کیا روزے کا مقصد جسم کوتکلیف پہنچانا ہے؟
مقبول احمد سلفی
ایک بھائی نے سوال کیا کہ کیا اے سی میں رہتے ہوئے روزہ رکھنے سے روزہ میں کوئی خلل تو نہیں ہوتا کیونکہ اس میں بھوک وپیاس کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے۔ دراصل یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ روزہ کو جسمانی تکلیف کا سبب سمجھتے ہیں بلکہ رمضان میں بعض واعظین بھی بیان کرتے رہتے ہیں کہ روزہ کے ذریعہ خود کو اس قدر تھکاوکہ تمہیں محتاجوں اور ضرورت مندوں کی یاد آجائے۔ اور کچھ لوگ عبادت میں دنیاوی سہولت سے فائدہ اٹھانا بھی مضر عبادت سمجھتے ہیں جیسے گرم پانی سے وضو، قالین پر نماز اور اے سی میں روزہ وغیرہ۔
اس بھائی کے سوال کی وجہ سے میں نے سوچا کہ اس بارے میں تفصیل اور دلائل سے عام لوگو ں کو آگاہ کروں کہ روزہ کا مقصد جسم کو تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ تقوی کا حصول ہے جس سے جسم و روح دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک طرف خود کو تکلیف پہنچانے سے روکتاہےتودوسری طرف جسم کو اذیت و ضرر لاحق ہونے والے عمل سے منع ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ(البقرة: 195)
ترجمہ:اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
اسلام جسم اور اس کے مکمل اعضاء کی حفاظت کرنے اور ان کے حقوق اداکرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جسم کو تکلیف اور ضرر لاحق نہ ہو یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو جو روزانہ روزہ رکھتے تھے روزانہ رکھنے سے منع کیا۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يا عَبْدَ اللَّهِ، ألَمْ أُخْبَرْ أنَّكَ تَصُومُ النَّهارَ وتَقُومُ اللَّيْلَ؟ قُلتُ: بَلَى يا رَسولَ اللَّهِ، قالَ: فلا تَفْعَلْ، صُمْ وأَفْطِرْ، وقُمْ ونَمْ، فإنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وإنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وإنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.(صحیح البخاری :519)
ترجمہ: اے عبداللہ! کیا میری یہ اطلاع صحیح ہے کہ تم (روزانہ) دن میں روزے رکھتے ہو اور رات بھر عبادت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، روزے بھی رکھو اور بغیر روزے بھی رہو۔ رات میں عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔
بہت زیادہ کھانا بھی باعث ضرر اور مضر صحت ہے، آج بڑی تعداد میں لوگ زیادہ اور مختلف قسم کی غذا کھاکر بیمار ہورہے ہیں اور مربھی ر ہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ کھانے سے بھی منع فرمایا ہے تاکہ جسم کانظام درست اور بیماری سے محفوظ رہے۔ مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:ما ملأَ آدميٌّ وعاءً شرًّا مِن بطنٍ، بحسبِ ابنِ آدمَ أُكُلاتٌ يُقمنَ صُلبَهُ، فإن كانَ لا محالةَ فثُلثٌ لطعامِهِ وثُلثٌ لشرابِهِ وثُلثٌ لنفَسِهِ(صحيح الترمذي:2380)
ترجمہ:کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے۔
مذکورہ بنیادی باتوں کو سامنے رکھنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہیں دیا ہے جس سے جسم کو تکلیف پہنچتا ہے بلکہ اسلام جسم کی حفاظت کرنےکا حکم دیتا ہے اور اس کو ضرر پہنچانے سے منع کرتا ہے۔ روزہ بھی جسم کو تکلیف دینے کا سبب نہیں ہے، یہ متنوع فوائد پر مشتمل تقلیل غذا کا ایک بہترین نظام ہے۔ عام دنوں میں دوکھانوں میں جو وقفہ ہوا کرتا ہے یہاں اس کا دورانیہ کچھ زیادہ ہے۔ ساتھ ہی یہ روح کی غذا ہے اس سے نفس ودل کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے جس کے اچھے اثرات انسانی جسم و کردار پر مرتب ہوتےہیں، گویا روزہ سے جسم کو تکلیف پہنچنے کی بجائے وہ روح کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ پورے اعضائے بدن کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ایک روزہ دار اس قدر بااخلاق ہوتا ہے کہ نہ اس کی آنکھ سے خطا ہوتی ہے، نہ دل سے برا سوچتا ہے اور نہ ہی ہاتھ وپیر اور زبان سے تکلیف وضرر کا کام کرتا ہے۔
