سائل اور محروم کا حق

مولانا عبدالبر اثری
’’وَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِلسَّاءِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ‘‘(الذاریات: ۱۹)
’’اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے‘‘۔
یہ آیت متقین کی صفات کے ذیل میں آئی ہے۔ یعنی متقین کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے۔ قرآن مجید میں متقین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے دوسرے مقامات پر بھی اس وصف کو اجاگر کیا گیا ہے مثلاً سورۃ البقرۃ کے شروع میں متقین کے اوصاف بتاتے ہوئے فرمایا گیا ’’وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ‘‘(البقرۃ :۳) اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ گویا یہ متقین کی اعلیٰ اور مطلوب صفت ہے جس کا ہر مقام پر عموماً تذکرہ کیا گیا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ یہاں ’’حَقٌّ‘‘ سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے ۔ کیونکہ زکوٰۃ تو مدینہ میں فرض ہوئی تھی اور سورۃ الذاریات مکی سورہ ہے ۔ چنانچہ عموماً مفسرین نے یہاں زکوٰۃ کے علاوہ خرچ کرنے کو ’’حَقٌّ‘‘ کہا ہے۔ یہاں علماء و مفسرین نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ زکوٰۃ تو کم سے کم مقدار ہے جو ضرورت مندوں پر خرچ کرنا لازم ہے ۔ لیکن اگر ضرورت ہو تو اس سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے اور وہ زائد خرچ کرنا بھی حق ہے بلکہ ایک سوال کے جواب میں قرآن میں معیاری شکل تو یہ بتائی گئی ہے کہ جو اپنی ضرورت سے زائد ہو وہ دوسروں پر خرچ کرنا چاہئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ‘‘ (البقرۃ :۲۱۹) وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں تو انہیں کہہ دو کہ جو زائد ہے۔
حق کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان کا استحقاق ہے لہٰذا انہیں لامحالہ ادا کیا جاناچاہئے ورنہ مؤاخذہ ہوگا اور اس پر کوئی احسان نہیں جتانا چاہئے ۔ جس طرح باپ بیٹے کے حقوق اور میاں بیوی کے حقوق ہوتے ہیں کہ ان کا ادا کیا جانا ضروری ہے ورنہ مؤاخذہ ہوگا اور ان حقوق کی ادائیگی پر احسان جتانا روا نہیں سمجھا جاتا ہے۔
حق قرار دینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ از خود سائل اور محروم پر خرچ کرنا چاہئے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ سائل اور محروم مطالبہ کریں تو خرچ کیا جائے ورنہ نہیں۔ جس طرح باپ بیٹے پر اور شوہر بیوی پر از خود خرچ کرتاہے ۔ مطالبہ ہو یا نہ ہو۔
یہ بات اس لئے کہی گئی ہے کہ مطالبہ اصلاً عزت نفس کو گراں گزرتا ہے۔ عزت نفس کا تحفظ ہونا چاہئے چنانچہ بہتر یہ ہے کہ جو مستحقین ہیں انہیں ہم از خود پہنچائیں تاکہ ان کی عزت نفس کو ہاتھ پھیلا کر ٹھیس نہ پہنچے۔
ضرورت مندوں کو بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ حتی المقدور ہاتھ پھیلانے سے بچیں صرف ناگزیر حالات میں ہی ہاتھ پھیلائیں بلکہ بعض احادیث میں ان ناگزیر حالات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’سوال کرنا جائز نہیں ہے سوائے تین طرح کے لوگوں کے لئے ایک وہ شخص جو کسی کے لئے ضمانت کی ذمہ داری قبول کرلے ۔ ایسے شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے۔ جب تک کہ اسے مطلوبہ مال حاصل نہ ہو جائے۔ دوسرا وہ شخص جس کا مال کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تباہ ہو جائے ایسے شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے جب تک اسے گزر بسر کی چیزیں حاصل نہ ہو جائیں اور تیسرا وہ شخص جو فاقہ میں مبتلا ہو یہاں تک کہ اس کے محلے کے تین سمجھ دار لوگ یہ کہہ دیں کہ وہ فاقہ کررہاہے۔ ان کے ماسوا جو شخص سوال کرتا ہے تو یہ حرام کا مال ہے جسے وہ کھاتا ہے ‘‘۔(مسلم، ابوداؤد، نسائی )
