پیغام معراج النبیؐ
ریاض فردوسی
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ ﷺسے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
(علامہ اقبالؔ )
پاک ہے وہ (اللہ)جو اپنے بندے کوایک رات مسجدِحرام سے دورکی اس مسجد تک لے گیا جس کے ماحول کوہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اُسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بلاشبہ وہ سب کچھ سننے والا،سب کچھ دیکھنے والا ہے(سورہ۔ بنی اسرائیل۔ آیت۔ 1) تمہاراساتھی نہ ہی بھٹکاہے اورنہ ہی بہکا ہے.(سورہ النجم۔ آیت۔ 2)
کامل بندگی کی منزل مردِ مومن کی وہ آرزو ہے جس کے حصول کے لئے وہ اپنی زِندگی کا ہر لمحہ حکمِ خدا کے تابع کر لیتا ہے، اِس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی کامل بندگی اِیمان میں کامل ہوئے بغیر نہیں ملتی اور اِنسان اِیمان میں کامل اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سراپاعشقِ اِلٰہی میں ڈُوب جاتا ہے۔ جب بندگی اُس کے سر کا تاج ٹھہرتی ہے اور اُس کا دِل توحیدِ اِلٰہی کا مرکز بن جاتا ہے۔ بندگی دراصل رضائے الٰہی کے لیے خود کو قربان کرنے کا نام ہے۔ اسلامی تاریخ کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے۔ ترجیب کے معنی تعظیم کے ہیں۔ اہل عرب اس کو اللہ کا مہینہ کہتے تھے اور اس کی تعظیم بجا لاتے تھے۔ عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ابن منظور، لسان العرب، ج2، ص322)یہ واقعات ہے جو اصطاحا ’’معراج‘‘ اور ’’اسراء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں جن کی تعداد 25 تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صَعصَعہ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو سعید خدری، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عائشہ اور متعدد دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔ قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ) سے مسجد اقصٰی (یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے سب سے مقرب بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا.ابوجہل سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا: اے ابوبکر! تم نے سنا کہ محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کہتے ہیں۔ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے آبھی گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میرے آقا(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے کیونکہ ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔ میں اپنے نبیﷺ کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے۔ ابوبکرؓ تم کھلم کھلا ایسی خلاف عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو؟
اس عاشق صادق نے جواب دیا: میں تو اس سے بھی زیادہ خلاف عقل بات پر یقین رکھتا ہوں۔ (یعنی باری تعالیٰ پر) اسی دن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دربار نبوت سے صدیق کا لقب ملا۔
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘(مشکوٰۃ شریف۔ صفحہ۔ 28)ایک موقع پر مزید ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہِ وسلّم ہے:’’میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا‘‘۔ (مسلم شریف)
ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا:’’میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی‘‘۔ (صاوی صفحہ: 328)
حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سرور دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الہٰی متوجہ نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا۔ اس مقام پر حضرت جبرئیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔ یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔ سبحان اللہ! حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے وہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی حضور(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ کی امت کے لئے بازو پھیلاسکوں تاکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے۔ (روح البیان، جلد خامس، صفحہ: 221)
