میں بسہاڑہ (دادری) گیا۔۔۔۔!

وپن کمار ترپاٹھی

28 ستمبر2015 ، بسہاڑہ گاؤں، دادری تحصیل، یوپی کے ضلع گوتم بدھ نگر (نوئیڈا) میں ایک 50 سالہ  لوہار محمد اخلاق کو اپنے گھر میں گائے کے گوشت رکھنے کی افواہ پر ایک ہجوم نے نہایت ہی بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیاتھا. اس وقت کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان کے گھر سے  برآمد گوشت کا نمونہ بیف نہیں تھا. ایک مندر سے مائک کے ذریعے اعلان کیا گیا تھا کہ ایک بچھڑے  کو مار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھے. اس کے بعد بہت بڑے ہجوم نے اخلاق کے گھر پر حملہ کر دیا ، اسے گھسیٹ کر سڑک پر لے آئے  جہاں نہایت ہی وحشیانہ طریقے سے اسے مارا گیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا. اس کا لڑکا دانش بھی بری طرح سے زخمی ہوا لیکن وہ بچ گیا۔ آٹھ مہینے بعد فورنسک لیب متھرا کی رپورٹ آئی کہ گوشت کا نمونہ بیف تھا۔ یہ ایک معمہ ہے کہ کیوں اس رپورٹ کو دینے میں آٹھ مہینے لگ گئے جب کہ عموما رپورٹ دینے میں ایک ہفتے کا وقت لگتا ہے۔ دو دن کے بعد وی ایچ پی‘ آر ایس ایس ‘ شیو سینا کے کارکنان وہاں گئے۔ انھوں نے وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ میٹینگ کی اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ بیف رکھنے کے جرم میں اخلاق احمد کی فیملی کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے نیز اس کیس میں گرفتار 18 مبینہ مجرموں کو رہا کیا جائے۔ ان واقعات نے مجھے چونکا دیا اور میں نے گاؤں جانے کا فیصلہ کرلیا۔
7جون 2016 کو میں اپنے گھر دہلی سے روانہ ہوا‘ میٹرو اور بس پکڑتے ہوئے صبح دس بجے دادری پہونچا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ بسہاڑہ  گاوں وہاں سے 4 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ میں پیدل چلنے لگا۔ میں آدھے ہی راستے پر تھا تبھی قریبی گاؤں کے رہنے والے ایک بی کام اسٹوڈنٹ سونو نے مجھے اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کی پیشکش کی۔ میرے گاؤں جانے کے مقصد کو جان کر وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے بتایا کہ اس کا تعلق دلت کمیونٹی سے ہے۔ اس نے مجھے بسہاڑہ کے موڑ پر اتار دیا۔ پھر میں آگے بڑھا اور میری نظر ایک آنگن واڑی پر پڑی۔ میں اس کے اندر چلا گیا اور وہاں کی ایک ذمہ دار خاتون سے میں نے بات چیت کی۔ میں بوکھلا سا گیا جب اس نے میرے سوالات کا جواب دیا۔ اس نے کہا کہ اتر پردیش کی حکومت سیاست کھیل رہی ہے‘ جب لیب نے بیف کی توثیق کردی ہے تو سارے گرفتار شدگان کو رہا کردینا چاہیئے۔ تب میں نے جوابی میں دو سوالات جڑ دیئے کہ رپورٹ آٹھ مہینے بعد کیوں آئی اور کیا ہم صرف اس بنا پر کسی کی جان لے سکتے ہیں کہ اس کے پاس بیف ہے؟ تو اسے کچھ معقولیت محسوس ہوئی۔
بسہاڑہ کی آبادی دس ہزار ہے اور رائے دہندگان 5500 ہیں۔ یہاں سارے ذات پات کے لوگ ہیں لیکن یہ بنیادی طور پر ٹھاکروں کا گاؤں ہے جہاں 30-40 خاندان مسلمانوں کے آباد ہیں اور ان میں سے کسی کے پاس کھیت نہیں ہے۔ یہاں کئی دہائیوں سے ایک قدیم امدادی سینئر سیکنڈری اسکول ہے جس میں 1600 بچے اور 20 اساتذہ ہیں۔ اخلاق بھی اس اسکول میں پڑھ چکا تھا۔ گزشتہ سال اس کا لڑکا دانش یہاں پڑھ رہا تھا۔
میں گاؤں کے نو متخب پردھان کے پاس گیا۔ وہ گھر پر موجود نہیں تھے لیکن ان کے والد اور بچے تھے۔ اس کا لڑکا 12ویں کلاس کا طالب علم بے کافی حد تک بے باک دکھ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔ حال ہی میں ایک مسلم خاندان کی شادی میں ہندؤں نے شرکت بھی کی ہے۔ جب میں نے حال میں ہوئی آر ایس ایس ‘ وی ایچ پی کے لوگوں کے ساتھ پنچایت کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا کہ یہ پنچایت نہیں تھی کیوں کہ اس کے والد نے لوگوں کو  بلا کر جمع نہیں کیا تھا۔ کچھ لوگ باہر سے آئے تھے اور انھوں نے اخلاق کے قتل کے سلسلے میں مقامی لوگوں کے ساتھ مییٹنگ کی۔ اس نے بتایا کہ اس نے سنا تھا کہ ایک پولیتھن تھیلا کوڑے کی جگہ پر پایا گیا تھا جس میں گائے کا گوشت تھا۔ کسی نے کہا کہ اخلاق نےاسے پھینکا تھا۔ پھر کسی نے مندر کے پجاری سے کہا کہ وہ مندر سے مائک پر اعلان کردیں جس سے لوگ مشتعل ہوگئے۔ میں نے ایک جانورکی خاطر ایک انسان کو بے رحمی سے قتل کرنے کو لے کر بجث کرنے کی کوشش کی تو بچے کو لگا کہ میری بات میں دم ہے۔
