پانی سے ہم، تو ہم سے جہاں سارا

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ہر سال 22 مارچ کو عالمی یوم آب (ورلڈ واٹر ڈے) منایا جاتا ہے۔ اس دن پورا عالم پانی کو بچانے، محروموں تک صاف پانی پہنچانے اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے لوگوں خاص طور پر چھوٹے بچوں کو بچانے کا عہد دوہراتا ہے۔ پانی کے متعلق دنیا کو حساس بنانے کا عزم کیا جاتا ہے۔ یونائٹڈ نیشن نے اپنے ملینیم ڈویلپمنٹ اہداف میں صاف پانی کی دستیابی کو شامل کیا ہے۔ کیونکہ زندگی کے لئے ہوا کے بعد پانی سب سے ضروری ہے۔ زمین پر پانی ساڑھے چار ارب سال قبل آیا تھا۔ اس کے بعد ہی زندگی کی ابتداء ہوئی۔ پوری دنیا میں انسانی آبادی ندیوں اور پانی کے زخائر کے قریب آباد ہے۔ یہاں تک کہ انسانی تہذیبوں کو بھی ندیوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ جو ندیاں کبھی لائف لائن ہوا کرتی تھیں آج ترقی کے نام پر ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ بنارس کی ورونڑا ندی، دہلی کی جمنا اور ممبئی کی میٹھی ندی اس کی مثال ہیں۔ جن کا پانی کب کیچڑ بن گیا پتا ہی نہیں چلا۔ ندیوں کے دم توڑنے کی وجہ سے پانی کا بحران پیدا ہوا ہے۔ جو روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔

زمین پر موجود کل پانی قریب 1.36 ارب مربع کلو میٹر ہے۔ مگر اس میں سے 96.5 فیصد پانی کھارا ہے ۔ جو سمندری حیوانات و نباتات کے علاوہ باقی جانداروں کے لئے مفید نہیں ہے۔ صرف 3.5 فیصد (لگ بھگ 4.8 کروڑ مربع کلو میٹر) میٹھا پانی ہے، لیکن اس کا 24 لاکھ مربع کلو میٹر حصہ 600 میٹر گہرائی میں زیر زمین پانی کی شکل میں موجود ہے۔ قریب 5 لاکھ مربع کلو میٹر پانی گندہ وآلودہ ہو چکا ہے۔ اس طرح زمین پر موجود پانی کا ایک فیصد حصہ ہی استعمال کے لائق ہے۔ اس ایک فیصد پانی پر دنیا کے چھ ارب انسانوں سمیت سارے حیوانات ونباتات منحصر ہیں۔ جس طرح پانی کی دقت شروع ہوئی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں جگھڑے کا سب سے بڑا سبب پانی بنے گا۔ اس وقت دنیا میں پانی کی قلت ایک بڑا مدا بنا ہوا ہے۔ پانی کی لڑائی گلی کوچوں سے نکل کر  ملکوں اور ریاستوں میں ٹکراؤ کا سبب بن گئی ہے۔ ہریانہ، پنجاب اور دہلی کا جھگڑا ہو یا کاویری ندی کے لئے کرناٹک اور تمل ناڈو کی لڑائی، یا پھر برہم پترا کے لئے بھارت، چین و بنگلہ دیش کا ٹکراؤ یہ سب پانی کے لئے ہے۔ صاف پانی امرت،  تو آلودہ پانی زہر اور مہا ماری کی بنیاد ہے۔ اس صورت حال نے پانی کو قیمتی شے بنا دیا ہے۔

پہلے پانی پینے اور سینچائی کے کام آتا تھا۔ بڑھتی آبادی، صنعتوں میں بے تحاشا پانی کی کھپت اور اس کے بڑھتے استعمال سے پانی کی کو الٹی خراب ہوئی ہے۔ کچھ پانی کا کاروبار کرنے والوں نے جان بوجھ کر اسے خراب کیا ہے۔ اس کی وجہ سے بوتل بند پانی کے کاروبار میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ سندھیا رائے چودھری کی رپورٹ کے مطابق پہلے 5000 کیوبیک میٹر پانی فی شخص فی سال دستیاب تھا جو سال 2000 میں صرف 2000 کیوبیک میٹر فی شخص فی سال رہ گیا تھا۔ جو اب گھٹ کر 1100 کیوبیک میٹر کے قریب رہ گیا ہے۔ بھارت میں سبھی قدرتی ذرائع میں کل پانی 4000 بلین کیوبیک میٹر (بی سی ایم)  ہے اور لگ بھگ 370 بی سی ایم سطحی پانی استعمال کے لئے دستیاب ہو پاتا ہے۔ اگر اسی طرح پانی کم ہوتا رہا تو ایک اندازہ کے مطابق 2050 تک بھارت کی آبادی 160 کروڑ ہوگی۔ اس وقت صرف 3.2 کیوبیک میٹر پانی فی شخص یومیہ ہی دستیاب ہوگا۔ یہ بڑے خطرے کا اشارہ ہے جس کی طرف وقت رہتے توجہ دینی چاہئے۔

