ننھا شجر

محمد صالح انصاری

ایک بار کی بات ہے ایک مالی نے باغبانی کے لیے کچھ چھوٹے چھوٹے شجر لگائے اس اُمید سے کہ آنے والا مہینہ برسات کا ہے اور یہ سارا باغ ہرا بھرا خوبصورت ہو جائے گا۔ بڑی محنت اور لگن سے کئی دن اور رات لگاکر اس نے باغ کو نئے پیڑوں سے سجا دیا۔

اب وہ ہر دن اس کو دیکھنے جاتا کوئی پیڑ اگر کچھ کمزور ہوتا تو اس پر مٹی ڈالتا اس سے کام نہیں چلتا تو کوئی مضبوط لکڑی کے سہارے اس کو کھڑا کرتا۔

ایک دن جب وہ باغ سے واپس ہوا تو آسمان چڑھ آیا، کالے بادلوں نے دوپہر کو شام بنا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تیز آندھیوں نے پورے شہر میں کہرام مچا دیا۔

کسی کے چھت پر کچھ رکھا تھا تو وہ اسکو سنبھالنے لگا کسی نے چھت پر لگی ٹین شیڈ کو ٹکانے اور مضبوتی دینے کی کوشش کی لیکن کسی کا کوئی بس نہیں چلا اور پل بھر کی آندھی نے شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔

باغبان اپنی جھوپڑی میں بیٹھ اپنی محنت پر پشیمان ہو رہا تھا کہ آج تو سب کیا دھرا برباد ہو گیا ساری محنت رائیگاں چلی گئی اور آنے والے موسم نے وقت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

تھوڑی دیر بعد جب آندھی رکی تو سب گھر سے باہر نکل نکل اپنی اپنی چیزوں کی خبر لینے لگے۔ بیچارہ باغبان بھی اپنے باغ کی طرف چل پڑا۔ اُمید کے مطابق سارے نئے شجر زمین دوش ہو چکے تھے۔ باغبان ایک ایک پیڑ کو دیکھتا جاتا اور جو لگتا کی یہ شجر پھر سے لگایا جا سکتا ہے اس کو لکڑی کی مدد سے مضبوطی کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کرتا۔ ي کام کرتے کرتے شام ہو گئی اور اب وہ جانے کی تیاری میں تھا کہ اچانک اُسکی نظر دور ایک بڑے پیڑ جو گر چکا تھا اس پر پڑی۔ اور اس کے پاس ایک چھوٹا ننھا سا شجر نظر آیا جو اس شدید آندھی اور طوفان کو برداشت کر ابھی بھی اپنی جوانمردی کی عبارت رقم کر رہا تھا

باغبان حیران تھا کی جب بڑے بڑے شورما اس طوفان میں خود کو نہیں بچا سکے تو یہ کس کھیت کی مولی تھا جو ابھی بھی کھڑا ہے۔

باغبان اُس کے پاس گیا اور جاننے کی کوشش کی کہ آخر وجہ کیا ہے جو یہ اس شدید طوفان کو برداشت کر سکا۔ پاس پہنچ کر باغبان نے سوال کیا کہ

کیا وجہ تھی جو اس طوفان میں بھی تم جوان مردی کے طرح کھڑے سب کو منہ چڑھا رہے ہو۔

اس بات پر معصوم ننھا شجر پہلے شرمایا اور پھر بولا

جس وقت آندھی چل تھی اور طوفان کا قہر جاری تھا اس وقت ہمارے سامنے گرا پڑا یہ بڑا درخت کھڑا تھا اور چلنے والے آندھی کو روک لیتا تھا جسکی وجہ سے مجھ پر آندھیوں کا اثر زیادہ نہیں ہوا۔

باغبان نے سوال کیا کہ جھوٹ بولتا ہے نالائق

جو خود گرا پڑا ہے وہ کیسے تم کو محفوظ رکھے گا

تب ننھے سجر نے کہا کہ مالک یہ درخت سب پیڑوں کی طرح چھوٹا نہیں ہے جو آندھی آتے ہی گر گیا تھا۔ یہ بڑا درخت ہے اور اس نے آخری وقت تک آندھی کا مقابلہ کیا اور مجھے بچائے رکھا لیکن جب آخری بار آندھی کا تیز جھوکہ آیا تو یہ خود کو سنبھال نہیں سکا اور زمین پر جھک گیا۔

یہی وجہ ہے کی اس تیز آندھی میں میں حفاظت سے ہوں جبکہ باغ کے سارے شجر زمین دوش ہو چکے ہیں۔ میری حفاظت کرنے میں مجھے کھڑا رکھنے میں اس بڑے درخت کا بڑا کردار ہے جو گر کر بھی میری حفاظت کرتا رہا اور مجھے بچائے رکھا۔

ٹھیک یہی فلسفہ انسانی زندگی کا ہے اکثر ہمکو لگتا ہے کی ہمارے جو بڑے بھائی یا بہن ہیں وہ بھلے ہی ہم سے بڑے ہیں لیکن انہوں زندگی میں کچھ نہیں کیا۔ بس کسی طرح چھوٹے موٹے کام کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ہم خود اچھی پوزیشن پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی ہے وہ یہ کہ بڑے ہونے کے باوجود وہ کچھ نہیں کر سکے کیونکہ وہ بڑے تھے اور انکو بڑے ہونے کا فرض نبھانا تھا۔ خود کے پاؤں پر کھڑے ہوکر اپنے چھوٹے بھائی اور بہنوں کا  بھی ہاتھ تھامنا تھا۔

جبکہ ہم چھوٹے ہوکر چھوٹے رہ گئے کیونکہ ہم نے انکی شفقتوں اور محبتوں کو نہیں پہچانا اُن کی عظمتوں اور قربانیوں کی قدر نہیں کی اور انکو ناکارہ نکما اور بیکار سمجھ کر انکو شرمندہ کرتے رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