ہم مضطرب کیوں ہیں؟
کامران غنی صبا
انسانوں کی اکثریت پریشان ہے. کسی کو روزگار کا مسئلہ ہے. جن کے پاس روزگار ہے وہ بھی پریشان ہیں،پروموشن نہیں ہو رہا ہے. دفتری مسائل ہیں.
کسی کی اولاد ناخلف ہے. گھریلو جھگڑے ہیں. بیماریاں ہیں. کوئی قرض میں ڈوبا ہے. کسی کی تجارت نقصان میں جا رہی ہے. کوئی مقدمہ میں پھنسا ہوا ہے. کسی کے ساتھ ازدواجی زندگی کے مسائل ہیں. میاں بیوی کے جھگڑے ہیں. ساس بہو کی رنجشیں ہیں.
کسی سے خیریت پوچھیے تو کہتا ہے "جس حال میں رکھے اللہ کا شکر ہے”…. یہ "جس حال میں رکھے” کا سابقہ….. کہنے والے کا لہجہ….. شکر میں ناشکری کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے. پہلے ہم کچے مکانات میں رہتے تھے. اب بیشتر لوگوں کے پاس پکے مکانات ہیں. پھر بھی ہم تکلیف میں ہیں. کپڑے سال میں ایک یا دو بار بنتے تھے اب تو ہم بے ارادہ بھی کپڑے خریدتے ہیں. پھر بھی ناخوش ہیں. اکثر لوگوں کی طرز رہائش پہلے سے زیادہ اچھی ہوئی ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ پریشان بھی ہیں. کھانے کے لیے انواع و اقسام کی چیزیں اب سب کی دسترس میں ہیں لیکن بیماریاں بھی اسی تناسب میں بڑھی ہیں. ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بیمار ہے. نوجوان لوگ ڈاکٹروں کا طواف کر رہے ہیں. ہم بظاہر مسکرا رہے ہیں لیکن اندر سے کرب میں ہیں. وجہ کیا ہے؟وجہ روپیہ پیسہ اور دولت ہے؟ شاید نہیں….. بلکہ یقیناً نہیں… کیونکہ روپیہ، پیسہ بیشتر لوگوں کے پاس پہلے سے زیادہ ہے. مسئلہ روزگار ہے؟ شاید مسئلہ روزگار بھی نہیں ہے کیونکہ پہلے بھی روزگار کے مسائل رہے ہیں. آج سے زیادہ رہے ہیں. بڑے بڑے گھر ایک فرد کی کمائی سے چلتے تھے.
ہر شخص اپنی زندگی کو پرسکون بنانا چاہتا ہے. سکون حاصل کرنے کی دھن میں وہ اضطراب خریدتا جاتا ہے. انسان سمجھتا ہے کہ مکان اچھا ہو جائے گا تو وہ خوش رہنے لگے گا. اس کے پاس گاڑیاں ہوں گی. عہدہ و منصب ہوگا، اچھی طرز رہائش ہوگی تو اس کی زندگی میں سکون آ جائے گا. جن کے پاس یہ سب کچھ ہے المیہ یہ ہے کہ وہ بھی سکون میں نہیں ہیں. جن کے پاس بظاہر سب کچھ ہے ان کی فکر میں اضطراب ہے. نیند میں اضطراب ہے. دولت اور عہدہ و منصب ختم ہو جانے کا اندیشہ یعنی بے سکونی ہے.
انسان کی زندگی میں بے سکونی اور اضطراب کی وجہ خواہشات اور توقعات ہیں. خواہشات اور توقعات جتنی زیادہ ہوں گی، اندیشہ خوف اور اضطراب اسی قدر زیادہ ہوگا. انسان اپنے حال سے مطمئن نہ ہو تو وہ پرسکون نہیں رہ سکتا. اپنے سے زیادہ پریشان حال لوگوں کو دیکھ کر صبر و سکون حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ہم خود سے زیادہ خوشحال اور آسودہ لوگوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنا چین و سکون خود اپنے ہاتھوں غارت کر بیٹھتے ہیں. انسان خواہشات اور توقعات کی جتنی اونچی عمارت پر متمکن ہوگا عمارت کے منہدم ہونے کی صورت میں اس کی ہلاکت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے. اپنی موجودہ حالت سے مطمئن نہ رہنے والے لوگ زندگی کی کسی بھی مرحلے اور کسی بھی حالت میں مطمئن نہیں ہو سکتے. "ہر حال میں اللہ کا شکر ہے” کہنا کوئی رسمی جملہ نہیں ہے. ہمارے ہر ہر عمل سے جب تک شکرگزاری کا اظہار نہ ہو شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور مصنوعی ناشکری کے اظہار کی سزا سوائے اضطراب کے اور کیا ہو سکتی ہے.
تبصرے بند ہیں۔