گجرات فائلس
جب تاریکی گہری ہو، اندھیرے سائیں سائیں کررہے ہوں، نہ چراغوں کی لونظرآئے، نہ ستاروں کی ضواس تاریکی کامقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہو، تو اس وقت ایک جھماکے کی روشنی درکار ہوتی ہے، جوگردوپیش کویکلخت روشن و منورکردے، جس سے محسوس ہونے لگے کہ ابھی امید کادامن تھامے رکھنا چاہیے، جب سناٹاگہرااورمہیب ہو، توایسے میں ایک ایسی آوازکی ضرورت شدید ہوجاتی ہے، جولوگوں کے کان کھڑے کردے، سماعتوں کویکبارگی اپنی جانب متوجہ کرلے، اذہان یکسوہوکراس کی طرف دھیان لگائیں اورلوگ بہ یک وقت حیرت و استعجاب اور حقیقت بینی و حق نگاہی کی کیفیتوں میں ڈوب جائیں۔ میرے خیال سے ’تہلکہ ‘میگزین کی سابق رپورٹراورمعروف تفتیشی صحافی رعناایوب کی کتابGujarat Files: Anatomy of a Cover Upجس کااوریجنل انگریزی ایڈیشن 2016ء کے وسط میں منظرِعام پرآیاتھا، لوگوں کے لیے ایسی ہی ثابت ہوئی؛حالاں کہ بہ وجوہ اس کی اشاعت پرلوح و قلم کی متاع کے سوداگروں یعنی مین اسٹریم میڈیاکی جانب سے اُس گرم جوشانہ استقبال کامظاہرہ نہیں کیاگیا، جواس کے لائق تھا، مگراس کے باوجودقلم کوعوام کی امانت اور ضمیر کی عدالت سمجھنے والے ملک کے باشعور، سنجیدہ اور حقائق پسندطبقات نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیااور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کتاب ملک کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی مطبوعات کی فہرست میں شامل ہوگئی۔
کیوں کہ یہ کتاب دراصل دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت -ہندوستان -کے ایک صوبے میں رونماہونے والے ایک ایسے سلسلۂ واقعات کے پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے، جس نے ملکی ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی جمہوری شناخت اور تشخص کوکٹہرے میں کھڑاکردیاتھا، 2002ء کے فروری ؍ مارچ کے مہینے میں گجرات میں جوانسانیت سوزحادثے رونماہوئے، وہ ہندوستان کی فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ میں سب سے زیادہ خوفناک، انسانیت سوزاورملکی سسٹم کے لیے شرمناک تھے، اس واقعے نے تب کے وزیر اعظم مسٹراٹل بہاری واجپئی کوعلانیہ اپنی ناکامی و شرمندگی کااظہارکرنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس کے بعدتفتیشوں کاایک درازسلسلہ چلا، کئی بڑے نام اور متعلقہ صوبے کی کئی اہم شخصیتوں کواپنے شرمناک جرائم کی وجہ سے جیل کی ہوابھی کھانی پڑی۔ اس خونیں حادثے کے تعلق سے قومی سطح پر سرکاری تفتیشی ایجنسیوں کے ساتھ ملک کے مختلف میڈیاہاؤسزنے بھی اپنے طورپرتفتیشی رپورٹس شائع کیں اوراس کے مختلف پہلوؤں کواجاگرکیاگیا، مگریہ کتاب اِس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ایک چھبیس سالہ نوجوان صحافی کی مذکورہ واقعے کے متعلقہ چہروں سے براہِ راست دیدوشنیداورگفتگوپرمبنی تفتیشی رپورٹ ہے۔ رعناایوب نے میتھلی تیاگی نامی امریکن فلم سازکمپنی ’کانزرویٹری‘ کی فلم سازکی حیثیت سے انڈرکوررہ کرتقریباً آٹھ ماہ مسلسل گجرات فسادات اورفرضی انکاؤنٹرس کے کلیدی کرداروں سے بالمشافہ ملاقاتیں کی، ان سے بات چیت کی اورانھوں نے اس دوران واقعے کے تمام پہلوؤں سے متعلق اُن سچائیوں کاانکشاف کیا، جنھیں تفتیش کے دوران انھوں نے جان بوجھ کر چھپایاتھا۔ یہ کتاب گودھراسانحے کے بعد صوبائی سطح پربرپا ہونے والے فسادات کے تعلق سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ کے کرداروں پرایسے حقائق کی روشنی میں سوالیہ نشان قائم کرتی ہے، جن کاانکارنہیں کیاجاسکتا، فسادات کے دوران گجرات سرکارکے کارگزارچیف سکریٹری، ایڈیشنل چیف سکریٹری براے امورِداخلہ، احمدآبادکمشنرآف پولیس، ڈی جی پی، آئی بی، اے ٹی ایس، سی آئی ڈی اورسی بی آئی کے افسران و ذمے داران کے علاوہ نروداپاٹیاقتلِ عام کی ماسٹرمائنڈمایاکوڈنانی سے متعلق مصنفۂ کتاب کی دلچسپ اور انکشافی گفتگواوراس دوران ان کی جانب سے اگلے گئے حقائق پریہ کتاب بھرپورروشنی ڈالتی ہے، گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈیاکے قتل پرایک الگ طرح سے گفتگوکرتی ہے اورانکشاف کرتی ہے کہ گجرات سرکارراست طورپراس کے قتل میں شریک تھی اوراس کے لیے ایک مسلمان کواستعمال کرکے اسے ملک سے باہر بھیج دیاگیاتھا، کتاب میں رعناایوب کی بعض ان ذہنی سرگذشتوں کابھی تذکرہ ہے، جومسلسل آٹھ ماہ اپنی شناخت اورتشخص کوخفیہ رکھ کرایک اسٹیٹ کے طاقت ورترین انسانوں سے ملاقات اور ان سے گفتگوکرتے ہوئے وقتاً فوقتاً رونماہوئیں، بعض مقامات ایسے ہیں کہ انھیں پڑھ کر قاری پرسکتہ طاری ہوجاتاہے اوراس کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں، کچھ ایسے مواقع بھی ہیں، جہاں ایک جاسوسی ناول جیساسسپنس ہے اورقاری انھیں پڑھ کر دنگ رہ جاتاہے کہ کیاواقعات کی دنیامیں بھی ایسا ہوسکتا ہے! کتاب کا ہر حصہ نہایت ہی معلوماتی و انکشافی توہے ہی، مگراس میں فنی خوبیاں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، ماہرینِ صحافت نے اسے رپورتاژکاایک عمدہ اور بہترین نمونہ قرادیاہے، کتاب ایک رونماہوچکے واقعے کی تفصیلات کوبیان کرتی ہے، جس کا بیشتر حصہ مکالماتی ہے، مگر مصنفہ نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت اس کے اندرایسی ادبی خوبی بھردی ہے کہ قاری کتاب کے سحرمیں کھوجاتاہے، اس کتاب کوپڑھنے والے بیشتر لوگوں نے لکھاہے کہ حقائق و تفصیلات پر مستزاداس کا اندازِ پیش کش، اسلوبِ نگارش، پیرایۂ بیان ایسا سحرانگیزہے کہ قاری ایک نشست میں ہی پوری کتاب پڑھ ڈالتاہے اوراسے ذرابھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
