ہنس ہنس کے نہ یوں ڈال محبت کی نظر اور

افتخار راغبؔ

ہنس ہنس کے نہ یوں ڈال محبت کی نظر اور

روغن کی ہو بارش تو بھڑکتے ہیں شرر اور

رکھ پاتا نہیں ٹھیک سے میں اپنی کوئی بات

ہو جائے نہ باتوں کا کہیں تجھ پہ اثر اور

مضبوط ہوئی جاتی ہے دیوار جھجک کی

کھٹّا ہوا جاتا ہے تعلّق کا ثمر اور

اب اچھّی کہاں لگتی ہیں تجھ کو مری باتیں

کیا عرض کروں تجھ سے میں بے خوف و خطر اور

ضد تیری بڑھاتی گئی ہر روز مسافت

ہوتی گئی پُر خار محبت کی ڈگر اور

تھک ہار کے گر جائے زمیں پر نہ کسی روز

الفت کے پرندے کو ملیں صبر کے پر اور

یوں ہی نہ کسی آن نکل جائے مری جان

اب مجھ سے مری جان نہ کر صَرفِ نظر اور

موسم کے ہر اک قحط سے دل بر سرِ پیکار

ہے آس کہ پھل دے گا محبت کا شجر اور

گِر سکتی نہیں ہم سے جو نفرت کی یہ دیوار

چُپ چاپ بناتے رہیں دیوار میں در اور

لگتا تھا تری دید سے بجھ جائے گی ہر پیاس

بے کل ہوا دل اور تو بے تاب نظر اور

ظالم پہ عیاں کر کے مری روح کی تکلیف

"کیوں مجھ کو ڈبوتے ہیں مرے دیدۂ تر اور”

کھو دینے کا یہ خوف ہی راغبؔ ہے محبت

ہوتے گئے نزدیک تو بڑھتا گیا ڈر اور

تبصرے بند ہیں۔