روزہ کی حکمت ومصلحت پر غور کرنے سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ روزہ خود کو اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے رکھاجاتا ہے نہ کہ شریعت میں اس سے مقصود تعذیب جسم ہے جیساکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ صوفیاء کے یہاں بھی تعذیب جسم عبادت شمار کی جاتی ہے اس لئے وہ رہبانیت اختیار کرتے اور جسم کو تکلیف پہنچانے والی عبادت کرتے مگر یہاں آپ کو معلوم ہو کہ اسلام میں نہ رہبانیت ہے اور نہ ہی عبادت کے ذریعہ جسم کو تکلیف پہنچانا ہے۔اوپر صحیح بخاری کی حدیث گزر چکی ہے جس میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو روزانہ دن میں روزہ رکھنے اور رات رات عبادت کرنے سے منع کیا تاکہ جسم کو تکلیف سے بچایا جائے۔
اللہ تعالی قرآن میں روزہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:183)
ترجمہ:اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
یہاں اللہ تعالی روزہ کی فرضیت کا مقصد تقوی بتایا رہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقوی کے بارے میں بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
التَّقْوَى هاهُنا ويُشِيرُ إلى صَدْرِهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ(صحيح مسلم:2564) تقویٰ اور پرہیزگارییہاںہے اور آپصلیاللہعلیہ وسلم نےاپنےسینےکی طرف تینباراشارہکیایعنیتقویکا تعلق دل سےہےتاکہ جسمانی اعمال کےساتھ دل بھی صاف رہے۔
اگلی آیت میں اللہ روزہ کی آسانی کو ذکر کرتا ہے، اللہ فرماتا ہے :
أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚفَمَنكَانَمِنكُممَّرِيضًاأَوْعَلَىٰسَفَرٍفَعِدَّةٌمِّنْأَيَّامٍأُخَرَۚوَعَلَىالَّذِينَيُطِيقُونَهُفِدْيَةٌطَعَامُ مِسْكِينٍ ۖفَمَنتَطَوَّعَخَيْرًافَهُوَخَيْرٌلَّهُۚوَأَنتَصُومُواخَيْرٌلَّكُمْۖإِنكُنتُمْتَعْلَمُونَ (184)
ترجمہ: گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔
اللہ طاقت سے زیادہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا، اس لئے روزہ رحمت ہے نہ کہ زحمت۔ اس بات کی وضاحت مذکورہ آیت سے ہورہی ہے کہ اولا پورے سال روزہ فرض نہیں ہے بلکہ روزہ کے محض چند ایام مقررہیں۔ ثانیا جو عاقل و بالغ اور صحت مند و مقیم ہے اس پر روزہ فرض ہے۔ ثالثا جو عاقل نہیں، بالغ نہیں، صحت مند نہیں، مقیم نہیں اس پر روزہ فرض نہیں ہے۔ اس میں مزید کچھ تفصیل ہے۔
*غیرعاقل و غیربالغ پر روزہ سرے سے فرض ہی نہیں ہے تاہم تربیتی طور پربچے رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں۔
*بیمار، مسافر، حیضاء، نفساء، حاملہ اور مرضعہ کے لئے عذر کے سبب روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، بعد میں جب سہولت ہو تو چھوٹے روزوں کی قضا کرلیں۔اگلے رمضان تک کبھی بھی قضا دے سکتے ہیں جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہعنہا فرماتی ہیں :كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ(صحیح البخاری : 1950)
ترجمہ:مجھ پر رمضان کے روزے باقی رہتے اور میں قضا روزے شعبان سے پہلے نہ رکھ پاتی۔
*دائمی مریض اور سن رسیدہ لوگ جنہیں روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں ہے وہ ہرروزہ کےبدلے مسکین کو فدیہ اد کریں گے، انہیں قضا کی ضرورت نہیں۔
روزہ سے متعلق معذوروں کے احکام روزہ کی آسانی اور رحمت پر دلیل ہیں۔
اس آیت کے بعد خالق انس وجن نے خود ہی صاف صاف بتلادیا کہ روزہ کے بارے میں اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں، فرمان الہی ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚفَمَنشَهِدَمِنكُمُالشَّهْرَفَلْيَصُمْهُۖوَمَنكَانَمَرِيضًاأَوْعَلَىٰسَفَرٍفَعِدَّةٌمِّنْأَيَّامٍأُخَرَۗيُرِيدُاللَّهُبِكُمُالْيُسْرَوَلَايُرِيدُبِكُمُالْعُسْرَوَلِتُكْمِلُواالْعِدَّةَوَلِتُكَبِّرُوااللَّهَعَلَىٰمَاهَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (185)
