یہ بستی عذابوں کی

مبصر : معراج دین شیخ

(ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، کشمیر یونیورسٹی سرینگر)

نام کتاب : یہ بستی عذابوں کی (افسانوی مجموعہ )

مصنف : منصور احمد منصورؔ

ناشر:   میر پبلی کیشنز بانڈی پورہ، کشمیر

سن اشاعت : 2009

قیمت: 200 روپے

صفحات : 112

کشمیر کے  ادبی منظرنامہ  پر جن تخلیق کاروں نے قلیل وقت میں قارئین کے حلقے میں  اپنی   مستحکم پہچان  بنائی ان میں    منصور احمد منصور  ؔ کا نام سرفہرست ہیں۔ منصور ؔ  محقق  وناقد  ہونے کے علاوہ ایک  جنون تخلیق کار  بھی ہے۔ آپ   انشائیہ اور افسانہ نگار ہیں۔ آپ کے افسانے تخلیقی رچاؤ سے بھرپور  شاہکار کا درجہ   رکھتے ہیں ۔  منصورؔ نے کم لکھا ہے لیکن جو بھی مرقوم کیا ہے وہ  سراسر انتخاب ہے۔ زیر تبصرہ افسانوی مجموعہ ” یہ بستی عذابوں کی ” 2009ء میں منظر عام پر آیا ہے    جس میں 18 افسانے  شامل ہیں۔ یہ افسانے ہئیت  و تکنیک کے نئے   تجربوں سے معمور و مزین ہیں۔جن میں افسانے کی روایتی شعریات سے انحراف کی کامیاب  کاوش دیکھنے کو ملتی ہے۔ شاید یہیں وجہ ہے کہ ہمارے ناقدین اس کی صنفی اختصاص قائم کرنے میں کسی حد تک تامل کے شکار ہوئے ہیں۔ "یہ بستی عذابوں کی” میں شامل افسانے منصورؔ  کے دھڑکتے دل کے نالے، انسانیت کو کچل دینے والے استعماری قوتوں کے خلاف احتجاج  اور استحصال زدہ محکومین کے ساتھ ان کی ہمدردری کا  پتا دیتے ہیں۔ یہ پورا افسانوی مجموعہ فکرو فن کی سطح پرتخلیق  کار  کی خلاقانہ صلاحیتوں پر  دال ہے۔ان افسانوں کی خمیر اپنی ثقافت سے تیار ہوئی ہے جو مابعد جدید تفہیمِ  ادب کی رو سے  بنیادی تسلیم شدہ  حقیقت ہے لہذا منصور کے افسانوں کے بین السطور ہمیں  ان کی سر زمین اور سماج کی حالات سے روشناس کراتے ہیں۔ قارئین  کی قرات سے واقعی ‘یہ بستی عذابوں کی ‘پر مہر ثبت ہوتی ہے  اور ایک ایسی مظلوم  خط ارض کی تصویر آنکھوں میں ابھرتی ہے جہاں مسخ شدہ چہروں  اور گمنام تصاویر ہر دم ذہن و دل پر دستک دیتے ہیں۔ افسانہ نگار نے انتساب میں  پوری کہانی کھولی ہے:

” ان اذیت ناک لمحوں کے نام جو کشمیریوں کی تقدیر بنے”

جس  کے ساتھ میرؔ کا یہ شعر کہانی  کے مختلف ابعاد کو واضح کرتا ہے کہ: 

کھودیں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں

تم بھی تو ایک رات سنو یہ  کہانیاں

مشہور نقاد پروفیسر حامدی کاشمیری اس مجموعے کے حوالے سے رقمطراز ہیں :

” گذشتہ نصف صدی سے ان کے ہم وطنوں کو آگ اور خون کے جس سیلاب سے گزرنا پڑا، اسے لسانی صورت عطا کرنے کے لیے انہیں یہی اسلوب اختیار کرنے کے سوا چارہ نہ تھا "

(بحوالہ: امکان در امکان سفر کی توسیع،  یہ بستی عذابوں، صفحہ نمبر6)

