نئی حلقہ بندی : گول گلاب گڑھ، گول ارناس اور اب ‘گول غائب’

ایم شفیع میر

اِس حقیقت سے کسی بھی طرح  فرار حاصل نہیں کہ ’’گول گلاب گڑھ ‘‘ایک تاریخی پہچان تھی اور یہ نام آج بھی اپنی آب و تاب سے زندہ ہے، گوکہ سیاسی مفاد پرستی ، خودغرضی اور چپقلش کے باعث گول گلاب گڑھ ایسی پہچان نہ بن پایا کہ وہ تقسیم در تقسیم کا شکارنہ ہوتا لیکن تاریخ میں اک وقت ایسا ضرورآتا ہے جب ماضی کے زخمی ہرے ہوجاتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا احساس ہو ہی جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ماضی کی سرزد ہوئی غلطیوں کا ازالہ ممکن نہیں ہوپاتا ہے اور جب ازالہ کرنے والے زمانہ ٔ حال میں بھی مزید غلطیوں کے مرتکب ہورہے ہوں تو پھرتابناک مستقبل کی نوید قبل از وقت ہی قصہ پارینہ بن جاتی  ہے اور اُمید کے چراغ گُل ہو کر چہار سو تاریکیاں چھا جاتی ہیں۔

یوں تو حلقہ بندی کو تعمیر و ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وقتاً فوقتاً ہم سب نے اِس حقیقت کو سر آنکھوں تسلیم بھی کیا ہے لیکن ہماری تنگ نظری کا عالم ہمیشہ ہی ایسا رہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ خود کو چالاک سمجھا، شاطر سمجھا اور اپنی محدود دُنیا کی بادشاہت کے خواب خود بھی دیکھے اور سادہ لوح عوام کو بھی دکھائے،نتیجہ یہ نکلا کہ بلآخراپنی سوچ و ظرف کے مطابق ہم محدود دُنیا کے مکین بن ہی گئے ،جی ہاں!فرق بس اِتنا رہا کہ ہم اِس محدود دُنیا کے بادشاہ نہیں بلکہ غلام بن کر رہ گئے۔

راقم اِس حقیقت کو بیان کرنے میں ذرا بھی ہچکچاتا یا جھجکتا نہیں ہوں کہ ہماری سوچ اپنی ذات تک محدود ہے۔ معروف شاعر طاہر عظیمؔ کا یہ شعر ہم پر صادق آتا ہے ،انھوں نے محدود سوچ کی قوم کیلئے کچھ اِس طرح سے فرمایا ہے کہ

سوچ اپنی ذات تک محدود ہے
ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں؟

قابل ِ ذکر ہے کہ سن 1996میں جب اسمبلی حلقوں کی حد بندی ہوئی اور ’’گول گلاب گڑھ ‘‘کودو حصوں میں منقسمکیا گیا جس میں ایک اسمبلی نشست ’’مہور گلاب گڑھ ‘‘نام سے بنائی گئی اور دوسری اسمبلی نشست کو’’گول ارناس ‘‘کا نام دیا گیا۔قابل ِ ذکر ہےکہ گول واسیوں نے اُس وقت کی حلقہ بندی کو جی جان سے تسلیم کیا اُسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اِس نئی حلقہ بندی میں ’’گول ارناس ‘‘اسمبلی نشست کا پہلا عوامی نمائندہ ’گول ‘سے بنا اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ یہاں یہ مہر بھی ثبت ہوگئی کہ ’گول ‘سے گول ارناس اسمبلی نشست کاآخری نمائند ہ بھی یہی ثابت ہوا، اِس کے بعدگول کے مقامی سیاستدان ایسی سیاست کرنے میں مکمل طور ناکام رہے کہ وہ پھر سے سیاسی بازی مارتے۔

