مولانا محمد رضوان ندویؒ

عاتکہ رضوان صدیقی

( پرنسپل مدرسہ تعلیم القرآن، نئی دہلی)

۲؍ اکتوبر ۱۹۹۹م کی صبح ایک چھ سالہ بچی اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی حسرت سے اپنے پڑوسی بچوں کو کھیلتے دیکھ رہی ہے۔ یا تو اُسے صبح صبح کھیلنے کی اجازت نہیں ہے یا بچے اس کی کم عمری کی وجہ سے اسے کھلانا پسند نہیں کرتے۔ وجہ کوئی بھی ہو، وہ ان کے ساتھ کھیل میں شریک نہیں ہے۔ نہ وہ واپس اندر جانا چاہتی ہے۔ اسے کھڑے کھڑے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک بچہ بھاگتا ہوا آتا ہے اور عجیب سے انداز میں اس سے کہتا ہے: ’’تم یہاں کھڑی ہو؟ اندر جاؤ، تمہارے ابی کا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس وقت کچھ سمجھ میں نہیں آیا اور نہ آج کچھ یاد ہے۔ وہ بچہ کون تھا؟ میں اندر کب گئی؟ خود گئی یا مجھے  کوئی لے گیا؟ گھڑی کے لحاظ سے صحیح وقت کیاتھا؟ ہاں ! تھوڑی دیر بعد گھر میں عورتوں کی بھیڑ، شدت غم سے نڈھال امی کا چہرہ، آخری دیدار کے لیے گھر کے باہر رکھا ابی کا جنازہ اور اپنی سب سے بڑی بہن محترمہ آمنہ رضوان کا بار بار ابی کے چہرے پر رومال سے ہوا کرنا، تاکہ مکھی وغیرہ نہ بیٹھ جائے۔ ان تمام چیزوں سے مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے ابی نہیں رہے۔ میرے ذہن میں اس دن کی بس یہی چند الم ناک یادیں باقی ہیں۔

جب یہ حادثہ پیش آیا میں بہت چھوٹی تھی۔ سات سال کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ بچپن کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں انسان کو کسی تکلیف کی شدت کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر ہوتاہے تو جلد ختم ہو جاتا ہے۔

حال سے اپنے بے گانے ہیں مستقبل کی فکر  نہیں

 لوگو  !  یہ  بچپن  کا  زمانہ  کتنا  اچھا لگتا  ہے

 میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ میں نے کیا کھودیا ہے۔ جو بیتا، میرے بڑوں پر بیتا۔ پھر دھیرے دھیرے وقت گزرتا گیا اور صبح وشام ابی کا تذکرہ ہوتا رہا۔ کبھی گھر والوں کی زبانی اور کبھی کسی پڑوسی یا رشتے دار کے ذریعے۔ میں نے ہر ایک کو اُن کا ذکر خیر کرتے ہوئے پایا۔

اپنے بڑوں کے ذریعے ابی کے متعلق جو باتیں میں سنتی رہی ہوں، اُن میں سب سے زیادہ متاثر میں اس بات سے ہوئی کہ انھوں نے خود کو بندگان خدا کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ لوگوں کے ساتھ ابی جس محبت، اپنائیت اور حسن سلوک کا معاملہ کرتے تھے، وہ واقعی قابل عمل ہے۔ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، اجنبی ہو یا رشتے دار، اُن کے ہاں اپنے پرائے کی کوئی قید  نہیں تھی۔ وہ ہر ایک کاخیال کرتے تھے۔ جس کو، جب، جہاں، جیسی ضرورت ہوتی اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ فائدہ اٹھانے کے بجائے، فائدہ پہنچانے پر زیادہ یقین رکھتے تھے۔اُن کے نزدیک دوسروں کی ضرورت اپنی ضرورت سے بڑھ کر تھی۔ وہ اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق جس کی جیسی مدد کر سکتے تھے، کرتے تھے۔ کتنے لوگوں کو ابی نے عمرہ کرایا، کتنی بیواؤں کی کفالت کی، کتنے یتیموں کی دست گیری کی اور کتنے ہی طلبہ کے تعلیمی اخراجات کی ذمے داری لی۔ کسی ضرورت مندکو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرا دیا، کسی کو ٹھیلے پر لگانے کے لیے سامانِ فروخت فراہم کردیا، کسی کو رکشا یا ٹھیلا خرید کر دے دیا اور نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیوں کو سنبھالنے اور سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس طرح کی اکثر باتیں ہم لوگوں کو ابی کے چلے جانے کے بعد معلوم ہوئیں۔ متعدد لوگوں نے آکر بتایا کہ انھوں نے ہمارے ساتھ فلاں فلاں خیر کا کام کیا تھا۔

