کووڈ -19 کے دوران ماں کا دودھ پلانا
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ماں کا دودھ بچوں کے لئے نعمت ہے۔ اس میں بہت سے غذائی اجزاء، وٹامنز اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے ہارمونز ہوتے ہیں جو بازار میں بننے والے کسی دودھ یا فارمولے میں نہیں مل سکتے۔ یہ بچے کو بچپن میں ہونے والی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں بچے کے لئے غذائیت سے بھر پور کھانا ہوتا ہے۔ ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس لئے ہر بچے کو پیدائش کے پہلے گھنٹے سے ہی ماں کا دودھ پلانے اور چھ ماہ تک صرف ماں کا دودھ اس کی خوراک ہو یہ صلاح دی جاتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے کی دماغی و جسمانی نشوونما کی رفتار بوتل یا ڈبہ بند فارمولا دودھ پینے والے بچوں کے مقابلہ زیادہ تیز ہوتی ہے۔ یہ بچوں کی بقاء، اچھی صحت اور بہتر زندگی کی ضمانت ہے۔ اس کے باوجود نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5، 2019 – 2021 کے مطابق بھارت میں، پیدائش کے پہلے گھنٹہ کے اندر صرف 42 فیصد بچوں کو ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے، اور زندگی کے پہلے چھ ماہ میں صرف 64 فیصد کو۔
ماں کے پہلے گاڑھے پیلے دودھ کو کولسٹرم کہتے ہیں۔ اس میں غذائیت کے ساتھ اینٹی باڈیز پائی جاتی ہے جو ٹیکے کا کام کرتی ہے۔ اس سے بچے کو قوت مدافعت فراہم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دست، ڈائریا، عدم غذائیت اور دوسرے انفیکشن سے محفوظ رہتے ہیں۔ عدم غذائیت کا شکار ہونے سے شیرخواری میں موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے کسی بھی بچے کو ماں کے دودھ سے محروم نہیں ہونا چاہئے، خاص طور پر کم وزن، کمزور اور سیزرین ڈیلیوری سے پیدا ہوئے بچوں کو۔ بہت سے ممالک میں ہونے والی تحقیق اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ دودھ پلانے کے دوران ماں کا دلار، پیار بچے کے حس اور جذباتی اعصابی نظام کو تقویت دیتا ہے۔ رضاعت اور علمی نشوونما کے درمیان ایک ربط ہے، بشمول یادداشت، زبان کی اعلیٰ مہارت اور ذہانت۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جو بچے 12 یا اس سے زیادہ مہینوں تک ماں کا دودھ پیتے ہیں وہ آئی قیو (سمجھ اور تعلیم) اور آمدنی میں تین اعداد سے آگے ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں دو سال دودھ پلانے کا حکم دیا ہے۔ مگر افسوس ہر بچے کو ماں کا دودھ نہیں ملتا۔ جبکہ یہ اس کا حق ہے اور قدرت نے پیدائش کے ساتھ ہی اس کی غذا ماں کے پستان میں مہیا کر دی ہے۔ قدرتی غذا ہونے کی وجہ سے یہ ہر طرح کی کثافت، انفیکشن سے پاک اور صحت مند ہوتا ہے۔
بچے کی پیدائش کے بعد دودھ پلانا ماؤں کو بریسٹ کینسر، رحم کے کینسر اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ کم کرتا ہے۔ یہ بچے کی پیدائش کے فاصلے کو بنائے رکھتا ہے۔ بچپن کے موٹاپے کو روکتا ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 کے اعداد وشمار کے مطابق بہار میں پہلے چھ ماہ تک ماں کے دودھ پر رہنے والے بچوں کا فیصد 55.9 ہے تاہم پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے میں ماں کا دودھ حاصل کرنے والے بچوں کی شرح 31.1 فیصد ہے جبکہ این ایچ ایف ایس 4 میں یہ شرح 34.9 فیصد تھی۔ یہ تشویش کی بات ہے کیونکہ ادارہ جاتی پیدائش 76.2 فیصد کے پیش نظر پہلے گھنٹے میں بچے کو ماں کا دودھ پلانا آسان ہونا چاہئے تھا۔ اس کے مقابلے جھارکھنڈ میں چھ ماہ سے کم عمر کے بچوں میں دودھ پلانے کی شرح میں بہتری آئی ہے۔ فیملی ہیلتھ سروے 4 میں یہ 65 فیصد تھی جو بڑھ کر 76 فیصد ہو گئی ہے۔ ادارہ جاتی پیدائش میں بھی اضافہ ہوا ہے 15 – 2016 میں 62 فیصد تھی وہ اب 76 فیصد ہے۔ چار میں سے تین بچے اسپتال میں پیدا ہوتے ہیں لیکن پانچ میں سے صرف ایک بچے کو پیدائش کے پہلے گھنٹے کے اندر دودھ مل پاتا ہے۔ البتہ عدم غذائیت میں 12 فیصد اور بونے پن میں 22 فیصد کی کمی آئی ہے۔ تمام ریاستوں کی حالت یکساں نہیں ہے مگر صورتحال میں تبدیلی آرہی ہے۔ حالانکہ کچھ علاقوں میں ابھی بھی کام ہونا باقی ہے۔