مجموعے کی ہر کہانی کی تخلیق مغموم فضا کو ابھارتی ہے جہاں مظلوموں  کے آہ و فغاں سے چیخ و پکار تک چشم نم ہوتی ہے۔ تما م   افسانے ایک ہی موضوع کے اردگرد طواف کرتے ہیں  اور  قارئین پر ایک خاص کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ دل سے خلش اٹھتی جو پورے وجود کو لرزا کے رکھتی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا معاصر ترقی یافتہ اور جمہوری دنیا میں بھی زندگی کا ایسا طَور ہوسکتاہے ؟افسانوں کا   ایک ایک لفظ مسلتی، کچلتی، سسکتی، مٹتی اور لٹتی انسانیت کا نوحہ بن جاتا ہے۔ ان افسانوں میں ڈر، خوف، ظلم اور جبر  سے  زندگی دم توڑتی نظر آتی ہے۔ غرض منصورؔ کا یہ افسانوی مجموعہ مظلومیت کاگھمبیر نقشہ ابھارتا ہے۔ پروفیسر ظہور الدین کے الفاظ میں :

” منصور نے اس عذاب کی بڑی موثر تصویریں ان افسانوں میں پیش کی ہیں جنہیں دیکھ کر قاری کے ذہن و دل پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے.”(بحوالہ: درد کے آئینے، یہ بستی عذابوں کی، صفحہ نمبر12)

افسانوی مجموعہ کا پہلا افسانہ  ‘ خواب، خاک  اور خون ‘ ہے۔ افسانے کا  مظلوم ہیرو آزادؔ اپنے وعدے ‘ا ب تمہیں مہندی لگانے آؤں گا ‘ کے بدلے مسخ شدہ صورت میں درخت پر لٹکتا ہوا نظر آتا ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے والی رات میں خاک اور خون سے  لتھڑی لاشیں بستی والوں کا مقدر بن چکی ہے۔ جو آزاد جہاں کے خواب میں شب غم گزار رہے ہیں۔ ‘سیاہ سایے ‘نامی کہانی خودکلامی سے شروع  ہوتے ہوئے  ایک علامتی منظرنامہ کھول دیتی ہے۔ جس  میں کردار کو خود سے پوچھنا پڑتا ہے کہ کیا  میں ابھی زندہ ہوں ؟۔ سیاہ سایے دراصل وہ بھیانک ظلمات کے پہریں ہیں جو ازل سے اس بستی کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور یہاں کے مکینوں کو دہائیوں سے مختلف طریقوں سے ستا رہے ہیں۔ پرچھائیں افسانہ میں ماضی سے حال تک کی روداد بڑی موثر  طریقے سے پیش کی گئی ہے کہ کس طرح  اس مظلوم خط ارضی میں روشنیاں گل ہو کر اندھیرا پھیل گیا۔ افسانہ ‘خواب اور تقدیر’ کا نفس مضمون قران کی سورۃ التکویر     سے ماخوز ہے جس میں قیامت بپا ہونے کی علامات بیان کی گئی ہے۔ یہاں افسانہ نگار یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں قیامت کب کی بھرپا ہوئی ہے جس نے یہاں ہر چیز کا نقشہ بگاڑ کے رکھا ہے۔ہر طرف لوٹ مار، عصمت ریزیاں اور آتش زدگیوں کے ساتھ قتل و خون کا بازار گرم ہے۔ مجموعہ کی پانچویں کہانی ‘ ملبے سے برآمد خزانہ’ میں خزاں رسیدہ موسم کا ذکر ملتا ہےجس نے لوگوں کو  بالکل منجمد کر ڈالاہے اور وہ کچھ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔یہ  اقتباس ملاحظ کیجئے :

” میرا مکان بھی بھک سے اڑ جائے گا، ملبہ کا ڈھیر ہوگا اور میری گلی سڑی لاش ہوگی۔

ناقابل شناخت لاشیں

گمنام قبرستان۔

گم شدہ لوگ۔

بے نشان قبریں۔

سرزمین بے آئین۔

رحم بارالہٰا۔

باہر سخت کرفیو ہے!                                           "

افسانہ یہ بستی عذابوں کی میں افسانہ نگار ایک خواب کی مانند بستی کے شاندار ماضی سے لے کر حال کے اندھناک حالات و واقعات کا تذکرہ ایک راوی کی صورت  میں بیان کرتے ہیں۔  افسانے کا راوی  کردار خود سے سوالی ہے کہ موج خون مجھے بہا کر کہاں لے آئی۔ افسانہ پڑھتے ہی پروفیسر محمد زماں آزردہ کے یہ الفاظ ذہن پر دستک دیتے ہیں :

” مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ کیا نثر میں مرثیہ ہوسکتا ہے ؟ یا کسی عہد کا مرثیہ ہوسکتا ہے؟ یا یہ کہ کسی تحریک کا مرثیہ ہو سکتا ہے ؟ یا  یہ کہ حقوق انسانی کی پامالی کا مرثیہ ہو سکتا ہے اور ایسے بیسوں سوالوں کے جواب میں، میں ڈاکٹر منصور کا یہ مجموعہ پیش کر کے خاموشی اختیار کرسکتا ہوں۔ " (مرثیہ منصور، یہ بستی عذابوں کی، صفحہ  نمبر 8)

سرابوں میں بھنور میں  افسانہ نگار ہمیں نئے تجربے سے آشنا کرتے ہیں۔ سہیل، وسیم، اشفاق، وقار، مدثر، اور مظفر کے عکس میں نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد میں انتشار سے یہ افسانہ  المیہ و طنزیہ تناظرات کو کھولتا ہے۔ اگرچہ وسیم کے کردار میں چند اپنے  محاذ پر ڈٹے بھی رہے لیکن وہ بھی بکھرنے کی سوچ میں گھاٹی کو پار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بیوہ کی پُر درد زندگی کی عکاسی کرتا ہوا ‘بے خواب کواڑ’ افسانہ خوشیوں کے موسم میں غم کی کھائیوں کو کھودتا ہے۔ یہاں یتیم منے کو ماں عید  کےروز  لطیف کی یاد میں اپنےآنسوں سے نہلاتی ہے۔ ‘گدھے کی سرگزشت’، ‘اک دھوپ جو ساتھ گئی آفتاب کے’ اور’ خوابوں کے مقتل’ میں بھی بستی کی بے آسرا زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان افسانوں میں  جہاں  کھوئیں ہوؤں کی جستجو ملتی ہے وہی   لہلہاتی فصل کو راکھ میں تبدیل ہونے پر گریہ و زاری بھی سننے کو  ملتی ہے۔ ‘خواب جاگتے ہیں’  میں لالہ کا کردار ہمیں کسی حد تک ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بشن سنگھ کی یاد دلاتا ہے۔ دونوں کی اپنے جڑوں اور زمین سے محبت   لازوال ہے۔ ایک الگ نہیں ہونا چاہتا ہے اور لالہ منوں مٹی کے نیچے بھی اپنوں کے لیے خوابیدہ ہے۔ افسانہ’ قصہ حیرت آباد کا ‘ میں انسانی  نفسیات کی گرہ  کشائی ملتی ہے۔ اس میں آمنا ثم کفرنا ثم آمنا والی روش پر گہرا طنز کیا گیا ہے کہ دورُخے کہی کے نہیں رہتے ہیں۔ آخری افسانہ  ‘سند باد کی ڈائری کے چند اوراق ‘  اپنی نوعیت کا مختلف افسانہ ہے جس میں تخلیق کار نے اپنی ڈائری کے سات اوراق کے ذریعے ہمیں  شہر کی داستان سنائی  ہے۔ سند باد کا  عجیب و غریب شہر جو بازیگروں، شعدہ بازوں اور جادوگروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں لوگ مرغوں کی صورت میں سر جھکا کر آرام کرتے ہوئےہوائی قلعے تعمیر کرتے ہیں۔ اس افسانے کی خاص بات یہ ہے کہ اس  میں معدوم امید جاگتی ہے اور پوری مغموم فضا میں ایک  روشنی کی کرن نظر آتی  ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ اس شہر ملال میں پھر سے وہ چہل پہل ہوا کرے گی جو اس شہر کا کبھی  خاصہ رہا ہے۔

مختصراً منصور احمد منصورؔ کا یہ افسانوی مجموعہ اردو افسانے کی روایت میں نئے تجربے کا درجہ رکھتا ہے۔ فکر و فن کے حسین امتزاج سے یہ افسانوی ادب میں بیش بہا  اضافہ ہے جس  میں مزاحمت کی آواز متحرک نظر آتی ہے۔ یہ افسانے علامتی تناظر میں دنیا کے محکومین کی زندگی کے مختلف ابعاد کو  پیش کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ افسانہ نگار کے اسلوب بیان نے  اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا ہے۔

 

تبصرے بند ہیں۔