ہِندو دھرم کیا ہے؟ (2)

  ہندو دھرم کے عقائد: ہندو دھرم میں  کوئی متفق علیہ عقیدہ یا بنیادی اصول نہیں  ہے، البتہ جمہور ہندوؤں  کے نزدیک درج ذیل عقائد معتبر و مستند ہیں  اور ہندو دھرم کے سبھی فرقے بعض امور میں  قدرے اختلاف کے ساتھ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

[1] عقیدہ و اَوتار… [2] تخلیق کائنات کا نظریہ … [3] آوا گَون … [4] عقیدہ کرم۔

(1) عقیدہ اَوتار: اَوتار سنسکرت لفظ ہے جس کے معنی ’’اوپر سے نیچے اترنا اور ظاہر ہونا‘‘ ہے اور اصطلاحی مفہوم ہے:

  انسانوں  کی اصلاح کیلئے خدا کا انسانی شکل میں  پیدا ہونا یا زمین پر اترنا اوتار کہلاتا ہے۔ شری دیا نند گوپال نے اوتار کی تعریف یوں  کی ہے: ’’پردۂ غیب سے محسوس صورت میں  خدا کا ظہور‘‘۔ اور یہی تعریف زیادہ صحیح ہے، اس لئے کہ خدا نے صرف انسانوں  کا قالب ہی نہیں  اختیار کیا بلکہ ہندو دھرم کی رو سے وہ مچھلی، سور وغیرہ کی شکل میں  نمودار ہوا ہے۔ ہندوؤں  کا یہ عقیدہ ہے کہ ایشور اگر چہ ہر وقت موجود ہے پھر بھی وہ ضرورت کے مطابق مختلف اوقات میں  زمین پر مختلف شکلوں  میں  خود اپنی یوگا مایا سے پیدا ہوتا ہے۔

عقیدہ اوتار کی مشروعیت: یہ عقیدہ ویدوں  سے ثابت نہیں  ہے۔ دیا نند سرسوتی لکھتے ہیں : ’’ایشور اوتار نہیں  لیتا؛ کیونکہ یجروید میں  ہے: وہ پیدا نہیں  ہوتا ایک ہی حالت میں  قائم رہتا ہے‘‘ (52-24)۔ ایک دوسری جگہ ہے : ’’وہ محیط، پاک اور غیر مجسم ہے‘‘ (8-40)۔ وید کے ان ارشادات سے ثابت ہوتا ہے کہ پرمیشور قالب اختیار نہیں  کرتا‘‘ (ستیارتھ پرکاش، باب ہفتم:186)۔ البتہ ویدی عہد کے بعد کی کتابوں  میں  اس کا تذکرہ ملتا ہے، چنانچہ بھگوت گیتا میں  ہے: ’’اے بھارت (ارجن) جب جب دھرم میں  بگاڑ اور (اَدھرم) ظلم کی زیادتی ہوتی ہے تب تب میں  ہی اپنے وجود کو ظاہر کرتا ہوں  (یعنی جسم اختیار کرکے ظاہر ہوتا ہوں ) نیک لوگوں  کو بامراد کرنے کیلئے اور برے لوگوں  کو تباہ کرنے کیلئے اور دھرم کو اچھی طرح قائم کرنے کیلئے ہر زمانہ میں  آتا ہوں ‘‘ (باب:4، اشلوک:8-7)۔ بھگوت مہاپران میں  ہے: ’’جب جب دنیا میں  دھرم کا زوال ہوتا ہے اور پاپ بڑھ جاتا ہے تب تب قادر مطلق بھگوان شری ہری اوتار لیتے ہیں ‘‘ (56-24/9)۔ تلسی داس نے اوتار کے عقیدہ کو رام چرت مانس میں  ان لفظوں  میں  بیان کیا ہے: ’’جب جب دھرم کو نقصان پہنچتا ہے کمینے، برے اور مغرور لوگوں  کا غلبہ ہوجاتا ہے تو وہ ایسے مظالم ڈھاتے ہیں  جو بیان میں  نہیں  آسکتا، اس سے براہمن، گائے، دیوتا اور دھرتی کو بڑی تکلیف پہنچتی ہے تب تب وہ مہربان خدا طرح طرح کے جسم اختیار کرکے نیک لوگوں  کی مصیبتوں  کو دور کرتے ہیں ۔  وہ ظالموں  کو مار کر دیوتاؤں  (نیک لوگوں ) کو قائم کرتے ہیں ، اپنی ویدوں  کی عظمت کی حفاظت کرتے ہیں  اور دنیا میں  اپنی نیک نامی پھیلاتے ہیں۔  رام کا جنم بھی اسی سبب سے ہوا ہے‘‘ (رام چرت مانس بال کانڈ 121/)۔