اسی طرح عام لوگوں کو بھی ہدایت دی گئی ہے اگر کوئی مانگ ہی لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہائی مجبور ہے اور ایسے لوگوں کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا جائے اور نہ جھڑکا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’وَ اَمَّا السَّاءِلَ فَلاَ تَنْھَرْ‘‘ اور رہا مانگنے والا تو اسے مت جھڑکو(الضحیٰ :۱۰)
عزت نفس کے تحفظ اور مناسب تقسیم کے لئے ہی زکوٰۃ و صدقات کا اجتماعی نظام قائم کیا گیا تھا۔ زکوٰۃ و صدقات بیت المال میں جمع کی جاتی تھی اور پھر وہاں سے تقسیم ہوتی تھی۔ اس صورت میں ہر ضرورت مند تک مناسب انداز میں رقم پہنچ بھی جاتی تھی اور مستحقین کی عزت نفس بھی محفوظ رہتی تھی کیونکہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ کون دینے والا ہے اور کون لینے والا ہے کہ کسی پر احسان جتا سکے یا کسی کو احسان سہناپڑے۔ آج بھی بہتر شکل یہی ہے کہ مساجد کی مرکزیت کی طرح بیت المال کی مرکزیت ہر جگہ قائم ہو اور اس کے ذریعہ یہ پورا نظام چلایا جائے تاکہ ہر مستحق تک زکوٰۃ و صدقات پہنچ سکے اور سب کی عزت نفس بھی محفوظ رہے۔
احادیث سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقات و زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کی صورت میں زکوٰۃ و صدقات وصول کرنے والے ’’عاملین ‘‘ کی بھی عزت نفس کا خیال رکھا جاناچاہئے ۔ ان کے ساتھ بھی کسی طرح کی بدسلوکی درست نہیں ہے ۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اِذَا اَتَاکُمُ الْمُصَّدِقُ فَلْیَصْدُرْ عَنْکُمْ وَھُوَ عَنْکُمْ رَاضٍ‘‘ کہ جب تمہارے پاس زکوٰۃ و صدقات وصول کرنے والے آئیں تو وہ تمہارے پاس سے اس حال میں جائیں کہ وہ تم سے راضی ہوں‘‘۔ (مسلم) اسی طرح آپﷺ نے فرمایا: ’’فَاِنَّ تَمَامَ زَکَوٰتِکُمْ رِضَاھُمْ وَ لْیَدْعُوْا لَکُمْ‘‘ (ابوداؤد)کہ تمہاری زکوٰۃ اس وقت مکمل ہوگی جب کہ یہ لو گ تم سے راضی رہیں اور تمہارے حق میں دعا کریں ۔
عام طور پر محصلین زکوٰۃ و صدقت کو حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ آپﷺ نے اس غلط فکر کی اصلاح کے لئے ایک موقع سے فرمایا تھا کہ ’’حق کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہوتاہے جب تک کہ وہ اپنے گھر واپس نہ آجائے ‘‘(ابوداؤد)
’’سائل‘‘ کے ساتھ ’’محروم‘‘ کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کہ بعض ضرورت مند ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو اپنی ضرورت پیش بھی نہ کرسکتے ہوں حالانکہ وہ ضرورت مند ہوں تو ایسے افراد کا بھی حق ہے اور ان کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے مثلاً یتیم بچے، بستر مرگ پر پڑے ہوئے مریض، حادثات کے شکار وہ افراد جو حرکت نہ کرسکتے ہوں، انتہائی بوڑھے جن کے قویٰ جواب دے چکے ہوں۔ایسے لوگوں کی مسیحائی بھی متقین کا کام ہے بلکہ ایسے لوگ زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ اسی لئے یتامیٰ کی امداد، بیواؤں کی اعانت ، بے بس مریضو ں کی نگہداشت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