میر انیسؔ اور غزل
انیسؔ نے جیسے مرثیے کہے ہیں، وہ نہ ان سے پہلے کبھی کہے گئے نہ ان کے بعد۔
ڈاکٹر ناصرؔ امروہوی
عالمی ادب میں کچھ شخصیات ایسی ہوئی ہیں جن کا نام نامی کسی ایک صنفِ ادب کے لئے لازم و ملزوم قرار پایا اور یہ تاثر عام ہو گیا کہ ان کی تمام تر فنکارانہ مہارت کا اظہار اسی صنف میں ہوا ہے۔بہت سے نام ایسے ہیں جو کسی ایک صنف کے لئے رہتی دنیا تک مشہور و مقبول ہوئے۔ کسی ایک صنف میں مہارت رکھنے اور اپنی فنی صلاحیات کے اظہار کو کمال تک پہنچانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ فن کار کا تعلق دوسری اصناف سے نہیں ہے۔شیکسپیئر بیک وقت افسانوی ادب اور شاعری دونوں میں کمال رکھتے ہیں۔ ان کے ناول اور سانیٹ دونوں ہی انگریزی ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔
اردو ادب کی بات کریں تو میر تقی میر اپنی غزلوں کے لئے جانے جاتے ہیں لیکن اگر آپ ان کی مثنویات کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ وہ اس میدان کے بھی ماہر شہ سوار ہیں، یہ بات اور کہ مثنویات کے لئے شہرت دوام میر حسنؔ اور دیا شنکر نسیمؔ کے حصے میں آئی۔
اسی طرح غالب کا شمار اردو کے بڑے غزل گو شعراء میں ہوتا ہے لیکن ان کے قصائد بھی اپنی انفرادیت کے لئے اہم مانے جاتے ہیں نیز ان کے خطوط جدید اردو نثر کے بنیاد گزار تسلیم کیے جاتے ہیں .۔حالیؔ نظم کے اہم شاعر ہیں اور آزاد ؔکے ساتھ مل کر انھوں نے اس صنف کی جس قدر خدمت کی ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ باوجود نظم کے شاعر ہونے کے حالیؔ تنقید کے میدان میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں اور ان کی مایہ ناز تصنیف مقدمہ شعر و شاعری تنقید کی ایک اہم کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔
میر انیس ؔکا نام ذہن میں آتے ہی اگلا خیال اردو مرثیے کا آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انیسؔ مرثیے کے لئے تھے اور مرثیہ انیس ؔکے لئے۔ انیسؔ کے والد میر خلیقؔ کا شمار مرثیے کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے لیکن انیسؔ نے مرثیے کو وہ بام عروج بخشا کہ ان کا دور مرثیے کے عروج کے ساتھ ساتھ اس معیار کے مرثیوں کا آخری دور بھی ثابت ہوا۔ انیسؔ نے جیسے مرثیے کہے ہیں، وہ نہ ان سے پہلے کبھی کہے گئے نہ ان کے بعد۔ اردو مرثیہ عالمی ادب کی واحد ایسی شعری صنف ہے جس کا تعلق صرف ایک سانحے سے ہے اور وہ ہے سانحہ کربلا۔ آپ تمام عالمی ادب کا مطالعہ کریں اور تلاش کریں کسی ایسی شعری صنف کی جس کا تعلق اور جس کے وجود میں آنے کی وجہ صرف ایک سانحہ ہو تو مجھے نہیں لگتا کہ آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اردو مرثیے کا تعلق صرف اور صرف سانحہ کربلا سے ہے گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سانحہ کربلا تاریخ انسانی کا ایسا اہم سانحہ ہے کہ اس کے بیان کے لئے اردو کی ایک شعری صنف ہی مخصوص ہو گئی۔
