کشمیر ایک داستان ِ رنج والم
اندھیرا چھا گیا، روشنی کہاں سے لائوں
ابراہیم جمال بٹ
میں محتاجِ تعارف نہیں … میں ایک نوجوان ہوں …میرا تعارف بس یہی ہے کہ میں کشمیرکا رہنے والا ہوں۔ ایک طالب علم ہونے کے ناطے میری اولین ترجیح میرا تعلیمی کیرئیر ہے۔ میری تعلیم فی الحال میرا مقصد بن چکا ہے اور اس مقصد کے لیے میں کبھی سکول میں رہا، کبھی کالج میں ایام گزارے اور اب ایک مدت تک یونیورسٹی میرا مسکن بن چکا ہے۔ تعلیم کی وجہ سے میں کبھی کبھار گھر جا پاتا ہوں، کیوں کہ اپنے علاقے سے پڑھائی کے سلسلے میں مجھے شہر کا رخ کرنا پڑا اور ہر دن یونیورسٹی سے نکل کر گھر پہنچنا مشکل تھا، اس لیے میں نے ترجیحی بنیادوں پر فی الحال اپنا جائے مسکن تبدیل کر دیا۔ گھر والوں سے دور… اقرباء و احباب سے دور… دوستوں کی دوستی سے دور جا کر شہر میں زندگی کے اس وقت کے ایام گزار رہا تھا۔ پڑھائی خوب سے خوب تر ہو رہی تھی، امتحان سر پر آچکے ہیں … کہ اچانک وادی کے حالات بگڑ گئے … اس قدر بگڑ گئے کہ ہر روز دو دو، چار چار نوجوانوں کا پاک اور بے گناہ لہو ارض کشمیر کو تر کر رہا ہے۔ بندوقوں کے دھانے… پیلٹ گن کی گنگناہٹ… ٹیر گیس، پاوا شل اور پیپر گیس کی وجہ سے کشمیر میں جیسے اندھیرا چھا گیا… پیلٹ گن جو اس بار ایک ایسا ہتھیار کشمیر کے لوگوں پر استعمال کیا گیا کہ محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت ہند نئی نسل کو شاید آنکھوں کی بصارت سے ہی محروم کردینا چاہتی ہے… کیوں کہ بے لگام فوج اور ریاستی پولیس نے اس کا اس قدر راست استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ واضح طور سے محسوس ہو رہا ہے کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ گولیوں کی تو بات ہی نہیں … گولی کا دوسرا نام ہی موت ہے… جس کا استعمال یہاں وادیٔ کشمیر میں آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ہو رہا ہے… جس کا مشاہدہ اور تجربہ کم از کم ہر کشمیری کو ہے… وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ گولی کے کون کون سے ’’فائدے‘‘ ہیں … گولیاں چلنے کا سلسلہ تو خصوصا حالیہ 27؍ برسوں سے جاری و ساری ہے۔ … یہ گولیاں نہ صرف بھارت کی فوج کی جانب سے چل رہی ہیں بلکہ نہتے عوام پر جو کہ اپنا پیدائشی حق ’’حق خود ارادیت‘‘ مانگتے ہیں، یہاں کہ بے لگام پولیس نے بھی اس کا بھرپور استعمال کر کے کشمیر کو لہو لہان کرنے میں اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔ چنانچہ ان حالات کے دوران میں بھی پچیس سال گزار چکا ہوں … میں نے بھی بہت کچھ دیکھا ہے کہ کس طرح یہ گولی چل کر انسان کے موت کا سبب بن جاتی ہے… اور آج بھی دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح اس گولی کا اشارہ ملتے ہیں لاشوں کے ڈھیر زمین پر گر جاتے ہیں۔ گولی تو اب پرانی باتیں ہیں آج تو پیلٹ اور ’’پیلٹ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’پاوا‘‘ بھی چلنے کے مرکزی احکامات آگئے ہیں …
