ڈاکٹر سلیم خان
وزیراعظم نریندر مودی اورجیٹ ایرویز کے سابق چیرمین نریش گوئل کی عمر میں صرف ایک سال کا فرق ہے۔ دونوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی اور محنت و مشقت سے اپنے اپنے میدان میں بلند ترین مقام تک پہنچے۔ ۱۹۹۳ میں سنگھ پرچارک کی حیثیت سے ۴۳ سالہ نریندر مودی امریکہ کا دورہ کررہے تھے بلکہ قیاس آرائی ہے کہ بی جے پی کے لیے چندہ جمع کررہے تھے تو ۴۴ برس کے نریش گوئل نرسمھا راو کی کشادہ اقتصادی پالیسی کا فائدہ اٹھا کر ایک نجی ہوائی کمپنی کی بناء ڈال رہے تھے۔ ۲۰۰۲ کے اندر جب نریندر مودی کو گجرات کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تو اس سال جیٹ ایرویز کو ۲۰۰۱ کی بہترین گھریلو ہوائی کمپنی کے قومی اعزاز سے نوازہ جارہا تھا۔ نریش گوئل اور نریندر مودی کے درمیان اگر ۲۰۰۲ میں موازنہ کیا جاتا تو لوگ کہتے ’کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی ‘ کیونکہ ۱۲ سال بعد نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن گئے اور نریش گوئل ۲۱۵۳ کروڈ کے گھاٹے میں چلے گئے اور پھر اس خسارے سے سنبھل نہیں پائے۔
جیٹ کے خسارے میں جانے کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک خام تیل کی قیمت میں اضافہ کے جس نے اس کی کمر توڑ دی اور دوسرے ڈالر کے مقابلے روپیہ کی کمزوری جو اس کے لیےعذاب ِ جان بن گئی۔ ان دونوں معاملات کا تعلق سرکاری پالیسی سے ہے۔ عالمی بازار میں جب تیل کا بھاو گھٹتا ہے تو سرکار ٹیکس کی شرح بڑھا کراپنا خزانہ بھرتی ہے لیکن جب گھٹتا ہے تو ٹیکس کم کرکے راحت نہیں دیتی۔ اس حکومت کے ابتدائی دو سالوں میں تیل کی قیمت کم تھی اس دوران جیٹ ایر وی کے خسارے میں کمی آئی مگر اس کے بعد پھر سے گھاٹا بڑھ گیا۔ اقتدار میں آنے سے قبل مودی جی روپیہ کی قیمت کو لے کر منموہن سنگھ کے وقار پر طنز کیا کرتے تھے لیکن ان کی حکومت میں تو بھٹاّ ہی بیٹھ گیا اور جیٹ جیسی کمپنی کی ہوا نکل گئی۔ یہی سبب ہے پچھلےسال اس کو جملہ ۳۶۲۰ کروڈ کا نقصان ہوا۔ جیٹ ایرویز پہلی بار اس طرح کے مالی بحران کا شکار نہیں ہوئی ہے۔ سال ۲۰۱۳ میں بھی وہ اسی طرح کی مشکلات میں گھر گئی تھی۔ اس وقت ابوظبی کی قومی ایر لاینز اتحاد ایرویز نے اس میں ۶۰ کروڈ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ۔ اس کے بعد جیٹ ایرویز کے ۲۴ فیصد حصص پر اتحاد کا قبضہ ہوگیا اور وہ اس کی بھاگیدار بن گئی۔
جیٹ کا معاملہ بھی بی جے پی کی طرح ہے کہ اس دوران ایک طرف پارلیمان کے ضمنی انتخاب میں شکست پر شکست ہوتی رہی دوسری جانب دولت کے بل بوتے پر نئی ریاستی سرکاریں بنتی رہیں۔ پچھلے دس سالوں میں خسارے کے باوجود جیٹ کے جہازوں کی تعداد ۸۱ سے بڑھ کر ۱۱۹ ہوگئی اس طرح غیر ضروری خرچ بہت بڑھ گیا۔ امیت شاہ جس طرح کانگریس مکت کا بھارت کا نعرہ تو لگاتے رہے لیکن کانگریس کی کمزوری کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے اسی طرح جیٹ بھی اپنے حریف کنگ فشر کی ناکامی کا فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ پچھلے چار سالوں میں جہاں انڈیگو جیسی نئی کمپنی کا مارکیٹ شیئر ۲۷ سے بڑھ کر ۴۳ فیصد پر پہنچا جیٹ کا ۲۰ فیصد سے گھٹ کر ۱۰ پر آگیا۔ بی جے پی کو بھی پنجاب کے بعد راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس نے ہرا دیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جیٹ ایرویز کا سب سے زیادہ مارکیٹ شیئر (۵فیصد) ۲۰۱۸ میں کم ہوا اور بی جے پی کو بھی سب سے بڑا جھٹکا اسی سال لگا۔ یہی وجہ ہے جس طرح جیٹ ایرویز کو پھر سے اپنے پرانے پارٹنر اتحاد ایرویز کے سامنے دامن پسارنا پڑا اسی طرح بی جے پی کو شیوسینا سے اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کے ستارے ایک ساتھ ہی گردش میں آگئے ہیں۔