عیسائی پیشوا جو مسجد اقصیٰ کا بہت بڑا پادری تھا اس نے کہا میری عادت تھی کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا تھا۔ اس رات میں نے تمام دروازے بند کردیے لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ایک دروازہ بند نہ ہوسکا۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا مگر دروازہ نہ ہلا۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا تو انہوں نے اسے دیکھ کر کہا کہ اوپر کی عمارت نیچے آگئی ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ صبح دیکھیں گے۔ لہذا ہم دروازے کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا تو دیکھا کہ دروازہ بالکل ٹھیک ہے۔ مسجد کے پتھر پر سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آرہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میں سمجھا کہ آج رات انتہائی کوشش کے باوجود دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج رات اس دروازے کا کھلا رہنا صرف نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تھا یقیناًاس نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد3، ص64)
معراج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَصل میں معراجِ بندگی ہے۔ عظمتوں اور رِفعتوں کے اُس سفر میں اللہ ربُّ العزّت نے اپنے محبوب بندے اور رسول کو اَن گنت اِنعامات و اِعزازات سے نوازا۔ معراج اِتنا بڑا واقعہ ہے کہ اُس میں آقائے دوجہاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ قَابَ قَوْسَیْن پر فائز کیا گیا۔ قُرب اپنی اُس اِنتہا کو پہنچا کہ ہمیں اُس کا اِدراک حاصل ہو سکتا ہے اور نہ شعور۔ فاصلے مٹتے چلے گئے، دُوریاں ختم ہوتی چلی گئیں، حجابات اُٹھتے چلے گئے لیکن اُس مقام پر پہنچ کر بھی بندہ بندہ ہی رہا۔ درجات کی اُس عظیم الشّان بلندی پر جلوہ اَفروز ہو کر بھی عاجزی و اِنکساری کا پیرہن اُس رسولِ عظیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ اِعزاز بنا رہا۔ کرۂ اَرضی پر واپسی ہوئی تو سیاحِ لامکاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بشری و تہذیبی وُجود سلامت تھا۔ تمام عبادات اور احکامات ایسے ہیں، جو اسی زمین پر اتارے گئے۔ لیکن اللہ تعالی نے نماز کے لئے خصوصی معاملہ فرمایا کہ اپنے محبوبﷺکو اپنے پاس بلاکر عنایت فرمایا,اور نماز کے معاملے میں اپنے حبیبﷺکے بات بار بار ما نی۔
حضرت انس ابن مالکؓ سے مروی ہے کہ: نبی کریمﷺ پر معراج کی رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں،پھر آپﷺ کے با ر بار کہنے پر کہ امت کمزور ہے، ان میں کمی کی گئی یہاں تک کہ پانچ نمازیں کردی گئیں پھر اللہ تعالی کی طرف سے ندا آئی کہ اے محمدﷺ میرا فیصلہ تبدیل نہیں کیا جاتا،اور بے شک آپ اور آپ کی امت کے لئے ان پانچ نمازوں کے ساتھ پچاس نمازوں کاثواب ہے۔ (مسند احمد، وبخاری:3623 و مفہوم حدیثِ پاک)
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: الصلاۃ معراج المؤمنین(نماز مومنین کی معراج ہے۔ الحدیث)نماز تحفہِ معراج ہے۔ ایمان کے بعد شریعت کا پہلا حکم نماز ہے۔ حضور ﷺ پر اول بار جس وقت وحی اتری اور نبوتِ کریمہ ظاہر ہوئی اسی وقت حضور نے بہ تعلیمِ جبرئیل امین علیہ السلام نماز پڑھی اور اسی دن بہ تعلیم حضور اقدس حضرت ام المؤمنین خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پڑھی۔ دوسرے دن امیر المؤمنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہٗ نے حضور کے ساتھ نماز پڑھی کہ ابھی سورہ مزمّل بھی نازل نہ ہوئی تھی۔ تو ایمان کے بعد پہلی شریعت نماز ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 2، صفحہ۔ 