بہرحال ان حالات میں میرے ہاتھوں میں کل تک جو قلم تھا پتا نہیں وہ قلم مجھے کیوں نظر نہیں آتا… ہر طرف یا تو اندھیرا ہی اندھیرا چھا چکا ہے یا میری آنکھوں کی بصارت ہی کہیں کھو چکی ہے۔ کتاب سے کیا پڑھوں … قلم کا کیا کروں … سکول کیسے جائوں … لیپ ٹاپ اور قیمتی موبائل کا استعمال کیونکر کروں … کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے… ایک طرف مجھے کہا جا رہا ہے کہ لو تھام لو اپنے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اور دوسری طرف میری آنکھوں کی بصارت ہی چھین لی جاتی ہے… کیا کہوں اور کس کو دوش دوں ؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے… وادیٔ کشمیر کے بچوں کو ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ ’’بچوں کو سڑکو ں پر نہیں سکولوں میں ہونا چاہیے‘‘ ’’بچوں کو امتحانات کی تیاری کر لینی چاہیے‘‘ تو دوسری جانب سکولوں اور کالجوں کو فوجی چھائونیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے… !بچے سڑکوں کے بجائے سکولوں کا رخ کرتے لیکن ان کی آنکھیں اور ان کے شہر کے اندھیرے پن کا علاج کون کرے؟ وہ سکول جاتے لیکن فوج، پولیس اور حکومت کی خارجی و داخلی دھمکیوں کا کیا کریں ؟ حال اور مستقبل پر اندھیرا چھا چکا ہے اور بات ہو رہی ہے روشنی کی… کشمیر جل رہا ہے اور بات ہو رہی ہے پیٹرول کے چھڑکائو کی… لاشوں کی لاشیں ارضِ کشمیر کو تر کر رہی ہیں اور بات ہو رہی ہے نوجوانوں کے کیرئر کی… ترقی اور خوشحالی کی باتیں بڑے زور وشور سے ہو رہی ہیں لیکن ترقی انسانوں کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے زمین کی سوچی جا رہی ہے۔ کشمیر کے زمین اور کشمیری لوگوں سے محبت کے دعوے کرنے والے اصل میں کشمیر کی سرزمین سے سچ مچ محبت کرتے ہیں لیکن کشمیری لوگوں کی محبت کا انہیں کوئی خیال نہیں … اگر انسانیت کے ناطے کشمیر کے لوگوں کی محبت ہوتی، تو کشمیر کو اس طرح تاراج نہ کیا جاتا… اگر کشمیریوں سے سچی محبت ہوتی تو فی الوقت کشمیر جس قدر جل رہاہے پر پانی کے بجائے پیٹرول کا چھڑکائو نہ کیا جاتا… کشمیر کے حالات پر ایسے تبصرے نہ کئے جاتے… کشمیر کو اپنی ہٹ دھرمی کا شکار نہ کرتے… محبت دینے کا نام ہے زبردستی لینے سے محبت نہیں بلکہ نفرت اور کڑواہٹ پیدا ہو جاتی ہے… محبت کا تقاضا تھا کہ لوگوں کو وہ سب کچھ دیں جس کی انہیں خواہش ہے لیکن لفاظی محبت کا کیا کہنا… کشمیریوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور کشمیریوں سے محبت بھی باقی ہے… کشمیریوں کو اندھیرے میں دھکیلا جا رہا ہے اور محبت باقی ہے… فوج اور پولیس کو لگام دینے کے بجائے بے لگام چھوڑا جا رہا ہے… تاکہ وہ انسانیت کا صفایا کر سکے اور پھر بھی محبت باقی ہے۔ واہ رے واہ اس طرز محبت کا…!
میری تعلیم جو میرا مقصد عظیم بن چکا تھا فی الحال دور دور تک کوئی ایسے آثار نظر نہیں آرہے ہیں کہ دوبارہ مجھے مزید تعلیم کاموقعہ مل جائے، کیوں کہ میں ایک ایسانوجوان ہوں جو اندھیرے پن کا شکار ہو چکا ہے… میری آنکھوں سے آنسو بھی بہتے ہیں مجھے معلوم نہیں چلتا… میں کچھ بھی دیکھ نہیں پا رہا ہوں … میرے ہاتھوں میں ’’مصنوعی اور لفاظی لیپ ٹاپ ‘‘تھمانے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن مجھے ایک بیکار مشین محسوس ہو رہی ہے… اندھیرا جب چھا جاتا ہے تو ایک بڑی اور عظیم نعمت کا احساس ہو جاتا ہے… آج میں محسوس کر رہا ہوں کہ آنکھوں کی روشنی کس چیز کا نام ہے… یہ نہ صرف میری آنکھوں کا حال ہے بلکہ وادی کشمیر کی نوجوان نسل کا حال برابر اسی صورت حال کا نظارہ پیش کر رہی ہے۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے… !
