلمانوں نے باضابطہ طورپر تحریک چلائی، اس میں دستخطی مہم، احتجاج، جلسے اور بعض مقامات پر ریالیاں نکالی گئیں، اس سب کے باوجود عدالتوں اور لاء کمیشن پر کسی بھی طرح کا اثر نہیں پڑا جبکہ اصل آواز مسلم رہنمائوں کی جانب سے ایوان اقتدار میں اٹھانی تھی اس میں وہ پوری طرح سے ناکام رہے۔
جس دن طلاق بل پر پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی جانے والی تھی اس موقع پر سوائے یم آئی یم کے اکبرالدین اویسی کے اور کسی مسلم رہنماء نے اپنا احتجاج درج نہیں کروایا یہاں تک کہ مولانا اجمل، مولانا اسرارالحق قاسمی بھی اپنی زبان چپ رکھ دی اور وہ پارٹیاں جنہوںنے ہمیشہ مسلمانوں کو ووٹ بینک مانا ہے اور مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی ایوان اقتدار تک کی راہوں کو پکڑا ہے انہوںنے بھی دبے الفاظ میں اس بل کی تائید کردی ہے جس کا خمیازہ آج پورے مسلمانوں کو اٹھانا پڑرہاہے۔ ہم ان ملـی تنظیموں کے سربراہان سے بھی سوال کرنا چاہیں گے کہ جن لوگوں کو آپ عیدملن، عیدمیلاد، افطار پارٹیوں میں صف اول کے مہمان قرار دیتے ہوئے دعوتیں کھلاتے ہیں کیا ان لوگوں کو آپ اس بات کو لے کر دبائونہیں ڈال سکتے کہ جو کچھ ہورہاہے وہ مسلمانوں کے حقوق کی تلافی کے برابر ہے اس لئے مسلمانوں کو حقوق دلوانے کے لئے آواز اٹھائی جائے۔
افسوس صد افسوس سیاسی جماعتوں کی طرح ہماری ملـی جماعتیں بھی خاموش تماشہ بین بن کر بیٹھی ہوئی ہیں اور چند ایک ایسی تنظیمیں ہی ہیں جو حق کے لئے لڑرہے ہیں۔ اب تک طلاق کے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے پاس سے زن کے حقوق کو چھین لیا ہے،اب پراپرٹی کے معاملات کو سپریم کورٹ میں لیجا کر زر کے حقوق کوبھی چھینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان حالات میں بھی مسلمان بے حس بے خوف اور بے حیا بن کراس ظالم حکومتی نظام کی تائید کررہے ہیں اور اس کی مخالفت میں ہونٹوں کوجنبش دینے سے بھی کترا رہے ہیں۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