ہم نے شادی بیاہ کو مشکل بنا دیا
تحریر جاوید اختر بھارتی
جہاں تک بات شادی کی ہے تو یہ تقریب تقریباً سبھی مذاہب اور ذات برادری میں منعقد کی جاتی ہے ہاں طریقے الگ الگ ہیں، رسم و رواج الگ الگ ہیں اور جہاں تک رسم و رواج کی بات ہے تو یہ علاقائیت پر مبنی ہے کیونکہ ایک ایک مذہب اور ایک ایک ذات برادری میں رسم و رواج الگ ہیں اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ جیسی ریاستوں میں اور ان ریاستوں کے مختلف علاقوں میں بعض رسم و رواج ایسے ہیں جو مسلمانوں میں بھی دیکھے جاتے ہیں اور غیر مسلموں میں بھی دیکھے جاتے ہیں ہاں مگر یہ سو فیصد سچائی ہے کہ مذہب اسلام نے شادی بیاہ نکاح کا جو طریقہ بتایا ہے وہ سب سے آسان ہے لیکن اب ہم خود اس کو پیچیدہ بنائیں اور مشکل ترین بنائیں اور ساری آسانیوں کو صرف تقریر و تحریر تک محدود کریں تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور نمائش کا میدان ہو یا فضول خرچیوں کا میدان ہو اب تو مسلمان ہی اس میں آگے نظر آتا ہے شادی سے ایک دن پہلے کی رات میں جلسہ، مجلس، محفل میلاد جیسی بزم کا انعقاد کرے گا حضرت علی و حضرت فاطمہ کے نکاح کا تذکرہ کرے گا اور صبح ہوتے ہی نہ سیرت النبی کا خیال، نہ سیرت علی و فاطمہ کا خیال،، کہیں گیت، تو کہیں گانے، کہیں ڈیجے، ڈانس جیسے خرافات شروع ہوجاتے ہیں مختلف علاقوں میں یہ سارے سلسلے آج بھی ہورہے ہیں فرمائشوں اور مطالبات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ایک طرف کہا جاتا ہے کہ جہیز ناسور ہے تو دوسری طرف مانگا بھی جارہا ہے، ایک طرف جہیز پر لعنت بھی بھیجی جارہی ہے تو دوسری طرف اب نکاح سے دوچار دن پہلے ہی جہیز لیا اور دیا جانے لگا-
شادی کے پروگرام میں صرف دو جگہ اچھائی اور سچائی نظر آتی ہے نمبر ایک شادی کارڈ پر لکھا جاتا ہے نکاح مسنون، نمبر دو جب دولھا اور قاضی آمنے سامنے ہوتے ہیں باقی ان دونوں مقام کے درمیان اتش بازی، پٹاخے شور شرابے دروازے کے چھکائی، پرچھن کرائی، ٹوپی رکھائی، چہرہ چھپائی، گود اٹھائی وغیرہ جیسی بے شمار رسم و رواج کا اہتمام ہوتا ہے جس کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آجکل جو شادیاں ہورہی ہیں تو اس میں بہت جلد تلخیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ مذہب اسلام کی تعلیمات تو یہ ہے کہ جب رشتہ تلاش کرو تو دینداری کو ترجیح دو مگر آج تو دنیا داری کو ترجیح دیا جانے لگا لڑکے والوں کو کہا گیا ہے کہ وہ لڑکی والوں کے وہاں رشتے کا پیغام بھیجیں مگر یہ کام بھی تقریباً الٹا ہی ہونے لگا، لڑکے والوں کو ولیمہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے اور لڑکی کے وہاں بارات لے کر جانے اور کھانے سے منع کیا گیا ہے مگر یہاں حالت یہ ہے کہ اب ہر انسان دعا کرتا ہے کہ اے اللہ لڑکی دینا تو دولت بھی دینا کیونکہ لڑکے والوں کو لڑکی کے گھر والوں کی حیثیت، وسعت اور حالت کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے وہ بڑے رعب میں رہتے ہیں اور دیکھا بھی جارہا ہے کہ لڑکی کا باپ جہیز کا بھی انتظام کرتا ہے، ہزار پانچ سو آدمیوں کے کھانے کا بھی انتظام کرتا ہے، بیٹی کے لئے زیورات اور بیٹی کی سسرال کے افراد کے لئے کپڑے کا بھی انتظام کرتا