مقامی لیڈر شپ اپنی سیاسی ناکامیاں سے اِس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ وہ اپنے خمیوں میں اتحاد کرنے کے بجائے ایسی افسوسناک غلطیاں کرتے رہے جس کا خمیازہ آج اِس صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ،آج سیاست دان ، ووٹران ، چھوٹا، بڑا، امیر ، غریب ، مرد وزن، کالا گورا، گوجر کشمیری ، ہندو مسلم ، جوان بزرگ، ملازم ، بے روزگار، تاجر مزدورغرضیکہ ہر فرد ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔

گو کہ راقم کی یہ تلخ نوائی اور سیدھی بات سیاست دانوں کو حد درجہ گراں گزریں گی ، ہضم نہیں ہو گی لیکن یہ تلخ سچ ہے کہ خود غرضی ، تنگ نظری اور محض اپنے سیاسی مفادات کو بنیاد بنا کر ایسے فیصلے کرنے کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔معاف کیجئے گا !!مقامی لیڈر شپ میں اپنی محدود دُنیا قائم کرنے کا جنون اِس قدر سوار ہوچکا تھا کہ سیاست دان اِس نتیجہ پر پہنچے کہ 2008میں جب نئے انتظامی یونٹوں کا قیام ہوا تو گول کے مقامی سیاستدانوں نے اپنی 5پنچایتیں’’سلدھار، لینچہ، بدھن، چکلاس اورہاڑی والا ‘‘بطورِ تحفہ ریاسی کووقف کر دیں اور اپنی محدود دُنیا کی بادشاہت کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔ یہاں اِس اقدام سے سیاسی کارندوں نے کافی اطمنان محسوس کیا لیکن وہیں دوسر ی جانب گول کو محفوظ کرنے کے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کئے ، اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سیاسی کارندوں نے یہ عمل بغیر کسی غور و فکر کے کیا تھا ، ملحوظ نظر بس اِتنا تھا کہ ارناس سے الگ ہوکر صر ف ’’گول ‘‘ بننا مقصود ہے۔نہ کوئی منصوبہ تھا، نہ کوئی لائحہ عمل تھااور نہ ہی کسی ضابطے کے تحت یہ اقدام کیا گیا تھا جبکہ مذکورہ پانچ پنچایتوں کی عوام نے گول کے ساتھ منسلک رہنے کی گوہار بھی لگائی مگر گول کی مقامی لیڈر شپ نے اُس گوہار پر نظر ثانی کئے بغیر دستخط کئے اور اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماری۔
گول کے مقامی سیاست دانوں کا اپنی پانچ پنچایتوں کو کوڑیوں کے دام واقف کرنا اور اُس منصوبے پر عوامی رائے حاصل کئے بغیر دستخط کرنا ’’گول‘‘ کے شناختی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوااور سیاسی کارندوں کی تنگ نظری اور بھلا کی خود غرضی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے ’’ گول گلاب گڑھ‘‘ پھر ’’گول ارناس‘‘ اور اب’’گول غائب ‘‘ ہمارا مقدر بن گیا۔

واضح رہے موجودہ حلقہ بندی عمل میں گول کی سیاسی تنظیموں نے کمیشن کے سامنے جو ریزولیشن پیش کئے ہیں اُس میں بھی بیشتر سیاسی تنظیموں نے یہ مانگ کی ہے کہ ’’گول ‘‘کو ’’ارناس ‘‘سے الگ کر کے رام بن کے ساتھ ملایا جائے گوکہ عوام کے بار بار اصرار کرنے کے باجود بھی سیاسی تنظیموں نے اپنی ریزولیشنز منظر عام پر نہیں لائے لیکن سیاسی تنظیموں کے مطابق انھوں نے کمیشن کو جو ریزولیشن سونپے ہیں اُن میں یہ مانگ کی گئی ہے کہ گول کیساتھ گاندھری کو ملا کر ’’گول ‘‘نام سے نئی اسمبلی نشست بنائی جائےجو کہ ہمارا حق ہے۔ کمیشن نے 50فیصد کام سیاسی تنظیموں کی جانب سے دیئے گئےریزولیشن پر کیا ہے جبکہ 50فیصد اپنی مرضی مسلط کر دی ،لیکن اگر اِس کی تہہ تک جاکر کھنگالاجائے شائد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ سو فیصد عوامی نمائندوں کی مانگ کا نتیجہ ہے، چونکہ گول کی کچھ سیاسی تنظیموں نے کمیشن کی رپورٹ کے عین مطابق اپنا ریزولیشن پیش کیا ہے، خواہ وہ سیاسی جماعت واحد کیوں نہ ہولیکن یہ حق ہے کہ اُس جماعت میں گول کے سیاستدان ہی شامل حال ہیں۔

