جے این یو: کیا کہانی تھی کیا بنا دی گئی!
ان دنوں اخبارات کے صفحات سے لیکر نیوز چینلز کی ڈبیٹ تک ہر جگہ بس جے این یو ہی موضوع بحث ہے۔ جے این یو جسے ریسرچ و تحقیق میں کمالیات کی وجہ سے ملک کی ممتاز ترین یونیورسٹی میں شمار کیا جاتا ہے، جس کا اعتراف خود NAAC کی ٹیم نے کیا اورانہیں کمالیات کو دیکھ کر انہوں نے جے این یو کو ملک کی تمام یونیورسٹی میں سب سے زیادہ گریڈسے بھی نوازا۔ جے این یو جو کہ ابتدا سے ہی اپنے طلبہ کو افکار و خیالات کی بلندی نیز مثبت بحث و مباحثہ کیلئے پلیٹ فارم مہیاکرتی رہی ہے اور یہاں کے طلبہ نے ہر اس موقع پر آواز بلند کی ہے جب کبھی ملک میں ظلم ونا انصافی، جبر و تشدد، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی ، بد عنوانی، فرقہ وارانہ فسادات جیسے معاملات پیش آئے ہیں ۔ اس ادارے کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہیکہ یہاں کے اساتذہ طلبہ میں ہمیشہ تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کا کام کرتے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہیکہ اس ادارے نے ملک کوماہرین تعلیم، موٗرخین ، تنقید نگاراور قابل افسران کی کی ایک اچھی خاصی تعداد سے نوازا ہے۔ اس ادارے کا یہ بھی امتیاز ہیکہ اس نے کبھی فسطائی نظریہ سے مصالحت نہیں کی اورہر اس نظریے کو تنقید کانشانہ بنایا جو کہ اس ملک کے اتحاد و اتفاق کے خلاف ہو،یہی وجہ ہیکہ اپنے قیام کے دنوں سے ہی یہ یونیورسٹی فسطائی نظریہ کے حامیوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی اور بارہاں ان کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی کہ اس ادارے پر فسطائی فکر کو نافذ کیا جائے او ر یہ بھی سچ ہیکہ ہر بار یہ کوشش میں ناکام بھی رہے ،کیونکہ جے این یو نے کبھی اپنے بنیادی اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ حالیہ جاری تنازعہ جے این یوپر اسی فسطائی فکر کو تھوپنے کی ایک کوشش ہے جو کہ بی جے پی و آر ایس ایس اس وقت کر رہی ہے۔اگر ہم حالیہ جے این یو تنازعہ کو اس پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ چند ضمیر فروش میڈیا دکھا رہی ہے تو شاید ہم بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں ، اس ضمن میں کچھ نیوز چینلز کا پردہ فاش بھی ہو چکا ہے کہ کس طرح تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر ملک کی فضا کو آلودہ کرنے میں یہ بی جے پی و آر ایس ایس کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں۔
جے این یو کے حالیہ تنازعہ کو بہت ہی وسیع پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں سوال افضل گرو کی پھانسی کی مخالفت میں لگائے جانے والے نعروں کا نہیں ہے اسلئے کہ اگر ایسا ہوتا تو اب تک کئی لوگ ملک دشمنی کے مجرم نشان زد کئے جا چکے ہوتے ۔ ماضی میں جسٹس کاٹجواور اروندھتی رائے جیسی مشہور و معروف شخصیتوں نے بھی افضل گرو کی پھانسی پر سوال اٹھائے تھے، اتنا ہی نہیں ملک کے نامور وکیل رام جیٹھ ملانی نے تو خود سپریم کورٹ میں افضل گرو کی مدافعت بھی کی تھی، واضح رہے کہ رام جیٹھ ملانی بی جے پی سے منتخب کردہ راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ بھی رہے ہیں جنہیں2013 میں پارٹی سے مخالفت کی وجہ سے نکال دیا گیا۔ لیکن ان میں سے کسی کو ملک دشمن قرار نہیں دیا گیا۔ اصل سوال تو بی جے پی و آر ایس ایس کے فسطائی فکر و نظر کو تسلیم کرنے و نہ کرنے کا ہے ۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر تو یہی کہا جا سکتا ہیکہ اگر آپ آر ایس ایس کے نظریہ سے اتفاق کرتے ہیں تو آپ کی حب الوطنی کیلئے محض اتنا ہی کافی ہے اور اگر آپ اس نظریہ سے اختلاف کرتے ہیں تو چاہے آپ اپنا سب کچھ اس ملک پر قربان کر دیں آپ دیش بھکت یامحب وطن نہیں ہو سکتے۔ بد قسمتی سے حب الوطنی کا معیار وپیمانہ یہی بن کر رہ گیا ہے۔