108)ڈاکٹر مصطفی السباعی ؒ لکھتے ہیں کہ: اللہ تعالی نے معراج کی رات نماز کو فر ض کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ:بندوں تمہارے نبیﷺکا جسم و روح کے ساتھ معرا ج کرنا یہ ایک معجزہ ہے،لیکن تمہا رے لئے ہر دن پانچ مرتبہ یہ سعادت ہے کہ تمہاری روح اور دل معراج کرکے میری طرف آتے ہیں۔ (السیرۃ النبویۃ دروس و عبر:59)علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے شبِ معراج میں نماز کی فرضیت کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ:اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ظاہر وباطن کو آبِ زم زم سے پاک صاف کرکے جس طرح مقد س و مطہر کردیا گیا تھا اور ایمان وحکمت سے آپ کو نواز اگیا تھا۔ ایسے ہی نماز کے لئے بھی ضروری ہے کہ پہلے ہر قسم کی ظاہری و باطنی غلاظت سے اپنے آپ کو پا ک کیاجائے۔ اس مناسبت سے اس موقع پر نماز کی فرضیت کو اہمیت دی گئی۔ علاوہ ازیں اس طرح آپ کے شرف وفضل کو فرشتوں پر بھی واضح بھی کرنا تھا جو بلاواسطہ نماز کے حکم سے فرشتوں پر آشکار اکیاگیا۔ (فتح الباری:1/548)سفرِ معراج کے موقع نماز جیسی عظیم نعمت اللہ تعالی نے ہمیں عنایت فرمائی ہے۔ یہ آسمانی تحفہ ہے جو بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بلاکر دیا گیا اور بتا دیا کہ اگر یہ امت اس کا اہتمام کرے گی تو دنیا میں بھی اور آخرت میں کامیاب و کامران ہو گی اور اپنے خالق و مالک کی نظروں میں معزز رہے گی۔ نماز دراصل مومنوں کے لیے معراج ہے جس میں دعوت ہے، ملاقات کی، باہم گفتگو کی، ترقی کے زینوں پہ چڑھنے کی، آسمانوں کی سیر کی، مخلوق کی خالق کے سامنے عجز و نیاز کی، عبد کی معبود سے اظہار بندگی کی، ساری دنیا سے ناطہ توڑ کر اک نئے عجائبات عالم کی سیر کی، رب کو دیکھ لینے کی لذت کی،یاد رب میں گم ہونے کی بے انتہا لذّت۔ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء و رسل علیہِ السلام کو امتحان لینے کے بعد طرح طرح کے انعامات سے نوازا۔ توبہ کی قبولیت ہو، نسل انسانی کو چلانا ہو، ضعیفی میں اولاد کی خوش خبری ہو،ظالم بادشاہ سے نجات پانا ہو، وغیرہ۔ لیکن فخر کا ئنا ت،ہادی اعظم، سر ور کونین،خاتم الانبیاء و رسل احمد مجتبیٰ صل اللہ علیہ وسلم کے سا تھ اپنی محبت و انسیت کا اظہا ر ہی کچھ عجیب اور انو کھے اور نر الے اندا ز میں کیا ہے۔ ایک محیر العقول، ما ورا العقل وفہم جن اور انس کے واقعہ معراج ہے،آج کی سا ئنسی ماہرین بھی اس کی تصدیق کرنے پرمجبورہیں۔ اور اسی عجیب و غریب وا قعہ کی روشنی میں آج کے سا ئنسدا نو ں نے چا ند کی تسخیر کی اور مزید نئے نئے تجربات جاری ہیں۔
یہ کمالِ حسن کا معجزہ
کہ فراق حق بھی نہ سہ سکا
ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے کے حالات اسلام قبول کرنے والوں کے لیے انتہائی پریشان کُن اور اذیت ناک تھے۔ پہلے طائف کا غم و اندوہ سے لبریز اذیت ناک سفر، پتھر کہا کہا کر لہولہان جسم، پھر دولت مندوں کے طعن وتشنیع سن سن کر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے دل کے ساتھ خاموشی سے مکّہ کی جانب آتے ہوئے ہادی بحق صل اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک، نگاہیں معظم آسمان کی طرف ہیں،پرنورآنکھیں اشک بار ہیں، اور زبان حق پر غم و اندوہ سے لبریز کلمات جاری ہیں،جیسے زبان نہیں دل رب قدیر سے محو گفتگو ہے، قرآن ناطق خاموشی سے اپنے رب کے حضور فریاد کر رہے ہیں۔
’’معبود برحق میں اپنی کمزوری، بے سروسامانی کی تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں، تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، تو درماندہ اور عاجزوں کا مالک ہے،سارے کائنات کا اکیلا مالک ہے،اور میرا مالک بھی تو ہے،تو نے مجھے کن لوگوں کے سپرد کر دیا ہے۔ کن بے رحم لوگوں کے حوالے کر دیا ہے، اس دشمن کے جو مجھ پر قابو رکھتا ہے۔ اگر مجھ پر تیری ناراضگی نہیں ہے، تو مجھے اس کی پرواہ نہیں، لیکن اے میرے رب تیری رحمت میرے لئے زیادہ پناہ گاہ ہے۔ ‘‘ جلوہ گہ نگاہ کو اینا وسیع بنائیے، ہو وہ نظر کے سامنے جب بھی نظر اٹھائیے۔ قمر ؔ زاہدی