ایک طرف یہ تمام مصروفیات اُن کی زندگی کا ایک لازمی حصہ تھیں، تو دوسری طرف دارالعلوم ندوۃ العلماء اُن کا جزوِ زندگی تھا۔ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے تو وہ اشاروں کے منتظر رہتے تھے۔ اِدھر ان بزرگوں نے کوئی حکم دیا یا صرف اپنی خواہش کا ظہار کیا اور اُدھر ابی کام کو انجام دینے میں لگ گئے۔ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی خواہش پر انھوں نے ۱۹۹۳میں جامعۃ المؤمنات الاسلامیۃ قائم کیا تو اُن کی زندگی کے آخری سات برسوں میں جامعہ بھی اُن کی سرگرمیوں کا بڑا مرکز بن گیا۔وہ جامعہ کی نظامت سے لے کر چوکی داری تک کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ہم نے بہت سے بزرگوں کے متعلق پڑھا اور سنا ہے کہ وہ اپنے اداروں اور طلبہ کی خدمت کرنے میں کوئی شرم و عار محسوس نہ کرتے تھے۔ ضرورت پڑتی تو تعمیرات میں مزدور کا کام بھی انجام دیتے اور ضرورت پڑتی تو بیت الخلاء کی صفائی بھی کردیتے تھے۔ حضرت قاری صدیق احمد باندویؒ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں طلبہ سے چھپ کر تمام بیت الخلاء صاف کرتے تھے۔ چھپتے اس لیے تھے کہ طلبہ نے دیکھ لیا تو صفائی نہیں کرنے دیں گے۔ ہمارے ابی نے بھی اپنے بزرگوں کی اس روش کو اختیار کیا تھا۔ وہ جامعۃ المؤمنات کی کسی خدمت کو انجام دینے میں شرماتے نہیں تھے۔ ضرورت پڑی تو انھوں نے مدرسے کی گندی نالیاں اور گٹر بھی صاف کیا۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب انسان کسی علمی یا کسی اور اعلیٰ ذمے داری میں لگا ہوتا ہے تو گھر والوں پر ویسی توجہ نہیں دے پاتا، جیسا دینا چاہیے۔ کبھی کبھی کام کی مصروفیات کی وجہ سے چڑچڑاپن بھی ہو جاتا ہے۔ مگر ابی کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ اس سلسلے میں ابی فرمانِ نبوی: خیرکم خیرکم لأہلہ (تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں، جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھے ہوں۔ )کی بہترین مثال تھے۔ اسی لیے ہم لوگوں نے ایک بہترین اور پرسکون ماحول میں پرورش پائی۔ وہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے تھے۔ دسترخوان پر بچوں کی پلیٹ میں اپنے ہاتھ سے کھانا نکالتے، لقمے بنا کر منھ میں ڈالتے، نبیوں اور صحابۂ  کرام کے قصے سناتے، دعائیں سنتے اور قرآن کی سورتیں یاد کراتے تھے۔ ہم لوگوں کی تعلیم وتربیت ان کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی۔ ہمارے گھر میں ناشتے کے علاوہ صرف دوپہر کا کھانا بنتا تھا۔ وہی کھاناہم لوگ رات میں کھاتے تھے۔ الا یہ کہ کوئی مہمان آجائے۔ ہماری امی اگر چاہتیں کہ بچوں کو تازہ روٹی بنا کر دیں، تو ابی کہتے کہ تم صرف اپنے لیے روٹی بنا لو۔ میرے اور بچوں کے لیے نہیں۔ حالاں کہ ابی کھانوں کا بہترین ذوق رکھتے تھے۔ اس کے باوجود وہ اپنے لیے ذرہ برابر اہتمام پسند نہیں کرتے تھے۔  تازہ اور گرم کھانا کھانے پر زور نہیں ڈالتے تھے۔ یہی مزاج وہ ہم سب کا بھی بنانا چاہتے تھے۔ امی بتاتی ہیں کہ وہ کہتے تھے کہ ’’عورتیں باورچی خانے میں اپنا وقت بہت ضائع کرتی ہیں۔ اس وقت میں وہ بہت کچھ پڑھ سکتی ہیں اور سیکھ سکتی ہیں۔ ‘‘ اس لیے مغرب کے بعد پورے گھر کو صرف پڑھنا ہوتا تھا۔ امی کو بھی باورچی خانے میں کھانا پکانے کے لیے جانے سے منع کرتے تھے۔  الا یہ کہ کوئی مہمان آجائے اور اس کے لیے کچھ اہتمام کرنا ہو۔