ابھی ملک روہت کی خود کشی سے لاحق صدمے سے پوری طرح باہر بھی نہیں نکلا تھا کہ بی جے پی نے ایک اور ہنگامہ برپا کر دیا۔ جے این یو میں کیا ہوا اس پر میں تذکرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اب تک کئی ذرائع سے سچ آپ کے سامنے آ چکا ہے ۔ میں نے اپنے اس مضمون میں محض ان گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے جسے میڈیایاتو دکھانا نہیں چاہتی ہے یاشایدہم دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ جے این یو سے کنہیا کمار کی گرفتاری سے پٹیالہ ہاوٗس تک کا ایک ایک سین میڈیا نے اپنے کیمرے میں قید کیا ہوا ہے لیکن چند ایک صحافی کو چھوڑ کر کسی نے بھی پٹیالہ ہاوٗس کورٹ میں پولس اور وکیلوں کے ذریعہ طلبہ پر کی گئی جارحیت کی نہ تو مزمت کی اور نہ ہی سچ عوام کے سامنے پیش کیا گیا ۔ ہمیں بتایا جاتا ہیکہ پولس اور وکیل کا کام ملزم کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا ہے لیکن افسوس کہ کسی نے بھی اپنا کام انجام نہیں دیا اور مزید یہ کہ الٹے انہوں نے جارحیت بھی کی۔ پولس کے اس عمل سے مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ پولس کی جارحیت کی تو ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں البتہ وکیلوں کے اس عمل نے مجھے چند لمحے کیلئے حیرت میں ضرور ڈال دیا تھا لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو یہ حیرت بھی ختم ہو گئی ۔
وکرم سنگھ چوہان جو کہ وکیل ہے اور جس نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہیکہ کنہیا اور دیگر طلبہ پر کیا گیا حملہ منصوبہ بند تھا۔ چوہان جسے بی جے پی کا بہت ہی قریبی مانا جاتا ہے اور کئی بار اسے راجناتھ سنگھ اورا ڈوانی جیسے بی جے پی کے قد آور لیڈروں کے ساتھ بھی دیکھا گیا ہے، اس کا کہنا ہیکہ کنہیا جیسے دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جانا چاہیئے ۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہیکہ جب وکیلوں نے عدالتی کاروائی شروع ہونے سے پہلے ہی ججز کی طرح اپنا فیصلہ سنا کر ملزم کو مجرم ثابت کر دیا ہو۔ اس جارحیت میں بی جے پی MLA او پی شرما کو بھی ہاتھا پائی کرتے ہوئے پایا گیا اور بعد میں جب میڈیا نے شرما سے سوال کیا تو جواب یہ آیا کہ اگر میرے پاس بندوق ہوتی تو گولی ماردیتا۔ شرما کو دہلی پولس نے گرفتار بھی کیا اور رہا بھی کر دیا لیکن یہ سمجھنا مشکل ہے کہ پہلے رہا کیا گیا یا گرفتار،غالب گمان یہ ہیکہ دونوں عمل ایک ہی ساتھانجام پایا ۔ یہ پورا واقعہ جس قدر سنگین ہے اسی قدر قابل مذمت بھی ہے۔
یہ ملک کدھر جا رہا ہے ؟ کیا یہ ملک واقعی ترقی کی طرف گامزن ہے؟ کیا ان حالات میں ترقی کے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ کیا واقعی آر ایس ایس و بی جے پی کے نظریات سے اختلاف کرنا ملک دشمنی ہے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج تمام ہندوستانی کے ذہنوں میں کوند رہے ہیں اور اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو پھر ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کیا یہ وہی ملک ہے جسے ہمارے بزرگوں نے انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا ؟ کیا یہ وہی ملک ہے جس کا خواب 67 سال پہلے دیکھا گیا تھا اور جس کی خاطر بچوں نے اپنا بچپن، جوانوں نے اپنی جوانی اور بوڑھوں نے اپنا آرام ترک کر دیا تھا؟ افسوس ہوتا اس ملک کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر اور وحشت ہوتی ہے اس کے مستقبل کو سوچ کر۔
آرایس ایس اور بی جے پی نے اس ملک کی فضا کو اس قدر مکدر کر دیا ہیکہ جمہوریت کا وجود مٹتا جا رہا ہے اور بعید نہیں کہ ہٹلر کی سفاکیت کی تاریخ کو سمجھنے کیلئے ہندوستان کی مثال پیش کی جانے لگے۔ بی جے پی نے اپنے فسطائی نظریہ کو ملک پر تھوپنے کیلئے جو طریقہء کار اپنایا ہے وہ بہت ہی مہلک ہے اور اگر اس پر قدغن نہیں لگایا گیا تو اس کا زہر پورے ملک میں پھیل جائے گا۔ جے این یو سے پہلے بھی ان فسطائی قوتوں نے تعلیمی اداروں کو اپنا نشانہ بنایا ہے اور یہاں کے تعلیمی ماحول میں زہر گھولنے کا کام کیا ہے لیکن ہر بار انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اگر آپ کو یاد ہو تو ماضی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں راجا مہندرپرتا پ کی سالگرہ منانے کے بہانے بی جے پی نے مسلم یونیورسٹی کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی، پھر کانگریس کے دور حکومت میں بٹلہ ہاوس انکاوٗنٹرکے ذریعہ جامعہ کو بدنام کیا گیا اور اب جے این یو نشانے پر ہے ۔ میرے نزدیک کانگریس اور بی جے پی دونوں فسطائی فکر کے ہی دو پہلو ہیں ایک پوشیدہ طور پر تو دوسرا کھلے عام۔ حالیہ تنازعہ میں جے این یو پر ملک دشمنی اور دہشت گردی کے فروغ دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ الزام اس یونیورسٹی پر لگایا گیا ہے جو اس ملک کو مغز فراہم کرتی ہے اور جس نے ابتدا سے ہی اس ملک کی سیکولر اور جمہوری اقدار کی حفاظت کی ہے۔
پورے معاملے میں جس طرح کنہیا کے بعد عمر خالد کو گھسیٹا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اگر آپ بہت باریکی سے اس معاملے پر غور کریں گے تو حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔ میں اس پورے معاملے کو بی جے پی کے سیاسی جال کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھتا ۔ بی جے پی نے عین اس وقت جبکہ کئی صوبوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اپنا سیاسی جال بچھانے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام کو مذہب کے نام پر ہندو اور مسلم میں تقسیم کیا جائے اور دلت جو کہ روہت کی خود کشی کی وجہ سے بی جے پی سے ناراض ہیں وہ سب کچھ بھول کر خود کو محض ہندو سمجھتے ہوئے 2014 کے لوک سبھا الیکشن کی طرح بی جے پی کو ہی اپنی حمایت دیں۔ یہی وجہ ہیکہ عمر خالدکو زبردستی اس جال میں پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب پورا معاملہ کنہیا سے ہٹ کر عمر خالد پر آ گیا ہے۔ عمر خالد جسے بی جے پی مسلمان کے طور پر پروجیکٹ کر رہی ہے وہ کلی طور پر کمیونسٹ نظریے کا حامی ہے اور اس کا اعتراف اس کے دوستوں کے ساتھ ساتھ خود ان کے والد نے بھی کیا ہے۔ عمر خالد پر طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ شب عمر خالد نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان تمام الزامات کو سرے سے رد کر دیا اور جے این یو سے وابستہ اپنی گزشتہ تعلیمی سرگرمیوں کا بھی ذکر کیا۔ نہ تو کنہیا اور نہ ہی عمر خالد کی تقریر میں ایسا کچھ ہے جسے ملک دشمنی کے طور پر دیکھا جائے۔
بی جے پی نے جے این یو کو نشانہ بنا کر یہ اعلان کر دیا ہیکہ ملک کے تمام دیگر اداروں کی طرح اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی بھگوا بریگیڈ کے نشانے پر ہیں اور بھگوا نظریے سے اختلاف ملک دشمنی و دہشت گردی ہے ۔ لیکن میں یہاں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے بی جے پی یا کسی دیگر پارٹی کے سیاسی دفاتر نہیں ہیں کہ وہ یہاں اپنے اپنے نظریات کو زبردستی تھوپنے کی کوشش کریں گے اور یہ جھوٹے نام نہاد دیش بھکت محض جن کے گلے میں ہی دیش بھکتی رہتی ہے اور جو چیخ چیخ کر خود کو دیش بھکت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں چاہئے کہ افضل گرو کی پھانسی پر سوال اٹھانے والوں کو ملک دشمن قرار دینے سے پہلے اپنے دلوں میں بیٹھے ہوئے اس دیوتا گوڈسے کو ایک نظر جھانک لیں جس کی پوجا کرتے ہوئے یہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر ناتھو رام گوڈسے اس ملک میں پوجا جا سکتا ہے تو اسی ملک میں افضل کی پھانسی پر محض سوال اٹھانا کیوں کر جرم ہو گیا؟ اور جو لوگ بھارت ماتا کا نام لیکر ماں ، بہن کی گالیاں دیتے نظر آ رہے ہیں ان سے بس میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ تمہاری اسی بھارت ماتا نے گاندھی کے قتل سے لیکر روہت کی خود کشی تک کا سارا منظر ا پنی آنکھوں سے دیکھا اور برداشت کیا ہے تو کیا اس کیلئے محض چند نعرے برداشت کرنا مشکل ہو رہاہے ؟ اپنی تحریر کے آخر میں میں ایسے تمام دیش بھکتوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں فرضی دیش بھکتی کی سنددینا بند کرو ہمیں گوڈسے کے پجاریوں سے دیش بھکتی کی سند نہیں چاہیئے۔۔۔
[email protected]
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