قومی انتخاب کے بارے میں بھی ماہرین کی یہی رائے ہے کہ اس بار بی جے پی کے لیے اپنے بل بوتے پر اکثریت میں آنا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف مودی جی ’مضبوط سرکار یا مجبور سرکار‘ کا راگ الاپتے پھر رہے ہیں وہیں دوسری جانب ان کے دست راست امیت شاہ مختلف علاقائی جماعتوں کے ساتھ معاہدے کررہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق این ڈی اے میں شامل جماعتوں کی تعداد ۳۶ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ تو ایسی جماعتیں جو کھل کر بی جے پی کے ساتھ آچکی ہیں مگر جو مخالفین کے ووٹ کاٹ کر درپردہ اس کی راہ ہموار کرنے میں جٹی ہوئی ہیں ان کی بھی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس لیے اگر کسی طرح بی جے پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھر آئے تب بھی ان جماعتوں کو اسے اپنے اقتدار میں شریک کرنا ہوگا۔ اس وقت کون کون سے مخالفین اتحاد ایر ویز کی طرح کمل کی مدد کے لیے آئیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔
ان میں ایک اور مماثلت یہ ہے کہ اس بحران سے قبل نریش گوئل کے پاس ۵۱ فیصد شیئر تھے اور ایوان پارلیمان میں بی جے پی ارکان کی تعداد بھی ۵۱ فیصد تھی لیکن اب نریش گوئل کی حصے داری گھٹ کر ۲۵ فیصد ہوجائے گی۔ اسی کے ساتھ اتحاد کا حصہ بھی ۲۴ سے کم ہوکر ۱۲ فیصد ہوجائے گا ۔ اس تبدیلی کے بعد جیٹ ایر ویز کو قرض بھی ملا اور کمپنی بھی نہیں ڈوبی مگر نریش گوئل کو اپنی اہلیہ سمیت بورڈ آف ڈائرکٹر سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ بی جے پی کا اگر یہی حال ہوگیا تو جسودھا بین تو خیرانیتا گوئل والی رسوائی سے بچ جائیں گی لیکن مودی جی کا کیا ہوگا ؟ چند ماہ قبل اگر نریش گوئل کا ذکر چھیڑا جاتا تو بہت سے لوگ پوچھتے کہ آخر یہ ہے کون ؟ لیکن دیوالیہ ہونے اور استعفیٰ دینے کے بعد وہ اس قدر معروف ہوگئے کہ ہر کوئی ان کو جان گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد مودی جی کا حشر نریش گوئل سے مماثل ہوتا ہے یا مختلف؟
جیٹ ایرویز کے سابق چیئرمین نریش گوئل نے استعفیٰ کے بعد اپنے ملازمین کی خدمت ایک مکتوب لکھا ہے۔ اس میں ایرلائنس اور ۲۲ ہزار ملازمین کو بچانے کے لیے قربانی کی بات کی گئی ہے۔ بوقتِ ضرورت مودی جی اپنے خط میں ایرلائنس کی جگہ سرکار اور ملازمین کی جگہ پریوار کے الفاظ استعمال کرسکتے ہیں۔ گوئل آگے لکھتے ہیں میرا خاندان اس فیصلے میں میرے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ مجھے امید ہے آپ بھی میرا ساتھ دیں گے۔ آپ سبھی کی کمی محسوس ہوگی۔ سنگھ نے اگر مودی جی سے آنکھیں پھیر لیں تو یہ الفاظ لکھتے ہوئے ان پر کیا گذرے گی یہ کوئی نہیں جانتا۔ گوئل نے اپنے خط کے آخر میں یہ لکھا ہے کہ یہ استعفیٰ سفر اختتام نہیں بلکہ ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ گوئل کی اگلی منزل اور مودی جی کا اگلا پڑاو کون سا ہوگا ؟ لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ اس استعفیٰ کے فوراً بعد جیٹ ایرویز کے حصص کی قیمت بازار میں ۱۵ فیصد بڑھ گئی۔ کیا بی جے پی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا ؟ کوئی نہیں کہہ سکتاَ۔ مودی جی کو معلوم ہونا چاہیے کہ خلاء میں دشمن کے سٹیلائٹ کو مار گرانے سے زیادہ اہم آسمان میں اڑنے والی سودیشی جیٹ ایرویز کو گرنے سے بچانا ہے۔ دیش بھکتی کا سوم رس پلاکر الیکشن جیت لینا بہت آسان لیکن عوام کے مسائل کو حل کرنا خاصہ مشکل ہدف ہے بقول اقبال ؎
نشہ پلا کے گرنا تو سب کو آتا ہے
مزا تو جب ہے کہ گِرتوں کو تھام لے ساقی
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