قابلِ ذکر ہے کہ سیاسی تنظیموں کی دیرینہ خواہش کے مطابق اُنہیں ’’ارناس ‘‘سے الگ تو کر دیا گیا ہے لیکن اب گول سب ڈویژن کو ہی تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ پر اہلِ گول شدید برہم ہیں کہ گول کو نئی اسمبلی نشست دینے کے بجائے کمیشن نے سب ڈویژن کو ہی تقسیم کر کے ’’گول‘‘ کی شناخت کو مسخ کرنے کا کام کیا گیا ہے جوکہ عوام گول کیساتھ سر اسر نا انصافی ہے۔ عوام کا غم اپنی جگہ لیکن کچھ سیاسی کارندے موجودہ وقت میں بھی گول اسمبلی نشست کی مانگ کو بھول کر اب گول سب ڈویژن کو مکمل طور بانہال یا پھررام بن کیساتھ جوڑ نے کی بات کر رہے ہیں ،اُن کا کہنا ہے کہ سب ڈویژن گول کا آدھا حصہ بانہال اور آدھاحصہ رام بن کے ساتھ جوڑنا ہم کسی بھی قیمت برداشت نہیں کریں گے ۔ اہلیان گول کا کہنا ہے کہ ہمیں اہل ِ بانہال کیساتھ کسی قسم کا بیر نہیں لیکن ہم نہ تو جغرافیائی لحظ سے اور نہ ہی کسی دوسرے رابطے کے لحظ سے بانہال کیساتھ جڑ سکتے ہیں۔

