نادیہ عنبر لودھی
مرزاغالب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اردو ادب میں غالب کی شاعری ہمیشہ تروتازہ ہی رہے گی۔
غالب نے لفظوں سے کھیل کر تخیلاتی تصویریں بنائی۔
غالب نے خالص اردو لغت کا سہارا لیا۔ غالب کی شخصیت اور فن کثیر الجہتی ہے۔ ان کی انفرادیت اور عظمت اتنے پہلوؤں میں جلوہ گر ہوئی ہے کہ اس کا احاطہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ غالب نے اپنی فنی زندگی کا آغاز فارسی شعر گوئی سے کیا۔ کلام کے تین حصے فارسی اور ایک حصہ اردو شاعری پر مبنی ہے۔میرزا نے فارسی شاعر بیدل کو تقلید کے لئے چنا۔
"طرز بیدل میں ریختہ لکھنا
..
اسد اللہ خاں قیامت ہے”
پھر غالب نے شاعری کے دوسرے دور میں قدم رکھا۔ یہاں اردو شعر کہتے ہوۓ فارسی کے الفاظ اردو شاعری کی دلکشی میں اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نازک خیالی بدستور موجود ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ عقلیت، معنویت، اور جذبہ کی شدتسر چڑ ھ کر بولتی ہے۔ غالب یہاں تنگناۓ غزل کو وسعت بخشتے نظر آتے ہیں۔ یہاں وہ کبھی تصوف میں پناہ ڈھونڈ تے ہیں۔ تو کبھی مذہب میں امان تلاش کر تے ہیں۔
کبھی یاسیت کے گہرے سمندر میں گرتے گرتے بچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ اور کبھی خوابوں ہی خوابوں میں آرزوؤں کی جنت تلاش کرتے ہیں۔ اس دور کی انفرادیت غالب کی بے چینی ہے۔ وہ آسمان کی تلاش میں ضرور نکلے لیکن زمیننے انہیں خود سے جدا نہ کیا۔ انہوں نے ولی بنا چاہا لیکن دنیا تمام تر رنگینوں کے ساتھ دامن گیر رہی –
———-
"یہ مسا ئل تصوف یہ ترا بیان غالب
…
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ با دہ خوار ہو تا”
—–
محبت کاروائتیی مضمون جب غالب کے قلم سے چھوتا ہے تو ایک ایسے شخص کی محبت بن جاتا ہے جو خوددار بھی ہے انا پرست بھی۔ وہ افلاطونی محبت کا قائل نہیں۔
——————
"کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب۔ غم بری بلا ہے
..
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہو تا”
—
کہیں وہ تعلق کو ندرت بیاں عطا کرتے دکھائی دیتے ہیں
—
"ذکر اس پری وِش کا اور پھر بیان اپنا
..
بن گیا رقیب آخر جو تھا رازداں اپنا "
—-
تصوف کے کئی مضامین غالب کے کلام میں ملتے ہیں۔
—–
"جب تجھ بن نہیں کوئی موجود
…
پھر یہ ہنگامہ، اے خدا کیا ہے "
—-
اور یہ جب کلام کا حصہ بنتے ہیں توان میں بھی عقلیت اور معنویت کار فر ما ملتی ہے۔
——–
” نہ تھا کچھ تو خدا تھا،کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
…..
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا "
——
مذہب کا تقدس درست مگر کیا کئجئے غالب شاعر بھی تو ہیں سخن کے بے تاج بادشاہ بھئ تو ہیں کہیں صداۓ۔ دل بلند بھی ہو سکتی ہے۔
——-
"کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
….
بندگی میں بھی مرا بھلا نہ ہوا”
——
غالب کے نامساعد حالات، مالی تنگی، اولاد کی پہ در پہ وفات نے شکوہ ان کے شعروں کا حصہ بنا یا ہر شاعر اپنے حالا ت کی پیدا وار ہو تا ہے۔ شعر کی آمد کیا ہے۔ خیالات اور سوچ کی زبان۔ خیالا ت خود بخود بحر میں ڈھل کر، الفاظ میں سجکر صفحہ۔ قر طاس پر بکھر نے لگتے ہیں تو غزل ہو جاتی ہے۔ شعوری کوشیش شعر نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ہمشہ’ بے وزن ‘، بے رنگ اور بے بو ہو تی ہے۔
—-
"زندگی اپنی جو اس شکل سے گزری غالب
……
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے "
—
ہر شاعر وقت اور حا لات پر اظہار شعر کےپیراۓ میں کر تا ہے۔
غالب کی شاعری کا تیسرا دور سادہ بیانی کا دور ہے۔ تشبیہات اور استعارے کم سے کم برتے۔ نظریہ۔ حیات اور نفسیات۔انسانی کو سیدھے سادے پُر کار انداز میں پیش کیا ہے۔ اسلوب۔ بیان میں بے حد تازگی ہے۔ مضامین وہ ہیں جو بنی نوع انسانکے ساتھ روز۔ ازل سے وابستہ ہیں اور آباد تک رہیں گے۔
—————–
"
"دائم پڑا رہوں ترے در پر نہیں ہوں میں
………..