اس وقت اس کتاب کااردوترجمہ ’گجرات فائلس:پس پردہ حقائق کاانکشاف‘میرے پیشِ نگاہ ہے، اس کتاب میں جن حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے، ان کی نشان دہی قابلِ ذکرہے:اس کتاب میں شواہدکی روشنی میں بتایاگیاہے کہ مودی حکومت کے عہدمیں گجرات میں لااینڈآرڈرجیسی کوئی چیزنہیں تھی، سرکارکااشارۂ چشم و ابرو آئین بناتاتھا، گجرات فسادات کے دوران ساری انسانیت کش کارروائیاں براہِ راست مودی کی ہدایت پر انجام دی گئیں، البتہ انھوں نے کمال ہوشیاری سے بعض احساسِ ذمے داری رکھنے والے افسروں کے اصرارکے باوجود کوئی بھی ہدایت تحریری طورپرنہیں دی، یاتوفون کے ذریعے ہدایت دی گئی یا سرکاری مشنری اور وی ایچ پی کے لوگوں کواستعمال کیاگیا، مودی حکومت نے فسادات کی سربراہی یا فرضی تصادم کے لیے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افسران کواستعمال کیااورجب ایسا موقع آیاکہ وہ لوگ عدالتی کٹہروں میں کھڑے کیے جانے لگے، توحکومت نے ان سے دامن جھٹک لیا، کتاب سے معلوم ہوتاہے کہ گجرات میں ابھی بھی نسلی تعصب اور جنسی بھیدبھاؤعروج پر ہے اوراس کی ایک مثال یہ ہے کہ راجن پریادرشی جیسے اعلی افسر(جو2007میں فرضی انکاؤنٹرس کی تفتیش کے دوران گجرات اے ٹی ایس کے ڈائریکٹرجنرل اور2002ء کے فسادات کے دوران راجکوٹ کے آئی جی تھے)کے لیے یہ ممکن نہیں تھاکہ وہ کسی شہری علاقے میں، جہاں اعلیٰ برادری کے لوگ رہایش پذیرہوں، اپنا مکان خرید یابناسکیں، اس کاانھیں شدیداحساس تھا اورانھوں نے جون2004ء میں ’ٹائمس آف انڈیا‘کے اپنے ایک انٹرویومیں اس کااظہاربھی کیاتھا۔ مودی 2002کے سانحے کے بعدہندوہردے سمراٹ کاروپ اختیارکرگئے اوراسی کانتیجہ تھاکہ انھیں 2007کے صوبائی الیکشن میں بھی بھرپورکامیابی حاصل ہوئی، امیت شاہ نے وزیر داخلہ رہتے ہوئے بے شمارغیر قانونی کام کیے یاکروائے، چاہے وہ فسادات ہوں یافرضی انکاؤنٹرس، امیت شاہ کے حکم سے ہی عشرت جہاں، سہراب الدین وغیرہ کوفرضی تصادم میں ہلاک کیا گیا۔ فی الحقیقت گجرات کی سیاست مودی اورامیت شاہ کے گرد سمٹی ہوئی تھی۔ کتاب کایہ پہلوقابلِ ذکرہے کہ بیشترافسران نے میتھلی تیاگی سے گفتگوکرتے ہوئے بتایاکہ وہ دل سے حکومت کی زبردستیوں اور دھونس سے نالاں تھے؛لیکن بہرحال چوں کہ انھیں نوکری کرنی تھی، سو انھوں نے وہ سب کچھ کیا، جوانھیں کہاگیا، حتی کہ نروداپاٹیاکیس کانمایاں چہرہ مایاکوڈنانی بھی، جوگرچہ مسلمانوں کے تئیں سخت نفرت و تعصب رکھتی تھی، مگر ذاتی طورپراسے نریندرمودی ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے، خاص طورپروہ ان سے اس لیے بھی نالاں تھی کہ جب وہ نرودامعاملے میں پھنسی، تومودی نے پلہ جھاڑلیاتھا۔ اس نے میتھلی سے بات کرتے ہوئے 2010ء میں ہی مودی کے حوالے سے پیش گوئی تھی کہ’’ایسالگتاہے کہ وزیراعظم کے امیدوارکے طورپراس کانام پیش کیاجائے گا، اس کوکوئی ٹکردینے والابھی نہیں، وہ آنندی بین کو وزیراعلیٰ بنادے گا‘‘۔ (ص:182)اوردنیاجانتی ہے کہ واقعی ایساہی ہوا۔ کتاب کے آخری باب میں میتھلی تیاگی کی مودی سے دلچسپ ملاقات کی بھی رودادمذکورہے، جوبہ وجوہ نامکمل رہ گئی۔
