ذکر نیل گائے کا نشانہ کہیں اور

حفیظ  نعمانی

یہ وزیراعظم کے اوپر منحصر ہے کہ وہ اپنی وزارتی ٹیم میں کسے شامل کریں اور کس وزیر کو کون سا محکمہ دیں۔ وزارت ایسی ذمہ داری ہے کہ وزیر کو اسکا پابند ہونا پڑتا ہے ۔اگر کسی بھی مسئلہ میں کسی کی رائے اپنے ساتھیو ں سے مختلف ہے تو اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو بھی اسکا پا بند کرے۔سیاسی سماج میں اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ کوئی وزیر دوسرے وزیر کو اپنی مرضی کاپابند کرے ۔

مسز مینکا گاندھی خواتین واطفال کے محکمہ کی وزیر ہیں۔ یہ محکمہ ایسا نہیں ہے کہ اسکی وزیر کو اس کے مسائل کے علاوہ بھی کچھ سوچنے کی فرصت ملے۔ کیونکہ زچہ بچہ کی اموات ہمارے ملک کا اہم مسئلہ ہے جس کی طرف سے ڈاکٹروں کی لاپروائی پر الزام آتا رہتا ہے۔

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مینکا صاحبہ جانوروں سے محبت کرتی ہیں لیکن انہیں یہ حق نہیں ہےکہ اگر کوئی وزیر کسی صوبہ کو اجازت دے کہ جنگلی جانوروں سے اگرانسانوں کی زندگی خطرہ میں پڑجائے تو انہیں مار دیا جائے۔ نیل گائے کے ریوڑ صر ف بہار میں نہیں پورے ملک میں کھڑی فصلوں کو بر باد کررہے ہیں۔ اکثر مقامات میں تو اسکا رشتہ گائے سے جوڑ دیا جاتا ہے، اس لئے اسے مارنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اتر پردیش میں ایک زمانہ میں اسے نیل گھوڑا قرار دیا گیا تھا اور اسے مارنے کی اجازت دیدی گئی تھی۔ لیکن وہ طبقہ جو نہ گائے پالتا ہے، نہ اس کی پوجا کرتا ہے، نہ اس کی پرورش کرتا ہے اور جو نہ گائوں میں کھیتی کرتا ہے وہ نیل گائے کو مارنے کی اس لئے اجازت نہیں دیتا کیونکہ وہ بھی ایک قسم کی گائے ہے۔

وزیر جنگلات وماحولیات پرکاش جائو ڈیکر نے بہار کی حکومت کو اسکی اجازت دیدی کہ جو جانور ،وہ نیل گائے ہو ں یا سور اگر وہ فصلوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو انہیں اس لئے مار دینا چاہئے کہ وہ انسانوں کو صرف نقصان پہنچاتے ہیں۔ کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں پہنچاتے ۔اس اجازت کے بعد بہار حکومت نے سناہے کہ 250نیل گائے ماردیں ۔اور جو باقی ہیں انہیں یاتو ماردیا جائے گایا جنگلوں میں ہنکا دیا جائے گا۔

وزیر خواتین واطفال مینکا گاندھی کی جانوروں سے محبت اور مانے والوں سےانکی ناراضگی کم از کم ہماری تو سمجھ میں نہیں آتی ۔وہ جانتی ہیں کہ ملک میں ہر دن ہزاروں جانور وہ مارے جاتے ہیں جو ملک میں کھائے جاتے ہیں جیسے بکرے یا بھینس اور ہزاروں جانور وں کا گوشت حکومت ان ملکوں کو بھیجتی ہے جہاں صرف گوشت کھایا جاتا ہے ۔اور اس ملک کے جا نور پورے نہیں پڑتے ۔یہ سب وہ ہیں جنکا گوشت کاروبارہے اور جنکی کھال خود ایک کاروبار ہے۔ جبکہ نیل گائے کا گوشت تو اگر ملجائے تو مسلمان کھاتے ہیں اور جنگلی سور کا گوشت وہ کھاتے ہیں جو اسے سب اچھا گوشت سمجھتے ہیں۔لیکن کھال بےکار ہوتی ہے۔

مینکا جی کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک کا کروڑوں روپیہ شیروں اور چیتوں پر خرچ ہوتا ہے ۔ہر دن اسکا ذکر ہوتا ہے کہ ملک میں اتنے تھے اور اب اتنے رہ گئے ۔انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ جتنے بھی ہیں صرف گوشت کھاتے ہیں ۔یا تو وہ خود ہرن نیل گائے یا جنگلی بھینسوں کا شکار کرلیتے ہیں یا انہیں کٹے ہوئے جانوروں کا گوشت خرید کر کھلایا جاتا ہے جو ہزاروں روپے کا ہوتا ہے ۔مینکا گاندھی جس حکومت کی وزیر ہیں وہی گوشت فروخت بھی کرتی ہے اور اپنے گوشت خور جانوروں کے لئے خریدتی بھی ہے۔

