کیا ممتا بنرجی کو نریندر مودی اچھے لگنے لگے؟

عبدالعزیز

 وزیر اعلیٰ مغربی بنگال محترمہ ممتا بنرجی نے ایک پرائیوٹ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جس انداز سے نریندر مودی کے حق میں اپنی رائے پیش کی اور بعض معاملات کیلئے بی جے پی کے صدر امیت شاہ کو مورد الزام ٹھہرایا وہ جس طرح بی جے پی کے حامیوں کیلئے خوشی کی بات ہے اسی طرح اپوزیشن اور دیگر لوگوں کیلئے چونکا دینے والا اور حیرت انگیز ہے کیونکہ یہ بدلاؤ ممتا بنرجی میں اچانک آیا ہے ۔ نتیش کمار میں آہستہ آہستہ تبدیلی آئی اور پھر مودی ان کی پسندیدہ شخصیت بن گئے۔ آج نتیش اور ان کی پارٹی این ڈی اے کا حصہ بن گئی۔ محترمہ ممتا بنرجی نتیش کمار میں جب مودی کیلئے تبدیلی آرہی تھی تو وہ بیحد چراغ پا تھیں ۔ پٹنہ کی ایک میٹنگ میں جب نتیش کمار نہیں آئے تو ممتا بنرجی نے انھیں غدار تک کہہ دیا۔ یہ ممتا کو ہی نہیں بلکہ سب کو معلوم ہے اور یہی حقیقت ہے کہ نریندر مودی اپنی سیاسی جماعت بی جے پی کو بھی چلا رہے ہیں اور حکومت کی بھی سربراہی کر رہے ہیں ۔ جہاں تک امیت شاہ کی بات ہے تو امیت شاہ مودی کے Man  Yes (ہاں میں ہاں ملانے والے )ہیں۔ امیت شاہ کے مودی جی صاحب ہیں ۔ وہ صاحب کیلئے سب کچھ کر سکتے ہیں ۔ صاحب کے اشارے کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے۔ گجرات کی ایک عورت کا معاملہ جب سامنے آیا تھا تو اس ویڈیو میں امیت شاہ یہ کہتے ہوئے ایک نہیں کئی بار نظر آئے کہ’’ صاحب نے کہا ہے‘‘۔’’صاحب یہ چاہتے ہیں‘‘۔

  محترمہ ممتا بنرجی نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ بی جے پی کے وزراء اعلیٰ کی میٹنگ امیت شاہ نے کیوں بلائی ہے؟ امیت شاہ نے اپنے صاحب کے کہنے پر ہی میٹنگ بلائی ہے جس میں ان کے صاحب بھی شریک ہوں گے۔ اگر صاحب بھی شریک نہ ہوتے جب بھی وزراء اعلیٰ سب کے سب جن کی میٹنگ بلائی گئی ہے وہ تو امیت شاہ کی پارٹی کے ہیں اور وہ اس پارٹی کے صدر ہیں۔ ایسی صورت میں کسی کو اعتراض یا حیرت کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ محترمہ ممتا بنرجی جو نریندر مودی اور ان کی پالیسیوں کی سخت مخالف تھیں اب کہہ رہی ہیں کہ وہ مودی کے حق میں ہیں وہ امیت شاہ اور ان کی پارٹی کی مخالف ہیں۔

  بین السطور میں جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ’ناردا‘ اور ’شاردا‘ کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ ترنمول کانگریس کے بہت سے لوگ ان معاملات میں پھنسے ہوئے ہیں اور معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ اگر سی بی آئی ڈھیل نہیں دے گی تو بہت سے لوگ جیل بھی جاسکتے ہیں ۔ ایسی صورت میں یہ قیاس آرائی صحیح ہوسکتی ہے کہ ممتا بنرجی یا ان کی پارٹی نریندر مودی سے قریب ہوکر معاملہ کو رفع دفع کراسکتی ہے۔ نوٹ بندی سے پہلے محترمہ ممتا بنرجی نریندر مودی کے خلاف کچھ بھی رائے زنی کرنے سے پرہیز کرتی تھیں اور پارلیمنٹ میں اپنے لوگوں کو بھی بی جے پی یا نریندر مودی کے خلاف بولنے سے روک رکھا تھا۔ یہاں تک کہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کی تائید اور حمایت بھی ترنمول کانگریس کے ممبران کرتے تھے۔

محترمہ ممتا بنرجی اس وقت اپوزیشن کانگریس کے بعد سب سے بڑی طاقت ہیں ۔ بی جے پی یا نریندر مودی کی کوشش ہوگی کہ ممتا بنرجی کو بھی اپنے فولڈ میں کرلیں ۔ نتیش کمار کو نریندر مودی کا متبادل چہرہ سمجھا جاتا تھا مگر نتیش کمار جس طرح این ڈی اے میں ڈھل گئے ، کون جانتا تھا کہ وہ اتنی جلدی ڈھل جائیں گے۔ نریندر مودی جو انھیں ’راون‘ نظر آتے تھے اچانک ان کیلئے ’رام‘ ہوگئے۔ بی جے پی جو بڑا جھُٹّا پارٹی نظر آتی تھی وہ اچھی اور قابل قدر پارٹی نظر آنے لگی۔ ہندستان کی سیاست میں اب سب کچھ ہوسکتا ہے۔ کب کون کس وقت بدل جائے کچھ کہنا مشکل ہے۔

 بہر حال اس وقت مودی کا چڑھتا ہوا سورج ہے اور چڑھتے ہوئے سورج کی ہندستان میں پوجا ہوتی ہے۔ تاملناڈو میں بھی انا ڈی ایم کے کے دو گروپوں میں پہلے بی جے پی نے کشمکش کیلئے ہوا دی اور اب میل ملاپ کرکے این ڈی اے میں شامل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اپوزیشن کیلئے سخت مرحلہ ہے کیونکہ اپوزیشن میں ایسے لوگ شامل ہیں کہ وہ کسی وقت بھی سواری بدل سکتے ہیں ۔ این سی پی کے بارے میں بھی اپوزیشن کیلئے اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ مہاراشٹر میں تو وہ بی جے پی کی حمایت کیلئے پر تول رہی تھی۔ گجرات میں اس کے لیڈر پرفل پٹیل کے بارے میں خبر آئی ہے کہ این ڈی اے کے واحد ایم ایل اے کو احمد پٹیل کے بجائے بی جے پی کو ووٹ دینے کی سفارش کر رہے تھے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ این سی پی بھی نریندر مودی سے سودے بازی کرنے کے حق میں ہے۔

ہندستان میں جمہوریت کیلئے اتنے برے دن کبھی نہیں تھے کیونکہ اپوزیشن اس قدر کبھی کمزور اور اس میں شامل پارٹیاں اس قدر منافقانہ انداز نہیں رکھتی تھیں ۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کے سوا کوئی پارٹی بھی دل و جان سے فرقہ پرستی کے خلاف نظر نہیں آتی۔ یہ ہندستان کیلئے بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ بہار کے بعد اگر بنگال بھی مودی کی گود میں چلا گیا تو اپوزیشن کی طاقت مزید کمزور ہوجائے گی اور کسی کیلئے آئے نہ آئے مودی جی کیلئے اچھے دن آجائیں گے، پھر تو 2019ء بھی ان کیلئے 2014ء ثابت ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