ترجمہ: ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُسے روزہ رکھنا چاہے ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اُسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے اللہ تعالٰی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔
چونکہ روزہ کابنیادی مقصدتقوی کا حصو ل ہے بنایں سبب روزہ کی حالت میں خلاف تقوی کام ممنوع ہےحتی کہ کوئی اس سے لڑائی کرے یا گالی بھی دے تو وہ کچھ بھی نہ کرے، بس یہ کہہ دے میں روزے سے ہوں چنانچہابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ فلا يَرْفُثْ ولَا يَجْهلْ، وإنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ: إنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ وَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِن رِيحِ المِسْكِ. يَتْرُكُ طَعَامَهُ وشَرَابَهُ وشَهْوَتَهُ مِن أجْلِي الصِّيَامُ لِي، وأَنَا أجْزِي به والحَسَنَةُ بعَشْرِ أمْثَالِهَا(صحيح البخاري:1894)
ترجمہ: روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔
ذرا غور کریں کہ جو اسلام روزہ دار کو تکلیف دینے والوں سے کنارہ کشی کرنے کا حکم دے وہ جسم کو تکلیف پہنچانے والے کام کا کیسے حکم دے سکتا ہے ؟ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا کے لئے روزہ دار کھانے پینے کے ساتھ شہوتوں کو بھی چھوڑتا ہے اور دوسری حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روزہ شہوتوں کو ختم کا اہم ذریعہ ہے اس بناپر جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتے ان کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (حدیث دیکھیں بخاری :۵۰۶۵)ہاں یہ الگ بات ہے کہ تقلیل غذا یا غذاِئیہ وقفہ عام دنوں سے قدرے طویل ہونے کے سبب بھوک وپیاس کا احسا س ہوتا ہے مگر اس بھوک وپیاس سے صحت کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ اس سےباطنی بیماریاں کمزور ہوکر نفس کی پاکیزگی اور روح کا تزکیہ حاصل ہوتا ہے، اسی کا نام تقوی ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لئے روزہ فرض کیا گیا ہے۔
سحری (تاخیرسے)کھاکرروزہ رکھنے اور سورج غروب ہوتے ہی افطار کرنے کا مقصد بھی بندوں کے ساتھ آسانی ہے۔ اس کے علاوہ اوربھی روزوں کی آسانیاں ہیں۔ یہاں چند مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد روزہ باعث کلفت و مشقت نہیں، باعث رحمت وبرکت ہے۔
آخر میں یہ بات بھی معلوم رہے کہ شریعت نے پہلے سےروزہ دار وں کے لئے جو آسانیاں رکھی ہیں ان سے ہم فائدہ اٹھا ہی سکتے ہیں، ساتھ ساتھ موجودہ زمانے کی سہولیات جو احکام شریعت سے متصادم نہ ہوں ان سے بھی فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ شروع میں ذکر کیا گیا سوال کہ کیا اے سی میں رہنے سے روزہ میں خلل واقع ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ موجودہ زمانے کی ایسی سہولت ہے جس سے روزہ دار فائدہ اٹھائے تو روزہ میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ہے۔ اس موقع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل ذکر کرنا مفید ہوگا۔
عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺکے کسی صحابی نے بیان کیا :
لقد رأيتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ بالعرجِ يصبُّ علَى رأسِهِ الماءَ، وَهوَ صائمٌ منَ العطشِ، أو منَ الحرِّ (صحيح أبي داود:2365 )
میں نے مقام عرج میں رسول اللہ ﷺکو اپنے سر پر پیاس سے یا گرمی کی وجہ سے پانی ڈالتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺروزے سے تھے۔
اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ رمضان المبارک کی برکتوں اور سعادتوں سے ہمیں مالا مال فرما، روزہ کو سابقہ تمام سیئات کا کفارہ بنا اور تقوی کا اس طرح خوگربناکہ رمضان کے بعد بھی ہم تیری رضا کے کام کرتے رہیں۔ آمین
تبصرے بند ہیں۔