ٹو جی گھپلہ: ایک جج کا اظہارِ افسوس
ندیم عبدالقدیر
ہندوستان کے نظامِ عدلیہ پر بننے والی موضوعاتی فلم ’جولی ایل ایل بی‘ کے آخری منظر میں جج (سورو شکلا)معاملے کی مکمل سماعت کے بعد ایک گہری سانس لیتا ہے، اور قدرے لاچاری کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے’ ’کبھی کبھی ہی ایسا کیس آتا ہے، جب اس کرسی پر بیٹھنے کا افسوس نہیں ہوتا۔ میں تو روز ہی کورٹ آتا ہوں ۔ بیٹھے بیٹھے گھڑی دیکھتا رہتا ہوں ، کہ کب ۵؍بجے اور کب گھر جاؤں ‘‘۔ فلم میں تو جج کو کرسی پر بیٹھنے کے افسوس سے عارضی طور پر ہی سہی نجات مل گئی لیکن حقیقت فلم کی طرح نہیں ہوتی ہے، ٹو جی گھپلہ کی سماعت کرنے والے جج ’اوپی سائنی‘ اتنے خوش نصیب نہیں رہے۔
ٹو جی گھپلہ کی سماعت کرنے والے جج او پی سائنی بھی سات سال کی طویل شنوائی کے بعد، تقریباً ایسے ہی کرب سے گزرے۔ فرق اتنا تھا انہیں اب بھی اس کرسی پر بیٹھنے کا افسوس تھا۔ اوپی سائنی کے لہجے میں ڈوبتے چاند کی سی تھکن تھی اورصبح ۱۰؍بجے سے شام ۵؍بجے تک ثبوت کے انتظار میں جج کی کرسی پر بیٹھے رہنے کا بوجھل پن تھا۔
اپنے فیصلے کے ساتھ سی بی آئی جج نے جو تبصرہ کیا ہے وہ ہمارے بوسیدہ اور سڑاند بھرے سسٹم کی دستاویز ہے۔ انہوں نے کہا ’’پچھلے سات سال سے میں ہر روز بشمول گرمی کی تعطیلات، کسی مذہبی ارکان کی ادائیگی کی طرح صبح ۱۰؍بجے سے شام ۵؍بجے تک کورٹ روم بیٹھا رہا ہوں ،اس انتظار میں کہ میرے سامنے کوئی ٹھوس ثبوت،گواہ، دلیل یا شواہد پیش کئے جائیں گے، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنے طویل عرصے میں ایک بھی ذی روح میرے سامنے نہیں آ ئی جوکہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرتی‘‘ ٹو جی گھپلہ کا طلسم سات سال بعد آخر کار ٹوٹ گیا۔ ایک لاکھ ۷۶؍ہزار کروڑ کےخسارہ کی باتیں آبی بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہوگئیں ۔ سرکاری خزانے کو نقصان کے اندازے سراب ثابت ہوئے۔
عدالت میں پتہ چلا کہ یہ ایمانداری اور پارسائی کا ایک نشہ تھاجس میں پورا ملک بہکا ہوا تھا۔جج او پی سائنیکے فیصلے نے اس نشہ کو اتار دیا۔ سات سال میں سی بی آئی ایک بھی ثبوت، ایک بھی گواہ نہیں پیش کرسکی جو اس تاریخی گھپلہ کو ثابت کرسکتا۔ عدالت نے تمام ملزمین کو با عزت بری کردیا۔ یہ فیصلہ ہماری بدعنوانی کے خلاف جنگ پر کسی برق کی طرح گراہے۔ اس فیصلہ نے وطن میں کرپشن اور اس کے خلاف لڑائی کی حقیقت کھول کررکھ دی۔ بدعنوانی سے نفرت کے جذبات اور احساسات کو یرغمال بنا کر کرپشن کا ایک بت تراشاگیا اور پھر اس پر سنگ باری کی رسمیں ادا کی گئیں ۔سیاسی چالبازی اور شاطرانہ حکمت عملی سے بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ہر ایک کو مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ہر کوئی اپنے طور پر ایمانداری سے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرتا رہااس بات سے بے خبر کہ وہ استعمال کیا جارہا ہے۔ بے ایمانی کے خلاف احساسات کا استحصال کیا گیا۔ اس کی شروعات سی اے جی کی رپورٹ سے ہوئی۔ سابق کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل ( سی اے جی)’ونود رائے‘ نے یوپی اے (۲) کے دور میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے ایک اندازہ لگایا کہ ۲۰۰۸ء میں وزارت ٹیلی کام کے ذریعے ’پہلے آؤ پہلے پاؤ ‘ کی بنیاد پرجو لائسنس دئیے گئے ان سے سرکاری خزانے کو ایک لاکھ ۷۶؍ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ یہاں اس بات کو سمجھ لیں کہ خزانے میں سے پیسے گئے نہیں ، بلکہ یہ ایک اندازہ تھا کہ اتنی زیادہ رقم خزانے میں آسکتی تھی جو کہ نہیں آئی۔ یہی اندازہ دراصل ’۲؍جی‘ گھپلہ کی بنیاد بنا۔ ونود رائے نے بتایا کہ ’پہلے آؤ پہلے پاؤ‘ کی پالیسی غلط تھی اور لائسنس مارکیٹ کے دام سے بہت کم دام میں فروخت کیے گئے۔ اس کےلئے اُس وقت کے وزیر موصلات اے راجا کو مختلف ٹیلی کام کمپنیوں سے رشوت کے طور پر بھاری بھرکم رقم بھی مختلف ذرائع سے ملی۔اس افسانوی رپورٹ پر بی جےپی کی بانچھیں کھل اٹھیں ، اور جادو شروع ہوا۔
ملک میں بدعنوانی کے خلاف جہاد چھڑ گیا۔اخبارات، میڈیا گھرانے، ٹی وی چینل پر ایک تلاطلم برپا ہوگیا۔ ونود رائے کی رپورٹ کو آسمانی تعویذ سمجھا گیا۔ ان کے تبصروں کو شکوک و شبہات سے بالاتر مانا گیا۔ سارے چینل، اخبارات اور میڈیا گھرانے ۲؍جی گھپلہ کے ہنگامہ پر اپنے گھر کی رونق بڑھائی، چوپال سجائے، داستان گوئی کے مقابلے منعقد کئے، افسانہ نگاری کی محفلیں عمل میں آئی اور گالم گلوج کا سلسلہ چل پڑا۔ ہر ایک نے اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنے کا سب سے آسان نسخہ ’۲؍جی‘ گھپلہ میں حکومت کو گالیاں دینے میں تلاش کرلیا۔ کسی نے بھی صحافتی ایمانداری کے طور پر غیر جانبدارانہ تحقیق کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ سچائی کی تلاش کے راستے چھوڑ کر مفروضوں کی پگڈنڈیوں پر دوڑ لگائی گئی۔ پارلیمنٹ سے لےکرسڑکوں تک یوپی اے حکومت کی بدعنوانی کے چرچے ہوئے۔ رپورٹ بی جےپی کےلئے نعمت ِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی اور پارٹی نے اس سے استفادہ کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ بدعنوانی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ اس فرضی جنگ میں کوئی کسی سے پیچھے رہنے کو تیار نہیں تھا۔ یہ آندھی اتنی شدید تھی کہ اس نے کسی کو اس کے خلاف سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
یہ سارا ہنگامہ ایک مفروضے پر موقوف تھا۔ مفروضہ تھا کہ سرکار کو ایک لاکھ ۷۶؍ہزار کروڑ کا نقصان ہوا۔ سی بی آئی اور انفورسمنٹ نے معاملہ درج کیا۔ سپریم کورٹ نے ۱۲۲؍لائسنس منسوخ کئے اور تحقیقات شروع ہوئی۔ ۷؍سال چلی اس تفتیش اور شنوائی کے بعد عدالت کا جب فیصلہ آیا تو سارا ملک بھونچکا رہ گیا۔ عدالت اس نتیجہ پر پہنچی کہ ’۲؍جی‘ گھپلہ ہوا ہی نہیں تھا۔ ونود رائے کی رپورٹ عدالت میں ایک من گھڑت کہانی ثابت ہوئی۔ ملک کو یہ پتہ چلا ٹو جی پر اٹھنے والا ارتعاش دراصل یہ ایک جادو ئی تماشا تھا جب سارا ملک اس تماشے کو پوری توجہ سے دیکھ رہا تھا، تب اصل جادو کہیں اور ہی چل رہا تھا۔ اسی زمین پر ’انا ہزارے‘ نے اپنی تحریک کی بنیاد رکھی، جس سے حاصل ہونے والی لہلہاتی فصل کو بی جےپی ۲۰۱۴ء میں لے اُڑی، اور آج تک اس سے فیضیاب ہورہی ہے۔