ابی کی زندگی کا ایک اہم وصف سادگی بھی تھا۔ وہ خود بھی انتہائی سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے تھے اور اپنے اہل خانہ کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے۔ امی سے کہتے تھے کہ اپنے پاس صرف تین جوڑے رکھا کرو۔ اگر کسی موقعے پر ایک جوڑا بناؤ تو پہلے سے موجود جوڑوں میں سے ایک کسی کو دے دو۔ کہیں سے گھر آتے اور کھانا کھانے کی ضرورت ہوتی تو خود ہی فریج سے نکال کر کھالیا کرتے تھے۔ گرم کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔

بچوں کی تعلیم کے ساتھ وہ اُن کی تربیت پر بھی بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ اس ذیل میں ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک پر اُن کی بہت توجہ رہتی تھی۔ ہمارے گھر میں ایک لڑکی رہا کرتی تھی۔ وہ امی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ اس سے کچھ آٹا وغیرہ گر گیا۔ ہماری بڑی بہن نے اسے ذرا سخت لہجے میں تنبیہ کی۔ وہ لڑکی خاموش رہی اور کوئی جواب دیے بغیر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ ابی کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور بہت دیر تک افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ میری بہن کو بلایا اور سمجھایا کہ وہ بچی یہاں اس لیے ہے کہ اس کے والد نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ مجبوری ہے۔ وہ اپنے گھر میں سب سے بڑی ہے۔ اگر تم اس کی جگہ ہوتیں تو تمھیں کیسا لگتا؟ ابی کو اس یتیم بچی کا بہت خیال رہتاتھا۔ گھر میں جب پھل آتے تو سب سے پہلے اسے ہی دینے جاتے۔ ہم لوگوں کے لیے بعد میں کھانا لگتا، اسے پہلے دیا جاتا۔ حتیٰ کہ ابی کی ہدایت کے مطابق امی اس کے لیے عید بقرعید کے کپڑے بھی ویسے ہی بناتی تھیں، جیسے ہم بیٹیوں کے لیے بناتی تھیں۔ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی عید کے موقعے پر اپنے نانہال گئے تو ہمارے اور اس بچی کے ایک جیسے کپڑے دیکھ کر لوگوں نے بہت تعجب کا اظہار کیا۔

اسی طرح ہمارے گھر میں ایک خاتون کھانا پکانے آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ہم لوگ دسترخوان پر بیٹھے تھے۔ کھانا شروع ہواتو ایک پلیٹ کم پڑ گئی۔ میرے بڑے بھائی نے دسترخوان پر بیٹھے بیٹھے اُن خاتون کو آواز لگا کر پلٹ مانگی۔ بس پھر کیا تھا۔ ابی کو سخت   غصہ آگیا۔ انھوں نے بھائی کو سخت تنبیہ کی اور کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم اپنے بڑے سے کام کہو؟ گھر میں اگر ملازم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر بچہ جب چاہے، اس سے کام کہہ دے اور اس سے اپنے ذاتی کام کرائے۔

ابی کو اپنے وعدے کا بھی بے حد پا س و لحاظ رہتا تھا۔ وعدہ خلافی سے انھیں سخت وحشت تھی۔ جس دن اُن کی وفات ہوئی اُس سے پہلے والے دن کا واقعہ ہے کہ ابی دوبگا میں واقع اپنے گھر پر تھے۔ اُس دن گھر میں کباب بنے تھے۔ ابی کو امی کے ساتھ کسی  ضروری کام سے ندوے والے گھر جانا تھا۔ امی چاہتی تھیں کہ وہ کچھ دیر رک جائیں اور کباب کھاکر ہی چلیں۔ لیکن ابی اس کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ انھوں نے امی سے کہا کہ ہم تمھیں باہر سے لاکر کباب کھلا دیں گے۔ یہ کہہ کر امی کو ساتھ لیا اور اپنے کام سے نکل گئے۔ دن بھر کام کاج کی مصروفیت میں انھیں یاد ہی نہ رہا کہ امی سے کیا کہا تھا۔پھر انھوں نے امی کو ندوے والے گھر میں چھوڑا اور دوبگا والے گھر میں رات گزارنے کے ارادے سے اپنے کسی اور کام سے نکل گئے۔ یہ اُن کی زندگی کی آخری رات تھی۔ وہ دیر رات جب دوبگا کے گھر پہنچے اور فریج کھولا تو انھیں دن کے کباب رکھے ہوئے نظر آئے۔ اب انھیں اپنا وعدہ بھی یاد آیا۔ رات خاصی ہوچکی تھی۔ تقریباً بارہ بج رہے تھے۔ لیکن ابی دن بھر کے تھکے ہارے ہونے کے باوجود وہ کباب لے کر ندوے پہنچے۔ امی اور سب بھائی بہن سوچکے تھے۔ ابی نے امی سے معذرت کی اور انھیں وہ کباب دیے۔

کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ اگر ابی اُس رات دوبگا ہی میں رہتے تویقیناً اُس سڑک پر نہ پہنچتے، جس پر اُن کے اسکوٹر کی ٹرک سے ٹکر ہوئی اور اُن کا سانحۂ وفات پیش آیا۔ لیکن پھر اس خیال سے اللہ کے شکر کی توفیق بھی ملتی ہے کہ موت تو جب آنی تھی، آکر ہی رہتی۔ ان کے دیر رات ندوے پہنچنے سے اتنا تو ہوگیا کہ انھوں نے اپنی زندگی کی آخری رات اپنے بال بچوں کے ساتھ گزار لی۔ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے جب ابی گھر سے اپنا اسکوٹر نکال رہے تھے تو میرے سب سے چھوٹے بھائی یونس نے اپنی تتلی زبان میں ابی کو روکا تھا۔ اس وقت یونس کی عمر پونے دو سال تھی۔ اُس نے جب دیکھا کہ ابی گھر سے نکل رہے ہیں تو ابی کو یہ کہہ کر روکا کہ ابھی وہ بھی آرہا ہے، ابی ابھی نہ جائیں۔ یونس کے اندر جاتے ہی ابی گھر سے نکلے اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔

 اب نہیں لوٹ کے آنے والا

  گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا

ابی توچلے گئے، لیکن اُن کی یادیں اور اُن کی تعلیمات ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ ان یادوں کوموت کے سوا ہم سے  کوئی نہیں چھین سکتا۔ آج اُن کی جدائی کو دو دہائیاں گزرنے کے باوجود لگتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں، اُن کا دست شفقت ہمارے سروں پر ہے اور اُن کی تعلیمات آج بھی ہماری رہنمائی کر رہی ہیں۔ گویا وہ ہم سے دور نہیں، ہمارے ساتھ ہی ہیں۔

 آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے

  آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے  

ابی سے کسی بھی طرح کا تعلق رکھنے والے کا جب انتقال ہوتا ہے تو ابی کی وفات کا غم تازہ ہوجاتا ہے۔اُن کی وفات کے تین ماہ بعد اُن کی عقیدتوں کے سب سے بڑے مرکز مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی کی رحلت ہوئی۔ اس بعد اُن کے اساتذہ میں مفتی اعظم ندوۃ العلماء حضرت مفتی محمد ظہور ندوی اور چند دن پہلے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کا سانحۂ وفات پیش آیا۔ اُن کے رفقاء میں مولانا امین الدین شجاع الدین، مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی اور مولانا صدیق ندوی کا انتقال ہوا۔ ہمارے ددیہال میں بالترتیب دادی امی، دادا ابو، سلمان چچا، اچھی پھوپی اور فیضان چچا کا انتقال ہوا۔ پھوپی اور دونوں چچا تو ۲۰۱۷ میں کچھ کچھ ماہ کے فاصلے سے ایک ہی سال میں اس دنیا سے چلے گئے۔ غرض یہ کہ اس طرح کے حادثے اپنے آپ میں جتنے سخت ہوتے ہیں، وہ تو ہیں ہی، یہ ہمیں اس لیے بھی زیادہ سخت محسوس ہوتے ہیں کہ ان سے ہمارے دل پر لگا ہوا ابی کی جدائی کا غم تازہ ہوجاتا ہے اور ہم خواجہ حیدر علی آتش لکھنوی کے اس شعر کا مصداق بن جاتے ہیں :

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی  صورتیں

 روئیے کس کے لیے، کس کس کا ماتم کیجیے

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ابی اور ان کے تمام مرحوم وابستگان کو جنت الفردوس عطا فرمائے، اُن کے تمام باحیات وابستگان کو ہمیشہ صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے اور ہم اولاد کو اُن کے خوابوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ہم سب لوگ اخروی زندگی میں ہنسی خوشی اُن کے ساتھ رہیں اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کا لطف اٹھائیں۔ آمین

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