ورلڈ ایڈ کی رپورٹ کے مطابق چین، پاکستان، بنگلہ دیش کے ساتھ دنیا کے دس ممالک جن میں ایک بھارت بھی ہے ایسے ہیں جہاں حالت اتنی خراب ہے کہ پینے کے لئے صاف پانی نہیں ملتا۔ بھارت میں 7.6 کروڑ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ یونیسیف کی واٹر انڈر فائر رپورٹ کا کہنا ہے کہ بھارت کی دیہی آبادی کے 49 فیصد حصہ کی ہی پینے کے صاف پانی تک رسائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں 14 لاکھ بچے آلودہ پانی کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ورلڈ ایڈ کی رپورٹ کی مانیں تو ترقی یافتہ ممالک میں پانی کی قیمت لوگوں کی کمائی کی صرف ایک فیصد ہے جبکہ بھارت میں پانی کی قیمت دوسرے ممالک کے مقابلہ بہت زیادہ 17 فیصد تک ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہنریتا فار نے واٹر انڈر فائر رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ جو ممالک لمبے عرصے سے تصادم کا سامنا کر رہے ہیں ان میں پانی اور حفظان صحت کی سہولیات تک پہنچ میں کمی کی وجہ سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کا سیدھے تشدد کے مقابلہ 20 گنا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی اور صاف صفائی کی کمی کے باعث کو پوشن اور انسدادی امراض ڈائریا، ٹائفائڈ، ہیضہ اور پولیو جسی بیماریوں کا خطرہ منڈراتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جن ماحولیاتی چنوتیوں کا سامنا کر رہا ہے اس کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 2016 میں خشک سالی سے 302 اضلاع کے قریب 330 ملین لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اور ملک کا آدھا حصہ امکانی سیلاب کی زد میں تھا۔ ان کے مطابق 2015 میں پانی سے پیدا شدہ بیماریوں کی وجہ سے بھارت نے پانچ سال سے کم عمر کے 117300 بچے سالانہ ڈائریا کے سبب کھوئے یعنی 320 ہر روز۔ ایسا اندازہ ہے کہ پانی سے پیدا شدہ بیماریوں کا ہر سال بھارت پر 600 ملین ڈالر کا اقتصادی بوجھ بھی پڑتا ہے۔

قدرت نے وافر مقدار میں پینے کا صاف پانی ہمیں فراہم کیا ہے۔ ہم اپنی ضرورت کا  85 فیصد حصہ زیر زمین پانی سے دستیاب کرتے ہیں جس میں اب 56 فیصد کی گراوٹ آچکی ہے۔ ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں بچا ہے جہاں پانی کا یہ زخیرہ کم نہ ہوا ہو۔ جنگلات کے سکڑنے اور بارش کی کمی کے باعث پانی کے ذرائع غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا زراعت پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ چار کروڑ اسکولی بچے پانی سے پیدا شدہ بیماریوں کی چپیٹ میں آجاتے ہیں۔ پانی کی کمی سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ دنیا کے 64 فیصد گھروں میں خواتین ہی پانی کی فراہمی کا ذمہ اٹھاتی ہیں۔ پہاڑی عورتوں پانی کے لئے اوسطً 2 سے 3 کلو میٹر اور کبھی کبھی 3 سے 4 کلومیٹر چلنا پڑتا ہے۔ راجستھان، بندیل کھنڈ اور ملک کے کئی علاقوں میں پانی کے لئے یہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ دیہی آبادی کنوؤں کے سوکھنے یا پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کر رہی ہے۔ عام لوگوں میں 80 فیصد بیماریاں پانی کی دین ہیں۔

اس سب کے باوجود پانی ہماری سیاست کا مدا نہیں بنتا۔ اور نہ ہی عوام اپنے سیاسی رہنماؤں پر پانی جیسی اہم شے کو مدا بنانے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ جنہیں پالیسی تیار کرنی ہے وہ یا تو بوتل کے پانی پر منحصر ہیں یا پھر واٹر پیوریفائر نے ان کی جان بچا رکھی ہے۔ تکلیف ان لوگوں کو ہے جن کو یہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ وقت آگیا ہے جب عوام پانی کو لے کر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ملک میں الیکشن چل رہا ہے عوام کو امیدواروں سے کہنا چاہئے کہ پانی نہیں تو ووٹ نہیں۔

ہم پانی پیدا تو نہیں کر سکتے البتہ اس کی حفاظت کا معقول نظم کرکے اپنی زندگی کو بہتر ضرور بنا سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے پانی کی اہمیت کو سمجھا اور اس کی حفاظت کا انتظام کیا۔ پانی نے ان کی کایا پلٹ کر دی۔ ہمارے بچوں کو مستقبل میں پانی کی دقت نہ ہو اس کے لئے آج سے کوشش کرنی ہوگی۔ تاکہ وراثت میں بچوں کو پانی کا بڑا زخیرہ مل سکے۔ پانی کی ہر بوند زندگی ہے یا یوں کہیں کہ پانی سے ہم اور ہم سے ہی یہ  جہاں روشن ہے۔

تبصرے بند ہیں۔