اس کے بعد پھر دو رفیقوں کی جدائی کا غم، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے عام الحزن (غم کا سال)کے الفاظ جاری ہوئے۔ اس سے قبل کون سی ذہنی و جسمانی اذیت تھی، جس کا ذائقہ رحمۃ اللعالمین ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے نہ چکھا ہو، مگر زبان مبارک سے شکوہ اور شکایت کے کوئی الفاظ بھی ادا نہ ہوئے۔ آپ ﷺ پوری جان فشانی سے دعوت و تبلیغ کا کام مسلسل انجام دے رہے تھے، مگر اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہورہی تھی۔ درمیان میں ظلم و ستم اور رکاوٹیں حائل تھیں۔ اس کے باوجود آپ صل اللہ علیہ وسلم ہر ظلم وستم کوخندو پیشانی سے برداشت کر رہیں تھے۔ لیکن دو رفیقوں کی جدائی کا غم کا سب سے عظیم اور مقدس انسان کامل کے لیے یہ المیہ دل خراش منظر سے کم نہ تھا۔ لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تو کس سے، اپنا غم بیان کرتے تو کس سے، ہر انسان کو رونے کے لیے ایک کندھا چاہیئے، لیکن سب کے غم کو سن کر خوشی میں تبدیل کرنے والے، مسیحا دوعالم صل اللہ علیہ وسلم کے پاس انسانی شکل میں کوئی کندھا نہ تھا۔ صرف اور صرف ایک معبود، ایک الہ،اسی کی طرف بار بار دیکھتے تھیں۔ اسی سے شکوہ اور حال دل بیان کرتے۔ لیکن دل کے بہت سارے زخم محبوب کے دیدار سے ہی بھرتے ہیں۔ گفتگو وہ کام نہیں کرتی جو ایک دیدار کیا کرتا ہے۔
سہانی رات تھی اور پر سکون زمانہ تھا
اثر میں ڈوبا ہوا جذبِ عاشقانہ تھا
اُنہیں تو عرش پہ محبوب کو بلانا تھا
ہوس تھی دید کی معراج کا بہانہ تھا
چنانچہ آپ ﷺنے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپﷺ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ (بخاری شريف جلد اول صفحہ: 568)
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔ (مسلم شربف جلد اول صفحہ: 92)
حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قلب ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے اور اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔ (فتح الباری جلد: 13: صفحہ: 610)
عظیم ترین تاریخی واقعہء معراج انسانی ارادہ، کاوشوں، کارناموں اور ترقیات کا رُخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت ہی واقعہء اسراء یا معراج کے متعلق نہیں، بلکہ پوری سورہ اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے۔ (بحوالہ سیرت النبیٰ ﷺ جلد سوم صفحہ۔ 252) معراج مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام۔ ۔
(1) شرک نہ کرو (2) والدین کی عزت اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) اسراف، افراط و تفریط سے پر ہیز کر کے میانہ روی اختیار کرو (5) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (6) زنا کے قریب نہ جاؤ (7) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو (9) عہد کی پاس داری کرو (1) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (11) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (12) غرور اور تکبر سے اجنتاب کرو.(سورۃ۔ بنی اسرائیل آیت 32تا37)
معراج دراصل ظہور نبوت ہے،اس واقعہ سے اہل ایمان کا ایمان مکمل ہوتا ہے، وہ واقعہ معراج پر ایمان لا کراپنا اپنا ایمان کو کامل کرے۔ اگر مان لیا جائے کہ آپ ﷺ انسان نہیں ہیں اور اللہ کے وجود کا ہی حصہ ہے،یعنی باذات خود انسان کی شکل میں (نعوذباللہ )اللہ ہی ہیں۔ تب معاذاللہ صد بار معاذاللہ آپ ﷺ کا کوئی کمال بھی بڑا کمال نہیں ہے،(استغفراللہ)کوئی معجزہ بڑا معجزہ نہیں(استغفراللہ)اس لئے اللہ تو قادر مطلق ہے،آقا مدنی ﷺ کا کمال اس میں ہے کہ وہ بشر ہیں او ر افضل البشر ہیں، طائف کی گلیوں میں خون آلود ہو کر امت کے لئے بد دعا نہ کرے۔ ابو لہب کی بے انتہا کینہ پروری کے باوجود اس ظالم کے لئے کوئی ایسا جملہ زبان مبارک سے ادا نہ کرے کہ ظالم کی پکڑ ہو جائے،کمال تو یہ ہے کہ صحابہ اکرامؓ عشاء بعد بھی گھر میں موجود ہو دین سیکھنے اور اصلاح کے لئے یا کسی اور کام کے لئے،لیکن خلق عظیم کے لا انتہا مقام پر فائزرسول اکرم ﷺ خندہ پیشانی سے ان کا استقبال ہی کریں،حتیٰ کہ اللہ ہی صاف لفظوں میں کہ دے زیادہ دیر یہاں نہ بیٹھا کرو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا اپنے گھر والوں کا وقت ہوتا ہے۔ ان کے بھی فرائض ان پر ہیں،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبیﷺ کے گھروں میں داخل نہ ہواکرومگرجب کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے اس حال میں کہ تم اس کے تیار ہونے کاانتظارکرنے والے نہ ہو لیکن جب تمہیں بلایاجائے تواندر آجاؤ،پھرجب تم کھاناکھا چکو تومنتشرہوجاؤاورباتوں میں دل لگانے والے نہ بنو، یقیناًیہ بات نبیﷺ کواذیت دیتی ہے پھروہ تم سے شرم کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا اورجب تم اُن سے کوئی سامان مانگوتواُن سے پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور اُن کے دلوں کے لیے پاکیزہ ترہے اور تمہارے لیے جائزنہیں کہ تم اللہ کے رسولﷺ کواذیت دواورنہ ہی یہ جائزہے کہ اُس کے بعداُن کی بیویوں سے کبھی نکاح کرو، یقیناًیہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔ (سورہ۔ الاحزاب۔ آیت۔ 53)
یہ آیت مبارکہ اس وقت نازل ہوئیں جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کے موقع پر ولیمے کا اہتمام فرمایا، اس وقت کچھ حضرات کھانے کے وقت سے کافی پہلے آبیٹھے جبکہ ابھی کھانا تیار نہیں ہوا تھا، اور کچھ حضرات کھانے کے بعد دیر تک آپ ﷺکے مکان مبارک میں بیٹھے باتیں کرتے رہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، اور ان حضرات کے دیر تک بیٹھے رہنے کی وجہ سے آپ ﷺکو ان کے ساتھ مشغول رہنا پڑا، جس سے آپ ﷺکو تکلیف ہوئی، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمے کے روز یہ حرکت اذیت رسانی کی حد سے گزر گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رات کے وقت ولیمے کی دعوت تھی۔ عام لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہو گئے، مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے۔ تنگ آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ازواج مطہرات کے ہاں ایک ایک بارتشریف لے گئے۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جا بیٹھے۔ اچھی خاصی رات گزر جانے پر جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مکان میں تشریف لائے۔ اس کے بعد ناگزیر ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ خود ان بری عادات پر لوگوں کو متنبہ فرمائے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق یہ آیات اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں۔ (مسلم۔ نَسائی۔ ابنِ جریر)آپ ﷺ کا کوئی ثانی نہیں ہے،کوئی ہم سر نہیں ہے،اور یہ سب اللہ کی عطا کردہ نعمت غیر مترکدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں اپنی ذات کے لئے سبحان کا ذکر فرمایا ہے،اگریہ سارا واقعہ خواب میں پیش آیا ہے تو سبحان کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسا خواب تو ابراہیم علیہ السلام کو بھی دکھایا جا چکا ہے۔
پھر خلیل اللہ ؑ اور محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان اس معاملے میں کوئی فرق ہی نہیں۔ (معاذاللہ)سبحان تو یہ ہے کہ اپنے بندے کو سیرکرا ئے اورزنجیر بھی ہلتی رہے۔ عبد اور معبود میں گفتگو ہو،جتنا بولنے کا حکم ہو اتنا ہی عاشق صادق اپنی زبان اقدس ﷺ سے بیان کرے۔ باقی معاملوں سے غیروں کو کیا سروکار،کس کی مجال جو تحقیق کر سکے۔ اس آیات میں عبد کا ذکر بھی ہے،اگر معاذاللہ نبی برحق ﷺ اللہ ہی کہ وجود کا ہی ایک حصہ ہے۔ (توبہ استغفراللہ)تو اللہ نے خود کو اسراء اور معراج کیوں کرائی؟