اجتماعی فرائض کے متعلق اسلام کی اعلیٰ تعلیم (3)

            نہی عن المنکر کا طریقہ: اس مضمون کے بعض پہلو مزید روشنی کے محتاج ہیں  جنھیں  آگے چل کر ہم ایک دوسرے موقع پر بہ وضاحت بیان کریں  گے۔ یہاں  صرف اس قدر بتانا مقصود ہے کہ اسلام نے غیر مسلم دنیا کو معروف کی تلقین کرنے کیلئے تو صرف دعوت و تبلیغ کا طریقہ بتایا ہے، لیکن منکر سے روکنے کیلئے اس کی قید نہیں  رکھی بلکہ اس کی مختلف انواع کیلئے مختلف طریقے تجویز کئے ہیں۔  قلب و ذہن کی گندگی اور خیال و رائے کی ناپاکی کو وعظ و تلقین کے ذریعہ سے دور کرنے کی ہدایت کی:

            ’’اللہ کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ بلا اور ان سے ایسے طریقہ پر بحث و گفتگو کر جو بہترین ہو (یعنی سختی و بدکلامی اس میں  نہ ہو‘‘) (النحل:125)۔

            ’’اور اہل کتاب سے بحث و مباحثہ نہ کر مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو، سوائے ان لوگوں  کے جو ان میں  ظالم و بدکار ہیں ‘‘ (العنکبوت:46)۔

            ’’پس اس سرکش سے نرم گفتگو کرو، شاید کہ وہ نصیحت پکڑلے اور اللہ سے ڈرے‘‘ (طٰہٰ:44)۔

            فعل و عمل کی برائی کو طاقت و قوت کے زور سے روکنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اوپر وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تم پر لازم ہے کہ بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اس کو حق کی طرف موڑ دو‘‘۔ اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں  جن میں  منکر کو روکنے کیلئے قوت کے استعمال کا حکم ہے۔ ایک موقع پر حضورؐ فرماتے ہیں :

            ’’تم میں  سے جو کوئی بدی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے، اور اگر اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو دل سے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے‘‘ (مسلم)۔

            ان احادیث میں  ہاتھ کا لفظ محض جسمانی ہاتھ کے معنی میں  استعمال نہیں  ہوا ہے بلکہ مجازاً قوت کے معنی میں  بولا گیا ہے۔ بدکار کا ہاتھ پکڑنے سے مراد در اصل یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں  کہ وہ بدی و شرارت کا ارتکاب نہ کرسکے۔ اسی طرح برائی کو ہاتھ سے بدل دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی قوت و طاقت کو منکر کے مٹانے اور روکنے اور معروف سے بدل دینے میں  استعمال کرو۔ ایک اور حدیث میں  ہے:

            ’’اللہ عام لوگوں  کو خاص لوگوں  کے عمل کی سزا اس وقت تک نہیں  دیتا جب تک ان میں  یہ غلط روا داری پیدا نہ ہوجائے کہ بدی کو اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھیں  اور اس کو روکنے کی قدرت رکھتے ہوں  مگر نہ روکیں ‘‘۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے ارشاد کی تفسیر ہوتا ہے۔ پس ان احادیث سے قرآن پاک کے حکم نہی عن المنکر کے معنی صاف متعین ہوجاتے ہیں  کہ اس سے مراد صرف زبان و قلم ہی سے منکر کو روکنا اور اس کے خلاف تبلیغ کرنا نہیں  ہے بلکہ حسب ضرورت بزور و قوت اس کو روک دینا اور دنیا کو اس کے وجود سے پاک کر دینا بھی ہے۔ اور یہ مسلمانوں  کی قدرت و استطاعت پر موقوف ہے۔ اگر مسلمانوں  میں  اتنی قوت ہو کہ تمام دنیا کو منکر سے روک کر اسے قانونِ عدل کا مطیع بنا دیں  تو ان کا فرض ہے کہ اس قوت کو استعمال کریں  اور جب تک اس کام کو پایۂ تکمیل پہنچا دیں  چین نہ لیں،  لیکن اگر وہ اتنی قوت نہ رکھتے ہوں  تو جس حد تک ممکن ہو انھیں  اس خدمت کو انجام دینا چاہئے اور تکمیل مدعا کیلئے مزید قوت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

            فتنہ و فساد کی مخالفت: منکر کی اس دوسری قسم کو جس کے خلاف اسلام میں  قوت استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پہلی قسم سے ممتاز کرنے اور اس کی نوعیت کو زیادہ واضح کردینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے فتنہ اور فساد کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، چنانچہ ان تمام آیات میں  جن میں  منکر کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی ہے یا جنگ کی ضرورت ظاہر فرمائی گئی ہے یا اسے بزورِ شمشیر مٹانے کا حکم دیا گیا ہے، آپ کو منکر کے بجائے یہی فتنہ اور فساد کے الفاظ میں  ملیں  گے: ’’ان سے جنگ کر یہاں  تک کہ فتنہ باقی نہ رہے‘‘۔