اتنے بڑے گھپلہ کی تفتیش میں سی بی آئی ہر محاذ پر ناکام رہی ۔ سی بی آئی یہ نہیں بتائی کہ اے راجا نے ’پہلے آؤ اور پہلے پاؤ‘ کی پالیسی میں کوئی ترمیم کی اور آخری تاریخ کو بدل دیا۔سی بی آئی یہ بھی نہیں بتا پائی کہ ملزم اے راجا کی دیگر ملزمین جیسے ڈی بی رئیلیٹی کےپروموٹر’ شاہد بلوا‘ اور ’یونی ٹیک لمیٹیڈ‘ کے سنجے چندرا سے پہلے سے شناسائی تھی۔ سی بی آئی ’سوان ٹیلی کام‘ اور ’یونی ٹیک گروپ‘ نامی کمپنیوں کی نااہلیت کو بھی ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ سی بی آئی یہ بھی ثابت نہیں کرپائی کہ ’کالائنگر ٹی وی ‘ کو ’ڈائنامکس بلوا گروپ‘ کی طرف سے ۲۰۰؍کروڑ روپے دئیے گئے، جسے کیس سے شروع کرنے سے پہلے لائسنس پانے کے عوض رشوت کہا گیا تھا۔
اس کیس میں سب سے اہم گواہ کوئی اور نہیں بلکہ ملک کی معروف اور انتہائی با عزت شخصیت یعنی انیل امبانی تھے۔ انیل امبانی کی گواہی پر سی بی آئی کےافسران نے اتنا اعتماد کیا تھا کہ انہیں ملزم بھی نہیں بنایاگیا،بلکہ سلطانی گواہ کے طور پر پیش کیا گیا ۔ عدالت میں اس سلطانی گواہ نے سی بی آئی کو دھوکہ دے دیا۔ جب انیل امبانی سے اُن کی کمپنی کے اعلیٰ افسران اور وزارت ِ ٹیلی کام کے درمیان ساز باز کے بارے میں پوچھا گیا تو انیل امبانی ایسے جواب دے رہے تھے جیسے انہیں نسیان کا مرض لاحق ہوگیا ہو۔ انہوں نے ہر سال کا جواب ’ ’مجھے کچھ خاص یاد نہیں ہے‘ ‘ پر ختم کیا۔ یہ جملہ انہوں نے اتنی بار دہرایا کہ جج کو کہناپڑا۔ مسٹر امبانی آپ کچھ زیادہ ہی باتیں بھول رہے ہیں ، کچھ یاد کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہیں سے سارا کیس دم توڑ گیا۔ اس کے بعد سی بی آئی پورے معاملے میں عدم دلچسپی کا ہی مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آئی۔ حتی ٰ کہ آخری دنوں میں استغاثہ اس کیس سے پیچھا چھڑا تا ہوا پایا گیا ۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ اواخر کے مراحل میں استغاثہ کی طرف سے داخل کئے جانے والے کاغذا ت پر کوئی بھی اہم وکیل دستخط کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس بابت جب عدالت نے سرکاری وکلاء سے پوچھا تو جواب ملا کہ اہم سرکاری وکیل اس پر دستخط کریں گے، بعد میں جب سرکاری وکیل سے دستخط کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ سی بی آئی کے اعلیٰ افسران اس پر دستخط کریں گے اور آخر میں سی بی آئی کے کسی اعلیٰ افسر نے نہیں بلکہ ایک درمیانے درجے کے انسپکٹر نے کاغذات پر دستخط کئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری وکلا، حزب استغاثہ اور سی بی آئی میں سے کوئی بھی سی بی آئی کے مؤقف کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔ سی بی آئی اور ہمارے سسٹم کے اس انداز سے جج او پی سائنی نڈھال ہوگئے تھے، جس کی جھلکیاں ان کے فیصلے میں نمایاں تھیں ۔ بدعنوانی کے خلاف لڑنے کا عزمِ جواں لئے اقتدار حاصل کرنے والی نریندر مودی حکومت اپنےعدلیہ کو ایسا سسٹم تک نہیں فراہم کرسکی جہاں ایک جج کو اُس کی کرسی پر بیٹھنے کا افسوس نہ ہو۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