وہاں سے نکل کر میں گاؤں کے بالکل اندر چلا گیا ۔ نہر پر میری ملاقات ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر سے ہوئی۔ اس نے میرے دلائل کو سنا۔ پھر میں رانا ایس ایس انٹر کالج گیا۔ موجودہ پرنسپل نے مجھے بٹھایا اور بتلایا کہ اخلاق اس کا کلاس فیلو تھا۔ اسکول کی عمارت میں اس نے اخلاق کو لوہار اور ویلڈنگ کا کام کرنے کے لئے ایک کمرہ کرایے پر دے رکھا تھا۔ سب کے ساتھ اخلاق کے اچھے تعلقات تھے۔ اس کا لڑکا دانش بھی ہمارا شاگرد ہے۔ جب میں نے حادثے کے بارے میں ان کا نظریہ جاننا چاہا تو انھوں نے کہا کہ ان کی آنکھوں میں دشواری تھی اور جس کی وجہ سے وہ اخلاق کے رہائشی علاقے میں جانہیں سکے۔ انھوں نے پی اے سی کے حوالے سے سنا تھا کہ ایک گائے کے گوشت کا تھیلا کوڑے کی جگہ پر ملا تھا۔ میں نے کہا کہ پی اے سی تو ہاشم پورا ملیانہ جیسے واقعات کے لئے مشہور ہے۔ ایک پولیتھن تھیلے میں کسی جانور کے فضلے کو کس طرح سے سمجھتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور سب کے سب کی عمر25 سال سے کم ہے اور کچھ اسی اسکول میں پڑھے بھی ہیں اوروہ غلط کام کرنے والوں کے طور پر کبھی نہیں جانے گئے۔ میں نے جولائی میں نے انھوں دو لیکچر دینے کے لئے پیشکش کی جب اسکول کھلے؛ ایک فزکس اور د وسرے انسانیت پر جسے انھوں نے خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیا۔
میں اخلاق کے گھر گیا۔ دو منزلہ قدیم طرز کا گھر ویرانی کا سا سما پیدا کر رہا تھا۔ فیملی کہیں اور انتقال مکانی کر چکی تھی جس کے بارے میں مقامی لوگوں کوعلم نہیں تھا، جہاں پر ان کے بھائیوں کی فیملی تھی۔ پڑوس میں ایک اکاؤنٹنٹ رہتا ہے‘ میں نے اس سے بات کی تو اس نے بتایا کہ اس کا بھتیجا بھی اس معاملے کی وجہ سے جیل میں ہے۔ اس نے مجھے سڑک پر وہ جگہ دکھائی جہاں اخلاق کو گھسیٹ کر لایا گیا تھا اور مارا گیا تھا۔ سب کچھ بہت غلط ہوا۔ ہجوم کو اپنے حدود سے آگے نہیں جانا چاہیئے۔ اس کی باتوں سے مجھے کچھ اطمینان ہوا۔ میں ایک دودھ والے سے بھی ملا جس کا بھائی جیل میں ہے۔ اس نے بتایا کہ مندر سے جو اعلان ہوا تھا اس کی وجہ سے دو ہزار لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو گیا۔ اس کا بھائی بے قصور تھا۔
نہایت افسوسناک انکشاف کے ساتھ میں گاؤں سے دوپہر ڈھیڑہ بجے روانہ ہوا۔ جب پیدل ہی تین کلو میٹر کی مسافت طے کر لی تو گاؤں کے ہی ایک انجینئر نے اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھنے کی پیش کش کی۔ اس سے بات چیت کر کے زیادہ مایوسی ہوئی ۔ اس نے مجھے دادری بس اسٹاپ پر اتار دیا۔ مجھے گاؤں والوں سے یہ ہرگز توقع نہیں تھی کہ وہ آٹھ مہینے بعد بھی ایک سیدھے سادے انسان کو بے رحمی سے قتل کے درد کے تئیں اتنے بے حس ہوں گے۔ انتہاء پسند تنظیوں کو تو گائے والے معاملے میں ایک بڑا ہتھیار ہاتھ لگا ہے وہ اس کا استعمال کرکے کسی کی بھی توہین کر سکتے ہیں ‘ کسی کے بھی ساتھ امتیازی سلوک روا رکھ سکتے ہیں اور اسے موت کے گھاٹ تک اتار سکتے ہیں۔ یہ سول سوسائٹی کی ناکامی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں‘ کالجوں میں‘ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس میں‘ بیوروکریسی میں‘ انتظامیہ میں ‘ بازاروں میں غرض کہ ہر جگہ فرقہ وارانہ ذہنیت فروغ پا رہی ہے۔ ایسے میں قوم کی بقاء کے لئے جرات مند لبرل ثقافت کے منظم ڈھانچے کی (متلاشی ء حق اور ستیہ گرہی) کی سخت ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