پہلے کی امتوں نے اپنے انبیاء اور رسل ؑ کو اللہ کادرجہ دے کر ان کی عبادت شروع کر دی۔ اس امت میں بھی کافی عرصے سے اس طرف یہودیوں کی جانب سے اقدامات کئے جا رہے ہیں کہ نبی آخر الزماں ﷺ بھی اللہ ہی کی ایک شکل ہیں۔ (معاذاللہ)دراصل ان کا مقصد آپ ﷺ کی اتباع سے دور کرنا ہے۔ جس اہل تشیع حضرت علی کرم اللہ سے محبت تو کرتے ہیں، لیکن ان کی اتباع نہیں کرتے،کیوں کہ ان کے ایک فرقہ نصیریہ کے نذدیک علی کرم اللہ وجہ معاذ اللہ خدا ہی ہیں۔ (توبہ صد بار توبہ)ہمیں اس فتنہ کو سمجھنا ہے۔ سب سے بڑا المیہ ہے کہ ایک مسلک نے عشق رسول ﷺ کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ اب وہ فیصلہ کریں گے کون عاشق ہے اور کون گستاخ۔ عاشقی کی تڑپ کس کے دل میں کتنی موجود ہے یہ فیصلہ معشوق ہی کر سکتا ہے۔ مدینہ شریف سے ہزاروں میل دور بغداد میں ایک عاشق کو خواب دکھا کر اس سے کام لیا۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو دنیا جان پاتی کہ ایک سلطان بھی اللہ کے رسول ﷺ کا اتنا بڑا عاشق صادق ہو سکتا ہے۔ یہ سلطان نور الدین جنگی تھے۔ مدینہ منورہ میں تمام جا نثاران کے موجود ہوتے ہوئے بھی زبان مبارک ﷺ سے یہ جملہ ادا ہوا کہ مجھے یمن سے محبت کی خشبو آتی ہے۔ نعوذباللہ اس سے کیا عشرہ مبشرہؓ یا سیدنا بلالؓ کے مقام اور مرتبے میں کوئی کمی واقع ہوگی۔ (استغفر اللہ)نہیں۔ آحضور ﷺ سے عشق کی راہ بہت نازک ہے۔ مقام و مرتبہ اگر کم کیاتو منافق، اور اگر بڑھایاتو شرک۔ بہت ہی دشوار گزارمعاملہ ہے۔ بنا اللہ کی توفیق سے اس راہ سے نکلنا ناممکن ہے۔ یہودیوں کی مکارانہ فریب ہے کہ کسی طرح ہادی برحق ﷺ کو اللہ ثابت کر دیا جائے،اور ا مت مرحومہ کو عمل سے دور کر دیا جائے۔ لیکن جب تک اللہ کے کچھ نیک بندے زندہ ہیں انشاء اللہ یہ ناممکن ہے۔ آمین۔
اور وہ اپنی خواہش سے بات نہیں کہتا۔ وہ صرف ایک وحی ہے جونازل کی جاتی ہے۔ (سورہ، النجم۔ آیت۔ 3.4)
تمام کہکشائیں،جھرمٹ،ستارے،سیارے،سیارچے اور شہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادر پر منحصر ہیں اور قدرت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پر سے دوسری زمانی ومکانی چادر پر پہنچے اور معراج کے مشاہدات کے بعد (خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زمان ومکان کی کائناتی چادر کے بالکل اسی نقطے پر واپس پہنچ گئے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے قبل تھے۔ او ریہ وہی نقطہ تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ گویا کہ نہ آپ روشنی کے رفتار سے گئے،نہ کوئی اور سائنسی رفتار سے۔ آپﷺ کے لئے اللہ نے تمام اوقات کو، ٹائم ٹیبل کو روک دیا اور اس کائنات کی ٹائم ٹیبل سے الگ ایک نیا نظام الاوقات پیدا کیا۔ اس اوقات میں آپنے سفر کیا اور تمام مشاہدات کا بھرپور نظارہ کیا پھر لوٹ آئیں۔ واقعہ معراج پر اعتراضات کی وجہ ایک یہ بھی ہی مخالفین کے دماغوں میں یہ شک پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ معراج خواب میں ہوئی اور یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غنودگی کی حالت میں تھے اور پھر آنکھ لگ گئی اور یہ تما م واقعات عالم رؤیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھے یا روحانی سفر درپیش تھا۔ جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کو لمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ اسراء کے معنی خواب کے نہیں جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانے کیلیے ہیں۔ دور جدید میں فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے ممکن ہوا اور انبیاؑ ء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟
براق،برق سے نکلا ہے،جس کے معنی بجلی ہیں،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے۔ اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لیے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے۔ وقت گر جائیگا۔ کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہیاس لیے جو شخص اس چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے کائنات اس کے لیے ایک نقطہ بن جاتی ہے۔ وقت رک جاتا ہے کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے۔ حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لیے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا ہو۔ اس کے لیے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گااور جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے،بستر گرم ہوگا،کنڈی ہل رہی ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا۔
بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے فاصلے پر رکھ دیں۔ سوئچ دبائیں تو ایک سیکنڈ میں وہ بلب جلنے لگے گا۔ یہ برقی رو کی تیز رفتاری ہے اور پھر ہوا کی تیز رفتاری بھی اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے۔ اب معراج شریف میں چاہے ہزار برس صرف ہو گئے ہوں یا ایک لاکھ برس،وقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ یہ شبہ اور اشکا ل پیش آسکتا ہے کہ اتنی طویل و عظیم مسافت ایک رات میں کیسے طے ہوگئی۔ اورہماراحکم ایک ہی بار پلک جھپکنے کی طرح ہوتاہے۔ (سورہ القمر،آیت۔ 50)
سورۃ النجم کی آیات13سے 18میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں،
’’ اسے(یعنی فرشتے کو) تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا سِدرۃِ المنتہیٰ(یعنی بیر کے درخت) کے پاس،اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے جبکہ سِدرہ(بیر کے درخت)کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو چھا رہی تھی، نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی،یقیناًاُس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں۔ ‘‘یہ واقعہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے یعنی صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کی ایک بڑی تعداد سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔ قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا یعنی نبی اکرم ﷺ کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کردیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والاہے، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں،معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب ﷺکو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔ معراج معجزاتِ آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ خلاف قدرت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے بند دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی ہے۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند راہوں پر چلنے کی ہمت کی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ قادر مطلق رات کے مختصر سے وقفے میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ کائنات کی بے اَنتہا وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قوسین‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنیٰ‘‘ کے مقاماتِ بلندی تک لے گیا اور آپ وہاں قیام کے بعد زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ ہمارے نبی ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے خود ارشاد فرمایا کہ میں بشر ہوں اور کتاب اللہ بھی اس بات کی گواہی پیش کر رہا ہے،یہ حق ہے لیکن کوئی اہل ایمان اپنی زبان سے یہ کہے کہ( معاذ اللہ صد بار معاذاللہ)ہماری طرح بشر ہیں یہ باطل ہے۔
یہ سچ ہے کہا تھا بشر ہوں میں تم سا، مگر فرق ظاہر کیا تھا وحی کا
بتاؤ ں کہ تم بھی ہو حامل وحی کے، تمہارے بھی کہنے میں شمس وقمر ہیں
ذرا تم تو پڑھواؤ کنکڑ سے کلمہ، ذرا تم تو پیڑوں سے کرواؤ سجدہ
ذرا کر کے دیکھو توٹکڑے قمر کے، نہیں تو نہ کہنا وہ ہم سے بشر ہیں
تبصرے بند ہیں۔