گول کا بچہ، برزگ ، جوان   اور مرد وزنیعنی کہ ہر فرد موجودہ حلقہ بندی میں ہوئی نظر اندازی پر سراپا احتجاج ہیں۔ گول واسیوں کا یہ کہنا ہے کہ ’’ریاسی ‘‘اور’’ رام بن ‘‘اضلاع کا ایک ہی دن جنم ہوا ہے۔جغرافیائی لحظ سے ریاسی اور رام بن کی نوعیت بھی بالکل ایک جیسی ہے ، ہر نظریہ سے بالکل یکتا ہیںیعنی جس طرح ضلع ریاسی ڈھائی حلقوں پر مشتمل ہیں ، بالکل ہو بہ ہو اِسی طرح سے ضلع رام بن بھی ڈھائی حلقوں پر مشتمل ہے۔ بتادیں کہ گلاب گڑھ حلقہ، ریاسی حلقہ اور ارناس آدھا، اِسی طرح سے بانہال حلقہ، رام بن حلقہ اور گول آدھا۔ اب جبکہ موجودہ حلقہ بندی عمل میں دونوں ہی اضلاع ایک ایک حلقہ کے حقدار تھے لیکن مذہبی منافرت اور توڑ پھوڑ کی بنیاد پر کی جانی والی حلقہ بندی میں ضلع ریاسی کوایک نئی اسمبلی نشست تو دی گئی لیکن رام بن میں جہاںعلاقہ ’’گول ‘‘اسمبلی نشست کا حقدار اور مستحق تھااُسے بری طرح سے نظر انداز ہی نہیں کیا گیا بلکہ گول کے مستقبل کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایسی تاریکیوں اور پسماندگیوں کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جہاں سے نکلتے نکلتے کئی صدیاں بیت جائیں گی ،کئی نسلیں تباہ و برباد ہوںگی لیکن انصاف کی کوئی نوید پھر بھی نظر نہیںآتی، ستم تو یہ ہے کہ گول نام سے نئی حلقہ بندی گول واسیوں کی یہ اک دیرنہ مانگ بھی تھی اِس کے برعکس گول کو اسمبلی نشست نہ دیکر یہ ثابت کر دیا گیا کہ ملک میں اب انصاف کی چڑیا کو چہکنے نہیں دیا جاتا ہے، انصاف نام کی شے کہیں غائب کر دی گئی ہے، حق تلفی عروج پر ہے، دھونس دبائو کا دور دورہ ہے، انصاف کے نام پر نا انصافیوں اور استحصال کا ننگا ناچ کھیلا جا رہا ہے۔برائے نام کمیشن اقتداریوں کے اشاروں پر عمل پیرا ہے۔ اقتداریوں کو خوش کرنے کیلئے کمیشن من مرضی اور توڑ پھوڑ کی حلقہ بندی کر کے نفرتوں کا زہر گھول رہی ہے، نسلوں کی بربادی کے ناپاک منصوبے گڑھے جا رہے ہیں۔ حزب ِ اقتدار کمیشن کا استعمال کر تے انسان کو انسان کابیری بنا کر اپنی سیاسی بساط کو محفوظ کرنے کی افسوسناک حرکتیں کی جا رہی ہیں، یہ فسطائت ذہن کا عکاس ہے، یہ عمل گوروں کی غلامی کی یادیں تازہ کررہا ہے، یوں کہا جائے کہ گورے ہندوستان سے تو چلے گئے لیکن وہ ظلم و جبر کی کہانیوں کو دوہرانے کیلئے اپنے پیرکاروں کوبطورِ نشانی یہیں چھوڑ گئے، یہی وجہ ہے کہ مظلوم آج بھی ظلم و بربریت کا شکار ہے۔ بے سہارا ہے، بے یا و مددگار ہے، غلامی کی زنجیروں میں قید ہے،قفس کی تیلیاں آج بھی رنگین ہیں۔ حقوق پر آج بھی سر عام ڈاکہ مارا جا رہاہے۔

قابل رحم ہے اور سوال پیدا ہوتا ہےکہ ہمارے سیاسی کارندے آج بھی سیاسی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں، عوام اور علاقے کا وقار، عظمت اور شناخت آج بھی اُن کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔اِسی قوم کی ستم ظریقی کہیے یا بدنصیبی کہ سیاسی کارندے’’گول‘ اسمبلی نشست کی مانگ اور خواب کو ایک دم سے بھول کر رام بن یا بانہال کیساتھ ہولینے پراپنی رضا مندی ظاہر کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے فیصلے پر اکتفا کرنا کس نوعیت کی سنجیدگی ہو سکتی ہے اور عوامی خواہشات کو جانے بغیراپنی من مرضی سے کوئی نئی مانگ دہرانے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔ اپنی مانگ سے سیاستدانوں کا یوٹرن دیکھ کر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسے سیاستدانوں نے ہمیشہ سے ہی عوام کو گمراہ کرنے کی افسوسناک کوشش کی ہے اور موجودہ وقت میں بھی اپنے حقیر سیاسی مفادات کیلئےسمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔

خیر گول کے  تباہ کن، مفادپرستانہ اور مطلب پرستانہ سیاسی کھیل نے ہی  گول واسیوں کو اِس دورائے پرلا کھڑا کر دیا ہے جہاںگول کے ہر فرد کی زبان سے بس یہی سننے کو ملتا ہےکہ

ہم نے کیسی قسمت پائی

آگے کنواں تو پیچھے کھائی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