کتاب کی تقریظ میں لکھے گئے جسٹس بی این سری کرشناکے ان الفاظ سے مجھے اتفاق ہے کہ:’’اگرچہ یہ ممکن نہیں کہ زیر دست کتاب میں پیش کردہ تمام موادکی توثیق کی جاسکے، تاہم مصنف کی جرأت اورجذبے کی داد دیے بغیرنہیں رہاجاسکتا، جس کامظاہرہ انھوں نے شواہدکوبے نقاب کرنے کے لیے کیا اورجوان کے یقین کے مطابق حقائق پرمبنی ہیں، تفتیشی صحافت میں اس غیر معمولی جرأت کے لیے انھیں اوران کے ساتھیوں کوسلام!‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رعناایوب نے جرأت مندانہ تفتیشی صحافت کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے، انھوں نے تمام تراندیشوں، مصلحتوں اورخطرات سے بے پرواہوکرزبانِ حال سے یہ اعلان کردیاہے کہ:
مراقلم نہیں کرداراس محافظ کا
جواپنے شہر کو محصور کرکے نازکرے
مراقلم نہیں کاسہ کسی سبک سرکا
جوغاصبوں کو قصیدوں سے سرفرازکرے
مراقلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جواپنی ہی چھت میں شگاف ڈالتاہے
مراقلم نہیں اس دُزدِ نیم شب کارفیق
جوبے چراغ گھروں پر کمند اُچھالتا ہے
مراقلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جواپنے چہرے پہ دوہرانقاب رکھتاہے
مراقلم توامانت ہے میرے لوگوں کی
مراقلم توعدالت مرے ضمیرکی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تولوچ کماں کا، زبان تیرکی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی توگرائے گا
تمام عمرکی ایذانصیبیوں کی قسم
مرے قلم کاسفررائیگاں نہ جائے گا!
کتاب کا اردوترجمہ حال ہی میں معروف ادارہ’مضامین ڈاٹ کام‘کے زیر اہتمام شائع کیاگیاہے، اس سے قبل 2016ء کے اخیرتک اس کتاب کے ہندی، تمل، پنجابی، تیلگو، کنڑ، ملیالم، بنگالی، گجراتی اورمراٹھی تراجم میں سے کئی ایک شائع ہوکرملک گیرسطح پر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اوربعض بس شائع ہوا چاہتے ہیں ۔ اردوترجمہ ڈاکٹرمحمد ضیاء اللہ ندوی نے کیاہے، خوب صورت ٹائٹل اور کورکے ساتھ عمدہ کاغذپرطبع شدہ اس کتاب کے کل 222صفحات ہیں۔ ترجمہ نہایت ہی خوب صورت، سلیس اور عمدہ ہے، پڑھنے کے دوران کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتاکہ یہ اصل کتاب کاترجمہ ہے، کمپوزنگ کی چندایک خامیوں سے قطعِ نظر کرتے ہوئے مترجم نے پوری فنی مہارت سے ترجمہ کیاہے، اصل متن میں استعمال کیے گئے انگریزی الفاظ و اصطلاحات کااردوزبان میں انہی الفاظ کے ذریعے ترجمہ کیا گیا ہے، جواردومیں مستعمل ہیں، کمال کی بات یہ ہے کہ جوکشش، جاذبیت اور قاری کے حواس پر چھاجانے کی صلاحیت اصل کتاب میں پائی جاتی ہے، وہ تمام ترصلاحیت اس ترجمے میں بھی بخوبی طورپر موجودہے۔ یہ کتاب ہر اردوداں، سماج و سیاست کے انقلابات سے دلچسپی رکھنے والے انسان کوپڑھناچاہیے، انھیں بھی پڑھناچاہیے، جو پہلے سے گجرات فسادات سے متعلق تفصیلات کاعلم رکھتے ہیں ؛کیوں کہ یہ کتاب جوتفصیلات پیش کرتی ہیں، وہ صرف اسی میں ملیں گی۔ اردوترجمہ وطباعت کاذمہ اٹھانے والے مضامین ڈاٹ کام کے سرپرست محمدشاہدخان، ذمے داران میں ہمارے دوست محترم خالدسیف اللہ اثری، محترم عرفان وحید، محترم رمیض احمدتقی اوراس مہم میں ان کاتعاون کرنے والے سارے لوگ لائقِ تبریک وتحسین ہیں کہ انھوں نے اردوخواں طبقہ کے لیے اتنی اہم کتاب کے نہایت ہی معیاری ترجمے واشاعت کانظم واہتمام کیا۔
تبصرے بند ہیں۔