            ’’اللہ اگر لوگوں  کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی‘‘۔

            ’’اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں  فتنہ اور بڑا فساد ہوگا‘‘۔

            ’’اور فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے‘‘۔

            ’’جو کوئی کسی شخص کو قتل کرے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں  فساد پھیلایا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں  کو قتل کردیا‘‘۔

            ’’انھوں  نے فتنہ پھیلانا چاہا تھا‘‘۔

            ’’جب کبھی فتنہ کی طرف واپس جاتے ہیں  تو اس میں  خود بھی شامل ہوجاتے ہیں ‘‘۔

            ان تمام آیات میں  اسی منکر کو فتنہ اور فساد کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تمام منکرات میں  یہ فتنہ و فساد ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا استیصال بغیر تلوار کے نہیں  ہوسکتا۔

            فتنہ کی تحقیق: عام طور پر فتنہ و فساد کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں  کہ کسی بات پر دو جماعتوں  میں  جھگڑا ہوجائے، پہلے گالی گلوچ ہو، پھر فریقین کے مستعد آدمی اینٹ، پتھر یا لاٹھی پَونگے یا تلوار، بندوق سے مسلح ہوکر میدان میں  کود پڑیں،  ایک دوسرے کے سر پھوڑیں  اور خوب قتل و غارت کرکے آتش غضب کو ٹھنڈا کرلیں۔  اگر چہ فتنہ و فساد کا اطلاق اس مشغلہ پر بھی ہوتا ہے لیکن قرآنی اصطلاح میں  ان الفاظ کا مفہوم اس قدر تنگ نہیں  ہے بلکہ اور بہت سے اخلاقی جرائم بھی ان کے تحت آتے ہیں۔  ہمیں  ان کی تفصیل دوسری کتابوں  میں  تلاش کرنے کی ضرورت نہیں  ہے، خود قرآن ہم کو بتا دیتا ہے کہ اس کی مراد فتنہ و فساد سے کیا ہے۔

            لغت میں  ’فتن‘ کے معنی ہیں  سونے کو تپا کر دیکھنا کہ وہ کھوٹا ہے یا کھرا۔ اسی لغوی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ انسان کے آگ میں  ڈالے جانے پر بولا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں  آیا ہے: یوم ہم علی النار یفتنون (جس روز وہ آگ پربھو نے جائیں  گے)، پھر مجازاً اس سے ہر وہ چیز مراد لی گئی ہے جو انسان کو امتحان اور آزمائش میں  ڈالنے والی ہو؛ چنانچہ مال و دولت اور اہل و عیال کو فتنہ کہا گیا، کیونکہ یہ چیزیں  انسان کو اس آزمائش میں  ڈال دیتی ہیں  کہ وہ حق کو زیادہ عزیز رکھتا ہے یا ان کو۔ راحت اور مصیبت کو بھی فتنہ کہا گیا، کیونکہ ان دونوں  حالتوں  میں  بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے۔ زمانے کے انقلابات اور تاریخ کی نیرنگیوں  کو بھی فتنہ کہا گیا، کیونکہ وہ قوموں  کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ ہیں۔  کسی کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالنے کو بھی فتنہ کہتے ہیں،  کیونکہ یہ اس کی قوت برداشت کا سخت امتحان ہے۔

             ان تمام مثالوں  سے معلوم ہوا کہ فتنہ کے اصل معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں،  خواہ وہ فائدے کے لالچ اور لذت کی چاٹ اور محبوب چیزوں  کی بخشش کے ذریعہ سے ہو، یا نقصان کے خوف اور مصائب کی مار اور ایذا رسانی کے ذریعہ سے۔  یہ آزمائش اگر خدا کی طرف سے ہو تو برحق ہے کیونکہ خدا انسان کا خالق ہے اور وہ اپنے بندوں  کا امتحان لینے کا حق رکھتا ہے اور اس کے امتحان کا مقصد انسان کو بہتر اور بلند تر حالت کی طرف لے جانا ہے، لیکن اگر یہی آزمائش انسان کی طرف سے ہو تو یہ ظلم ہے کیونکہ انسان کو اس حق نہیں  ہے اور انسان جب کبھی دوسرے انسان کو فتنہ میں  ڈالتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کی آزادیِ ضمیر سلب کرے اور اس کو اپنی بندگی پر مجبور کرے اور اسے اخلاقی و روحانی پستی میں  مبتلا کر دے۔ اس موخر الذکر مفہوم میں  فتنہ کا لفظ تقریباً انگریزی لفظ (Persecution) کا ہم معنی ہے، مگر انگریزی لفظ میں  اتنی وسعت نہیں  ہے جتنی ’’فتنہ‘‘ میں  ہے۔ قرآن میں  اس کی جو تفصیلات دی گئی ہیں  وہ حسب ذیل ہیں :