ہے، سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچا جاسکتا ہے کہ آج کے دور میں جبکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی کے عالم میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے پاس دو چار لڑکیاں ہوں اور خود وہ تنہا کمانے والا ہو پورا پورا دن محنت مزدوری کرتا ہو تو کیا اس کے پیشانی پر لکیریں نہیں پڑیں گی وہ تشویش کا شکار نہیں ہوگا،، بالکل ہوگا کیونکہ ہر حال میں اسے جہیز کا انتظام کرنا ہوگا، زیور، کپڑا اور کھانے کا انتظام کرنا ہوگا۔
زید کا بیٹا جوان ہوگیا زید اپنے بیٹے بکر کا رشتہ تلاش کرہا ہے لوگوں سے کہہ بھی رہا ہے کہ چاند جیسی دلہن چاہئے، تعلیم یافتہ ہونی چاہئے، بڑے گھر کی ہونی چاہئے اور خوبصورت تو ہرحال میں ہونی چاہئے زید مختلف علاقوں میں رشتوں کی تلاش میں جاتا ہے آخر کا بیٹے کا رشتہ ایک جگہ طے ہوجاتا ہے لڑکا اور لڑکی یعنی دونوں کے گھر والے دونوں کے گھر رشتہ پکا کرنے کے لئے بہت سارے ساز و سامان کے ساتھ جاتے ہیں اور بات پکی ہوجاتی۔ پھر کچھ دنوں بعد شادی کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو زید چند آدمیوں کے ساتھ لڑکی کے باپ کے مکان پر تاریخ مقرر کرنے کے لئے پہنچتا ہے اسے عام زبان میں کہا جاتا ہے کہ ،،دن رکھنے،، جانا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ اب دن تاریخ مقرر کرنے کے لئے بھی جاتے ہیں تو میٹھا، پھل فروٹ لے کر جاتے ہیں اور لڑکی کے گھر پر بھی ناشتہ پانی اور کھانے کا زبردست انتظام کرنا پڑتا ہے بہر حال زید اپنے ہونے والے سمدھی کے مکان پر پہنچتا ہے، ناشتہ پانی کے بعد تاریخ مقرر ہوجاتی ہے کتنی مہر ہوگی اور کتنے باراتی ہوں گے یہ بھی طے ہوجاتا ہے زید واپس اپنے گھر آکر لوگوں کو ساری بات بتاتا ہے اب دونوں ہی طرف شادی کی تیاری شروع ہوجاتی ہے اور مختصر انتظار کے بعد مقررہ تاریخ آجاتی ہے رات میں ڈال باندھا جاتا ہے اور صبح ہوتی ہے بارات جانے کے لئے زید کی جانب سے دیگر رشتہ داروں، پڑوسیوں، دیاد و خاندان اور دوست و احباب کا بلاوا کیا جاتاہے زید کے گھر پر لوگوں کی آمد شروع ہو گئی زید کا بیٹا بکر جس کی شادی ہے غسل کرنے کے بعد نئے لباس میں ملبوس ہوکر ایک جگہ بیٹھتا ہے وہیں پر سارے لوگ جمع ہیں،، زید کے بہن بہنوئی اس کے بیٹے بکر کے سر پر ٹوپی پہنا تے ہیں زید خوشی سے کچھ رقم ان کے ہاتھوں میں تھما تا ہے مگر بہنوئی کا ابھی کچھ مطالبہ ہوتا ہے بہر حال وہ بھی پورا ہوجاتا ہے پورا گھرانہ خوشیوں میں جھوم رہا ہے چند افراد پر مشتمل انجمن کو بلایا جاتا ہے اور وہ اپنے کلام سے سامعین و باراتیوں کو محظوظ کرتی ہیں جسے ،، سہرا،، کہا جاتا ہے اس کلام میں والدین، رشتہ دار، اعزا و اقرباء کی جانب سے خوشیوں کا اظہار ہوتا ہے رسمی طور پر دولہا کے حسن و جمال کی تعریف ہوتی ہے کچھ دعائیہ کلمات تو کچھ امید و کچھ قیاس آرائیاں ہوتی ہیں اس کے بعد دولہا کو کہا جاتا ہے کہ جاؤ دورکعت شکرانے کی نماز ادا کرو اور دولہا بھی ہدایت و مشورے اور حکم کی تعمیل کرتا ہے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ویسے کبھی کوئی نہیں کہتا کہ اے بیٹے، اے دوست جاؤ نماز ادا کرو لیکن جب وہی شخص سرپر عمامہ،ٹوپی گردن میں پھولوں کی مالا اور پیشانی سے لے کر پیروں تک پھولوں کا مکنا پہن کر چہرہ چھپا لیتا ہے تو بھلے ہی کبھی نماز پنجگانہ کے لئے نہ کہا گیا ہو لیکن نماز شکرانہ کے لئے ضرور کہاجاتاہے،، اس کے بعد دولہا کو گاڑی پر یا گھوڑے پر سوار کیا جاتا ہے اب سہرا پڑھتے ہوئے اور پٹاخہ پھوڑتے ہوئے بارات چلتی ہے زید اپنے بیٹے بکر کی بارات لے کر لڑکی باپ کے دروازے پر پہنچتا ہے اور لڑکی والے عزت کے ساتھ بیٹھاتے ہیں اچھے سے اچھا ناشتہ کراتے ہیں پھر قاضی صاحب آتے ہیں نکاح پڑھاتے ہیں، اپنا محنتانہ لیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں پھر باراتیوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے دولہا کے لئے الگ سے چاول،شکر، گھی مخصوص انداز میں پیش کیا جاتا ہے پھر اس کے پیسے لئے جاتے ہیں،، پھر دولہا کو آنگن میں بلایا جاتا ہے کچھ سازوسامان دئیے جاتے ہیں اس موقع پر عورتوں کا جم غفیر ہوتا ہے یہ سازوسامان سلام کرائی کے طور پر ہوتا ہے کیونکہ جہیز تو دوچار دن پہلے ہی لڑکے کے گھر پہنچ چکا ہے شام کو لڑکی کے ماں باپ، بھائی بہن اشکبار آنکھوں سے لڑکی کی وداعی کرتے ہیں اور عموماً مغرب سے عشا تک دلہن سسرال پہنچتی ہے لڑکے کی جانب سے مہنگے مہنگے پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں آتش بازی کی جاتی ہے اور دلہن کے سسرال آمد کے موقع پر ہونے والی آتش بازی کو وہ مقام حاصل ہو چکا ہے کہ مغرب سے لے کر عشاء تک اس دوران یا اس درمیان رنگین رنگین مہنگی مہنگی آتش بازی ہونے لگے تو سمجھا جاتا ہے کہ کسی مسلمان کے گھر دلہن کی آمد ہوئی ہے اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر اسلامی تعلیمات پر کتنا عمل ہوتا ہے دنیا بھر کی سجاوٹ، دنیا بھر کے لوازمات یہ سارے انتظامات کئے جاتے ہیں، فضول خرچیوں کا انبار لگایا جاتا ہے مگر مہر کی رقم تھوڑا بڑھانے کی بات لڑکی والوں کی طرف سے کہی جاتی ہے تو لڑکے والوں کے چہرے کا رنگ بدلنے لگتا ہے راقم کے علاقے میں عام طور پر مہر کی رقم 7.786 روپے متعین کی جاتی ہے یہ ہے مسلمانوں کی شادیاں اور یہ ہیں مسلمانوں کے حالات کہاجاتاہے کہ شادی کرنا نصف ایمان ہے مگر یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ شادی کیسی ہونی چاہئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی کھیتی ہری بھری کرنے کے لئے اسلامی طریقے پر شادی کرنا نصف ایمان ہے تو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لذت حاصل کرنے کے لئے لطف اندوزی کے لئے شادی کرنا حرام بھی ہے،، ہر مسلمان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ آزاد نہیں ہے کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد وہ مذہب اسلام کی باؤنڈری میں ہے اور اس باؤنڈری میں قران وحدیث، سنت رسول اور صحابہ کرام کے طریقے کو اپنانا اس پر عمل کرنا ہی ذریعہ نجات ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی ہے اس کے برعکس زندگی گزارنے کا نتیجہ آج خود مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ہے،، زید و بکر کا نام مضمون کو ترتیب دینے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اس لئے اگر کسی کا نام زید و بکر ہوتو وہ انفرادی طور پر ہرگز اپنے بارے میں نہ سوچیں بلکہ اسے محض اتفاق سمجھیں-
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