میر انیسؔ مرثیے کے بادشاہ ہیں۔ عام طور پر اردو مرثیے کے ضمن میں میر انیس ؔاور مرزا دبیرؔ کا ذکر کیا جاتا ہے۔علامہ شبلیؔ نعمانی نے تو باقاعدہ ان دونوں حضرات کی مرثیہ نگاری کے تقابلی مطالعے کے لئے ایک مفصل کتاب قلم بند کی جو اردو میں تقابلی تنقید کا نقشِ اول تسلیم کی جاتی ہے۔ علامہ شبلیؔ نعمانی کے اس موازنے کا ماحصل یہ ہے کہ انیسؔ میدان مرثیہ میں دبیرؔ سے بہت بہتر ہیں۔ شبلیؔ نعمانی نے اپنے موازنے ان دونوں حضرات کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے کلام کے موضوعات، علمیت، جدت طرازی، تشبیہات واستعارات، قوت تخیئل وغیرہ کا تقابل کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس میدان کے فاتح میر انیسؔ ہی ہیں حالاں کہ اس موازنے کے مطالعے سے ہی بھی پتہ چلتا ہے کہ مقام و مرتبے کے معاملے میں انیس ؔکے جتنا قریب دبیرـؔ ہیں، کوئی دوسرا شاعر نہیں ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انیسؔ کا تعلق رثائی ادب سے ہے۔ مراثی، سلام اور نوحوں پر مشتمل ان کا کلام جذبات اور عقیدت سے مملو ہے اور ساری دنیا میں عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ مکمل طور پر مسلم ہے کہ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے اور ہر دور میں سرتاج سخن رہی ہے۔ وہ دور کہ جب غزل کے خلاف چہار جانب سے آوازیں بلند ہوئیں اور باقاعدہ طور پر تحریک چلا کر غزل کے مقابلے نظم کو زیادہ اہم اور کارآمد ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں، غزل نے اس دور میں بھی اپنی سخت جانی کا مظاہرہ کیا اور زمانے کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلی۔غزل نے اپنی تشکیل کے ابتدائی دور سے ہی اپنے دامن کو وسیع کیا اور وہ خیالات اور مضامین جو عام طور پر غزل کا خمیر اور اس کے لئے انتہائی لازم سمجھے جاتے تھے، کے علاوہ انسان زندگی کے ہر ہر پہلو کو اپنے دامنِ وسیع میں آسودگی بخشی اور غزل انسان زندگی کی ترجمان بن کر سامنے آئی۔ غزل کی اسی ہر دل عزیزی اور مقبولیت کی وجہ سے اردو میں تقریباً تمام ہی شعراء نے اپنے شعری سفر کی ابتداء غزل سے کی ہے۔ وہ شعراء جو بعد میں نظم کے بڑے شاعر تسلیم کیے گئے ان میں سے اکثر نے شاعری کی شروعات غزل سے کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو شاعری کے میدان میں قدم رکھنے والے ہر دیوانے کو اول اول لیلائے غزل اپنی زلف گری گیر کا اسیر کر لیتی ہے۔
انیسؔ نے بھی اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیالیکن وہ اتنی کم ہیں کہ ان کا شمار انگلیوں پر ہو سکتا ہے۔
ناصرؔ لکھنوی نے خوش معرکہ زیبا میں لکھا ہے کہ غزلیں انھوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیسؔ کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔ انیس ؔبنیادی طور پر اور اصل میں مرثیے کے ہی شاعر ہیں لیکن ابتداء میں انھیں غزل نے اپنی جانب مائل کیا اور انھوں نے کچھ غزلیں کہیں۔ مولانا محمد حسین آزادـؔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف آبِ حیات میں لکھتے ہیں کہ انیسؔ کی غزلوں کو دیکھ کر ان کے والد میر خلیقؔ نے کہا تھا، "اب غزل کو سلام کرو” ایسا رعایت لفظی کا حامل جملہ میر خلیقؔ ہی کہہ سکتے تھے اور اسے میر انیسـؔ جیسا صاحب فہم و ذکا ہی سمجھ سکتا تھا۔ لہذا میر انیسؔ نے غزل کو دونوں معنی میں سلام کیا یعنی خیرباد بھی کہا اور اس کی ہیئت کو بارگاہ امام میں سلام کہنے کے لئے بھی استعمال کیا۔ مولانا موصوف فرماتے ہیں کہ والد کی فرماں برداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔
انیسؔ کی جو غزلیں دستیاب ہیں ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ ان کے مطالعے سے اردو غزل میں انیسؔ کے مقام و مرتبے کی تعیین نہیں کی جا سکتی لیکن یہ غزلیں اردو غزل میں انیسؔ کا مزاج اور ان کی طبیعت کی عکاسی کے لئے کافی ہیں۔
انیسؔ کی پرورش ایک مذہبی خانوادے میں ہوئی تھی۔ میر ضاحکـؔ سے لے کر انیسؔ تک اور ان کے بعد ان کی اولادیں بھی رسول اور آل رسول کی محبت میں ایسی سرشار تھیں کہ تمام عمر ان کی مدح سرائی میں صرف کر دی۔ انیسؔ نے اپنے آبا و اجداد کی اس روش کو انتہائی خوب صورتی کے ساتھ فخریہ انداز میں اس طرح پیش کیا ہے:
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
تو یہ کیسے ممکن تھا کہ انیسؔ کی غزلوں پر ان کی اس فکر کے اثرات مرتب نہ ہوتے۔ انیسؔ جس خاندان کے چشم و چراغ تھے اور جس ماحول میں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی تھی وہ اس امر کے متقاضی تھے کہ انیسؔ غزل بھی کہیں تو ان پر بھی اسی رنگ کی چھاپ ہو جو ان کے باپ دادا کا خاصہ ہے۔ لہذا انیسؔ کی غزلوں میں بھی جا بجا ان کی رثائی فکر کے عمدہ نمونے نظر آتے ہیں اور وہ باوجود غزل کہنے کے بھی اپنی اصل فکر کو ترک نہیں کرتے۔ کربلا انیس ؔکے لئے تھی اور انیسؔ کربلا کے لئے.۔کربلا اور کربلا والوں سے ان کا تعلق ہی ان سے غزل میں ایسے اشعار کہلوا سکتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
انیسؔ بیچ کے جاں اپنی ہند سے نکلو
جو توشہ سفر کربلا نہیں رکھتے
خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ
کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لئے
غزل میں عشق و محبت کے مضامین غزل کے خمیر میں شامل ہیں اور ان مضامین کے بغیر غزل کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ غزل کے تو معنی ہی "سخن بایار گفتن” کے ہیں۔ یہ مضامین نہ کبھی پرانے ہوتے ہیں نہ طبیعت پر بار ہوتے ہیں۔ غزل کے شعراء ہر ہر دور میں اپنی فن کارانہ مہارت کا اظہار کرتے ہوئے نئے نئے مضامین اور مفاہیم کو معاملاتِ عشق و محبت کے ضمن میں پیش کرتے رہے ہیں۔ اصل میں عشق و محبت کے یہ مضامین ہی غزل کی اساس ہیں۔ غزل نے اپنی تشکیل کے ابتدائی دور میں ہی اپنے دامن کو وسیع کرنا شروع کر دیا اور انسای زندگی کے ایک ایک گوشے کو شعراء نے غزل میں جگہ دی لیکن غزل کا اصل منشا تو عشق و محبت کے مضامین ہی تصور کیے جاتے ہیں۔ انیسؔ ایک مذہبی خاندان میں پرورش پا رہے تھے جہاں رثائی ادب کا دور دورہ تھا لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ دوسری طرف لیلائے غزل بھی بانہیں پسارے ان کا استقبال کر رہی تھی لہذا انیسؔ ابتداء میں غزلوں کی جانب مائل ہوئے۔ ان کی غزلوں میں عشق و محبت کے مضامین کی موجودگی انسانی فطرت کی بین دلیل ہے کہ یہ جذبہ عشق و محبت ہی تو ہے جس کے دم سے یہ کارخانہ کائنات وجود میں آیا ہے اور رواں دواں ہے۔ باوجود عشقیہ مضامین نظم کرنے کے انیسؔ کا فطری میلان اور اصل مزاج ان کے یہاں جلوہ گر ہے۔ حسینوں کو دیکھ درود پڑھنے اور اس کا جواز پیش کرنے کا جگر انیسؔ ہی کے پاس ہے۔ فرماتے ہیں :
پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیال ِصنعت ِصانع ہے پاک بینوں کو
شاعر ہمیشہ سے محبوب کی نگاہ ناز کا کشتہ رہا ہے اور یہ میٹھی نگاہیں ہی اس کے لئے میٹھا زہر ثابت ہوتی ہیں کہ اول اول ان کی دل کشی اسے اپنی جانب مائل کرتی ہے اور آخر آخر ان سے نکلنے والے ناوکِ ناز اس کی قضا کا سامان بنتے ہیں۔ نگاہ ناز کی نہ صرف جادو بیانیاں بلکہ نگاہیں پھیر کر بے وفائی کرنا بھی اردو غزل میں ہمیشہ سے قابل ذکر رہا ہے۔ انیسؔ کی غزلیں بھی اس طرح کے مضامین سے اچھوتی نہیں ہیں۔ اشعار دیکھیں :
اشارے کیا نگہ نازِ دل ربا کے چلے
ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے
۔
تجھی کو دیکھوں گا جب تک ہیں برقرار آنکھیں
مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح
۔
شوخیِ چشم کا تو کس کی ہے دیوانہ انیسؔ
آنکھیں ملتا ہے جو یوں نقش کف آہو سے
انیسؔ کی غزلوں میں عشقیہ مضامین اپنی جدت آفرینی اور ندرتِ خیال کے حوالے سے بھی کافی اہم اور قابل توجہ ہیں۔ ان کی فن کارانہ مہارت اور بلند تخیل یہاں بھی جلوہ گر ہے۔ شعر دیکھیں :
مثالِ ماہیِ بے آب موجیں تڑپا کیں
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
کسی کے پانی سے نہا کر نکلنے پر موجوں کا بن پانی مچھلی کی طرح تڑپنا اور حباب کا پھوٹ کر رونا خاصے کی چیز ہے نیز اس شعر میں انیسؔ کی رعایت لفظی بھی اپنا جوہر دکھا رہی ہے جو دبستانِ لکھنو کا خصوصی ہے۔
غزل میں رفتگاں کی یاد، محبوب کے ساتھ گزرے خوش گوار لمحات، ان یادوں کی تڑپ روایتی مضامین ہیں جو انیس ؔکے یہاں بھی جلوہ گر ہیں :
ایک دن وہ تھا کہ تکیہ تھا کسی کا بازو
اب سر اٹھتا ہی نہیں اپنے سرِ زانو سے
میں پوری ذمے داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر یہ شعر انیسؔ کے علاوہ دبستان لکھنو کا کوئی اور شاعر کہتا تو بازو کی جگہ زانو کہتا، یعنی اس کا تکیہ کسی کا بازو نہیں بلکہ کسی کا زانو ہوتا۔
انیسؔ کا یہ شعر تو زبان زدِ خاص و عام ہے کہ اپنے مضمون کی شوخی اور برجستگی کے لئے اپنی مثال آپ ہے۔
عاشق کو دیکھتے ہیں دوپٹے کو تان کر
دیتے ہیں ہم کو شربتِ دیدار چھان کر
عزل کا تعلق بھلے ہی تخیل کی کائنات سے ہو لیکن غزل نے ابتداء سے ہی خود کو اس تنگنائے سے آزاد کرنے کی کامیاب کوشش کی اور تخیل کے ساتھ ساتھ حقیقت سے نظریں ملانے لگی۔ عشق و عاشقی کے وہ معاملات جو شاعر کے مشاہدے اور کسی حد تک تجربے پر منحصر ہوتے تھے، کے علاوہ غزل میں انسان کی حقیقی زندگی کو بھی پیش کیا جانے لگا۔ غزل نے وقت کی ضرورت کے مد نظر اپنے عہد سے نگاہیں ملائیں اور غزل انسانی زندگی کے ایک ایک گوشے اور ایک ایک پہلو کی آئینہ دار بن گئی۔ انسانی زندگی کی وہ حقیقتیں جو کبھی تلخ ہوتی ہیں تو کبھی شیریں، اردو غزل میں خوب خوب پیش کی گئیں۔ یہ غزل ہی تھی جس نے وقت کی نبض کو پہچانا اور خود کو حیاتِ انسانی کے مسائل کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔
انیس ؔایک جہاں دیدہ شخص تھے، ان کے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کے اثرات ان کے کلام میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں متعدد کائناتی حقائق کو انتہائی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ حقائق سبق آموز بھی ہیں اور نصیحت آمیز بھی نیز اس امر کے بھی غماز ہیں کہ ان اشعار کے خالق کا مطالعہ وسیع اور نگاہ بلند ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے
۔
انہیں کو آج نہیں بیٹھنے کی جا ملتی
معاف کرتے تھے جو لوگ کل زمینوں کو
۔
زمانہ ایک طرح پر کبھی نہیں رہتا
اسی کو اہل ِجہاں انقلاب سمجھے ہیں
۔
انیسؔ یوں ہوا حال جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت گرے ثمر کی طرح
شاعرانہ تعلی شعراء کا قدیم طریق ہے۔ باوجود اس کے کہ شعراء بلا کے خاکسار اور عاجز بھی واقع ہوتے ہیں، شعراء اپنے اشعار کے ذریعے اپنے فن کی تعریف آپ کرتے ہیں اور یہی شاعرانہ تعلی کہلاتی ہے۔ یہ تعلی کچھ شعراء کے لئے تو یقیناً تعلیِ بجا ہوتی ہے اور اس کا اظہار ان کے پڑھنے اور سننے والوں کے لئے باعث فرحت و انبساط ہوتا ہے لیکن کچھ شعراء کے لئے تعلیِ بے جا ثابت ہوتی ہے جس کا اظہار باعث ننگ و عار ہوتا ہے۔ عام طور پر تو اپنے فن کی تعریف خود کرنا مناسب نہیں ہے لیکن اگر شاعر واقعی اس درجے کا ہے تو اردو شاعری میں یہ معیوب نہیں ہے بلکہ یہ اردو شاعری کی روایات میں شامل ہے۔ انیسؔ کی شاعرانہ تعلی مبنی بر صداقت ہے کہ انھیں زبان بیان پر جو مہارت حاصل تھی، انھوں نے اپنی شاعری میں جس فن کارانہ چابک دستی کا مظاہرہ کیا ہے، انھوں نے اپنے تخیل کی پرواز سے میدان شاعری میں جو گل کاریاں کی ہیں، وہ سب اس بات کی متقاضی ہیں کہ انیسؔ تعلی کے شعر کہیں اور انھوں نے کہے بھی ہیں۔ اس طرح کے اشعار ان کی غزلوں میں اکثر نظر آتے ہیں اور خوب لطف دیتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
سجایا ہم نے مضامیں کے تازہ پھولوں سے
بسا دیا ہے ان اجڑی ہوئی زمینوں کو
کسی نے تری طرح سے اے انیس
عروسِ سخن کو سنوارا نہیں
ناصح، ملا، زاہد اور واعظ پر لعن طعن بھی ہماری اردو شاعری اور خاص طور پر غزل کی قدیم روایات میں شامل ہے۔ شاعر تو اپنی دھن میں رہتا ہے، من موجی ہوتا ہے، عشق کرتا ہے اور شعر کہتا ہے، کوئی روک ٹوک، کوئی پند و نصیحت اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے اور وہ ناصح پر ہی لعن طعن کرتا ہے۔ یہ لعن طعن انیسؔ کے مزاج اور ان کی طبیعت کے بالکل منافی تھے کہ وہ بلا کے عاجز، منکسر المزاج اور خاکسار واقع ہوئے تھے لیکن جب بات کربلا کی آتی ہے تو تمام باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور انیس ؔکا کربلا اور کربلا والوں سے عشق اولین چیز بن جاتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں :
تو سراپا اجر اے زاہد میں سر تا پا گناہ
باغِ جنت تیری خاطر کربلا میرے لیے
میر انیسؔ کی غزل گوئی پر اس مختصر تبصرے کے بعد یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگرمیر انیسَ نے باقاعدہ طور پر غزل گوئی کی ہوتی یا ان کی اور زیادہ غزلیں دستیاب ہوتیں تو ان کی غزل گوئی پر مفصل گفتگو کی جا سکتی تھی۔ انیس ؔکی غزل گوئی یقیناً اردو غزل میں بہت سے نیے باب وا کرنے کے لئے کافی تھی۔
تبصرے بند ہیں۔