            (1  کمزوروں  پر ظلم کرنا، ان کے جائز حقوق سلب کرنا، ان کے گھر بار چھین لینا اور انھیں  تکلیفیں  پہنچانا:

            ’’پھر تیرا رب ان لوگوں  کیلئے جو فتنہ میں  ڈالے جانے (یعنی خوب ستائے جانے) کے بعد اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل گئے اور جنھوں  نے حق کی خاطر سخت جد وجہد کی اور راہِ حق میں  ثابت قدم رہے (مغفرت کرنے والا ہے)‘‘ (النحل:110)۔

            (2  جبر و استبداد کے ساتھ حق کو دبانا اور قبولِ حق سے لوگوں  کو روکنا:

            ’’(حرمت والے مہینوں  میں  جنگ کرنا یقینا مسجد حرام کی حق تلفی ہے) لیکن حرم کے باشندوں  کو وہاں  سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ برا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے‘‘ (البقرہ:217)۔

            ’’پس موسیٰ پر ان کی قوم میں  سے کوئی ایمان نہ لایا سوائے نوجوانوں  کی ایک قلیل جماعت کے کیونکہ انھیں  فرعون اور اپنے سرداروں  سے (جو فرعون کے خوشامدی تھے) خوف تھا کہ انھیں  فتنہ میں  مبتلا کر دیں  گے‘‘ (یونس:83)۔

            (3  صد عن سبیل اللہ جس کی تشریح گزشتہ باب میں  کی جاچکی ہے، چنانچہ سورہ انفال میں  پہلے تو بے ایمان والوں  کا یہ جرم بتایا ہے کہ وہ صد عن سبیل اللہ کی کوشش کرتے ہیں  (ان الذین کفروا ینفقون اموالہم لیصدوا صد عن سبیل اللہ) پھر ان کے مغلوب ہونے کی پیشگوئی کی ہے (ثم یغلبو) اور اس کے بعد ان کے اسی فعل کو فتنہ قرار دے کر جنگ کا حکم دیا ہے (و قاتلوہم حتیٰ لاتکون فتنہ و یکون الدین کلہ للہ)۔

            (4  لوگوں  کو گمراہ کرنا اور حق کے خلاف خدع و فریب اور طمع و اکراہ کی کوششیں  کرنا :

            ’’اور انھوں  نے ارادہ کرلیا تھا کہ تجھے طمع و اکراہ کے ذریعہ اس وحی سے پھیر دیں  جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے تاکہ تو اسے چھوڑ کر ہم پر افترا باندھنے لگے (اگر تو ایسا کرتا) تو وہ تجھے دوست بنا لیتے‘‘(بنی اسرائیل: 73)۔

            ’’اور ان سے ہوشیار رہ کہ کہیں  تجھے فریب دے کر ان احکام میں  سے کسی سے نہ پھیر دیں  جو اللہ نے تیرے اوپر اتارے ہیں،  … کیا وہ جاہلیت ک فیصلہ چاہتے ہیں ؟‘‘ (المائدہ:50-49)۔

            (5 غیر حق کیلئے جنگ کرنا اور ناجائز اغراض کیلئے قتل و خون اور جتھہ بندی کرنا:

            ’’(جنگ احزاب کے موقع پر) اگر مدینہ کے اطراف سے دشمنوں  کا داخلہ ہوجاتا اور پھر ان (منافقین) سے فتنہ میں  شریک ہونے کی درخواست کی جاتی تو یہ ضرور اس میں  کود پڑتے اور ذرا تامل نہ کرتے‘‘ (الاحزاب:14)۔

            ’’تم (ان منافقوں  میں  سے) کچھ دوسرے لوگ ایسے پاؤگے جو تم سے بھی امن میں  رہنا چاہتے ہیں  اور اپنی قوم سے بھی مگر جب فتنہ کی طرف پھیر دیئے جاتے ہیں  تو اس میں  اوندھے منہ گرجاتے ہیں  (ٰعنی خود بھی فتنہ برپا کرنے والوں  کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں )‘‘ ((النساء:91)۔

            (6  پیروانِ حق پر باطل پرستوں  کا غلبہ اور چیرہ دستی:

            ’’اگر تم (پیرانِ حق کی مدد) نہ کروگے تو زمین میں  فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا (یعنی غلبہ باطل سے حق پرستوں  پر زمین تنگ ہوجائے گی)‘‘ (الانفال:73)۔

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