 ظہورِ اوتار کے مقاصد: [1] فاسقوں  پر فرماں  برداروں  کو غلبہ عطا کرنا۔ [2] کذابوں  کو ہلاک کرکے دنیاوی کامیابی کا حصول۔ [3] زمین کو پاپ سے پاک کرنا۔ [4] بندوں  کیلئے عمدہ نمونہ فراہم کرنا۔

 اوتاروں  کی تعداد: اوتاروں  کی تعداد میں  شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کتابوں  میں  آٹھ اور بعض میں  سولہ اور بعض میں  چوبیس کا تذکرہ ملتا ہے۔ مشہور روایت کے مطابق اوتار دس ہیں : [1]متسیہ، [2]مچھلی، [3]کورم، [کچھوا]وراہ (سور)، [4]نرسنگھ (نصف انسان/نصف شیر)، [5]وامن (بونا)، [6]پرشورام، [7]رام، [8]کرشن، [9]بدھ، [10]کلکی۔

 پرانوں  کے بیانوں  کے لحاظ سے اوتار چوبیس ہیں : [1]نارائن، [2]برہما، [3]سنک نندن، [4]نرنارائن، [5]کپل، [6]وتا تریہ، [7]سویش، [8]ہے گریو، [9]رشبھ [10]پرتھو، [11]متسیہ (مچھلی)، [12]کورم (کچھوا)، [13]ہنس، [14]دھنوتری، [15]وامن (بونا)، [16]پرشو رام، [17]موہنی، [18]نرسنگھ نصف انسان/ نصف شیر)، [19]ویدویاس، [20]رام، [21]بلرام، [22]کرشن، [23]بدھ، [24]کلکی۔

اوتاروں  کی مختصر سوانح حیات:

(1)  متسیہ (مچھلی):راجہ من (ویوسوت منو مہاراج) جو دس لاکھ سال کی مدت سے تمام اشیاء سے دست بردار ہوکر ریاضت و عبادت میں  مشغول تھا۔ ایک دن دریائے مالاکرت کے کنارے غسل کر رہا تھا کہ دفعتہ ایک مچھلی اس کے ہاتھ میں  آگئی اور راجہ سے کہنے لگی کہ تو مجھ کو حفاظت کے ساتھ اپنے پاس رکھ۔ ایک شبانہ روز یہ مچھلی راجہ کے ہاتھ میں  رہی۔ جب یہ مچھلی کچھ بڑی ہوگئی تو راجہ نے اس کو صراحی میں  رکھ دیا۔ اس کے بعد اس مچھلی کے جسم کی بالیدگی کی وجہ سے راجہ نے اس کو خم میں  ڈال دیا۔ جب ا س مچھلی کی گنجائش اس خم میں  بھی نہ ہوسکی تو اس وقت راجہ نے اس کو ایک کنویں  میں  ڈال دیا اور اس کے بعد تالاب اور وہاں  سے دریائے گنگا میں۔  جب اس مچھلی نے گنگا کو بھی گھیر لیا تو اس وقت دریائے شور میں  ڈال دی گئی۔ جس وقت سمندر بھی اس کے جسم سے پُر ہوگیا تو راجہ عبادت میں  مشغول ہوکر اس کی حقیقت جاننے کا طالب ہوا۔ جواب میں  یہ سنا کہ عالم کو پانی گھیرنے لگا تو فلاں  کشتی میں  مع ایک شائستہ جماعت انسانی اور قابل قدر کتب الٰہی اور بہترین ادویہ کے بیٹھ جا اور اس کشتی کو میری اس شاخ سے جو نمودار ہے، باندھ دے۔ سترہ لاکھ اٹھائیس ہزار سال پانی میں  طوفان برپا رہا، اس کے بعد یہ اوتار مخفی ہوگیا۔ متسیہ اوتار کا ذکر درج ذیل کتابوں  میں  کیا گیا ہے: شت پتھ براہمن، شریمد بھاگوت مہا پُران، اگنی مہا پران، متسیہ پران، اتھر وید، تیتریہ آرینک وغیرہ۔ متسیہ اوتار کی پیدائش چیت ماہ منگل ۳؎کو ہوئی تھی۔