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں "
——–
غالب غزل کے شاعر ہیں۔ اور غزل واردات۔ عشق کی روداد ہے۔ درد ِدل کی حکایت ہے۔
غالب کی عشقیہ شاعری زندگی سے بھر پور ہے۔ یہ زندگی آمیز بھی ہے اور زندگی آموز بھی۔ یہ زندگی سے بیزاری نہیں سکھاتی بلکہ زندگی بسر کر نے کا سلیقہ سکھا تی ہے۔ اس میں جذبات کی بہت اہمیت ہے لیکن یہ تمام تر جذباتی نہیں اس میںروایت کے اثرات بھی ہیں لیکن روایتی ہونے سے اس ا تعلق نہیں۔ اس میں فرد کی انفرادی کیفیات کی ترجمانی ہے لیکن اسکا سماجی پس ِمنظر بھی ہے۔ یہ اپنے زمانے کی پیداوار ہے۔ اس میں بہت صاف ستھری فضاہے۔ یہ بڑی شفاف ہے جیسےکوثر و تسنیم سے دھل کے نکلی ہو۔ یہ دلوں میں شمعیں سی فروزاں کرتی چلی جاتی ہے۔ اس میں فلسفیانہ زاویہ نظر کی جھلک ہے لیکن مفکرانہ آہنگ بھی ہے۔ اس میں پیچ و خم ہیں، نشیب و فراز ہیں۔ یہ خاصی پہلو دار ہے۔ذہنی الجھنوں نے اس کاراستہ نہیں روکا۔ اسکی صورت مسخ نہیں کی۔اس کے غم کی بنیاد زندگی کو حسین دیکھنے کی تمناہے۔
غالب کی شخصیت میں انسانیت اور خود پسندی کا رنگ بہت نمایاں تھا۔
————————
"وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں ؟
…..
سبک سر بن کے کیوں پو چھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو "
————
مشکل پسندی غالب کے مزاج کا غالب رجحان ہے۔ غالب کو غالب بنایا بھی اسی ادا نے ہے۔ میرزا نے جس پُر آشوب دور میں آنکھ کھولی وہاں ماحول حقیقت پسندی سے فر ار کا متقاضی تھا۔غالب بھی اگر عام فرد ہوتے تو مفاہمت کی راہ اختیار کر لیتےلیکن انہوں نے مشکلات کو آواز دی۔
انکی مشکل پسندی کی ایک وجہ موروثی روایات بھی تھیں۔ میر زا کے آباء اجداد ایبک قوم کے ترک تھے۔ انکا سلسلہ نسب "تو رابن فریدوں ” تک پہنچتا ہے۔ لڑنا سلجوقی ترکوں کا پیشہ تھا۔ میرزا غالب کا عہد آیا تو رزم کا میدان مشاعرے میں تبدیلہو چکا تھا۔ میرزا کو شاعری سے کہیں زیادہ آباء اجداد کی سپہ گری پر ناز تھا۔
———–
"سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری
…………
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے "
————————-
میرزا کی زندگی پر نظر ڈالئیے تو ایک ٹیڑ ھی لکیر نظر آتی ہے۔ انہوں نے آلات و مصائب کا مقابلہ جوانمر دی سے کیا۔
انکے لیے درد ہی دوا بن گیا۔ غالب زندگی کی ہموار دائرہ کو چھوڑ کر پیچیدہ پگڈنڈی پر چلنے کے عادی تھے اور یہ ہی انداز شاعری میں بھی اپنایا۔ اور پھر کمال یہ دکھایا کہ مشکل گوئی سے سادہ بیانی کی طرف ہجرت کی۔ "سہل ممتنع” کا اندازاپنایا۔
——————-
"جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
…..
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی "
————
غالب کی شاعری کی ایک انفرادیت ان کا استفہامیہ لہجہ بھی ہے۔ استفہام سے شاعری کو نیا رنگ بخشا۔
———–
"دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
…
آخر اس درد کی دوا کیا ہے”
————-
اکثر اشعار میں استفہام کو انکاری رنگ بھی دیا۔
————
"موت کا ایک دن معین ہے
….
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بہت سہی غم۔ گیتی، شراب کیا کم ہے
……
غلام ساقی۔ کوثر ہوں، مجھ کو کیا غم ہے "
——————————-
غالب کی شخصیت نہایت رنگین پُر کار اور پہلو دار ہے۔ غالب کے مزاج کی شوخی کلام پر بھی اثر انداز ہوئی۔ انکی ذہانت کا ایک مظہر حاضر جوابی بھی تھی۔ کلام میں بھی ظریفانہ عناصر پاۓ جاتے ہیں۔
———–
"پو چھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
…
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا”
—————————
آج سارا عالم جانتا ہے کہ غالب کون ہے !
تبصرے بند ہیں۔