بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!

ڈاکٹر صلاح الدین ایوب

پچھلے دس سالوں میں سوشل نیٹورک کے بڑھتے ہوئے استعمال سے سماجی زندگی میں زبردست تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ گلی اور محلے کے محدود افراد کے بیچ سے نکل کر انسان کوسوں دور رہنے والے اپنے متعلقین سے چوبیس گھنٹے کے لیے ایسا جڑ گیا ہے کہ جیسا وہ کبھی اپنے پڑوسیوں سے بھی نہیں جڑ سکا تھا۔ گھر میں کیا پک رہا ہے، کون آرہا ہے، کون جارہا ہے، کس نے کون سا لباس زیب تن کیا ہوا ہے، کس کی طبیعت خراب ہے، کس کے امتحانات چل رہے ہیں، کون تفریح پر نکلا ہوا ہے، ان جیسی چھوٹی چھوٹی تمام تفصیلات سے دور دراز بیٹھے متعلقین ہمہ وقت باخبر رہتے ہیں اور باخبر کرتے رہتے ہیں۔

اس مستقل اور وسیع ہمہ وقتی تعلق نے کچھ نقصانات تو ضرور پہنچائے لیکن سماجی زندگی کو اس سے بہت سارے فوائد اور آسانیاں حاصل ہوئی ہیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان ساتھ میں رہ رہے گھر کے افراد کے بنسبت دور بیٹھے متعلقین سے زیادہ جڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں بچوں کو، ماں باپ کو اور مہمانوں کو اتنی توجہ اور وقت نہیں دیتا جتنا کہ اسے دینا چاہئیے۔

عرصہ دراز کے بعد بھی ملاقاتوں میں وہ جذباتیت اور گرم جوشی نہیں نظر آتی جو پہلے ہوا کرتی تھی کیونکہ صرف جسم ہی دور تھا جو قریب ہورہا ہوتا ہے۔ ملاقات کے وقت سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا گفتگو کی جائے کیونکہ ساری گفتگو ئیں تو پہلے ہی ہوچکی ہوتی ہیں۔ ملاقات کے تھوڑی ہی دیر بعد دونوں بیٹھ کر باتوں کا عنوان سوچ رہے ہوتے ہیں۔

اب باپ ایک عرصے تک گھر سے دور رہنے کے بعد بچوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہتا کہ "تم کتنے بڑے ہوگئے ہو”، اور بچہ جب ایک عرصے بعد گھر لوٹتا ہے تو ماں یہ نہیں کہتی کہ "بیٹا تم کتنے دبلے ہوگئے ہو”۔

پہلے مجلسوں اور میٹنگوں میں یہ تو کہا جاتا تھا کہ سب کو اپنی رائے پیش کرنا کا پورا حق ہے لیکن بغل میں بیٹھا کوئی اونچی آواز اور اونچے قدوقامت والا شخص ایک لمحے میں یہ حق چھین لیتا تھا۔ سوشل نیٹورک کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کی مجلسوں میں آواز اور قدوقامت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

دیہاتوں اور پچھڑے علاقوں میں رہنے والے ذہین لوگوں کی باتیں اس وجہ سے عوام الناس تک نہیں پہنچتی تھیں کہ ان کے پاس ذرائع کی کمی تھی، آج ایک دیہات میں رہنے والا شاعر گھر بیٹھے پوری دنیا سے اپنے اشعار کی داد لوٹ لیتا ہے۔

پہلے لوگ کوئی بات کہہ کر اگلے ہی لمحے میں اس بات سے انکار کرنے کی جرات کر جاتے تھے، یہاں انسان اپنی بات سے رجوع تو کرسکتا ہے لیکن انکار بالکل نہیں کرسکتا کیونکہ باتیں محفوظ ہوتی رہتی ہیں۔

پہلے اگر ممبران مجلس میں تہذیب کا فقدان ہوتاتھا تو مجلسوں میں اس قدر شور ہوا کرتا تھاکہ سب بول رہے ہوتے تھے اور سننا سب کے لیے مشکل ہوجاتا تھا۔ اب بیک وقت دو حضرات بھی نہیں بول سکتے۔ بدتہذیبی کا ٹکنالوجی نے بہترین علاج کیا ہے۔

لگانے بجھانے کا کام پہلے مشکل ہوتا تھا کیونکہ سننے والا کبھی کبھی جھوٹ سمجھ کر بھروسہ نہیں کرتا تھا لیکن اب مکالموں کا اسکرین شاٹ جھوٹ کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اور ایک پل میں آگ لگ جاتی ہے۔

پہلے ایک ملاقات میں ایک عنوان پر گفتگو ہوتی تھی، وقت محدود ہونے کی وجہ سے اکثر گفتگوئیں ادھوری ہی رہ جاتی تھیں، اب ایک عنوان پر ہفتوں گفتگو چلتی رہتی ہے اور اس وقت تک چلتی ہے جب تک کہ تکمیل تک نہ پہنچ جائے یا ممبران مجلس تھک ہارکر گفتگو ختم کرنے کا فیصلہ نہ کرلیں۔

پہلے موعودہ مدت کے گزر جانے کے بعد قرض لینے والے سے ملاقات کرنا اور رقم کا مطالبہ کرنا مشکل ہوجاتا تھا، ملاقات ہوجائے تو یاد نہیں رہتا تھا، اور جب یاد آئے تو ملاقات نہیں ہوتی تھی، اب تو جب یاد آیا ایک میسیج بھیج کر مطالبہ کرلیا۔

پہلے ماہرین سے مشورے کرنا ایک مشکل کام ہوتا تھا جس کے نتیجے میں معمولی فیصلہ لینے میں بھی بہت وقت لگ جاتا تھا، اب تو تھوڑی ہی دیر میں دنیا کے اچھے ماہرین سے مشورہ حاصل ہوجاتا ہے۔

سوشل نیٹورک نے گواہی کو ثبوت میں بدل دیا ہے۔ پہلے گفتگووں کے دوران کہی جانے والی بات کو ثابت کرنے کے لیے موقع پر موجود ممبران مجلس کی گواہی درکار تھی، اب مکالمے کا اسکرین شاٹ ثبوت کے طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔

پہلے انسان مصروف نہیں ہوتا تھا تو دیواروں اور چھتوں پر نظر گاڑے کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا تھا، اب فرصت ملتے ہی موبائل ہاتھ میں آجاتا ہے اور پھر اس سے فرصت نہیں ملتی۔

تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد اگر پڑھائی لکھائی سے متعلق نوکری نہیں ہے تو لوگ دستخط کے علاوہ بمشکل ہی کچھ لکھتے تھے، اب تقریبا روزانہ نہ جانے کتنے صفحات لکھے جاتے ہیں۔

پہلے لکھنا اور پڑھنا دراصل تعلیم کا حصہ تھا اب سماجی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ لوگوں میں پڑھنے لکھنے اور مختلف زبانیں سیکھنے کی رغبت پیدا ہورہی ہے۔

پہلے مجھے یہ تحریر اتنے لوگوں تک پہنچانے کے لیے یا تو کسی رسالے کا یا کسی اخبار کا سہارا لینا پڑتا، اب ایک بٹن کی دوری پر قارئین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

ہماری روزمرہ کی زندگیاں کتنی بدل جاتی ہیں اور بسا اوقات ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا حتی کہ ہم آنکھ بند کرلیں اور دیر تک حال اور ماضی کا موازنہ کریں۔ بلاشبہ یہ نعمتیں اور آسانیاں الله کی جانب سے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