(2)  کورم (کچھوا): اس کا ذکر اتھر وید (۱-۱-۴) اور اگنی پران میں  آیا ہے۔ اس کی ضرورت سمندر کے متھن کرنے کے وقت پیش آئی تھی جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک بار دیوتاؤں  نے ارادہ کیا کہ دودھ کے دریا یا کشیر سمندر سے مثل گھی کے آب حیات کو نکال لیں ، لیکن بجائے اس لکڑی کے جس سے مسکہ نکالا جاتا ہے ایک بڑے پہاڑ سے کام لے رہے تھے۔ پہاڑ بھاری ہونے کی وجہ سے دریا میں  ڈوب جاتا تھا اور بیحد مشقت و رنج اٹھانا پڑتا تھا۔ خلاق عالم سنگ پشت کے جامہ میں  ظاہر ہوگیا اور اس پہاڑ کو اپنے کاندھے پر رکھ لیا۔ دیوتاؤں  نے آسانی سے اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ اس کارروائی سے چودہ قابل قدر اشیاء برآمد ہوئیں  اور تمام عالم کیلئے سرمایہ عشرت مہیا ہوگیا۔ کورم اوتار کی پیدائش ویشاکھ پورنیما یعنی شُکل ۱۵؎ کو ہوئی تھی۔

 (3)  وامن (بونا ): وامن اوتار کی پیدائش بھادو شکل ۱۲ ؎کو ہوئی تھی۔ اس اوتار کا ظہور ’’بلی‘‘ نامی شخص کی حکومت سے دیوتاؤں  کو آزادی دلانا تھا۔ اس کا مفصل تذکرہ شریمد بھاگوت اور اگنی پران میں  ملتا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

 ’’بلی‘‘ نامی ایک شخص نے اپنی ریاضت سے سہ لوک کی سلطنت حاصل کرلی تھی، جس سے دیوتاؤں  کو کافی تکلیف ہوتی تھی۔ انھوں  نے خدا سے التجا کی اور خدا نے بونے کی شکل میں  ظہور فرمایا۔ جب یہ بچہ قدرے ہوشیار ہوا تو اپنے استاد کے ہمراہ راجہ کے دربار میں  گیا۔ راجہ نے اس سے اس کی خواہش کے متعلق سوال کیا۔ لڑکے نے جواب دیا: میں  اپنے تین قدم کے برابر تجھ سے جگہ طلب کرتا ہوں۔  راجہ بیحد غصہ ہوا کہ اس نے مجھ سے اتنی حقیر چیز کی خواہش کی ہے لیکن بہت بحث و مباحثہ کے بعد جس وقت راجہ نے اس کو قبول کرلیا تو لڑکے نے اپنا پہلا قدم اس قدر وسیع کر دیا کہ طبقہ زمین اور پاتال دونوں  اس کے پاؤں  کے نیچے آگئے۔ اور دوسرا قدم اس قدر بڑھ گیا کہ تمام عالم بالا کو اس نے گھیر لیا۔ آخر کار راجہ نے تیسرے کے عوض میں  اپنے آپ کو باندھ کر اس کے حوالہ کر دیا؛ چونکہ ’بلی‘ نامی آدمی نیک تھا اس لئے اس کو اس مصیبت سے نجات دے کر پاتال کی حکومت عطا ہوئی اور راجہ جب پاتال لوک چلے گئے تو بھگتوں  کو شانتی نصیب ہوئی۔ اس دن شام کے وقت لوگوں  نے چراغ جلاکر بھگوان وشنو کی پوجا کی، خوشیاں  منائیں  اور تمام رات ہری کیرتن کیا۔ دیوالی کا تہوار اسی واقعہ کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔

(4) وراہ (سور): اس کا ظہور بھادو شُکل کی تین کو ہوا تھا۔ مقصد ظہور زمین کو پانی کے اندر سے باہر نکالنا اور ہرناکش کی حکومت سے دیوتاؤں  کو آزادی دلانا تھا۔ اس کا تذکرہ اتھروید، یجر وید، تیتریہ آرنیک، پرپاٹھک اور شریمد بھاگوت مہاپران میں  آیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ہرناکش نام کے ایک شخص نے لاکھوں  سال ریاضت کرکے تمام عالم کی حکومت حاصل کرلی۔ اس کے بعد اس نے تمام عالم علوی کی حکومت ’اِندر‘ سے لے کر اپنے ایک عزیز کے سپرد کردی جس سے تینوں  لوک میں  تباہ کن باتوں  کا ظہور ہونے لگا۔ دیوتا برہما کے ہمراہ بشن کے پاس گئے اور چارہ کار طلب کیا۔ چونکہ عالم کی حکومت کی خواہش کے وقت ہر ناکش نے سور کو فراموش کردیا تھا، اس لئے بشن نے دیوتاؤں  کو جواب دیا کہ میں  اسی شکل میں  ظاہر ہوکر اس کے نقش ہستی کو مٹا ڈالوں  گا اور تھوڑے عرصہ کے بعد اسی جام میں  جلوہ گر ہوئے اور زمین کے اندر داخل ہوکر اس کی تخت گاہ میں  آئے اور اس کو ملک عدم کی جانب روانہ کر دیا‘‘۔

(5)  نرسنگھ: اس کا ظہور ویشاکھ ۱۴؎ کو ہوا تھا۔ مقصد ظہور ہرنکشپ کے ظلم سے زمین کو پاک کرنا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہرنکشپ ویتون موجودہ ملتان کا بادشاہ تھا۔ اس کے ’’پرہلاد‘‘ نامی ایک بیٹا تھا جو وشنو کا بھکت تھا۔ ہرنکشپ حکومت و طاقت کے نشہ میں  چور ہوکر وشنو بھگوان کو بھی گالیاں  دیا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اپنے لڑکے کو بھی بھگوان وشنو کی بھکتی سے منع کیا اور نہ ماننے پر اسے قتل کرانا چاہا، لیکن نہ اس پر تلوار کا وار کام کرسکا نہ سمندر کی لہریں ، نہ ہی مست ہاتھی اور نہ ہی اژدہا اور آگ کیونکہ اسے وشنو کی معیت حاصل تھی۔ ان واقعات کے بعد پرہلاد کا ایمان وشنو بھگوان پر مزید مستحکم ہوتا گیا جس پر ناراض ہوکر بادشاہ نے وشنو بھگوان کے مقام کو دریافت کیا۔ اس نے خدا کو ہر جگہ بتلایا اور اپنے باپ کو سمجھانے کی غرض سے ایک ستون کی جانب اشارہ کیا۔ ہرنکشپ نے اپنی شمشیر اسی ستون پر لگائی۔ قضائے الٰہی سے نرسنگھ اوتار کے روپ میں  بھگوان نے ظہور فرمایا اور ہرنکشپ کو مار ڈالا اور پرہلاد کی سفارش پر ہرنکشپ کی آتما کو سورگ لوگ میں  بھیج دیا۔ اس اوتار کا مفصل تذکرہ مشہور مہا پران شریمد بھاگوت میں  موجود ہے۔

 (6)  پرشو رام: اس کا ظہور ویشاکھ شکل تین کو ہوا تھا۔ اس کا ذکر اگنی پران اور والمیکی رامائن میں  موجود ہے۔ آپ جمدگن برہمن کے بیٹے تھے اور والدہ کا نام رینکا تھا۔ قدرت نے جمدگن برہمن کو اس کی ریاضت کے عوض میں  ایک ایسی گائے عطا فرمائی تھی جس کی ذات سے اس کی تمام خواہشات انجام پاتی تھیں۔  راجہ کارت دھرج کے دل میں  یہ جان کر لالچ پیدا ہوا۔ اس نے بزور قوت اس گائے کو چھیننا چاہا، لیکن نہ چھین سکا؛ چنانچہ اس نے چپکے سے جاکر ایک دن جمدگن کا کام تمام کر دیا۔ اس کا بدلہ لینے کیلئے پرشو رام نے راجہ سے جنگ کی جس میں  راجہ کام آیا اور پرشو رام نے تمام دولت یکجا کرکے جگن میں  خیرات کر دی اور اس کے بعد گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ بہت سے لوگوں  کا یہ خیال ہے کہ پرشو رام ہنوز زندہ ہیں  اور آپ کے وجود کی مہندر سرزمین کوکن میں  نشان دہی کی جاتی ہے۔ کارت دھرج کے علاوہ آپ نے ظالم کشتریوں  سے بھی ۲۱؎ مرتبہ معرکہ خیز لڑائیاں  کیں  جس میں  لاکھوں  چھتری مارے گئے۔

تحریر: مولانا انیس احمد فلاحی مدنی… ترتیب:عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