گھریلو مسائل مرد کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتے ہیں!

 علی اشہد اعظمی

 آج ہمارے معاشرے میں بیٹوں کی خواہش زیادہ رہتی ہے اور ہونہ بھی کیوں ، کیونکہ اس پیچھے کچھ نہ کچھ مقصد پوشیدہ رہتا ہے بیٹوں سے امیدیں وابستہ رہتی ہیں نسل پروان چڑھے اس غرض، گھر بار لے کر چلے اس کی غرض، بڑھاپے کی لاٹھی بنے اس کی غرض، حتی کہ پورے فیملی کی ذمہ داری اس پر ٹکی ہوتی ہے.

بچہ پیدا ہوتا ہے تو پورے گھر میں خوشیاں بکھر جاتی ہیں اور وراثت کا وارث مل جاتا ہے پھر سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور بڑے لاڈ پیار سے پرورش ہوتی ہے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اچھے اسکول میں داخلہ ہوتا ہے اور خاص کر والدین کے آنکھوں کا تارا ہوتا ہے پھر وقت تیزی سے گزرتا ہے اور والدین کو اس ازدواجی زندگی کی فکر ہونے لگتی ہے اور وقت و موقع دیکھ کر اس کی شادی کر دی جاتی ہے.

شادی کی تقریب میں باپ کا سینہ تان کر چلنا اور میزبان پر روب جھاڑنا اور شام کو بہو کی آمد مانو جیسے گھر میں روشنی آگئی ہو اور بھر ماں کا وہ الفاظ جسے ہر دلہن اپنی ساس سے سننا پسند کرتی ہے کہ چاند کا ٹکڑے جیسی ہے میری بہو، پھر خوب مان جان ہوتی ہے اور پھر دلہن کا پہلی بار باورچی خانے میں جانا ایک رسم سا ہے پھر کیا طرح طرح کے پکوان، یہاں سے شروع ہوتی اصلی کہانی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ایک خوشحال گھرانے کی خوشیاں باورچی خانے کی سیاست لے ڈوبتی ہے دراصل جب لڑکیاں پرائے گھر سے آتی ہے اپنوں کو چھوڑ کر، جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا جوان ہوئی اور اچانک ایک پل میں جھٹ سے سب کچھ چھوڑ کر ایک انجان گھر میں آنا اس کے کسے سنگ میل سے کم نہیں ہوتا، ظاہر ہے غلطیاں تو ہونی ہے کیونکہ جس لاڈ پیار سے آپ اپنے بیٹے کو پالتے ہیں اسی لاڈ پیار سے وہ بھی پلی بڑھی ہے اور اس کی مثال ایک ساس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ بھی کسی زمانے میں اپنوں کو چھوڑ کر آئی ہوئی ہوتی ہیں انہیں بھی بڑے لاڈ پیار سے پال کر کسی نے کلیجے پر پتھر رکھ کر وداع کیا ہے، پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک عورت دوسرے عورت کو سمجھ نہیں پاتی، میں یہاں نہ تو ساس کی طرف سے بول رہا ہوں اور نہ ہی بہو کی طرف سے اور نہ ہی لڑکی والوں کی طرف سے اور نہ ہی لڑکوں والوں کی طرف سے، جیسا کہ میں کہا کہ باورچی خانے کی سیاست سے شروع ہوئی یہ کہانی بہت دور تک جاتی ہے اور روز روز کی کھٹ پٹ کی باتیں یکے بعد دیگرے لڑکیاں اپنی میکے میں زیرِ بحث کرتی ہیں اور کیا کریں کیوں کہ لڑکیوں کی دنیا میکے اور سسرال میں ہی سمٹ کر رہ جاتی ہے.

پھر کیا اپنی بیٹی کی ذرا سی پریشانی کو دیکھتے ہوئے اس کے والدین بات بات پر اپنی موجودگی کا اظہار کراتے ہیں کی بیٹی ڈرنا نہیں ہر بات کا جواب دینا اور اس پر سے بھائیوں کا یہ کہنا کہ بہنا ابھی تیرا بھائی زندہ ہے اور بھائی تبھی تک زندہ رہتا ہے جب کہ خود ایک بہو گھر میں نہ آجائے، اس سے بیٹی کا حوصلہ ساتویں آسمان پر چڑھ جاتا ہے اور پھر وہ نادان گڑیا جدھر سے ہمدردی زیادہ پاتی ہیں ادھر جھک جاتی ہے اور جب یہ سسرال کی تکرار حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو اکثر و بیشتر میکے سے ایک ہی دباؤ ہوتا ہے کہ میری بیٹی الگ ہوجائے روز کی کھچ کھچ سے نجات مل جائے اور والدین سب کچھ بھول کر اپنی بیٹی کی الگ دنیا بسانے پر زور دینے لگتے ہیں اور بیٹیاں اس بات کا ذکر اپنے شوہر سے کرتی ہیں اور اب شوہر بیچارا مجبور بے بس لاچار والدین کی سنے یا اپنے شریک حیات کی، اس کشمکش میں مبتلا شوہرذہنی دباؤ میں آجاتا ہے والدین کو اپنائے تو اہلیہ چھوٹ جاتی ہے اور اہلیہ کو اپنائے تو والدین چھوٹ جاتے ہیں اور پھر سسرال سے جو دباؤ آنا شروع ہوتا ہے کہ داماد جی ہم آپ کی مدد کریں گے آپ الگ ہو جائیں ورنہ میری بیٹی گھٹ گھٹ کر مر جائے گی.

اب یہاں پر ایک بڑا سوال یہ بنتا ہے کہ جو والدین اپنی بیٹی کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ تم اپنی الگ دنیا بسا کو اور ایک والدین کو اس کے بیٹے سے دور کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کی کل آپ کا بھی بیٹا آپ کے ساتھ ایسا کرے تو، آپ بھی کسی بیٹے کے ماں باپ ہیں آپ اپنی بیٹی کا گھر بسانے کے لئے ایک والدین سے ان کی دنیا چھین رہے ہیں یہ بات ہمیشہ دونوں پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ آج جو آپ دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں کل آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے. اس لئے اس گھریلو مسائل میں دونوں فریقین کو مثبت پہلو کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت سے مسئلے کا حل نکالنا چاہیے اور لڑکے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کسی نے اپنی بیٹی دی ہے تو اسے اپنی بیٹی سمجھیں کیونکہ بیٹیاں ان اپنے گھر میں بھی ہیں اور لڑکی والوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اگر آپ کسی کا گھر اجاڑیں گے تو بیٹا آپ کے بھی گھر میں ہے اور کل بہو بھی آئے گی اور اگر وہی کہانی اس کے بھی سسرال والے شروع کر دیں تو آپ کہاں جائیں گے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