اب آیئے اس قانون پر کہ سلمان خان نے کالے ہرن مار دئے تو انکے خلاف راجستھان میں مقدمہ چل رہا ہے ۔جبکہ ہر ن ہرن ہوتا ہے یہ ضرور ہے کہ کالے کم ہوتے ہیں لیکن کسی ایسے شیر پر مقدمہ نہیں چلا جس نے کالا ہرن مارا ہو اوراسے کھالیا ہو۔؟کسی ملک میں شیروں کا ہونا اسکے لئے فخر کی بات ہے۔ اس لئے اسے اجازت ہے کہ وہ جس جانور کو چاہے مارے ۔لیکن اگر کوئی شیر کا شکار کرے تو وہ تو انسان کے مارنے سے بھی بڑا جرم ہے ۔لیکن جنگلی سور اور جنگلی نیل گائے کسی ملک کے لئے نہ فخر کی بات ہے اور نہ ان کے دودھ سے غریب بچوں کی پرورش ہوتی ہے۔

کیسی عجیب بات ہے کہ جنگلی سور اور جنگلی نیل گائے کو مارنے کی اجازت دینے پر مینکا جی تیور دکھارہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہماری حکومت میں پہلی دفعہ ماحولیات کی وزارت اتنی فعال ہو گئی ہے کہ ریاستی حکومت کو جانوروں کو مارنے کی اجازت دے رہی ہے ۔جبکہ اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے تھا کہ ایک وزیر پرکاش جائوڈیکر نے ایک دانش مندی کا فیصلہ کیا ہے کہ جو جانور فائدہ ایک روپئے کا نہیںدے اور نقصان لاکھوں کروڑوں روپے کا کررہے ہیں انہیں مارنے کی اجازت دیکر انسانوں کے چہروں کو پررونق بنادیا ۔

جہاں تک مینکا کی ناراضی کا تعلق ہے۔ وہ کسی دوسرے کی سمجھ میں تو کیا آئے گی شاید خود انکی سمجھ میں بھی نہ آئے کہ ملک میں لاکھوں جانور کھانے کے لئے اور لاکھوں جانور فارن کرنسی کے لئے مارے جاتے ہیں جن کی ہر چیز سے پیسے ملتے ہیں انکا مارنا تو جرم نہیں ہے ۔اور جن سے فائدہ ایک روپئے کا نہیں اور نقصان لاکھوں روپے کا ہے انکا مارنا غلط ہوگیا ؟اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ جٹھانی اور دیورانی کا وہ اختلاف ہے۔ جو سنجے گاندھی کی حادثہ میں موت کے بعد شروع ہوگیا تھا ۔سونیا گاندھی اسلئے اپنے کو بڑا سمجھتی ہیں کہ وہ اندرا گاندھی کی بڑی بہو ہیں اور مینکا گاندھی اسلئے اپنے کو بڑا سمجھتی ہیں کہ وہ اس سنجے کی بیوی ہیں جسکی زندگی میں سونیا تو کیا اندرا جی بھی کچھ نہیں تھیں۔

اب مینکا دیکھ رہی ہیں کہ 10سال تک وزیر اعظم نہ ہوتے ہوئے بھی وہ ہر وزیر کو حکم دیتی تھیں کہ اسے کیا کرنا ہے ؟ اور وزیراعظم بھی وہ کرتے تھے جو سونیا چاہتی تھیں ۔مینکا یہ بھی سمجھتی ہیں کہ اگر سنجے گاندھی ہوتے تو ورن فیروز گاندھی ہی سب کچھ ہوتے راہل نہیں ۔اب حالت یہ ہے کہ وہ خواتین اور بچوں کے معاملات کی وزیر ہیں جبکہ انکا جی چاہتا ہے کہ وہ حکومت کے ہر معاملہ میں دخل دیں ۔اس لئے انہوں نے نیل گائے کو مسئلہ بنا یا کہ انکی تائید میں تھوڑے سے وہ جذباتی سامنے آجائیں گے جو بغیر سوچے سمجھے نیل گائے کو 50فیصدی گائے مانتے ہیں ۔جبکہ نیل گایوں کو مارنے کی اجازت مانگنے والے ہندو وزیر ہیں۔ اجازت دینے والے بھی ہندوہیں ۔جنکا نقصان ہو رہا ہے وہ کسان بھی ہندو ہیں ۔اگر بہار حکومت نے یہ کہا ہوتا کہ انکے گوشت سے غریب مسلمانوں کا بھلا ہو جائے گا تو اسے ہندو مسلم مسئلہ بنایا جاسکتا تھا ۔فی الحال تو یہ صرف مینکا گاندھی کے دل کی جلن ہے جو توجہ کے قابل نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