نگاہِ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی
ڈاکٹر شکیل احمد خان
ایک دلچسپ کہانی سنیے۔ ایک بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔ ایک دن اُس نے تینوں کو بلا کر ایک ایک اشرفی دی اور کہا کہ اِسے اِس طرح خرچ کیا جائے کہ تمہار ے پاس اِتنا کچھ ہو کہ جِس سے ایک پورا کمرہ بھر جائے۔ جو بہتر طریقے سے خرچ کرے گا وہ ولی عہد قرار پائے گا۔ وقت مقررہ پر دیکھا گیا کہ ایک شہزادے نے اپنے کمرے کو گھاس پھوس سے بھر دیا تھا کہ اتنی کم رقم میں اور کیا کیا جا سکتا تھا۔ دوسرے شہزادے کا کمرہ کاٹ کباڑ سے بھرا ہوا تھا۔ تیسرے شہزادے نے کہا کہ میں اپنا کمرہ رات میں دیکھانا چاہتا ہوں۔ رات میں جب بادشاہ اپنے مصا حبوں کے ساتھ اُسکے کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ درمیان میں ایک چراغ جل رہا ہے جس کی روشنی سے سارا کمرہ روشن تھا۔ غرض ایک شہزادے نے اپنے کمرے کو کاٹ کباڑ سے، دوسرے نے گھاس پھوس سے اور تیسرے نے روشنی سے بھر دیا تھا۔ آپ سمجھ ہی سکتے ہیں کے کہ ولی عہد کون بنا ہوگا۔
یہ کہانی یوں یاد آگئی کہ یہ زندگی کی اِیک اہم حقیقت کو واضح کرتی ہے۔ وہ یہ کہ اصل اہمیت اِس بات کی نہیں کہ ہمیں کیا اور کتنا ملا ہے، کتنی تعداد اور مقدار میں ملا ہے۔ ہمیں کونسی صورت حال یا situationمیں رکھا گیا ہے۔ اہمیت اِس بات کی ہے کہ ہم دستیاب مقدار کو یا درپیش صورت حال کو کس ذہانت سے استعمال کرتے ہیں۔ دستیاب وسائل ہمیشہ ہماری ضرورت کے مطابق نہیں ہوتے، صورتِ حال اکثر سازگار اور مناسب نہیں ہوتی۔ پر کیا کرئیں، زندگی ایسی ہی ہے۔ ہم کہاں، کب اور کس صورتِ حال میں پیدا ہونگے، بسر کرینگے، یہ تو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ اب اگر ہماری زمین سنگلاخ ہے، سامنے پہاڑ ہے تو کیاٹکریں مار کر سر پھوڈ لیں ؟ دانش مندی یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال کو قبول کیا جائے۔ ٹھنڈے دماغ سے اپنی طاقت اور صلاحیتوں کا تعین کیا جائے اور طے کیا جائے کہ اس صورتِ حال میں ہم اچھے سے اچھا کیا کر سکتے ہیں اور اسکے کرنے میں لگ جائیں۔ ہر عہد میں، ہر ملک میں، ہر قوم کے دانش مندوں کا یہی رویہ رہا ہے۔
موجودہ عالمی صورتِ حال کے تناظر میں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ۱۶۶۵ء میں لندن میں طاعون کی بھیانک وبا پھیل گئی تھی اور تقریبا ۲۵ فیصد آبا دی موت کی آغوش میں چلی گئی تھی۔ اسے The Black Deathکے نام سے جانا جاتا ہے۔ شہر کو شٹ ڈاون کر دیا گیا۔ کیمبرج یونیورسٹی نے اپنے طلبا کو واپس لوٹ جانے کا حکم دیا۔ ۲۰ سالہ ایک غریب نوجوان اپنے قصرwoolsthorpe mano لوٹا۔ اسکے والد کا اِسکی ولادت سے قبل ہی انتقال ہو چکا تھا۔ ماں نے دوسری شادی کرلی تھی۔ سوتیلے باپ نے اُسے اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ماں اِسے اپنے گرینڈ پیرینٹس کے حوالے کرکے شوہر کے ساتھ جاچکی تھی۔ چند مہینوں بعد ہی اِسکی ماں کا انتقال بھی ہوچکا تھا۔ اِس طرح غربت میں اپنے گرینڈ پیرینٹس کے پاس پل کر یہ تعلیم کے لیے لندن پہنچا تھا۔ مگر اب حالات نے اسے پھر اُسی قصبے میں پہونچادیاتھا۔ لیکن یہاں اپنے اساتذہ کی غیر موجودگی میں بھی (اس زمانے میں نہ تو کمپیوٹرس تھے اور نہ ہی انٹر نیٹ) اس نے اپنا مطالعہ اور ریسرچ جاری رکھی۔ اِسی عرصے میں ایک دفعہ ایک درخت کے نیچے بیٹھا غور و فکر کر رہا تھا کہ اوپر سے ایک سیب اُس کے سر پر آگرااور پھر اِس واقع نے سائنس کی دنیا میں کیا کِیا یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ جی ہاں، اِسی لڑکے کا نام تھا آئزک نیوٹن۔ تنہائی اور شٹ ڈاون کے اِسی عرصے میں اُس نے دیگر کئی نظریاتlaws پر تحقیق جاری رکھی۔ ایک سال بعد حالات معمول پر آنے کے بعد ۱۶۶۷ء میں وہ واپس یونیورسٹی لوٹا۔ اِس طرح دنیا کشش ثقل اور نیوٹن کے پہلے، دوسرے اور تیسرے قانون laws سے واقف ہوئی۔ یہ اِس بات کی بہترین مثال ہے کہ ناسازگار حالات کا بھی کِس طرح بہتر استعمال کیا جا سکتاہے۔ صرف رونے پیٹنے اور خوف و تشویش سے بے حال ہو کر ڈپریشن کا شکار ہونے سے تو خراب حالات میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ میں آپ سے متفق ہوں اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ایسا کہنا، لکھنا اور سوچنابہت آسان ہیں اور اِسے اپنی سوچ میں اتار کر روبہ عمل لانا نہایت مشکل۔ لیکن سوچیے، کیا کوئی دوسرا متبادل موجود ہے؟ اگر موجود ہے یا آپ غور و فکر کر کے اُ سے تلاش کر سکتے ہیں تو یقینا سب سے پہلے یہی کام کیجیے لیکن جب فی الوقت کوئی متبادل نہ ہو تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے افسوس کرتے رہنے کی بجائے وہ چیز کرنے پر توجہ دے جو آپ کرسکتے ہیں۔ ہر انسان میں عموما کوئی نہ کوئی خوبی، صلاحیت یا ہوبی ہوتی ہی ہے۔ اُسے پہچانیے اور اُس پر توجہ دیجیے۔ ہوسکتا ہے آپ اپنے بچوں، خاندان، قوم یا دنیا کے لیے کوئی اچھی چیز چھوڑ جائیں۔ یہ چیز کوئی ایجاد ہوسکتی ہے، کوئی نظریہ ہو سکتا ہے، نیا تعلیمی مواد اور پاور پوائینٹ ہوسکتے ہیں، کوئی تصویر ہوسکتی ہے، کوئی نئی ریسیپی ہوسکتی ہے، کوئی نظم یا ناول ہوسکتا ہے یا اور بھی بہت کچھ جو آپ کے مزاج سے میل کھاتاہو۔ حالیہ شٹ ڈاون جیسے حالات میں ایسی سوچ یا رویہ کو اپنانے والے افراد نے دنیا کو کئی تحفے دئیے۔ الیگزینڈر پشکین کاروسی ادب میں وہی مقام ہے جو انگریزی میں شیکسپیرکا یا اردو میں غالب کا۔
۱۸۲۰ء میں ماسکو میں بھی پلیگ کی بھیانک وباء پھیل گئی تھی۔ پشکن کو بھی اپنے قصبہ کو لوٹ کر سماجی اور جسمانی دوری کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا پڑا۔ لیکن جبری تنہائی اور فرصت کے ان دنوں کا استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنا مشہور ترین ناولEugene Onegin تخلیق کیا۔ اینٹون چیکو کا شمار دنیا کے عظیم ترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ۱۸۹۲ سے ۱۸۹۹ تک روس میں بار بار پھوٹ پڑنے والی ہیضہ کی وبائوں کے باعث ہی اسے اپنی کیانیاں لکھنے کا وقت اور یکسوئی مل پاتی تھی۔ کیونکہ اس عرصہ میں اسے اپنی جاگیر پر تقریبا تنہا زندگی گزارنا پڑتی۔ شیکسپیر کی ساری زندگی وبائوں کے درمیان گزری۔ ۱۶۰۵، ۱۶۰۶ کے درمیان اس نے نہ صرف یہ کہ بہت لکھا بلکہ اپنے مشہور ترین ڈرامے بھی اِسی عرصہ میں لکھے۔ وہ یہ اس لئے کر پایا کہ ۱۶۰۵، ۱۶۰۶ لندن میں پلیگ کا سال تھا۔ کورنٹائن میں باتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے پر اس نے لکھنے کو ترجیح دی۔ انگریزی میں شیکسپیئر کے بعد جو نام سب سے اہم نام ہے جان ملٹن کا۔ ۱۶۶۵ کے بھیانک لندن پلیگ کے باعث اسے بھی تمام سرگرمیاں ترک کر کے دور دراز علاقہ Chalfont , St Giles جانا پڑا۔ اُس وقت تک یہ سرگرم سیاستداں اور شاعر پوری طرح نا بینا ہو چکا تھا۔ یہیں پر تنہائی اور اندھے پن میں اس نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’’ فردوسِ گم گشتہ ‘‘ Paradise Lost مکمل کی جو دنیا کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ مولانا آزاد کو ۱۹۴۲ سے ۱۹۴۵ کے درمیان انگریزوں نے احمد نگر کے قلعہ میں قید کر دیا تھا۔ یہیں پر ساری دنیا سے کٹے ہوئے انھوں نے اپنی مشہور کتاب ’’ غبارِ خاطر ‘‘ لکھی جس کا اردو ادب میں نمایاں مقام ہے۔ اسی عرصہ میں یہاں پنڈت جواہر لعل نہرو کو بھی قید کیا گیا تھا اور یہیں پر انھوں نے بھی اپنی مشہور اور ضغیم تاریخی کتا ب ’’ڈسکوری آف انڈیا ‘‘ لکھی۔ مولانا مودودی کو ۱۹۴۸ میں قید کردیا گیا تھااور اسی دوران انھوں نے ا پنی مشہور تفسیر ’’ تفہیم القرآن ‘‘ کے بڑے حصہ کو لکھا۔ ساتویں صدی ہجری میں بغداد میں موجود مشہور اور اہم ترین مسلم سائنسداں نصیرالدین طوسی کو درباری سازشوں کے باعث پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ یہیں پر انھوں نے زیاضی پر اپنی اہم کتایں تصنیف کی۔ جان بنیان نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف The Pilgrim’s progress ( جسے اولین انگریزی ناول کا درجہ بھی دیا جاتا ہے ) جیل میں لکھی۔ مارکو پولو، نیلسن منڈیلا، اڈولف ہٹلر، مارٹرلوتھر کنگ، بیو تھییس وغیرہ نے قید میں اپنی اہم ترین تحریریں لکھی۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہی دانشمندوں کا رویہ رہا ہے۔ یہی عقلمندی کا تقاضہ ہے۔
آج ہم بھی اپنے گھروں میں تقریبا بند ہیں۔ اگر آپ فیلڈ پر کام نہیں کر رہے ہیں تواپنے مزاج کے مطابق کوئی مفید اور بامعنی سرگرمی تلاش کیجئے۔ اگر آپ نہیں کرتے تو بھی وقت تو گزر ہی رہا ہے۔ لہٰذاہائے واویلا مچانے، شئیر مارکیٹ کی طرح کورونا متاثرین کی تعداد کا سروے کرتے رہنے، گلیوں میں بیٹھ کر ایران توران کی بحثیں کرنے اور موبائیل پر سلام الیکم، وعلیکم سلام میں وقت ضائع کرنے سے پرہیز کریں تو مناسب ہوگا۔ وقت تو گزرتا ہی ہے، گزر ہی جائے گا۔ پر بعد ازاں دنیا میں اور آخرت میں ہم سے پوچھا جائے کہ ان مہینوں میں کیا کیا، توجواب دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ تو ہونا چاہئے نا ؟ لہٰذا قمر جلالوی کی طرح سوچئے کہ
نہ ہو رہائی قفس سے، اگر نہیں ہوتی
نگاہِ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی
تبصرے بند ہیں۔