بھارت نواز کئی نیتا (لیڈران )کہتے ہیں کہ میں کتابوں کا علم نہیں بلکہ پتھر بازی کا علم سیکھ رہا تھا… میں پڑھنے نہیں بلکہ فوج اور پولیس پر پتھرائو کرنے جا رہا تھا… میں کشمیر کی کل آبادی کا پانچ فیصد ہوں … میں ٹافی اور چاکلیٹ نہیں بلکہ فوجی اڈوں پر حملہ کرنے نکل چکا تھا…ایسے بے شمار نام حکومت ہند اور مخلوط ریاستی سرکار کی طرف سے آج مجھے دئے جا رہے ہیں … میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر میں سنگ باز ہوں … عسکریت پسند اور شرپسند ہوں … اگر میں صرف پانچ فیصد ہوں تو میری وجہ سے ۹۵؍ فیصد لوگ شکارکیوں ہو رہے ہیں ؟ جب میں پانچ فیصد امن میں بدامنی پھیلانے کا باعث بن رہا ہوں تو ۹۵؍ فیصد لوگوں پر یہ قہر کیوں ؟ اگر اس پانچ فیصد کا کوئی وقار نہیں … اگر اس پانچ فیصد کا کوئی وزن نہیں … اگر اس پانچ فیصد سے کوئی فائدہ کی امید نہیں، تو کم از کم اس ۹۵؍ فیصد کی تو سوچو جو بقول آپ کے امن، جمہوریت، ترقی اور خوشحال کشمیر کی باتیں کر رہے ہیں۔ اگر پانچ فیصد کو الگ کیا جائے تو ۹۵؍ فیصد سے ہی پوچھ لو کہ کس امن کی بات کر رہے ہو؟ کس خوش حالی، کس جمہوریت، کس ترقی کی سوچ رہے ہو؟ ان ۹۵؍ فیصد لوگوں میں یہاں کے بزرگوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی مائیں اور بہنیں بھی ہیں ان سے ذرا پوچھو تم کیسا امن چاہتی ہو؟ کس ترقی وغیرہ کی طلب گار ہو؟ نابالغ اور دودھ پیتے بچوں کا خیال تو کرو … وہ بھی انہی ۹۵؍ فیصد لوگوں میں تو آتے ہیں … ان کا تو احساس ہو گا… ان کے احساسات کو محسوس کر کے ان کی ننھی ننھی زبان سے تو سنو کہ وہ بلک بلک کر کیا کہہ رہے ہیں ؟
دراصل باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو بات تھی لیکن ان باتوں میں کوئی سچائی ہے ہی نہیں بلکہ یہ سب ایسے سفید جھوٹ ہیں جو دور سے سفید تو دکھائی دے رہیں لیکن قریب آتے ہی اصل حقیقت سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور پردے کے پیچھے صرف کالا ہی کالا پن نظرآتا ہے۔ باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو نوجوان بیٹے کے بدلے 75؍ سال کے بزرگ باپ اور 70؍ سالہ ماں کو پیلٹ اور گولی کا شکار نہ کیا جاتا… بلکہ ان کا احترام کرتے ہوئے ان کے لیے راہ کے کانٹوں کو ہاتھوں سے اٹھایا جاتا تاکہ ان جیسے بزرگوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے… اگر باتوں میں سچائی ہوتی تو 75؍برس کے بزرگ پر سیفٹی ایکٹ کی تلوار نہ گرتی… باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو ریاست کی وزیر اعلیٰ شام اور عراق کی مثال دے کر دھمکی نہ دیتی… باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو نادی ہل رفیع آباد میں دانش منظور کو، جو گھر سے سبزی لانے کے لیے نکلا تھا پر اندھا دھند طریقے سے گولیاں چلا کر ابدی نیند نہ سلایا جاتا…باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو بیوی بچوں، چھوٹے بھائیوں اور بوڑھے والدین کا اکلوتا بیٹا شہنواز احمد خان جو ان کا اکلوتا سہارا تھا کو نہ چھین لیا جاتا… باتوں میں اگر کوئی سچائی ہوتی تو بھائیوں کی تلاش میں نکلورہ پلوامہ کا فیاض احمد وازہ جو چار ماہ کے بیٹے، بیوی اور تین بھائیوں اور والدین کو چھوڑ کر چل بسا، کو گولی کا جرم بے گناہی کی پاداش میں شکار نہ کیا جاتا۔ باتوں میں کسی بھی حد تک کوئی سچائی ہوتی تو سرینگر سے تعلق رکھنے والے عرفان احمد جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، اور گھر کا ایک ہی کمانے والا سہارا تھا کو راست نشانہ بنا کر ابدی نیند نہ سلایا جاتا… باتوں میں سچائی ہوتی تو آٹھ برس کے بچے کو پیلٹ کا شکار نہ کیا جاتا۔ باتوں میں اگر سچائی ہوتی تو خواتین کا احتجاج نہ نکلتا اور اگر نکلتا بھی تو اس پر بے تحاشا اور اندھا دھند طریقے سے ٹیر گیس، پیلٹ اور گولیاں نہ چلتیں۔ ان کو زدو کوب نہ کیا جاتا۔
حقیقت کچھ اور، بیان بازی سے کچھ اور ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پتھر بازی کا بہانہ بنا کر، پانچ فیصد کا ڈراما رچا کر، لیب ٹاپ کا مصنوعی چاکلیٹ کھلا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ’’ہم کشمیر کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ کشمیر کی زمین ہی نہیں بلکہ وہاں کے لوگ بھی ہمارا انگ ہیں اور اپنے اس انگ کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘سب دکھاوا ہے… سب جھوٹ ہے… سب ایک دھوکہ ہے … جس کے کشمیر کے لوگ بارہا شکار ہوتے آرہے ہیں … اس بار بھی شاید اسی دھوکے کے لیے نئی نئی سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ نئے انداز اورنئی بوتل میں پرانے شراب کا کاروبار ہو رہا ہے۔
اقوام عالم کو یہ کہہ کر شاید خاموش کرنے کی ایک کوشش ہو رہی ہے کہ کشمیر میں امن قائم ہو رہا ہے… سڑکوں پر زرخرید ٹرانسپورٹ کو چلا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کشمیر امن کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے… سب کچھ صاف دھوکہ دکھائی دے رہاہے… !بے لگام فورسز اور پولیس کی زیادتیوں سے چنگیزیت کی بو آرہی ہے… مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرنے کا تجربہ جانوروں پر نہیں بلکہ کشمیری نوجوانوں پر کیا جا رہا ہے… اور جب عالمی برادری کی طرف سے ’’بیان بازی کی حد تک ہی صحیح ‘‘اگرشور اٹھتا ہے تو پیلٹ کے بدلے پاوا کا اعلان کیا جاتا ہے… لیکن دھوکہ… صرف دھوکہ… نہ ہی پیلٹ گن بند کیا جاتا ہے اور نہ ہی پاوا سے واپسی کا اعلان بلکہ دونوں کا استعمال کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے… ’’پیلٹ کے ساتھ ساتھ پاوا بھی چلے گا۔ ‘‘
ان حالات میں، کشمیری طالب علم جو اب آنکھوں کی بصارت سے بھی گیا اور مالی و جانی نقصان سے بھی دوچار ہو گیا… جو اب اپنا خواب پورا کرنے سے بھی رہ گیا کیوں کہ اس کی زندگی اندھیرے پن کا شکار ہو گئی ہے، اب کرے تو کیا کرے۔ کشمیریت، انسانیت، جمہوریت، امن اور ترقی کا درس دینے والے ان الفاظ کے معنی سے بھی نابلد ہیں۔ اے کاش! سوچنے والے سوچتے کہ انسانیت کا درس کیا ہے… انسانیت کہتے کسے ہیں … تو میں بتا دیتا کہ انسانیت اور جمہوریت پر یقین کن کو نہیں ہے… تو مجھے میرا حق ضرور مل جاتا… مجھے میری روشنی کا مینارہ حاصل ہو جاتا… مجھے میرا حق ’’حق خودارادیت‘‘ کا موقع مل جاتا …میں بتا دیتا کہ میں کیا ہوں اور کیا نہیں … میں دکھا دیتا کہ میں کس کے ساتھ وابستہ رہنا چاہتا ہوں … میں بتا دیتا کہ ۹۵؍ اور پانچ فیصد کی اصل حقیقت کیا ہے۔ اے کاش…!

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