ماں کی جلد سے مسلسل بچے کی جلد ملے رہنا ضروری ہے۔ اس سے بچے کو گرمی ملتی ہے اور ماں میں آکسی ٹوسن کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس سے دودھ کی پیداوار میں مدد ملتی ہے۔ شروع میں بچے کو دن میں 8 سے 12 مرتبہ دودھ پلانا ہوتا ہے۔ اس لئے رضاعت کے دوران ماں کی صحت کا خیال رکھنے، غذائیت سے بھرپور خوراک مہیا کرنے، آرام اور خاندان کی جذباتی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں کی غذا کا اثر اس کے دودھ کے معیار پر پڑتا ہے۔ پہلی مرتبہ ماں بننے والی دوشیزہ نو عمر ہوتی ہیں۔ ان میں بہت زیادہ پریشانی، خوف، بریسٹ فیڈنگ کے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ انہیں دودھ پلانے کے لئے جذباتی طور پر تیار کرنے کے ساتھ صحیح طریقہ بھی سکھانا چاہئے۔ بریسٹ فیڈنگ ایک ماں کے ذریعہ خود کو، اپنے بچے کو اور دنیا کو دیا جانے والا سب سے بہتر تحفہ ہے۔ اس کا موازنہ بچوں کو دی جانے والی کسی بھی سہولت یا تحفہ سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ انمول ہے۔
چھ ماہ کے بعد ماں کے دودھ کی تکمیل کے لئے نیم ٹھوس یا ٹھوس خوراک ضروری ہوتی ہے۔ بھارت میں 6 سے 8 ماہ کے درمیان صرف 46 فیصد بچوں کو ماں کے دودھ کے علاوہ نیم ٹھوس یا ٹھوس غذا دی جاتی ہے۔ ہر سال لاکھوں بچے ابتداء میں دودھ پلانے کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ دو سال یا اس سے زیادہ عمر تک لگاتار دودھ پلانے سے انفیکشن کے خلاف ایک مضبوط اور طاقتور کوچ تیار ہوتا ہے۔ جو آئندہ بچے کی زندگی کی حفاظت کرتا ہے۔ کووڈ -19 کے دوران اکثر پوچھا گیا کہ کیا اس وبائی مرض کے دوران بچے کو ماں کا دودھ پلانا جاری رکھنا چاہئے؟ ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کے ماہرین نے دستاویز جاری کرکے ان تمام سوالات کا جواب دیا ہے۔ اس کے مطابق کووڈ -19 کے دوران بھی ماں کا دودھ پلانا جاری رکھنا چاہئے۔ ماں کے دودھ میں کووڈ -19 کے انفیکشن کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔ اگر ماں کووڈ -19 سے متاثر ہے یا متاثر ہونے کا شبہ ہے تب بھی دودھ پلانے کی کووڈ -19 پروٹوکول کو اپناتے ہوئے صلاح دی گئی ہے۔ مثلاً دودھ پلاتے وقت ماسک لگائیں، صابن سے ہاتھ دھو کر بچے کو چھوئیں۔ اگر ماں اتنی بیمار ہے کہ وہ بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی۔ تو دیکھ بھال کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ماں کا دودھ کسی صاف کٹوری میں نکالے اور صاف چمچ سے بچے کو پلائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بیماری کی وجہ سے بچے کی ضرورت کے مطابق بچے کو ماں کا دودھ نہ ملے۔ ایسی صورت میں ڈونر دودھ کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی کسی دوسری عورت کا ڈونیٹ کیا ہوا دودھ بچے کو پلایا جا سکتا ہے۔
حکومت ہند نے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے اصول و ضوابط بنائے ہوئے ہیں۔ کام کی جگہ پر دودھ پلانے کے لئے کمرہ مخصوص کرنے، چھٹی دینے اور بوتل، ڈبہ بند فارمولہ دودھ پر پابندی کے لئے انفینٹ فوڈ ریگولیشن ایکٹ (آئی ایم ایس) بنایا ہوا ہے۔ یہ قانون بوتل، فارمولہ دودھ کو فروغ دینے سے منع کرتا ہے۔ زچہ بچہ وارڈ، اسپتال میں ڈبہ بند فارمولہ دودھ کے اشتہار لگانے، پرچے بانٹنے پر پابندی ہے۔ مگر کمپنیاں ڈاکٹروں و صحت کارکنوں کو ان سینٹو، تفریح کے کوپن، نقدی کی شکل میں انعام کے ذریعہ اپنے پروڈکٹ کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ سماج کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ماں کے دودھ کی اہمیت کو سمجھنے اور اسے فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عالمی سطح پر ہر سال یکم اگست سے 7 اگست رضاعت ہفتہ منایا جاتا ہے۔ اس دوران مختلف پروگراموں کے ذریعہ بریسٹ فیڈنگ کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کر بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کتنی ہی مفید مہم ہو یا حکومت کی کوشش عوام کی شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسا ماحول بنائیں کہ کوئی ماں اپنے بچے کو بریسٹ فیڈنگ کرانے میں نہ سرمائے۔ تبھی بچوں اور ملک کے مستقبل کے روش ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
تبصرے بند ہیں۔